زبان کی طاقت
المتنبی (354 – 303ھ) مشہور عرب شاعر ہے ۔ وہ کوفہ میں پیدا ہوا ۔ اور بغداد میں اس کی وفات ہوئی ۔ اس کا ایک شعر ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ تمہارے پاس اگر گھوڑا اور مال نہیں ہے جس کو تم اپنے محبوب کو ہدیہ کر سکو، تو تمہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمہارا حال اگر تمہارا ساتھ نہیں دیتاتو تمہاری گویائی تمہارا ساتھ دے گی :
لا خيلَ عِندَكَ تُهْدِيهَا وَلَا مَالُ فَلْيُسعِدِ النطقُ إِن لَم تُسْعِدِ الحَالُ
گویائی (نطق)اللہ تعالیٰ کی بڑی عجیب نعمت ہے۔ یہ انسان کے پاس ایک ایسی طاقت ہے جو ہر دوسری طاقت پر بھاری ثابت ہوتی ہے، بشرطیکہ اس کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے ۔ یہ دولت سے زیادہ قیمتی ہے اور ہتھیار سے زیادہ مؤثر۔ اس کے ذریعہ مفتوح اپنے فاتح کو جھکا سکتا ہے اور مغلوب اپنے غالب کو زیر کر لیتا ہے ۔
حافظ حامد حسن علوی (1872-1959) نہایت ذہین آدمی تھے۔ گفتگو میں کوئی شخص ان کے مقابلےمیں ٹک نہیں سکتا تھا۔ اسی کے ساتھ وہ پُر جلال شخصیت کے مالک تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ زندگی میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ میں کسی شخص کے مقابلے میں بالکل لا جواب ہو گیا۔ اس کا ایک فقرہ میری ساری ذہانت پر بھاری ثابت ہو گیا اور میرے لیے چپ ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔
حافظ حامد حسن علوی کچھ معز ز لوگوں سے گفتگو میں مصروف تھے ۔ اتنے میں ایک فقیر عورت آگئی۔ اس نے کہا "بابا کچھ دیدے " وہ لوگ متوجہ نہیں ہوئے تو عورت نے اپنے سوال کو کئی بار دہرایا ۔ حافظ صاحب مرحوم کو عورت کا بار بارسوال کرنا گفتگومیں بے جامداخلت محسوس ہوا۔ انہوں نے کسی قدر خفگی کے ساتھ کہا : بہت بیوقوف ہے ۔ اس کے بعد عورت نے کہا : "ہاں بابا، غریب بے و قوف ہی ہوتا ہے "۔ یہ کہہ کر عورت چلی گئی۔ حافظ صاحب مرحوم اس کے جملہ کی تاب نہ لاکر خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد وہ اس مجلس میں کچھ بول نہ سکے بعد کو انہوں نے کہا:اب تک کوئی شخص مجھے لاجواب نہ کر سکا تھا ، اس غریب عورت نے مجھے لاجواب کر دیا۔
آپ کے پاس اگر کچھ نہ ہو، تب بھی آپ کے پاس ایک چیز ہے۔ اور وہ خدا کی دی ہوئی قوتِ گویائی ہے، اپنی گویائی کو استعمال کیجیے ۔ اس بے کچھ سے آپ اپنے لیے سب کچھ پا سکتے ہیں ۔