اپنے لیے کچھ دوسرے کے لیے کچھ
ایک صاحب نے کہا کہ آپ الرسالہ میں مسلمانوں کو بزدلی اور پسپائی کا سبق دے رہے ہیں۔ حالاں کہ اسلام نے جہاد و قتال کی تعلیم دی ہے۔ انھوں نے پر جوش طور پر بولتے ہوئے کہا : شیر کی ایک دن کی زندگی گید ڑ کی ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے ۔
میں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں مسلمان قرآن کے جس حکم کے مخاطب ہیں وہ صبر و اعراض ہے۔ اسی لیے میں خود اس پر عامل ہوں اور مسلمانوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہوں ۔ آپ کا خیال ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے جہاد و قتال کا وقت ہے تو پھر اس کارِ ثواب میں آپ کیوں نہیں شریک ہو جاتے ۔ آپ کے خیال کے مطابق ، آج ساری دنیا میں بہت سے جہاد کے میدان کھلے ہوئے ہیں ۔پھر بسم اللہ کر کے ان میں سے کسی میدان میں کود پڑیئے ۔ اور لڑ کر شہید ہو جائیے ۔
انھوں نے کہا کہ میں نے ایک ادارہ قائم کیا ہے اور اس کے تحت اصلاحی تقریریں کر رہا ہوں، کیا یہ جہا دنہیں۔میں نے کہا کہ آپ خود تو تقریر کے میدان میں جہاد کر رہے ہیں اور دوسر ے مسلمانوں کو جنگ و قتال کے میدان میں جہاد کے لیے اتارنا چاہتے ہیں ۔
موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلم رہنما قول وعمل کے اسی تضاد میں مبتلا ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ خود زبان چلا ئیں گے اور دوسرے مسلمانوں سے کہیں گے کہ تم تلوارچلاؤ۔خود اپنے بچوں کوکانونٹ میں پڑھائیں گے اور دوسری طرف بیانات شائع کریں گے کہ جامعہ ملیہ اکیٹ (1988) میں جامعہ کے اسلامی کردار کو ختم کر دیا گیا ہے۔ خود اپنے معاملات ایڈ جسٹمنٹ کے ذریعےحل کریں گے اور مسلمانوں سے کہیں گے کہ تم خدائی فوجدارہو اس لیے جہاں اپنے خلاف کوئی بات دیکھو لڑ جاؤ۔ اپنی ذاتی زندگی میں عدل و انصاف پر قائم نہ ہوں گے اور نعرہ لگائیں گے کہ ساری دنیا میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرو۔
یہی وہ لوگ ہیں جن کو ذو القلبین اور ذو الو جہین کہا گیا ہے۔ اردو زبان میں اس کو دو عملی کہا جاتا ہے۔ اس قسم کا کردار اللہ کی نظرمیں سخت نا پسندیدہ ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے :کیا تمہارا یہ حال ہے کہ تم لوگوں سے نیک کام کرنے کے لیے کہتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ، حالاں کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں ( البقرہ: 44)