بے خبری
مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "آزادیٔ ہند" (India Wins Freedom) کے 30 صفحات مصنف کی وصیت کے مطابق مہر بند کر دیے گئے تھے۔ اب تیس سال پورے ہونے کے بعد وہ چھاپے گئے ہیں ۔ ان صفحات میں بتایا گیا ہے کہ جواہر لال نہرو (سابق صدر کانگریس) کی دو غلطیاں بڑی حد تک تقسیمِ ہند کا سبب بنیں ۔
جواہر لال نہرو سے پہلی غلطی 1937 کے الکشن کے بعد ہوئی۔ یہ الکشن انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت ہوا تھا ۔ اس الکشن میں مسلم لیگ کو پورے ملک میں سخت دھکا لگا تھا۔ صرف دو صوبوں (بمبئی اور یوپی )میں وہ کچھ کامیابی حاصل کر سکی تھی۔ الکشن کے نتائج سے مسلم لیگ کی علاحدگی پسندی کے رجحان پر زد پڑی۔ اس نے کانگریس کے ساتھ وزارت میں شامل ہونے کی پیش کش کی۔ مسلم لیگ چاہتی تھی کہ اس کے دولیڈر، چودری خلیق الزماں اور نواب اسماعیل خان کو ریاستی کیبنٹ میں لے لیاجائے مگر نہرو نے دونوں میں صرف ایک کو لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ نہرو کی یہ تجویز مسلم لیگ کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۔ چنانچہ وہ کانگریس کے قریب آکر دوبارہ اس سے دور ہوگئی ۔
جواہر لال نہرو کی دوسری سیاسی غلطی وہ ہے جو انھوں نے 1946 میں کی ۔ اس وقت مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے کیبنٹ مشن پلان کے تحت متحدہ ہندستان کی تجویز کو منظور کر لیا تھا۔ اس طرح مسلم لیگ دوبارہ تقسیم کے نظریہ سے ہٹ کر متحدہ ہندستان کے نظریےکے قریب آگئی تھی ۔ مگر نہرو نے صدر کانگریس کی حیثیت سے جولائی 1946 میں ایک پریس کانفرنس کی۔ اس میں انھوں نے اعلان کر دیا کہ کانگریس آئندہ کیبنٹ مشن پلان کو تبدیل (Modify) کر سکتی ہے۔ مسٹر جناح اس بات پر سخت ناراض ہوئے۔ وہ گانگریس سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گئے جس کا آخری نتیجہ ملک کی تقسیم ( 1947) کی صورت میں بر آمد ہوا ۔
مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں کہ کیبنٹ مشن پلان آزاد ہندستان کے constitution کی بنیاد تھا۔ اس کو منقسم ہندستان کے بجائے متحد ہندوستان کے تصور پر بنایاگیا تھا۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ مسٹر جناح نے اس کے بعد کہا کہ اگر کانگریس کیبنٹ مشن کی پابند نہ ہو اور اس کے نقشہ کو دستورسازاسمبلی میں اپنی اکثریت کے زور پر بدل دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اقلیتیں صرف اکثریت کے رحم وکرم پر ہوں گی :
Jinnah argued that if the Congress did not stick to the plan as accepted and changed the scheme through its majority in the constituent assembly ,that would mean minorities would be placed at the mercy of the majority. (Indian Express, October 30, 1988)
مولانا آزاد کے "تیس صفحات" میں جب میں نے یہ بات پڑھی تو مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آگئی۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں : كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ (کتنے چھوٹے گروہ ہیں جوبڑے گروہ پر غالب آتے ہیں، اللہ کے اذن سے)(البقرہ:249)
میں نے سوچا کہ کیسے عجیب تھے وہ مسلم لیڈر جن کو نہرو کا بیان معلوم تھا مگر انھیں خدا کا بیان معلوم نہ تھا۔ انہیں اقلیت اور اکثریت کی یہ منطق معلوم تھی کہ دستور ساز اسمبلی میں تعداد کی کمی انھیں اکثریتی فرقے کے ماتحت بنا دے گی۔ مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ اس سیاسی منطق کے اوپر بھی ایک منطق ہے اور وہ یہ طاقت رکھتی ہے کہ خود اکثریت کے اوپر اقلیت کو بالا کر دے ۔