خدا کی عظمت
خدا کی معرفت ایمان اور اسلام کی اساس (basis) ہے۔ جتنی اعلیٰ معرفت، اتنا ہی اعلیٰ ایمان۔ اِس معرفت کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے، جب کہ آپ خدا کو اس کے کمالِ عظمت کے ساتھ دریافت کریں۔ ایک بندہ جب خدا کو اس کی عظمتوں کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اس کا وہی حال ہوتا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (8:2) ۔ یعنی خدا کی یاد سے اُن کے دل دہل اٹھتے ہیں۔جدید فلکیاتی سائنس (modern astronomy) کا اِس معاملے میں ایک مثبت کنٹری بیوشن (contribution) یہ ہے کہ اس نے خالق کی ناقابلِ قیاس عظمت کا ادراک کرنے کے لیے ایک فریم ورک (framework) دے دیا ہے۔ اِس فریم ورک کی مدد سے انسان خدا وند ذوالجلال کی ناقابلِ بیان عظمت کا ایک تصور اپنے ذہن میں لاسکتا ہے۔
جدید سائنس کئی سوسال سے فلکیات کامطالعہ کررہی ہے۔ 1608ء میں دور بین (telescope) کی ایجاد ہوئی، اور 1609میں پہلی بار اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (Galileo) نے خلا کا دوربینی مشاہدہ کیا۔ یہ فلکیاتی مشاہدہ برابر بڑھتا رہا۔ پچھلے زمانے میں دور بینی رصد گاہ کسی پہاڑ پر نصب کی جاتی تھی۔ اب خلائی سائنس کا زمانہ آگیا ہے۔ اب انسان نے خلائی رصد گاہ (space observatory) بنالی ہے۔ اِس کے ذریعے کائنات کا مشاہدہ اتنی زیادہ دور تک کرنا ممکن ہوگیاہے جس کی دوری کو صرف سالِ نور (light years) کی اصطلاح میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اِس طرح خدا کی عظمت کو تصور میں لانے کے لیے ایک نیا وسیع تر دائرہ انسان کے علم میں آگیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک تازہ ترین فلکیاتی دریافت (discovery) سامنے آئی ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ خلا میں نصب الکٹرانک دور بینوں کے ذریعے ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت ہوا ہے۔ یہ بلیک ہول پورے نظامِ شمسی (solar system) کو نگل سکتا ہے۔ نظام شمسی کا دائرہ کتنا زیادہ بڑا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے اِس نظام کا بعید ترین سیارہ پلوٹو (Pluto) ہے جو سورج کے گرد بیضوی دائرے میں چکر لگا رہاہے۔ یہ دائرہ ساڑھے سات بلین میل پر مشتمل ہے۔
مذکورہ بلیک ہول اب تک کے دریافت کردہ تمام بلیک ہول سے زیادہ بڑا ہے۔ اس کا حجم 6 بلین سورج سے بھی زیادہ ہے۔ اِس بلیک ہول کا نام M 87 رکھا گیاہے۔ یہ بلیک ہول ہماری کہکشاں(Milky Way) ے 50 ملین سال نور کی دوری پر واقع ہے:
This black hole can eat the solar system: Astronomers have discovered what they say is the biggest ever black hole which weighs the same as 6.8 billion suns and could swallow our entire solar system. According to the scientists, the black hole, identified as M87, is as large as the orbit of Neptune and is by far the largest and most distant galaxy in the nearby universe. As a point of comparison, the black hole at the centre of the Milky Way is 1,000 times smaller than this one which has been observed some 50 million light years away. (The Times of India, New Delhi, Tuesday, January 18, 2011 Page 19)
یہ واقعہ اور اِس طرح کے دوسرے واقعات معرفتِ الٰہی کے لیے عظیم خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ واقعات خدا کی قدرت کو ناقابلِ قیاس حد تک عظیم بنادیتے ہیں۔ جو آدمی اِن واقعات پر سوچے گا، اس کا دل خدا کی عظمت کے تصور سے دہل اٹھے گا، اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ واقعات ایک انسان کو اپنے بارے میں انتہائی عجز اور خدا کے بارے میں انتہائی قدرت کی یاد دلاتے ہیں۔ اِن واقعات پر غور کرنا بلاشبہ اعلیٰ معرفت کے حصول کا کائناتی خزانہ ہے۔
معرفت یہ ہے کہ آدمی ایک طرف اپنی محدودیت (limitation) کو جانے اور دوسری طرف وہ خدا کی لامحدودیت کو دریافت کرے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں جو کیفیت آدمی کے اندر پیداہوتی ہے، اُسی کا نام معرفت ہے۔ یہ معرفت جس کو حاصل ہو جائے، اس کے لیے گویا دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کے دروازے کھل گئے۔ یہی وہ خوش قسمت انسان ہے جس کے بارے میں آخرت میں کہاجائے گا — تم جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہو، جنت میں داخل ہوجاؤ۔ آج کے بعد تمھارے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔