پوشیدہ جنت
قرآن میں ہے کہ جو لوگ ایمان والی زندگی گزاریں، ان کے لیے آخرت میں جنت کا انعام ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(32:17)۔ تو کسی کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔ اس آیت میں اُخفی لہم کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہےان کے لیے چھپا کر رکھنا (kept hidden for them)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت مستقبل میں بنائی جانے والی دنیا نہیں ہے، بلکہ آج ہی بنائی ہوئی موجود ہے۔ جس طرح ہماری زمین ایک بالفعل موجود دنیا ہے، اسی طرح جنت ایک ایسی دنیا ہے جو بالفعل موجود ہے۔
سیارۂ ارض کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ شمسی نظام (solar system) کا ایک سیارہ ہے، جو ہمارے لیے بذریعہ دوربین (telescope) قابلِ مشاہدہ ہے۔ لیکن جنت اس طرح ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں۔ کسی بھی دوربین کے ذریعہ ہم جنت کو دیکھ نہیں سکتے۔ البتہ سائنسی دریافت نے ہمارے لیے ایک قیاس کا موقع فراہم کیا ہے۔ سائنسی دریافت یہ کہتی ہے کہ اسپیس کا بڑا حصہ ڈارک میٹر (dark matter) کی صورت میں ہے۔ یعنی وہ اسپیس میں موجود ہے، لیکن ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اب جنت پر یقین کرنے کے لیے یہ قیاس قائم کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی دنیا غالباً ڈارک میٹر کے درمیان اسپیس میں کسی مقام پر چھپی ہوئی موجود ہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہے (الذاریات 49:)۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہماری زمین کا بھی ایک جوڑا (pair) ہے۔ اسی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دوسری دنیا موجودہ زمین کی تکمیل ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی انسان کی آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں۔ یہاں کسی بھی انسان کو اس کی خواہش کے اعتبار سے fufilment نہیں ملتا۔ یہ صورتِ حال اس بات کا قرینہ ہے کہ یہی دوسری دنیا شاید وہ دنیا ہے جس کو ابدی جنت کا نام دیا گیا ہے۔