نادر مثال

انگریزی ہفت روزہ گارجین میں ایک خبر چھپی ہے جس کا عنوان ہے ––––––  ایک ریاضی داں جس نے ایک لاکھ پچاس ہزار پاؤنڈ کے انعام کو رد کر دیا:

The mathematician who turned down a £150,000 prize

فرانس کے ریاضی داں الگزنڈر گر اتھنڈیک (Alexander Grothendieck) جن کو اس سے پہلے متعد د سائنسی اعزازات مل چکے ہیں ، 1986  میں انھیں سویڈن کی رائل اکاڈمی نے کرافورڈ انعام (Crafoord prize) انعام دیا جو نوبل انعام کے برابر معزز سمجھا جاتا ہے۔ اس اعزاز کے ساتھ ایک لاکھ پچاس ہزار پاؤنڈ (تقریباً 37  لاکھ روپیہ) کی رقم بھی شامل تھی۔ مگر فرانسیسی سائنسداں نے اس انعام کو لینے سے انکار کر دیا۔ اس نے اپنے انکاری خط میں اس کا تین سبب بتایا ہے ۔ اول یہ کہ مالی اعتبار سے مجھے اس رقم کی ضرورت نہیں ۔ دوسرے یہ کہ انعام کے اس طریقے سے مجھے اتفاق نہیں کہ غیر مشہور لوگوں کو نظر انداز کر کے صرف کچھ مشہور لوگوں کو اعزازات دیے جاتے رہیں ۔ تیسری وجہ ان کے الفاظ میں یہ ہے :

The work which has earned for me the Royal Academy's kindly attention goes back 25 years to a period when I was part of the scientific community. I quit this community in 1970. Now in the past two decades, the ethics of the scientific profession have become so degraded that wholesale plundering of ideas has become almost the general rule among scientists. It is at any rate tolerated by all, including the most glaring and iniquitous cases. Under the circumstances, agreeing to play along with the practice of granting prizes and rewards would also be endorsing a spirit and a development in the scientific world that I see as deeply unhealthy. It is this third reason which in my view is by far the most serious. Guardian Weekly, Manchester, May 15, 1988

وہ تحقیق جس نے مجھے ر ائل اکیڈمی کی عنایت سے سرفراز کیا ہے ، وہ 25  سال پہلے سےتعلق رکھتی ہے ۔ اس وقت میں سائنٹفک کمیونٹی کا ایک حصہ تھا۔ میں نے اس کمیونٹی کو 1970  میں چھوڑ دیا۔ اب پچھلے  20  برسوں میں سائنسی پیشہ کی اخلاقیات میں اتنا  زیادہ تنزل آچکا ہے کہ افکار کی قزاقی اب سائنس دانوں کے درمیان تقریباً عام بات ہے ۔ اس صورتحال کو آج تمام لوگ برداشت کر رہے ہیں۔حتی ٰکہ بے انصافی کے انتہائی کھلے ہوئے واقعات میں بھی۔ ان حالات میں انعام دینے کے عمل میں شرکت پر راضی ہونا ، سائنسی دنیا میں ہونے والے ایک ایسے عمل کی تصدیق کرنا ہے جس کو میں بہت زیادہ غیر صحت مند سمجھتا ہوں ۔ یہی تیسری چیز ہے جو میری نظر میں سب سے زیادہ سنگین ہے۔

 انعام کی رقم کو اپنی ذات کے لیے   نہ لینا بجائے خود کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں۔ موجودہ زمانہ میں اس طرح کے واقعات کثرت سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر مدر ٹریسا کو بہت سے بڑے بڑے مالی انعام بشمول نوبل انعام ملے۔ مگر انھوں نے ان تمام انعامات کو معذوروں کے ادارہ کو دے دیا۔

مگر فرانسیسی سائنس داں نے جس چیز کا ثبوت دیا ہے وہ انتہائی نادر ہے۔ یہ اصول پسندی کی خاطر خود اپنی کمیونٹی کا ناقد بننا ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی کسی نہ کسی گروہ سے جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ وہ اس گروہ کے لوگوں میں بے اصولیاں دیکھتا ہے مگر وہ ان پر گرفت نہیں کرتا۔ وہ ان کو غلط جانتے ہوئے انھیں برداشت کرتا رہتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے کے بعد میں اپنے گروہ سے کٹ جاؤں گا۔ اور اپنے گروہ سے کٹنا اس دنیا میں اپنے آپ کو بے زمین بنا لینا ہے۔

 یہ اصول پسندی کی اعلیٰ ترین قسم ہے کہ آدمی اپنے گروہ کی غلطیوں پر چپ نہ رہ سکے۔ حتٰی کہ اپنی اس اصولی حیثیت کی حفاظت کے لیے   وہ اپنے گروہ کی طرف سے ملنے والے مفادات سے اپنے آپ کو محروم کرلے۔

ایسے لوگ آپ کو بے شمار ملیں گے جو غیر کمیونٹی کے خلاف بولنے کے مجاہد بنے ہوئے ہوں۔مگر وہ شخص کہیں نظر نہیں آتا جوخود اپنی کمیونٹی کے خلاف زبان و قلم سے جہاد کرے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ غیر کمیونٹی کے خلاف لسانی جہاد کرنے سے لیڈری ملتی ہے۔ جب کہ اپنی کمیونٹی کے خلاف لسانی جہاد کرنے والا اپنے ماحول میں نکّوبن جاتا ہے۔ وہ ملی ہوئی قیادت کو بھی کھو دیتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom