خلافِ زمانہ تحریک
انگریز جب انیسویں صدی میں ہندستان آئے ، اس وقت یہاں کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ انگریزوں نے طے کیا کہ فارسی کے بجائے انگریزی کو یہاں کی سرکاری زبان بنائیں۔ وہ اپنے فیصلےمیں اس حد تک کامیاب ہوئے کہ انگریزی نے نہ صرف سرکاری زبان کی جگہ لے لی ، بلکہ یہی زبان پورے برصغیر ہند میں عوامی رابطے کی زبان بن گئی ۔ 1947 میں ہندستان آزاد ہوا تو ملک کے لیڈروں نے اعلان کیا کہ آزا د ہندستان کی سرکاری زبان ہندی ہو گی ۔ حتی ٰکہ انھوں نے نئے ہندستان کے لیے جو دستور بنایا، اس میں ایک با ضابطہ دفعہ کے تحت یہ طے کر دیا کہ پندرہ سال کے بعد انگریزی کو ختم کر کے ہندی کو دیوناگری رسمِ خط میں ملک کی قومی اور سرکاری زبان بنا دیا جائے گا۔ مگر آزاد ہندستان کے لیڈروں کو اس میں مکمل نا کامی ہوئی۔ آج بھی انگریزی زبان پوری قوت کے ساتھ ملک میں رائج ہے ۔ وہ بدستور پورے ملک میں عوامی رابطے کی زبان بنی ہوئی ہے۔
اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ برٹش راج ایک شاہی راج تھا، ہندوستان کا موجودہ راج ایک عوامی راج ہے ۔آج جو کچھ ہوتا ہے عوام کے چاہنے سے ہوتا ہے ۔ عوام نے انگریزی کو ختم کرنا نہ چاہا، اس لیے قانون سازی کے با وجود انگریزی اس ملک سے ختم نہ ہو سکی ۔
ملک کے سیاسی نظام میں یہ ایک بنیادی تبدیلی تھی جو آزادی کے بعد پیش آئی۔ مگر ہمارے تمام لیڈر ، خواہ وہ بے ریش ہوں یا باریش، اس حقیقت سے بالکل بے خبر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پچھلی نصف صدی سے اپنی ساری قیادتی دوڑ حکمرانوں کی طرف لگائے ہوئے ہیں۔ یہ ایک قسم کی خلاف ِزمانہ حرکت (Anachronism) ہے ۔ وہ عملاً دورِ عوام میں ہیں ، مگر اپنی سوچ کے اعتبار سے وہ ابھی تک دور ِبادشاہی میں جی رہے ہیں۔ قدیم زمانے کی طرح اب بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ تمام مسائل حکمرانوں کے حل کرنے سے حل ہوں گے۔ حالاں کہ یہ صرف تاریخ اور سیاست سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ اگر وہ تاریخ کی تبدیلیوں کو جانتےتو انھیں معلوم ہوتا کہ آج عوامی سیاست کا دور ہے ، آج مسائل کا سر چشمہ عوام ہیں نہ کہ حکمراں ۔
مسلم رہنما اگر اس راز کو پالیتے تو اپنی کوششوں کا رخ اکثریتی عوام کی طرف کر دیتے۔ مگر اس حقیقت سے بے خبری کی بنا پر وہ صرف حکمرانوں کی طرف دوڑتے رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بے شمار کوششوں اور قربانیوں کے باوجود آج تک مسلمانوں کے مسائل میں سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔