قال الله ، قال الرسول
قرآن میں منکرین ِحق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ ––––––– اور انھوں نے شروع کیاتم سے پہلی بار (وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ (التوبہ: 13) مفسرین نے اس کی تشریح میں یہ قول نقل کیا ہے کہ البادئ أظلم ( شروع کرنے والا زیادہ ظالم ہے(
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ ۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر934)
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن تم اپنے ساتھی سے کہو کہ چپ رہو جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے لغو کام کیا ۔
قرآن کی مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دو آدمی آپس میں لڑ جائیں تو ان میں سے جس شخص نے ٹکراؤ میں پہل کیا ہے ، وہ زیادہ بڑا ظالم قرار پائے گا۔ اجتماعی زندگی میں اختلاف یا شکایت کے مواقع آتے ہیں۔ مگر ایسے مواقع پر آدمی کو پُر امن تدبیر پرر کے رہنا ہے۔ اس کے لیے کسی حال میں یہ جائز نہیں کہ وہ حد کو پار کر کے ٹکراؤ اور تصادم کے میدان میں داخل ہو جائے۔
او پر جو حدیث نقل کی گئی ، اس سے ایک اور اسلامی اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اگرایک آدمی غلطی کر بیٹھے تو دوسرے آدمی کو چاہیے کہ وہ اس سے اعراض کرے ، وہ ہر گز جوابی غلطی نہ کرے ۔ جوابی غلطی ، ایک غلطی کو دو غلطی بنا دیتی ہے ۔ وہ اس برائی میں مزید اضافہ کر دیتی ہے جس کو برداشت نہ کر کے اس کے خلاف اقدام کیا گیا تھا ۔
یہ خدا اور رسول کا حکم ہے۔ اس کے مطابق آدمی کو پہلی غلطی سے بھی بچنا ہے اور دوسری جوابی غلطی سے بھی ۔کیوں کیوں کہ پہلی غلطی کرنے والا اگر ظالم ہے تو دوسری غلطی کرنے والا لاغی ۔
اس دنیا میں سب سے بڑا ظلم کرنے والا وہ ہے جو جارحیت کا آغاز کرے ۔ اور سب سے زیادہ لغو کام کرنے والا وہ ہے جو ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کرے ۔ اللہ سے ڈرنے والےلوگوں کو ظلم سے بھی بچنا ہے اور لغو کام کرنے سے بھی ۔
اسلام اولاً فساد کی پہل کرنے والوں کو روکتا ہے ۔ اور اگر کوئی شخص پہلی نادانی کر بیٹھے تواسلام کا تاکیدی حکم یہ ہے کہ فریق ثانی ہرگز دوسری نادانی نہ کرے ۔
ہندستان میں ہولی کے دن ایک ہندو کچھ مسلمانوں کے اوپر رنگ ڈال دیتا ہے ۔ مسلمان مشتعل ہو کر لڑنے لگتے ہیں۔ اور پھر ساری بستی میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑتا ہے۔ پاکستان کے ایک ہوٹل میں کسی مسئلہ پر تکرار ہوتی ہے۔ ایک پھٹان کچھ مہاجرین کے اوپر گرم چائے کی پیالی پھینک دیتا ہے۔ یہ مہاجرین مشتعل ہو کر لڑ پڑتے ہیں۔ اور اس کے بعد پورے شہر میں مہاجر مسلمان اور پٹھان مسلمان کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے ۔
ان واقعات میں بلا شبہ فساد کا آغاز کرنے والا ہندستان میں ہندو اور پاکستان میں پٹھان ہے۔ مگر قرآن کی رو سے دیکھئے تو دونوں جگہ فساد کو بڑھانے کی ذمہ داری فریق ثانی پر عائد ہوتی ہے۔ ہندستان میں مسلمان کے اوپر اور پاکستان میں مہاجر کے اوپر ۔ کیوں کہ دونوں جگہ فریق ثانی نے یہ کیا کہ فریق اول کے جس واقعہ پر قرآن نے عفو و درگزر کا حکم دیا تھا۔ اس کو انھوں نے انتقام اور جوابی کارروائی کا عنوان بنایا ۔
موجودہ دنیا دارالامتحان ہے۔ یہاں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے ۔ اس لیے مذکورہ نوعیت کے چھوٹے چھوٹے واقعات بہر حال ہر جگہ پیش آئیں گے ، خواہ وہ مسلم ملک ہو یا غیر مسلم ملک۔ یہ اس تخلیقی منصوبہ کا فطری نتیجہ ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا کو بنایا ہے۔ اسی لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات کو اعراض کے خانےمیں ڈال دو۔ اس کو اشتعال اور انتقام کا مسئلہ نہ بناؤ –––– اب جو شخص ایسانہ کرے وہ بلا شبہ غلطی پر ہے۔ کیوں کہ وہ خدا کے نظامِ تخلیق پر راضی نہیں ہوا ۔
ہندستان اور پاکستان میں جو لوگ عفو و درگزر کے اصول کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، وہی لوگ" پٹرو ڈالر" کے ملکوں میں جا کر مبالغہ کی حد تک عفو و درگزر کے اصول کی پابندی کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی نظر میں قرآن کے حکم کی اتنی اہمیت نہیں جتنی اہمیت پٹرو ڈالر کے حکم کی ہے۔ اس سے زیادہ عجیب بات ہے کہ اس کے باوجود یہ لوگ اپنے آپ کو قرآن کا مؤمنِ کامل سمجھتے ہیں ۔