ایک سفر

نئی دہلی کے افغانی سفارت خانہ سے مجھے ان کا خط مؤرخہ 4  اکتو بر 1988  ملاجس میں فرسٹ سکرٹری کے دستخط تھے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کی اسلامی وزارت اور وہاں کی مجلس ِعلماء کے اشتراک سے ایک انٹرنیشنل سیرت کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ یہ کانفرنس 22-24  اکتوبر 1988  کو کا بل میں ہوگی۔ مجھے دعوت دی گئی تھی کہ میں اس کا نفرنس میں شرکت کروں اور وہاں سیرت کے یونیورسل پہلو پر ایک مقالہ پیش کروں ۔ اس دعوت کے مطابق کابل (افغانستان) کا سفر ہوا۔

 20  اکتوبر کو صبح پونے پانچ بجے کا وقت تھا۔ فضا میں ابھی سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اچانک باہر سے ہارن کی آواز آئی۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ کل شام کو "ٹیکسی اسٹینڈ" سے ٹیلیفون پر کہا گیا تھا کہ ہم کو صبح پونے پانچ بجے ایک ٹیکسی کی ضرورت ہے۔ اس کے مطابق ٹیکسی والا ٹھیک چار بج کر 45  منٹ پر ہمارے گیٹ کے سامنے موجود تھا ، نہ ایک منٹ پہلے اور نہ ایک منٹ بعد۔

ٹیکسی والا اپنے پیشے کے معاملے میں اتنا زیادہ پابند کیوں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے پیشےکو اپنے ذاتی انٹرسٹ کی چیز بنا رکھا ہے۔ کوئی معاملہ جب آدمی کے لیے   ذاتی انٹرسٹ کا معاملہ بن جائے تو اس کے بارے میں وہ ہر بات کو بتائے بغیر جان لیتا ہے۔ اس کے لیے   اس کی تمام ذہنی اور عملی قوتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ مسلمانوں نے اسلامی دعوت کے معاملے کو اپنے ذاتی انٹرسٹ کا معاملہ نہیں بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کےیہاں اسلامی دعوت کے معاملےمیں وہ کردار نظر نہیں آتا جس کا ایک نمونہ ٹیکسی والے کے یہاں ملتا ہے۔

 گھر سے ایر پورٹ کے لیے   روانہ ہوا تو سڑک کے دونوں طرف سر سبز درختوں کی قطاریں مسلسل چلی جا رہی تھیں۔ اس کو دیکھ کر مجھے 1983  کا سفر یاد آیا جب کہ الشیخ على المحويتي (قاضی شارجہ) مجھے اپنے رہائشی مکان پر لے گئے تھے جو کہ شہر سے تقریباً 25  کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ سفر پورا کا پورا  ریتلے میدان میں ہوا۔ دہلی کا سفر اگر سر سبز ماحول میں تھا تو شارجہ کا یہ سفر صحرائی ماحول میں۔ اس دنیا میں" درخت" اس لیے   ہیں کہ آدمی ان کو دیکھ کر شکر کرے۔ "صحرا " اس لیے   ہیں کہ آدمی ان کو دیکھ کر صبر کر نا سیکھے۔ آدمی دونوں قسم کی چیزوں کو دیکھتا ہے مگر وہ ان سے نہ شکر کا سبق لیتا ہے اور نہ صبر کا۔

 دہلی میں دو ایر پورٹ ہیں اور دونوں کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔ ٹیکسی والے نے ہم کو قریب کےہوائی اڈہ  (پالم ایر پورٹ)  پر پہنچا دیا۔ یہاں معلوم ہوا کہ کابل کا جہاز اگلے ہوائی اڈہ  (اندرا ایر پورٹ) سے جائے گا۔ چنانچہ پالم سے واپس ہو کر دوبارہ آگے کے لیے   روانہ ہوئے ۔ چوں کہ ہم گھر سے کسی قدر پہلے روانہ ہو گئے تھے اس لیے اس تاخیر سے کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ اسی قسم کے اتفاقات ہیں  جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وقت سے پہلے روانہ ہوتا کہ اگر راستے میں تاخیر کا کوئی اتفاقی سبب پیش آجائے تب بھی وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جاؤ ۔اس تجربے کے بعد مجھے حضرت ابو ہریرہ کی وہ حدیث یاد آئی جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «مَنْ خَافَ أَدْلَجَ، وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ المَنْزِلَ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ، أَلَا إِنَّ ‌سِلْعَةَ ‌اللَّهِ ‌الجَنَّةُ(حدیث  نمبر  2450)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کو اندیشہ ہوتا ہے وہ رات سے اپنا سفر شروع کرتا ہے ، اور جو رات سے اپنا سفر شروع کرتا ہے وہی(دن میں) اپنی منزل پر پہنچتا ہے۔ سن لو کہ اللہ کا سودابہت قیمتی ہے، سن لو کہ اللہ کا سودا جنت ہے۔

دنیا کے مقصد کو پانا ہو یا آخرت کے مقصد کو پانا ، دونوں ہی میں خصوصی اہتمام کر ناضروری ہے۔ خصوصی اہتمام کے کے بغیر نہ دنیا کا مقصد صحیح طور پر حاصل کیا جا سکتا اور نہ آخرت کا۔

جہاز کو مقررہ وقت کے اعتبار سے ساڑھے سات بجے روانہ ہونا تھا۔ تمام مسافر جہاز میں بیٹھے ہوئے اڑان کا انتظار کر رہے تھے کہ آدھ گھنٹہ بعد پائلٹ نے ہوائی جہاز کے ایڈریس سسٹم پر اعلان کیا کہ جہاز کے ایک پہیہ میں پریشر کم پایا گیا ہے۔ اس لیے   اس کو بدلا جا رہا ہے ۔ آپ اس دیری کے لیے   ہمیں معاف کریں گے۔ دیری بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ جہاز روانہ ہوا تو گھڑی میں ساڑھے دس بج رہے تھے۔ یعنی اصل مقررہ وقت سے دو گھنٹہ بعد –––––––  دہلی سے کابل تک جہاز کو پہنچنے کے لیے   ڈھائی گھنٹہ درکار تھا۔ مگر دہلی میں پہیہ کی اصلاح میں دو گھنٹے لگ گئے۔

جہاز کے ساتھ یہ جو حادثہ پیش آیا ، اس کا" جھٹکا "جہاز سے زیادہ جہاز کے مسافروں کو برداشت کرنا پڑا۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ چلتی ہوئی سواری پر مسافر کی حیثیت شاک ابزار بر (جھٹکا سہنے والے )کی ہوتی ہے :

Passengers are shock absorbers on moving vehicles.

 ایر پورٹ کے اندر داخل ہوئے تو ایسا معلوم ہوا گویا ہم ایک اور ملک میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں ہر چیز کا معیار مختلف تھا۔ ایر پورٹ کے باہر اگر" دیشی ہندستان" کا منظر تھا تو ایر پورٹ کے اندر"بدیشی ہندستان" کا ۔ہر ملک خواہ وہ کتنا ہی غریب ہو ، یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے ایر پورٹ کو بین اقوامی معیار پر بنائے۔" ایر پورٹ" گویا ہر ملک کا ایک تہذیبی جزیرہ ہے۔

ایک سیاح تھوڑے دنوں کے لیے   ہندستان آیا ۔ اس نے ان مقامات کا سفر کیا جہاں ہوائی جہاز اس کو لے جا سکتا تھا۔ اس نے لال قلعہ اور تاج محل جیسی قابلِ دید چیزوں کا مشاہدہ کیا اور پھر اپنے ملک کو واپس چلا گیا۔ اس سیاح کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس نے ہندستان کے تہذیبی جزیرہ کو دیکھا، وہ وسیع تر ہندستان کو نہ دیکھ سکا۔ ایسی حالت میں عجب نہیں کہ وہ واپس جا کر لکھے : ہندستان کے لوگ بہت خوش قسمت ہیں۔ وہ ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔ جب وہ زندہ ہوتے ہیں تو وہ لال قلعہ میں رہتے ہیں، اور جب مرتے ہیں تو تاج محل میں دفن ہوتے ہیں ––––– مصنوعی مشاہدہ  اورحقیقی مشاہدہ میں کتنا زیادہ فرق ہے۔

ہوائی جہاز جب بلند ہو کر فضا میں اڑتا ہے، اس وقت آپ نیچے زمین کی طرف دیکھیں تو زمین کی سطح پر ہر چیز معمولی دکھائی دیتی ہے –––––  مکانات چھوٹے چھوٹے گھروندوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ سڑکیں پھیلی ہوئی لکیر کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ سمندروں میں تیرتے ہوئے جہاز دیا سلائی کی ڈبیا معلوم ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ اس طرح دکھائی دیتے ہیں جیسے کہ وہ صرف ٹیلے ہوں ۔ اونچے کھڑے ہوئےدرخت پودے کی مانند نظر آتے ہیں۔ وغیرہ۔

 میں نے اس منظر کو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ ہوائی جہاز "عالم سفلی " سے اوپر اٹھ کر "عالم علوی "میں سفر کر رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ مادی مشاہدہ ایک روحانی حقیقت کی تمثیل ہے۔ مومن کو دنیا میں اس طرح رہنا ہے کہ اس کا جسم بظاہر عالم سفلی میں ہو، مگر اس کی روح یا اس کا فکری وجود عالم علوی میں سفر کر رہا ہو ۔ موجودہ دنیا میں اس طرح اپنے آپ کو بلند کرنا در حقیقت حیات دنیا سے گزر کر حیات ِآخرت کا تجربہ کرنا ہے ۔ آج کی دنیا میں یہ تجربہ حسیاتی طور پر ہوتا ہے۔ موت کے بعد کی زندگی میں یہ تجربہ واقعی طور پر ہو گا۔

جہاز میں آج کے اردو، ہندی اور انگریزی اخبارات مطالعہ کے لیے   موجود تھے۔ اخبار اٹھایا تو ہر ایک کی پہلی سرخی ایک سخت ہوائی حادثہ کے بارے میں تھی۔ نو بھارت ٹائمز 20 ( اکتوبر )کی پہلی سرخی یہ تھی :

"دوومان در گھٹناؤں میں 164  مرے"۔ ٹائمس آف انڈیا (20  اکتوبر )کی پہلی آٹھ کالمی سرخی یہ تھی :

164 killed as IA, Vayudoot planes crash

یہ ہندستان کی شہری ہوا بازی کی تاریخ میں دوسرا سب سے زیادہ ہولناک حادثہ تھا۔ پہلا شدید تر حادثہ وہ تھا جو 23  جون 1985  کو پیش آیا۔ ایر انڈیا کا ایک جہاز (کنشکا) ایک بم کے پھٹنے سے تباہ ہوگیا تھا اور بحر الکاہل میں گر پڑا تھا۔ موجودہ حادثہ دو الگ الگ جہازوں کا تھا مگر وہ ایک ہی دن ہوا۔ ایک احمد آباد میں اور دوسرا گو ہاٹی میں۔ دونوں موسم کی خرابی کی بنا پر ہوئے ۔ احمد آباد میں تباہ ہونے والا جہاز جب ہوائی اڈہ کے اوپر پہنچا تو وہاں فضا میں سخت کہر کی وجہ سے اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پائلٹ سطح زمین پر دیکھ نہ سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ (20  اکتوبر) کے مطابق جہاز ہوائی اڈہ کے اندر اترنے والی سڑک پر اترنے کے بجائے با ہر ایک کھیت میں اتر گیا اور وہاں درختوں سےٹکرا کر تباہ ہو گیا :

Instead of landing at the airstrip, it crashed into a field in the outskirts of the city.

اسی طرح چند دن پہلے اخبار کے صفحۂ اول پر ایک تصویر تھی جس میں ایک ٹوٹا ہوا جہاز آگ کے شعلوں کی نذر ہورہا تھا۔ یہ یوگنڈا کی کمپنی (Ugandan Airlines) کی فلائٹ نمبر775 تھی۔ یہ بوئنگ جہاز لندن سے براستۂ روم یوگنڈا جا رہا تھا ۔ اس پر عملہ سمیت 52  مسافر سوار تھے۔

 17  اکتوبر 1988  کی شام کو اسے کچھ دیر کے لیے   روم کے ہوائی اڈہ پر اترنا تھا۔ اس وقت یہاں شدید کہر چھایا ہوا تھا ۔ جہاز کا پائلٹ رن وے کو صاف طور پر دیکھ نہ سکا۔ چنانچہ جہاز ایک پختہ عمارت (Hangar) سے ٹکرا گیا ۔ ٹکراتے ہی جہا ز آگ کا ایک گولا بن گیا۔ بیشتر لوگ اسی  وقت ہلاک ہو گئے ۔ تقریباً 20  آدمی اس حالت میں اسپتال میں پہنچائے گئے کہ ان کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اور بدن آگ کے اثر سے جھلسا ہوا تھا۔

زندگی حادثات سے اتنی زیادہ بھری ہوئی ہے کہ آدمی اگر حادثات کو یادرکھے تو اس کے اعصاب پھٹ جائیں اور پھر وہ کوئی سفر یا دوسرا کوئی اقدامی کام کرنے کے قابل نہ رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ایک عجیب نعمت ذہن کی وہ صفت ہے جس کو قدیم زمانے میں فراموشی کہا جاتا تھا ، اور موجودہ زمانے میں اس کو لاشعور کا معاملہ کہا جاتا ہے۔

جدید نفسیاتی تحقیقات بتاتی ہیں کہ انسان جب رات کو سوتا ہے تو اس کا ذہن خود کارمشین کی طرح ایک خاموش کام میں مشغول ہو جاتا ہے ۔ وہ یادرکھنے کے قابل باتوں کو تو زندہ شعور کے خانےمیں باقی رکھتا ہے ۔ اور دوسری تمام باتوں کو دماغ کے پچھلے خانہ (لاشعور ) میں ڈال دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی کے ساتھ دن میں ایک سخت واقعہ پیش آتا ہے ، شام کو وہ اس حال میں سوتا ہے کہ وہ اعصابی تناؤ   میں  مبتلا ہوتا ہے۔ مگر صبح کو جب وہ اٹھتا ہے تو دوبارہ وہ تروتازہ ہو جاتا ہے۔ اگر انسانی ذہن عام مشینی کمپیوٹر کی مانند ہوتا اور تمام پیش آنے والی باتوں کو یکساں طور پر اپنی یادوں میں لیے   رہتا تو انسان کے لیے   زندگی گزارنا ہی نا ممکن ہو جاتا۔

 اخبار میں ایک عبرت انگیز خبر پڑھی جو نیو یارک کی ڈیٹ لائن کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ اس کے مطابق  17  اگست 1988  کا ہوائی حادثہ جس میں جنرل ضیاء الحق ، امریکی سفیر اور دوسرے بہت سے "وی آئی پی" ہلاک ہوئے ، اس کے سبب کے بارے میں امریکہ اور پاکستان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پاکستان مُصر ہے کہ یہ تخریب کاری (Sabotage) کا نتیجہ تھا۔ جب کہ امریکی ماہرین جنھوں نے حادثہ کے تمام پہلو ؤں کا  نہایت دیدہ ریزی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ حادثہ کا سبب جہاز میں مشینی خرابی (Mechanical failure) تھا۔ امریکہ نے واقعہ کو صرف ٹکنکل حقیقت کے اعتبار سے دیکھا۔ اس کو واقعہ کا صرف وہی سبب دکھائی دیا جو فی الواقع تھا۔ جب کہ پاکستان کو اس حادثہ سے سیاسی اور قومی فائدہ اٹھانا تھا۔ اس لیے   اس نے ماہرین کی رپورٹ کی اشاعت کو "عوامی مفاد" کے خلاف قرار دے کر اعلان کر دیا کہ اس کا سبب تخریب کاری تھا ۔

 امریکی حکام نے تاریخ نگاری کے اصول کو اختیار کیا، پاکستانی حکام نے تاریخ سازی کے طریقہ کو ، اور دنیا میں سب سے زیادہ جو چیز پائی جاتی ہے وہ یہی تاریخ سازی ہے۔ خاص طور پر موجودہ زمانے کے مسلمان لکھنے والے تو شاید تاریخ سازی کے سوا کچھ اور جانتے ہی نہیں۔

 ملاپ (20  اکتوبر 1988) میں دسہرہ کی مناسبت سے اداریہ تھا : مَن کا    رَا وَن کب جلے گا ۔ اس میں اڈیٹر  نے لکھا تھاکہ" آج دسہرہ کے دن سارا دیش خوشیاں منا رہا ہے۔ کیوں کہ آج کے دن بھگوان رام نے راون روپی برائیوں کو ختم کر کے فتح حاصل کی تھی۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ صرف پتلا ہی جلایا جاتا ہےاور باقی برائی جوں کی توں قائم رہتی ہے"۔

 ایک مسلمان اگر میلاد النبی کے جلسوں پر تبصرہ کرے تو وہ بھی اسی قسم کے الفاظ لکھے گا کہ میلاد النبی کے جشن میں رسول اللہ کے بارے میں پر جوش تقریریں ہوتی ہیں مگر رسول اللہ کی سنت پر عمل نہیں کیا جاتا۔

 میرے نزدیک یہ دونوں تبصرے بالکل بے فائدہ ہیں ۔  حقیقت یہ ہے کہ تاریخی اعتبار سے دسہرہ کی کوئی اصل نہیں ۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دینی اعتبار سے میلاد النبی کے جشن اور جلوسوں کی کوئی اصل نہیں ۔ اس لیے   دونوں مبصروں کو سرے سے ان رسموں ہی کو لغو قرار دینا چاہیے   ۔ ہندو مصلح کو یہ کہنا چاہیے   کہ دسہرہ کا میلا ایک تاریخی بدعت ہے ، اس لیے   اس کو ختم کر و۔ اسی طرح مسلمان مصلح کو یہ کہنا چاہیے   کہ "جشن میلاد النبی" ایک دینی بدعت ہے ، اس لیے   اس کو بند کرو۔ مگر ایسا کہنے کی ہمت نہ ہندو مصلح میں ہے اور نہ مسلمان مصلح میں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی زبان بولتے ہی وہ اپنی قوم میں نکو بن جائیں گے۔ مگر اصلاح کا کام ہمیشہ نکو بننے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو نکو بننے کا حوصلہ نہ ہو انھیں مصلح کا کریڈٹ لینے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہیے  ۔

جہاز میں ایک عرب مسافر سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ ایک عربی اخبار الوطن (19  اکتوبر  1988) تھا۔ یہ کویت سے شائع ہوتا ہے۔ اس کے صفحہ اول پر ایک چھوٹا سا مضمون چوکھٹے میں تھا۔ یہ سوال کے انداز میں تھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے: هل تعرفون ما العلاقة بين صمت الانظمة العربيةعلى تقسيم لبنان والمثل العربي القائل بأن "الصمت علامة الرضا"۔ یعنی کیا آپ جانتے ہیں کہ لبنان کی تقسیم پر عرب حکومتوں کی خاموشی اور اس عربی مثل میں کیا نسبت ہے کہ خاموشی رضا مندی کی علامت ہے۔

 الوطن العربی کی ایک اور خبر میں بتایا گیا تھا کہ عرب دنیا کی آبادی، تازہ اعداد و شمار کے مطابق،156 ملین ہے (156 ملیوناً عدد سكّان العالم العربي) یہاں بھی میرا خیال ہے کہ مذکورہ سوال 156  ملین عربوں سے کرنے کے بجائے لبنان کے ان مسلمانوں سے کرنا چاہیے   جنھوں نے انتہائی نادان سیاست اختیار کر کے وہ صورت حال پیدا کی جو بالآخر تقسیم تک جا پہنچی۔ یہ تقسیم اگر مکمل ہو گئی تو تقسیم کے بعد اس کا جو حصہ مسلمانوں کو ملے گا وہ گویا عرب دنیا کا "بنگلہ دیش " ہو گا ۔

 20  اکتوبر 1988  کی صبح کو جب انڈین ایئر لائنز کی فلائٹ 451  مجھے لیے   ہوئے کابل کی طرف جا رہی تھی تو مجھے ایک واقعہ یاد آیا ۔ ایک بیرونی سفر کے دوران میری ملاقات پاکستان کے ایک افسر سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا نے پاکستان (کراچی، لاہور) کے لیے   جو ہوائی سروس جاری کی ہے، وہ ایر انڈیا ( بین اقوامی ہوائی ادارہ ) کے تحت نہیں ہے، بلکہ انڈین ایر لائنز (ملکی ہوائی ادارہ) کے تحت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا نے ابھی تک ہم کو ایک مستقل ملک کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ، وہ ہم کو اپنی وسیع تر سلطنت کاایک حصہ سمجھتا ہے۔

دوسری طرف انڈیا کا حال یہ ہے کہ میں 15  اگست 1988  کونئی دہلی کے ایک اجتماع میں شریک ہوا۔ اس میں پاکستان کے قائم مقام سفیر کو چیف گیسٹ کی حیثیت سے بلایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ناجنگ معاہدہ (No-war pact) کی انتہائی شدید ضرورت ہے تا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی طرف سے بے فکر ہو کر اپنے ترقیاتی کاموں میں لگ سکیں ۔ مگر ، ان کے بیان کے مطابق ، دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان نا جنگ معاہدہ پر صرف اس لیے   اب تک دستخط نہ ہو سکی کہ انڈیا کا اصرار تھا کہ مسودہ میں ایک دفعہ یہ بڑھائی جائے کہ پاکستان کسی بیرونی ملک کو اپنی زمین پر فوجی بیس  بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔

میرے نزدیک پاکستان اور ہندستان دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف شبہات کا شکار ہیں۔ مگر  انڈیا کے بارے میں پاکستان کا شبہہ بھی غلط ہے اور پاکستان کے بارے میں انڈیا کا شبہہ بھی غلط ۔ یہ شبہات ایسے ہی بے بنیاد ہیں جیسے کہا جائے کہ انڈیا افغانستان کو اپنے ملک کا ایک صوبہ سمجھتا ہے ، حتیٰ کہ بنکاک پورٹ بلیر ، سنگاپور، مالدیپ وغیرہ کو بھی، کیوں کہ اس نے ان تمام جگہوں پر ایر انڈیا کے بجائے انڈین ایر لائنزکے تحت اپنی ہوائی سروس جاری کر رکھی ہے۔

ایک معاملہ کو شبہہ کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ بھیا نک بن جاتا ہے۔ اسی معاملہ کو شبہات سے اوپر اٹھ کر دیکھیں تو وہ معمولی قسم کا ایک سادہ واقعہ معلوم ہو گا۔

"تھوڑی دیر بعد ہمارا جہاز کابل کے ہوائی اڈہ پر اترے گا "۔ اناؤنسر نے اعلان کیا۔ چند منٹ میں جہاز بالکل نیچے آگیا اور ہوائی اڈہ کی زمین صاف دکھائی دینے لگی۔ اتنے میں اچانک ہوائی جہاز اوپر اٹھنے لگا۔ اس نے فضا میں بلند  ہو کر چند چکر لگائے اور پھر کسی قدر تاخیر کے ساتھ ہوائی اڈہ پر اترا۔ وجہ غالباً  یہ تھی کہ کچھ فوٹو گرافر ہوائی جہازکا فوٹو لینے کے لیے   رن وے پر آگئے تھے۔ اترنے کی صورت میں چوں کہ ان سے ٹکراؤ کا اندیشہ تھا، اس لیے   پائلٹ نے جہاز کا رخ دوبارہ اوپر کی طرف کر دیا۔ اور ہوائی اڈہ کا چند چکر لگا کر دوبارہ نیچے آیا۔

جہاز میں بیک وقت دونوں صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ وہ اوپر جا کر دوبارہ نیچے آسکتا ہے ، اسی طرح وہ نیچے آکر دوبارہ اوپر کی طرف اٹھ سکتا ہے۔ یہی دو گونہ صفتیں زندگی کے وسیع تر سفر کے لیے   بھی درکار ہیں۔ جو لوگ صرف ایک رخ پر بڑھنا جانتے ہوں ۔ وہ اوپر جا کر نیچے نہ اتریں، یا نیچے آکر دوبارہ اوپر نہ جاسکیں، ایسےلوگ کبھی کامیابی کے ساتھ اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔

 ہوائی اڈہ پر اترے تو نظر آیا کہ اوپر ہر طرف فوجی ہیلی کا پٹرا ڑ رہے ہیں۔ یہ اہتمام سیکوریٹی کی غرض سے کیا گیا تھا۔ میں نے فضا میں دیکھا تو اڑتے ہوئے ہیلی کا پٹر بار بار کوئی چیز گرا رہے تھے جو باہر آتے ہی آگ کے گولے کی طرح جل اٹھتی تھی۔ ایک منٹ کے بعد وہ سفید دھویں کی لکیر کی طرح فضا میں پھیل جاتی تھی ۔ یہ واقعہ فضامیں بار بار ہو رہا تھا۔

ایک افغانی سے میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ۔ اس نے بتایا کہ "پہاڑوں" کی طرف سے لوگ امریکہ کے بنے ہوئے اینٹی ایر کریفٹ مزائل مارتے ہیں جن کو اسٹنگر (Stinger) کہا جاتا ہے۔ ان اسٹنگروں میں یہ صفت ہے کہ وہ گرم چیز کی طرف تیزی سے جاتے ہیں جس رخ پر انھیں پھینکا گیا ہے ، وہاں سب سے زیادہ گرم چیز ہوائی جہاز کا انجن ہے۔ چنانچہ وہ انجن کا پیچھا کر کے اس کو مارتے ہیں۔

 شروع میں اسٹنگر ہوائی جہازوں کو مار گرانے کا بالکل یقینی ذریعہ تھے۔ مگر اس کے بعد روسیوں نےایک چیز ایجاد کر کے اسٹنگر کو بڑی حد تک بے اثر بنا دیا ہے۔ اس ایجاد کا نام فیش (Fish) ہے ۔ فش کوئی کیمیکل ہے۔ جب اس کو ہیلی کاپٹر کے باہر پھینکا جاتا ہے تو وہ بھڑک کر جل اٹھتا ہے ۔ یہ جلنے والا مادہ جہازکے انجن سے زیادہ گرم ہوتا ہے۔ چنانچہ جب اسٹنگر کو اس کی طرف پھینکا جاتا ہے تو وہ جہاز کےانجن کی طرف جانے کے بجائے جلتے ہوئے گرم مادہ کی طرف جا کر اس سے ٹکر ا جاتا ہے۔ اس طرح ہوائی جہاز بچ کر آگے نکل جاتا ہے۔

 یہ دنیا مقابلےکی دنیا ہے۔ یہاں ہر شخص دوسرے شخص کونشانہ بنانا چاہتا ہے ۔ زیرنشا نہ آدمی کی کامیابی یہ ہے کہ وہ نشانہ کو بے نشانہ کر دے۔ وہ حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ اپنے آپ کو نشانہ بننے سے بچالے۔فریق ثانی کے خلاف شور و غل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔

 آج کل ایک جغرافی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کو جنوبی ایشیا (South Asia) کہا جاتا ہے۔اس علاقے میں ہندستان، پاکستان ، سری لنکا ، عرب اور افغانستان شمار کیے     جاتے ہیں۔ افغانستان سے میرا تعلق ، ایک اعتبار سے خاندانی ہے۔ میرے مورث اعلیٰ احسن خاں مرحوم ایک افغانی پٹھان تھے ۔ جو غالباً 15  ویں صدی عیسوی میں اپنا وطن چھوڑ کر ہندستان چلے آئے ۔ اس زمانے میں افغانستان کے مہم جوافراد اکثر ہندستان کا رخ کیا کرتے تھے۔

حسن خاں مرحوم چترال کے رہنے والے تھے۔ چترال کا علاقہ پہلی صدی قبل مسیح میں چینیوں نے فتح کیا۔ 11 ویں صدی عیسوی میں یہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ یہ علاقہ پہلے افغانستان کا حصہ تھا۔1889ء میں وہ انگریزوں کی ماتحتی میں آیا۔ 1947 سے وہ پاکستان کا حصہ ہے۔

ایک افغانی جرنلسٹ مسٹر سرور سے میں نے کہا کہ میرے افغانی مورث اعلیٰ افغانستان کو چھوڑ کرجو نپور (ہندستان) گئے ۔ اس وقت وہاں ایک افغان ( سلطان شرقی ) کی حکومت تھی ۔ میرے مورث اعلیٰ کھیتا سرائے کے جنگل میں پہنچے تو وہاں ایک شیر سامنے آگیا۔ ان کے پاس اس وقت صرف ایک تلوار تھی۔ اس تلوار سے انھوں نے شیر کا مقابلہ کیا اور اس کو مار ڈالا۔ ان کی اس بہادری کی خبر سلطان شرقی تک پہنچی تو اس نے ان کو اپنے دربار میں بلایا اور اس علاقے میں انھیں جاگیر عطا کی۔

میں نے سرور صاحب سے پوچھا کہ کیا اب بھی افغانستان میں ایسے لوگ ہیں جو تلوار کے ذریعہ شیر کو مارسکیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں ۔ چنانچہ انھوں نے اپنے ایک عزیزکا واقعہ بتا یا کہ ایک بار جنگل میں ان کی مڈ بھیڑ ایک شیر سے ہو گئی ۔ اس وقت ان کے پاس ایک بڑی چھری تھی۔ اسی چھری سے انھوں نے شیر کو مار ڈالا۔اگرچہ اس مقابلے میں وہ خود بھی کافی زخمی ہوئے۔

پٹھانوں (افغانی باشندوں) کی تصویرقدیم زمانہ میں  "طاقتور بیوقوف" کی تھی۔ پٹھانوں کی   بے وقوفی کے بارےمیں طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں۔ مثلاً ایک پٹھان کی کسی نے دعوت کی اور اس میں اسے برفی کھلائی۔ پٹھان کو برفی پسند آگئی۔ وہ بازار میں نکلا تو چاہا کہ مزید برفی حاصل کرے۔ ایک دکان پر سفید صابن کی ٹکیاں برائے فروخت رکھی ہوئی تھیں۔ اس نے سمجھا کہ یہی برفی ہے اور اس کو خرید لیا۔ گھر پر لا کر کھانا شروع کیا تو وہ بہت بدمزہ تھیں۔ پٹھان منہ بگاڑ بگاڑ کر برفی کے ہم شکل صابن کو کھا رہاتھا۔ ایک شخص گزرا۔ اس کے بعد جو سوال و جواب ہوا وہ یہ تھا :

سوال : آغا چہ می خوری                        جواب : پیسہ می خورم

شاید پٹھانوں کی اسی کمتر تصویر کا نتیجہ تھا کہ ہندستانی شاعر نے پٹھانوں کو "غسال" کے خانے میں ڈال دیا۔ ہندستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی مغربیت پر طنز کرتے ہوئے اس نے کہا کہ دین سے ان کی دوری اور عدم واقفیت کا یہی انجام رہا تو آئندہ یہ حال ہو گا کہ :

آئیں گے غسال کا بل سے کفن جاپان سے

تاہم موجودہ زمانے میں روس کا افغانستان پر حملہ پٹھانوں کے لیے   اس اعتبار سے مفید ثابت ہوا ہے کہ اس نے ان کی سابقہ تصویر بدل دی۔ پہلے اگر ان کی تصویر" طاقتور بے وقوف "کی تھی تو اب ان کی تصویر" طاقتورمجاہد" کی بن گئی ہے ۔ اب وہ پوری مسلم دنیا میں ہیرو کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

افغانوں کی بہادری مشہور ہے۔ یہاں بھی ان کی بہادری کے کئی قصے سننے میں آئے۔ میں نے ایک افغانی نوجوان آصف الله شمس (عمر 30 سال) سے پوچھا کہ افغانی لوگ اتنے بہادر اور اتنے نڈر کیوں ہوتے ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں کو بچپن سے اپنے گھر میں اور اپنے ماحول میں یہی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ کوئی افغان لڑکا یا کوئی افغان آدمی اگر بزدلی کی بات کرے تو فورا ًاس کو یہ سننے کو ملے گا کہ تم بے غیرت ہو ، تم کو شرم نہیں آتی کہ تم افغانی ہو اور تمہارے اندر افغانیت نہیں :

تو بی غیرت ہستی ، نمی شرمی ، افغان ہستی و افغانیت نداری۔

مسٹر سالم علی اور ایک انگریز عالم ِحیوانات کرنل مینرزاگن (R. Meinertzhagen) چڑیوں کے مطالعے کے لیے   1935  میں افغانستان گئے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ وہ چند ہفتے وہاں مقیم رہے۔ وہ افغانی چڑیوں کی تلاش میں دور دور کے علاقوں میں نکل جاتے ۔ سفر کے دوران اکثر ایسا ہو تا کہ وہ اپنا کھانے پینے کا سامان راستہ پر یا سڑک کے کنارے رکھ دیتے اور اپنی دور بینوں کے ساتھ جنگلوں میں چلے جاتے یا پہاڑوں پر چڑھ جاتے ۔ جب وہ لوگ اپنا کام کر کے واپس آتے تو وہ تعجب کے ساتھ پاتے کہ ان کا سامان بدستور اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ مکھیوں کے سوا کسی اور نے ان کو نہیں چھوا ہے:

Salim Ali, The Fall of Sparrow, 1987, p. 100.

یہ خصوصیت آج بھی افغانیوں میں موجود ہے۔ افغانی آج بھی ایک باکر دار قوم ہیں تاہم اسی کے ساتھ جان ِغیر کو مار نا ان کے یہاں اتنا ہی جائز ہے جتنا کہ مال غیر کولینا نا جائز ۔

کابل شہر پہاڑوں کے درمیان آباد ہے۔ بلندی سے دیکھیں تو پورا شہر درختوں اور باغوں کے جھرمٹ میں نظر آتا ہے۔"فطرت کی دنیا کتنی حسین ہے"۔ اس کو دیکھ کر میں نے سوچا "مگر انسانی دنیا حسین  نہیں " اس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت "پابند " ہے اور اس کے مقابلے میں انسان "آزاد "ہے۔ خدا کی دنیا میں اس کی مخلوقات کا حُسن یہ ہے کہ وہ نظام ِخداوندی کی پابند بن کر رہے ۔ فطرت اس کی مکمل پابندی کرتی ہے اس لیے   وہ حسین ہے ، انسان اس کی پابندی نہیں کرتا اس لیے   وہ حسین نہیں۔

 خدا نے چاہا کہ انسان کی صورت میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرے جو آزاد ہوتے ہوئے بطور ِخود اپنے آپ کو نظام خداوندی  کا پابند بنائے ۔ وہ آزادانہ پابندی والے حُسن کانمونہ پیش کرے۔ا گر انسان ، کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر، اس خدائی منصوبہ میں اپنے آپ کو شامل کرنے کے لیے   تیار نہ ہوا ۔ آزادی کے باوجود پابندی کا نمونہ اس نے پیش نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں درخت حسین ہے ، مگر انسان حسین نہیں۔ ایک مفکر کےالفاظ میں : اس دنیا میں ہر چیز حسین ہے ، مگر یہاں کی صرف ایک چیز حسین نہیں، اور وہ انسان ہے۔

 21  اکتوبر کو جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ کی نماز یہاں کی مسجد "جامع وزیر محمد اکبر خاں " میں پڑھی ۔ یہ مسجد یہاں کی سب سے خوبصورت مسجد بتائی جاتی ہے۔ خطبہ سے پہلے امام صاحب نے فارسی زبان میں ایک تقریر کی۔ انھوں نے اس آیت سے آغاز کیا : كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس ( شما امت بہتر است) انھوں نے کہا کہ امروز حقِّیت اسلام بہ دنیا واضح است ( آج اسلام کی حقانیت دنیا پر واضح ہے) مگر ہم خود اسلام کے لیے   نہیں اٹھتے۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ آج افغان عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں ۔ گھر اجڑ رہے ہیں۔ کاروبار بر باد ہو گئے۔ حالانکہ اسلام دین ترحم است ۔ آخر میں انھوں نے رقت آمیز اندازمیں یہ دعا کی :

خدایا اسلام را اتفاق نصیب کن ، خدایا اسلام را برادری نصیب کن۔

مسجد میں ایک بات مجھے بہت پسند آئی کہ تمام لوگ صفوں میں مل کر بیٹھے ۔ جب جماعت کھڑی ہوئی تو تمام صفیں بیک وقت کھڑی ہو گئیں ۔ وہ صورت پیدا نہیں ہوئی جو دہلی میں نظر آتی ہے کہ جماعت کھڑی ہوتے ہی آگے آئیے ، آگے آئیے ، کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں جو بعض اوقات قرأت شروع ہونے تک جاری رہتی ہے ۔ میرے اپنے تجربہ میں دہلی کا مسلمان سب سے زیادہ غیر منظّم ہے ۔ حتٰی کہ مسجد کی ہفتہ وار نما زمیں بھی ایک ہی بے نظمی سالہا سال سے جاری ہے، اس میں کوئی کمی یا اصلاح نظر نہیں آتی۔

 نماز سے فراغت کے بعد مسجد سے نکلے تو فقیروں کی جماعت دروازہ پر کھڑی ہوئی تھی۔ ان میں بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ان کے پھٹے کپڑوں اور میلے جسموں کے پیچھے خوبصورت افغان چہرے جھلک رہے تھے۔ تعلیم کی کمی اور معاشیات کی بربادی افغانستان میں اپنی آخری حد کو پہنچ رہی ہے۔ یہاں ہندستانی روپیہ چلتا ہے۔ ایک روپیہ پندرہ افغانی روپیہ کے برابر ہے ۔ اس سے یہاں کی اقتصادی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

مسجد کے دروازہ کے باہر ایک بوڑھا افغانی انار اور سیب بیچ رہا تھا۔ لکڑی کی پرانی گاڑی کے اوپرایک طرف پھل تھے اور دوسری طرف ترازو اور اس کے ساتھ پتھر کے باٹ ۔ گاہکوں کی آمد سے بے پروا ہو کر وہ ہاتھ میں تسبیح لیے   کھڑا تھا اور "سیب لوسیب "یا" انار لو انار" جیسی آوازیں لگانے کے بجائے خاموش تسبیح خوانی میں مشغول تھا  –––––– افغانستان میں جہازوں کی گڑ گڑاہٹ اور بم کے دھماکوں کے سوامجھے زندگی ہر جگہ ٹھہری ہوئی نظر آئی۔

افغانستان میں پشتو اور دری، دو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ایران میں جس زبان کو فارسی کہا جاتا ہےاس کو افغانستان میں دری کہتے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ دری اور پشتو زبانیں ایک دوسرے سے الگ بھی ہیں اور ایک دوسرے سے ملتی جلتی بھی۔ دو تقابلی فقرے سے اس فرق کو سمجھا جاسکتا ہے :

دری                                              پشتو

من چای می خورم                                    زه چای خورم

من خانہ دارم                                       زه کور لرم

کابل میں میرا قیام جس ہوٹل( روم 328) میں تھا ، اس کو مقامی لوگ اپنی زبان میں میلمہ پال ہوٹل کہتےہیں۔ مگر اس نام کی بنا پر اس کو افغانی ہوٹل سمجھنا ایسا ہی ہو گا جیسے قاہرہ میں "نصر" کار کو دیکھ کر کوئی شخص سمجھے کہ یہ مصری صنعت کی بنائی ہوئی کار ہے۔ مسلم ملکوں میں بہت سی جدید چیزیں ہیں جن کے نام بظاہر مقامی مسلم زبان میں ہوتے ہیں ، مگر حقیقتاً  وہ خالص مغربی ہوتی ہیں۔

اس ہوٹل کا اصل نام "انٹر کانٹی ننٹل ہوٹل " ہے۔ یہ دراصل مغربی سرمایہ کے تحت قائم شدہ ایک عالمی تجارتی تنظیم ہے جس کا رجسٹر ڈ نام  Inter-Continental Hotels ہے۔ اس کے تحت یروشلم سے لے کر نیو یارک تک درجنوں شہروں میں ہوٹل قائم ہیں ۔ اسی طرح ابوظبی ،عمان، قاہرہ ، دوبئی ، اصفہان، کابل ، مکہ، مسقط ، ریاض ، شارجہ، طائف، تہران ، کراچی ، لاہور وغیرہ میں بھی اس کے ہوٹل چل رہے ہیں۔ "ہوٹل " اپنے جدید معنوں میں ایک زبر دست انڈسٹری ہے ۔اورموجودہ زمانے کی دوسری انڈسٹری کی طرح مسلمان یہاں بھی بہت پیچھے ہیں۔

میرے کمرہ کے دروازہ پر دستک ہوئی۔ کھولا تو ایک افغانی عالم اندر داخل ہوئے ۔ وہ روانی کے ساتھ عربی بول رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں عرب انداز کی تسبیح تھی جس پر مسلسل ان کی انگلیاں چل رہی تھیں۔ ان سے میں نے پوچھا کہ افغانستان میں مسلمانوں کا حال کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر لحاظ سے بہت اچھا  (عالى من جميع الجهات) انھوں نے بتایا کہ صرف کابل میں  610 مسجدیں ہیں۔ البتہ دینی درس گاہ صرف ایک ہے۔ ان سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔ آخر میں میں نے ان کا نام پوچھا تو انھوں نے اس طرح اپنا نام بتایا :

حجۃ الاسلام الشیخ محمد عَوض صادقی ، معين وزارة الشئون الدينية والأوقاف

 ایک روز ناشتہ کی میز پر میرے ساتھ ایک افغانی بھائی بھی تھے۔ میز پر مختلف قسم کے کھانے کے سامان موجود تھے ۔ اسی کے ساتھ ایک پیالہ میں شکر کے ڈلے تھے جو چائے میں ڈالنے کے لیے   رکھے ہوئے تھے۔ میں نے افغانی بھائی سے پوچھا کہ یہاں عام افغانی کا روزانہ ناشتہ کیا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت اپنی ڈبل روٹی میں مکھن لگا رہے تھے ۔ وہ اچانک ٹھہر گئے ۔ انھوں نے شکر کے پیالہ کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا : روٹی اور شکر۔

گفتگو کے دوران میں نے ان سے مزید پوچھا کہ افغانستان میں اتنی زیادہ جہالت ہے۔ افغانی لوگ اپنے بچوں کو پڑھاتے کیوں نہیں ۔ انھوں نے جواب دیا کہ عام افغانی کو اپنی روٹی کے لیے   اتنی زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے کہ بچوں کو پڑھانا اس کے بس میں نہیں ۔ افغانی لوگ بے حد محنتی ہوتے ہیں۔ ان کے پاس نہایت قیمتی زمینیں ہیں۔ اس کے با وجو د افغانی قوم جہالت اور غربت کی شکار ہے۔ میری معلومات کے مطابق امیر امان اللہ خاں کے بعد یہاں کوئی قابل ذکر تعمیری کام نہیں ہوا۔

 کابل میں میں ایک افغانی سے ملا۔ اس نے اپنا نام محمد سرور بتایا۔ وہ مجھ سے قطعاً واقف نہ تھا۔ حتی ٰکہ اس نے میرا نام بھی نہیں سنا تھا۔ اس سے میں نے پوچھا کہ افغانی لوگ امیر امان اللہ خان کے بارےمیں کیا رائے رکھتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ امان اللہ خان کے بارے میں عام افغانیوں کی عین وہی رائے ہے جو خودمیری رائے ہے۔ اس افغانی نے اپنی زبان میں کہا:

آزادی افغانستان توسط امان  اللہ خاں غازی در سال 1919  تامین گردید۔ و مردم افغان او را بہ دیدهٔ اقدر می نگرند۔ و ہیچ کس در افغانستان اور ابد نمی بنید۔ و در راه اعمار افغانستان او بسیارکوشش زیاد نموده است۔

یعنی امان اللہ خاں کے ذریعہ 1919 میں آزادی حاصل ہوئی۔ افغانستان کے لوگ ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ افغانستان میں کوئی بھی شخص ان کو برا نہیں سمجھتا۔ افغانستان کی تعمیر کی راہ میں انھوں نے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں۔

24 اکتوبر کی صبح کو ناشتہ کی میز پر میرے ساتھ دو تعلیم یافتہ افغانی تھے۔ ایک نے اپنا نام را شد بتایا دوسرے نے کمال ۔ میں نے ان سے امیر امان اللہ خاں کے بارےمیں پوچھا ۔ دونوں نے ان کی بہت تعریف کی۔ میں نے پوچھا کہ پھر ان کے زوال کا سبب کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ یورپ گئے۔  وہاں انھوں نے جدید تعلیم کو دیکھا اور اس کی اہمیت کو محسوس کیا۔ واپس آئے تو انھوں نے چاہا کہ افغانستان میں اصلاحات کریں اور جدید تعلیم کو یہاں رائج کریں۔

انھوں نے کہا کہ "ملاؤں " کا طبقہ ان کے خلاف ہو گیا۔ افغانی علماء کی اکثریت ان کو کافر او ربے دین کہنے لگی ۔ امیر امان اللہ خاں میں اتنی اعلیٰ خصوصیات تھیں کہ پھر بھی شاید ان کے مخالفین کامیاب نہ ہوتے۔مگر امیر امان اللہ خاں کی ایک غلطی نے انھیں موقع دے دیا ، اور وہ ان کی جلد بازی تھی۔ انھوں نے چاہا کہ جدید اصلاحات افغانستان میں فوراً نافذ ہو جائیں۔ مثلاً انھوں نے پہلے ہی مرحلہ میں کچھ افغانی لڑکیوں کو نرسنگ کی تعلیم کے لیے   یورپ بھیج دیا۔ اس طرح کا کام اگر وہ رفتہ رفتہ کرتے تو کچھ نہ ہوتا کیونکہ عوام ان سے خوش تھے۔ راشد صاحب نے بتایا کہ میری ماں نے امیر امان اللہ خاں کو دیکھا تھا ۔ وہ کہتی تھیں کہ امان اللہ بہت اچھے اخلاق کے آدمی تھے۔ راستہ چلتے ہوئے بے تکلف عوام سے ملتے اور انھیں پیسہ اور تحفہ پیش کرتے۔ہر ایک سے یکساں طور پر معاملہ کرتے۔

مگر اس وقت افغانی خاندانوں میں پردہ کا بہت شدت سے رواج تھا۔ جب انھوں نے افغانی لڑکیوں کو نرس کی ٹریننگ کے لیے   یورپ بھیجا تو "ملاؤں " کو موقع مل گیا۔ انھوں نے ان کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اس وقت بھی امان اللہ خاں کی شرافت تھی کہ انھوں نے مخالفین کو دبانے کے لیے   پولیس اور فوج کی طاقت استعمال نہیں کی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ خود اپنی قوم کے خلاف مار دھاڑ کریں ۔ چنانچہ وہ از خود ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

 امیر امان اللہ خاں نے ملکی اشیاء رواج دینے کی مہم چلائی۔ انھوں نے کہا کہ اپنے ملک کا کپڑا پہنو۔ اگر کوئی افغانی یا کوئی افسر بیرون ملک کے کپڑے پہنے ہوئے نظر آیا تو انھوں نے فوراً اس کے قریب جا کر اولاً اس کی تعریف کی اور پھر اپنی جیب سے چھوٹی قینچی نکال کر کپڑے کا ایک ٹکڑا  کاٹ لیا اور کہا کہ نمونہ گیریم(ہم تمہارے کپڑے کا ایک نمونہ لے رہے ہیں )اس طرح اس کے کپڑے کو برباد کر دیتے۔

 امان اللہ خاں راتوں کو اکیلے گھومتے تھے ۔ چوں کہ کابل میں رات کو اکیلے نکلنا منع تھا، ایک مرتبہ ایک سپاہی نے ان کو گرفتار کر لیا ۔ تاہم امان اللہ خان نے نا خوش ہونے کے بجائے اس کی فرض شناسی پر اس کو انعام دیا۔ امان اللہ خان نے اپنے ملک میں تعلیم جاری کی۔ سائنس کی تعلیم کے لیے   کچھ لڑکوں کو لندن بھیجا۔ ان افغانی طلبہ کے ساتھ انھوں نے ایک عالم بھی حکومت کے خرچ پر روانہ کیا۔ انھوں نے یہ تاکیدی ہدایت کی کہ ان کے اسکول کے عیسائی لڑ کے جب چرچ جائیں تو افغانی لڑکے اس وقت قرآن کی تلاوت کریں (94)

امیر امان اللہ خان 1919  سے 1929  تک افغانستان کے حکمراں تھے ۔ اس کے بعد ملک میں ان کے خلاف بغاوت ہوئی ۔ یہاں تک کہ انہیں ملک چھوڑ کر باہر چلا جانا پڑا۔ اسی جلا وطنی کی حالت میں 25 اپریل 1960   کو ز یورک میں ان کا انتقال ہو گیا۔

  امان اللہ خاں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا خاص الزام ان کے اوپر یہ تھا کہ وہ خلاف شرع طریقے ملک میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً  وہ چاہتے تھے کہ افغان عور تیں گھر سے باہر نکل آئیں اور بے پردہ ہو کر مردوں کے ساتھ کام کریں۔

 مگر یہی پٹھان تھے جنھوں نے اس سے تقریباً سو سال پہلے سید احمد شہید بریلوی کے معاملے میں اس سے بالکل مختلف روش اختیار کی۔ سید صاحب نے پٹھانوں کے علاقے میں اسلامی امارت قائم کی اور شرعی قوانین ( زکوۃ وغیرہ کا قانون) جاری کیا ۔ مگر پٹھانوں نے شرعی حکومت کے خلاف بغاوت کردی –––––  امیر امان اللہ خاں کے خلاف بغاوت کو اگر دینی حمیت یا اسلامی جہاد کہا جائے توسید صاحب کے خلاف بغاوت کو کیا نام دیا جائے گا۔

بیسویں صدی میں مسلم دنیا کو تین ایسے حکمراں ملے جو واقعی معنوں میں مدبّر تھے اور دورِ جدیدکی حکومت کو چلانے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے –––––  افغانستان کے امان اللہ خان (1960 – 1892) اور سعودی عرب کے ملک فیصل (1975 – 1906) اور پاکستان کے محمد ایوب خاں (1974-1907)مگر تینوں  حکمرانوں کو پوری طرح کام کرنے کے مواقع نہ مل سکے۔ ان تینوں کی قاتل ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر، موجودہ زمانہ کی نام نہاد اسلامی سیاست تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس "اسلامی سیاست " سے اسلام کو جتنانقصان پہنچا ہے اتنا کسی اور چیز سے اس کو نہیں پہنچا۔

بعض باتیں قومی امنگوں کے اعتبار سے بہت سنگین معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن انھیں باتوں کو اگر خالص حقیقت کے اعتبار سے جانچا جائے تو وہ بالکل مختلف نظر آئیں گی۔ مثال کے طور پر انگریز جب ہندستان پر قابض ہوئے تو وہ مسلسل یہ کوشش کرتے رہے کہ اپنی نو آبادیاتی سلطنت کو افغانستان تک وسیع  کر سکیں۔ اس کا مقصد افغانستان پر قبضہ سے زیادہ روسی خطرہ کا دفاع تھا۔ مگر افغانیوں کی شدید مزاحمت کی وجہ سے انگریز اپنے اس منصوبےمیں کامیاب نہ ہو سکے۔

ہمارے پُر خوش رہنما عام طور پر اس واقعہ کو اپنے اور افغانیوں کے فخر کے خانے میں لکھے ہوئے ہیں۔ مگر نتیجے کے اعتبار سے دیکھئے تو وہ صرف ایک پُر جوش نادانی نظر آئے گی۔ انگریز کا معاملہ معروف معنوں میں صرف ایک "بیرونی سامراج"  کا معاملہ نہ تھا۔ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ جدید تعلیم اور سائنٹفک انقلاب کے ہرا ول بن کر ایشیا میں داخل ہوئے تھے۔ نیز یہ کہ خود سائنسی انقلاب کی اپنی داخلی منطق کے تحت یہ بھی مقدّر تھا کہ نو آبادیاتی اقتدار بالآخر ختم ہو اور قومی اقتدار اس کی جگہ لے لے۔

 افغانی لوگوں کا جوش اگر ہوش کے تابع ہوتا اور وہ وقتی طور پر برطانیہ کی سر پرستی کو قبول  کر لیتے تو اس کا انھیں زبردست فائدہ ملتا۔ برطانی اقتدار تو یقیناً اپنے وقت پر ختم ہو جاتا۔ مگر افغانستان کو اس "صبر" کی یہ قیمت ملتی کہ آج  افغانستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا نہ کہ ایک بر باد شده ملک جیسا کہ آج وہ نظر آتا ہے۔

کا نفرنس کا رسمی آغاز 21  اکتوبر 1988  کی صبح کو ہوا۔ اس کارروائی کو " پریس کانفرنس" کا نام دیا گیا تھا۔ مگر زیادہ صحیح طور پر وہ ایک ملاقات تھی ۔ کیونکہ اس موقع پر جو کارروائی ہوئی وہ یہ تھی کہ افغانستان کی وزارتِ امورِ اسلامی کے ذمہ داروں نے افغانستان میں اسلام اور اسلامی تعلیم کی حالت کےبارے میں معلومات بیان کیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom