خاموشی کی طاقت
حضرت عمر فاروقؓ کا ایک بہت با معنیٰ قول ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ باطل کو مارو اس کی طرف سے چپ رہ کر (أمیتوا الباطل بالصمت عنه) الوعى الاسلامی، کویت ، جمادی الاولیٰ 1407 ھ ، جنوری 1987ء
یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات شر اور باطل کے بارے میں خاموش رہ جانا اور اس کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہ کر نا ہی اس کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
اس صمت عن الباطل کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کچھ لوگ محض ذاتی بغض کی بنا پر آپ کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں اور بیہودہ مضامین شائع کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر اگر آپ ان کا جواب دیں تو آپ صرف اپنا وقت ضائع کریں گے ۔ ایسی باتوں کا بہترین جواب یہ ہے کہ ان کا جواب نہ دیا جائے۔ قدیم مثل ہے کہ" کتّے بھونکتے رہتے ہیں، ہا تھی چلتا رہتا ہے ۔آپ" ہا تھی " والا کر دار ادا کیجیے ، شر پسندوں کے چھیڑے ہوئے فتنےاپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔
ایک شخص آپ کے اوپر کیچڑپھینکتا ہے ۔ آپ کے گھر میں گندگی ڈال دیتا ہے۔ اب اگرآپ مشتعل ہو کر اس سے لڑنے لگیں تو آپ نے اس کے مقصد کو پورا کیا۔ آپ کی اشتعال انگیز کارروائی اس کو مزید موقع دے گی ۔ وہ اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے آپ کے خلاف مکمل فساد بر پا کر دے گا۔ لیکن اگر آپ اس کی اشتعال انگیزی پر مشتعل نہ ہوں تو گویا آپ نے اس کے بم کو ناکارہ کر دیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہی بات ایک اور انداز سے فرمائی ہے جس کو قرآن میں اعراض کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اعراض کا مطلب ہے اوائڈ کرنا ، نظر انداز کرنا۔ اعراض محض ایک سلبی فعل نہیں وہ ایک ایجابی کارروائی ہے۔ وہ خود ایک طاقت ور عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں نظر انداز کرنا دفع ِشر کی سب سے زیادہ مؤثر تدبیر ہوتی ہے۔ جہاں سب سے بڑی کارروائی یہ ہوتی ہے کہ سرے سے کوئی کارروائی نہ کی جائے۔