تین منٹ
9 ستمبر 1988 کا واقعہ ہے۔ ویت نام ایر لائنز کا ایک روسی ساخت کا ہوائی جہاز ہنوئی سے اڑا۔ اس کی پہلی منزل بینکاک تھی جہاں اس کو ڈون مونگ (Don Muang) ایر پورٹ پر اترنا تھا۔ اس جہاز میں عملہ کے پانچ افراد سمیت کل 81 مسافر تھے جن میں گیارہ ہندستانی باشندے شامل تھے۔
جہاز بینکاک کے قریب پہنچ کر نیچے آنے لگا۔ اناؤنسر نے اعلان کیا کہ تھوڑی دیر کے بعد ہمارا جہاز بینکاک کے ہوائی اڈہ پر اترے گا۔ جن مسافروں کی منزل بینکاک تھی ، ان کے چہروں پر ایک نئی روشنی چمک اٹھی۔ ہر ایک چشم ِتصور میں ان لوگوں کو دیکھنے لگا جو ہوائی اڈہ پر مسکراتے ہوئے چہرےکے ساتھ اس کے استقبال کے لیے کھڑے ہوئے تھے ۔ ہر ایک کے ذہن میں اپنے اس گھر کا نقشہ آگیا جہاں پہنچ کر وہ اپنے لوگوں کے درمیان خوشی اور سکون کے لمحات حاصل کرے گا۔
یہ دو پہر سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔ اس وقت بینکاک میں شدید بارش ہو رہی تھی۔ جہازکو ہوائی اڈہ تک پہنچنے میں صرف تین منٹ باقی تھے کہ زبر دست کڑک چمک ہوئی۔ ایک چشم دید گواہ نے بتایا کہ عین اس وقت جہاز پر بجلی گر پڑی جب کہ وہ بینکاک ایر پورٹ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جہاز میں فوراً آگ لگ گئی۔ وہ ہوائی اڈہ کے قریب دھان کے کھیت میں گر پڑا ۔ جہاز کے 75 مسافر اسی وقت ہلاک ہو گئے۔ چھ مسافر جھلسی ہوئی حالت میں زندہ بچے جو اس وقت اسپتال میں زیر ِعلاج ہیں ( ہندستان ٹائمس 11 ستمبر 1988)
اس طرح کے واقعات در اصل خدا کی نشانی ہیں۔ وہ چند آدمیوں کی مثال کی روشنی میں تمام آدمیوں کا حال بتاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو انجام "بینکاک " کے مسافروں کا ہوا ، وہی انجام تمام انسانوں کا ہونے والا ہے ۔ ہر آدمی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے کہ اس کے" جہاز" پر عین اس وقت موت کی بجلی گر پڑے جب کہ وہ اپنی منزل سے صرف تین منٹ کے فاصلہ پر ہو۔