تیر بہدف نسخہ

بابری مسجد تحریک کی نام نہاد قیادت نے پُر جوش تقریروں کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ بابری مسجد کی بازیابی کے لیے 12  اگست 1988  کو "قائدین کا مارچ "ہوگا ۔ وہ فیض آباد سے چل کر اجو دھیا پہنچیں گے اور بابری مسجد میں فاتحانہ داخل ہو کر جمعہ کی نماز ادا کریں گے ۔ اس اعلان کا ردِ عمل فریق ثانی پر ہوا۔ اور ہند و فرقہ پرست تنظیمیں پوری طاقت کے ساتھ جاگ اٹھیں ۔ انھوں نے اعلان کیا کہ مسلم قائدین نے اگر مذکورہ تاریخ کو اجودھیا مارچ کیا تو ہم سو گنا طاقت کے ساتھ ان کی طرف مارچ کریں گے ۔ پہلے بظاہر یہ دکھائی دیتا تھا کہ اجودھیا کی طرف مارچ قیادت کی طرف مارچ ہے۔ مگر بعد کو نظر آیا کہ اجودھیا مارچ قبرستان کی طرف مارچ ثابت ہوگا۔ چنانچہ نام نہاد قائدین نے ایک عذر نکال کر مارچ کو ملتوی کر دیا ۔

اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ یہ مارچ ضرور ہو گا اور اب اس کی تاریخ 14  اکتوبر 1988  ہے۔ بار بار اعلان کیا گیا کہ مارچ مذکورہ تاریخ کو ہو کر رہے گا۔ کسی بھی وجہ سے وہ رکنے والا نہیں ۔ مگراس کے بعد انتہا پسند ہندو عناصر نے اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ مجوزہ اجودھیا مارچ کو نہ صرف بزور روکیں گے بلکہ وہ مارچ میں شرکت کرنے والوں کو ایسا "سبق " پڑھائیں گے کہ آئندہ وہ اس قسم کی جرأت ہی نہ کر سکیں ۔ اب قائدین کو اپنے سامنے موت نظر آنے لگی۔ چنانچہ دوبارہ بالکل آخر وقت میں اس کے التوا کا اعلان کر دیا گیا  –––––– لفظ کا کریڈٹ لینے والےعمل کا کریڈٹ لینے میں ناکام رہے ۔

اس سلسلےمیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مارچ کے بھیانک نتائج سے مسلم قائدین تو بچ گئے   مگر مسلم عوام اس سے بچنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پورے یوپی میں ان کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ نیز علی گڑھ ، مظفر نگر ، کھتولی اور فیض آباد وغیرہ میں باقاعدہ فسادات پھوٹ پڑے جن میں مسلمانوں کو نا قابل بیان جانی و مالی نقصان اٹھا نا پڑا۔

اب سوال یہ ہے کہ ایک ہی مشترک خطرہ سے قائدینِ تحریک کسی طرح مکمل طور پر بچے گئے  ، اور پیروانِ تحریک کیوں کر عین اسی خطرہ کا شکار ہو گئے   ۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے ۔ قائدین کا اصول یہ ہے کہ لفظی تقریریں کرو، مگر جب عمل کا وقت آئے تو ایک خوبصورت عذر بیان کر کے پیچھے بیٹھ جاؤ۔ اس کے برعکس پیروان تحریک اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو تقریر کی جائے اس کے مطابق عمل بھی ضرور کیا جائے۔

ایسی حالت میں میں مسلم عوام کومشورہ دوں گا کہ وہ اپنے قائدین کی ادھوری پیروی کرنے کے بجائے ان کی مکمل پیروی کریں ۔ مسلم عوام اگر چاہتے ہیں کہ جس طرح ان کے قائدین کی جان و مال پوری طرح محفوظ ہے اسی طرح ان کی اپنی جان و مال بھی پوری طرح محفوظ رہے تو اس کا نہایت سادہ ساحل یہ ہے کہ –––––  قائدین کے کیے کو کرو ، ان کے کہے کو بالکل نظر انداز کر دو۔

علی گڈھ کی مثال

فرقہ وارانہ فساد کی حقیقت کیا ہے اور اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے علی گڈھ کی مثال لیجیے  ۔ علی گڈھ کے مسلمان قائدین تحریک کے لفظوں سے (نہ کہ عمل سے) متاثر ہو کر بابری مسجد تحریک کے مسئلہ پر زبردست جوش و خروش دکھا رہے تھے۔ اس کے جواب میں وہاں کے ہندو بھی پوری طاقت سے ابھر آئے ۔8  اکتوبر کو بجرنگ دل ،ہند و پریشد اور رام جنم بھومی مکتی سنگھرش سمتی کی جانب سے یک روزه علامتی ہڑتال ریاست گیر پیمانے  پر ہوئی۔ ایسے نازک مواقع پر مسلم قائدین اپنا" مارچ"  ملتوی کر دیتے ہیں مگر علی گڈھ کے مسلمانوں نے اس کے برعکس اپنا" مارچ "جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ تناؤ اور اشتعال بڑھتا چلا گیا ۔ 8  اکتوبر 1988  کو صبح 9  بجے سے آر ایس ایس کے رضا کار اپنے ہاتھوں میں ڈنڈے لیے ہوئے تمام شہر کی دکانوں کو زبر دستی بند کرارہے تھے ۔ ریلوے روڈ ، سبزی منڈی اور بڑا بازار میں انھوں نے مسلم اقلیت کی دکانوں کو بھی طاقت کے بل پر بند کرا دیا۔ تاہم صرف دکانوں کو بند کرانے سے ان کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے بند دکانوں کے اوپربینر لگا دیے جن پر علی گڈھ کے بجائے "ہری گڈھ" لکھا ہوا تھا۔

 مسلمانوں کے لیے یہ منظر نا قابلِ برداشت ثابت ہوا۔ انھوں نے ان بینروں کو اپنی دکانوں سےاتار دیا ۔ اب بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے رضا کاروں کا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ وہ یہی چاہتے تھے کہ مسلمان مشتعل ہو کر کوئی کارروائی کر یں۔ اور مسلمانوں نے بینر ا تار کر وہ کارروائی کر دی ۔ چنانچہ فوراً وہ تخریب کاری پر اتر آئے ۔ چند منٹوں کے اندر خنجر زنی، لوٹ مار ، آتش زنی اور فائرنگ کاہنگامہ برپا ہو گیا ۔ اس فساد میں مسلمانوں کو جان و مال کا جو نقصان اٹھانا پڑا اس کی تفصیل قومی آوازکی رپورٹ 27  اکتوبر 1988  میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

ہندو فرقہ پرستوں کے ان "کاغذی" بینروں کو مسلمان اگر اپنی دکانوں کے اوپر سے خود نہ اتارتےتو یقینی طور ہوا کے جھونکے انھیں اتار دیتے ۔ قدرت کا نظام زیادہ بہتر طور پر وہ کام کر دیتا جس کومسلمان نہایت کم تر انداز میں انجام دینا چاہتے تھے۔ مگر مسلمان اپنی بے شعوری اور نظام خداوندی کے بارےمیں اپنی بے یقینی کی بنا پر اس کا انتظار نہ کر سکے کہ قدرت کی طاقتیں متحرک ہو کر جھنڈوں اور بینروں کے اس کوڑے کو صاف کریں۔ انھوں نے مشتعل ہو کر خود یہ کام کرنا چاہا۔ نتیجہ یہ ہواکہ وہ انتہائی غیر ضروری طور پر آگ اور خون کی نذر کر دیے گئے   ۔

ہندستان کے فسادات کے سلسلے میں اصل مسئلہ مسلمانوں کی یہی مشتعل مزاجی ہے نہ کہ اغیار کی اشتعال انگیزی ۔ کیوں کہ مقابلے کی اس دنیا میں اشتعال انگیزی کے واقعات تو بہر حال ہوں گے ، اور وہ ہندستان ہی میں نہیں، بلکہ ہر جگہ ہوں گے ،حتی ٰکہ مسلم ملکوں میں بھی۔ ہم ان کے وجود کو ختم نہیں کر سکتے ۔البتہ حکیمانہ تدبیر کے ذریعے اپنے آپ کو ان کے نقصان سے بچا سکتے ہیں۔ اور وہ تدبیر ہے  –––––– اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہونا ۔

مسلمانوں کا اصل مسئلہ ان کی یہی بے صبری ہے۔ فریق ثانی نے اچھی طرح جان لیا ہے کہ کچھ چیزیں ہیں جن پر مسلمان  فوراً بھڑک اٹھتے ہیں۔ ہر مسلمان کا کوئی "ہری گڈھ "ہے ۔ جب بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ہو ، فوراً " ہری گڈھ " کا نعرہ لگا دو۔ اس کے بعد لازما ً ایسا ہو گا کہ مسلمان بھڑک اٹھیں گے اور پھر ان کے خلاف متشددانہ کارروائی کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان "ہری گڈھ "پر بھڑکنا چھوڑ دیں ، اس کے بعد تمام فسادات بے زمین ہو کر اپنے آپ ختم ہو جائیں گے ۔

یقینی حل

ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات کا بلاشبہ یقینی حل ہے ۔ مگر یہ حل "انتظامیہ" کے پاس نہیں ہے۔ یہ خود مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ مسلمان جس روز اس حقیقت کو جان لیں گے، اسی دن اس ملک سے فرقہ وارانہ فسادات اس طرح ختم ہو جائیں گے جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

اصل یہ ہے کہ یہ دنیا مقابلے (Competition)کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک دوڑ رہا ہے۔ ہر ایک دوسرے کا پیچھا کر کے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاز ما ً ٹکراؤ کے مواقع پیش آتے ہیں۔ مذکورہ قانون ِفطرت کی بنا پر وہ ہمیشہ اور ہر جگہ پیش آئیں گے خواہ وہ دسویں صدی ہو یا بیسویں صدی ، خواہ وہ ہندستان ہو یا پاکستان ۔ غرض کہیں بھی مقابلہ اور مسابقت کی یہ حالت ختم ہونے والی نہیں ۔ ہم مقابلےکی حالت کو ختم نہیں کر سکتے۔ البتہ ہم اپنے آپ کو اس کی زد سے بچا سکتے ہیں ۔ اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کا واحد نسخہ وہی ہے جس کو قرآن میں اعراض (Avoidance) کہا گیاہے۔

ہندستان کے ہندو فرقہ پرستوں نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں کی ایک کمزوری دریافت کر رکھی ہے۔ یہ کمزوری ہے ان کا اشتعال کے موقع پر مشتعل ہو جانا۔ جن مواقع پر قرآنی حکم کے مطابق اعراض کرنا چاہیے وہاں دوسروں سے الجھ جانا ۔ یہ گویا مسلمانوں کا کمزور مقام (Vulnerable point) ہے ۔ اسی کمزور مقام سے فریق ثانی ان پر" حملہ" کرتا ہے اور مسلمانوں کی بے شعوری کی بنا پر ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔

ایک واقعہ

ایک صاحب نے ایک شہر کا واقعہ بتایا جو 1988 میں پیش آیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے شہر میں ہند و فرقہ پرست عناصر نے تین روزہ جلسہ کیا ۔ اس میں ایک بہت بڑا بک اسٹال بھی رکھا گیا تھا۔ اس اسٹال پر دوسرے دل آزار لٹریچر کے ساتھ ستیارتھ پرکاش اور رنگیلا رسول جیسی کتابیں بھی رکھی گئیں۔ مسلمانوں نے ان کتابوں کو دیکھا تو ان کے اندر سخت غصہ اور اشتعال پیدا ہوا۔ انھوں نے فورا ً ایک جوابی جلسہ کیا جس میں تقریباً 5  ہزار مسلمان شریک ہوئے۔ مقررین نے پر جوش تقریریں کیں ۔ پورا مجمع غصہ اور اشتعال سے بھر گیا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ یہاں سے اٹھ کر سیدھے ہندؤوں کے اجتماع میں جائیں گے اور وہاں شامیانے کو توڑیں گے اور کتابوں کو جلا ڈالیں گے ۔

عین اس وقت ایک سنجیدہ مقرر اسٹیج پر آیا اس نے ایک تقریر کی ۔ یہ تقریر نہایت کامیاب ثابت ہوئی۔ یہ تقریر مسلمانوں کے مجمع پر ٹھنڈی بارش بن کر برسی ۔ اور ہند و اجتماع کے لیے ایک ایسا شعلہ ثابت ہوئی جس نے براہ راست مداخلت کے بغیر ان کے سارے منصوبہ کو خاک میں ملا دیا۔

مقرر نے کہا کہ اپنی بات کو میں علامہ اقبال کے ایک لطیفہ سے شروع کرتا ہوں۔ اس لطیفہ کو اگر آپ اچھی طرح سمجھ لیں اور اس سے واقعتاً  سبق لے سکیں تو وہ آپ کے لیے اس قسم کے تمام فسادات اورشرارتوں کا تیر بہدف علاج ہے ۔

لاہور میں علامہ اقبال کے محلے میں زیادہ عمر کے ایک صاحب تھے جو اکثر علامہ اقبال سے ملنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ ایک روزانھوں نے پوچھا کہ چڑھونی کی حقیقت کیا ہے۔ کیسے ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آدمی ایک لفظ (مثلاً کریلا) سے چڑھنے لگے ۔ علامہ اقبال نے اس سوال کا کوئی براہ راست جواب نہیں دیا یہاں تک کہ وہ صاحب واپس چلے گئے   ۔

 اگلے دن علامہ اقبال نے اپنے ملازم کو ان صاحب کے گھر یہ کہہ کر بھیجا کہ جاؤ ان سے آم کااچار مانگ لاؤ ۔ ملازم نے جاکر ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ نکلے تو اس نے کہا کہ علامہ اقبال نے آم کا اچار مانگا ہے ۔ انھوں نے یہ کہہ کر ملازم کو رخصت کر دیا کہ میرے پاس آم کا اچار نہیں ہے ۔ دو گھنٹہ کے بعد علامہ اقبال نے دوبارہ ملازم سے کہا کہ ان کے یہاں جاؤ اور آم کا اچار مانگ لاؤ۔ ملازم گیا اور دوبارہ ان کو علامہ اقبال کا پیغام پہنچایا۔ انھوں نے کسی قدر تیزی کے ساتھ کہا کہ میں نے تم کو بتا دیا کہ میرے پاس آم کا اچار نہیں ہے ۔ علامہ اقبال ہر دو گھنٹے کے بعد اس آدمی کو مذکورہ صاحب کے پاس آم کا اچار مانگنے کے لیے بھیجتے رہے اور ملازم ہر بار سخت ترلہجہ میں مذکورہ صاحب کا جواب لے کر واپس آتا رہا۔

یہاں تک کہ آخری بار جب ملازم ان کے یہاں گیا تو ان کی شدت غصہ میں تبدیل ہوگئی۔ انھوں نے آستین چڑھا کر ڈنڈا اٹھایا اور ملازم کو مارنے کے لیے دوڑے ۔ اب ملازم آگے آگے بھاگ رہا ہےاور وہ صاحب ڈنڈا لیے ہوئے اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ۔

 محلہ کے لڑکوں نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کو تجسس پیدا ہوا کہ آخر یہ کیا معاملہ ہے۔ پوچھ گچھ کرنےکے بعد انھیں معلوم ہوا کہ یہ آم کے اچار کا قصہ تھا۔ اب "آم کا اچار " مذکورہ صاحب کی چڑھونی بن گئی۔ اور محلہ کے لڑکوں کو بھی ایک دلچسپ مشغلہ ہاتھ آگیا۔ وہ صاحب جب بھی گھر سے باہر نکلتے، لڑکے ان کے پاس آکر کہتے " آم کا اچار" یہ کہہ کر لڑکے بھاگتے اور وہ بزرگ لڑکوں کے پیچھے دوڑتے ۔ آخر تنگ آکر  انھوں نے یہ کیا کہ وہ ڈنڈا لے کر باہر نکلنے لگے ۔ جب بھی وہ گھر سے نکلتے ان کے ہاتھ میں ایک ڈنڈاضرور ہوتا ۔ لڑکے آم کا اچار کہہ کر بھاگتے اور یہ ڈنڈا اٹھائے ہوئے ان کے پیچھے دوڑتے ۔ اسی حالت میں ایک روز ایسا ہوا کہ تیز بھاگتے ہوئے وہ ایک گڑھے میں گر پڑے اور ان کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مہینوں کے علاج کے باوجود ان کی ہڈی درست نہ ہو سکی۔ جس ڈنڈے کو انھوں نے لڑکوں کو مارنے  کے لیے بنایا تھا۔ وہ ان کی سہارے کی لاٹھی بن گئی جس کو ٹیک کر وہ چلتے تھے۔ وہ اسی حالت پر باقی رہےیہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔

 مقرر نے مسلمانوں کے مذکورہ جلسہ میں جب یہ لطیفہ سنایا تو مسلمانوں کا جوش اچانک ہنسی میں تبدیل ہو گیا۔ مقرر نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ فریقِ ثانی نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ کچھ چیزوں کو ہماری چڑھونی بنا لیا ہے۔ مثلاً خاص طرح کے نعرے لگانا، خاص طرح کے مضامین شائع کرنا، وغیرہ وہ لوگ ہم کو چڑھاتے ہیں اور ہم چڑھ جاتے ہیں۔ اگر ہم شعوری طور پر اس بات کو جان لیں کہ فریق ثانی  جو کچھ کرتا ہے وہ دراصل چڑھونی  کا معاملہ ہے اور چڑھونی کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اگر چڑھئے تو وہ چڑھونی ہے ، اور اگر نہ چڑھئے تو اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ۔ وہ ایسا پٹاخہ ہے جو پھسپھسا کررہ گیا۔

میں مسلمانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ یہ طے کر لیں کہ فریق ثانی خواہ آپ کو کتنا ہی چڑھائے اورخواہ کیسی ہی چڑھونی آپ کے خلاف استعمال کرے ، آپ کسی حال میں بھی نہیں چڑھیں گے۔آپ ہمیشہ ایسی چیزوں سے اعراض کر کے گزر جائیں گے ۔ اگر آپ ایسا کریں تو یقینی ہے کہ فسادات کی ساری عمارت دھڑام سے گر جائے گی ۔

فسادات کے خلاف اس تیر بہدف نسخہ کا پہلا کامیاب تجربہ خود مذکورہ شہر میں ہوا۔ وہ مسلمان جو اپنے جلسہ گاہ سے اٹھ کر فریق ثانی کے جلسے میں جاتے ۔ وہاں ان کی کتابوں کو جلاتے اور پھر زیادہ بڑے پیمانے پر خود جلائے جاتے ، ان کا موڈ بالکل بدل گیا۔ ایک کہانی جو المیہ پر ختم ہوتی وہ اچانک طربیہ کی صورت میں بدل گئی ۔

اس کے بعد مسلمان ٹھنڈے ہو کر سیدھے اپنے گھروں کو چلے گئے   ۔ مسلمانوں کا اس طرح لوٹنا فریق ثانی کے جلسہ پر بجلی بن کر گیا ۔ مسلمانوں نے ان کی کتابوں سے کوئی دل چسپی نہیں لی اور جہاں تک ہندؤوں کا تعلق ہے ، وہ پہلے ہی اس کو خریدنے والے نہ تھے ۔ ان کا وسیع پنڈال بھی آدمیوں سے خالی رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین دن کا اجتماع دو ہی دن میں ختم ہو گیا۔ تمام کتابیں اور تمام دل آزار لٹریچر غیر فروخت شده حالت میں گاڑیوں میں لاد کر واپس گیا تاکہ دوبارہ ردّی خانےمیں جا کر فروخت ہو۔

یہ فسادات کو ختم کرنے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ یہ یقینی طور پر ہر قسم کے فرقہ وارانہ فسادات کا قاتل ہے ۔ میری رائے ہے کہ مسلمان اس واقعہ کو آڈیو ٹیپ یا ویڈیو ٹیپ پر ریکارڈ کر کے تیار رکھیں اور جہاں بھی فرقہ وارانہ فساد کا اندیشہ ہو فورا ً وہاں پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو سنائیں یا اس کی تصویر یں دکھائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد فسادات کا سلسلہ اس طرح ختم ہو جائے گاجیسے جلتی آگ پر پانی ڈالا جائے اور وہ بجھ کر رہ جائے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom