معرفت قرآن
قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں فطرت کے مظاہر کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مثلا پہاڑ کا حوالہ، بارش کا حوالہ ، وغیرہ۔ ان حوالوں کو علمی زبان میں مظاہر فطرت (phenomena of nature) کہا جاتا ہے۔مگر یہ حوالے اشارے کی زبان میں ہیں۔ ان کی تفصیلی واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کو انسان کی دریافت کردہ معلومات کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اس حیثیت سے انسانی تحقیق کے ذریعہ ان فطری مظاہر پر جو دریافتیں ہوئی ہیں، وہ دریافتیں قرآن کی تفسیر کے لیے عملی ضرورت کے اعتبار سےاسی طرح اہم ہیں، جس طرح تفسیر قرآن کے دوسرے متفقہ مصادر ۔ مثلاً شان نزول کی روایتیں، وغیرہ۔
اس سلسلے میں یہاں قرآن کی دو آیتیں قابل مطالعہ ہیں۔وہ آیتیں یہ ہیں: وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ ۔ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (27:92-93)۔ یعنی اور یہ کہ میں قرآن کو سناؤں۔ پھر جو شخص راہ پر آئے گا تو وہ اپنے لئے راہ پر آئے گا اور جو گمراہ ہوا تو کہہ دو کہ میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ اور کہو کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے، وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے، اور تمہارا رب اس سےبے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔
قرآن کے اس بیان پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں قرآن کی معرفت کا ایک اصول بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں فطرت کے مظاہر کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ذکر اشاراتی زبان میں ہے۔ ان مظاہر فطرت میں جو معرفت کی بات موجود ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان اشارات کی تفصیل معلوم کی جائے۔ یہ تفصیل خود قرآن میں مذکور نہیں، وہ فطرت کے خارجی علم کا سائنسی مطالعہ کرنےسے معلوم ہوتی ہے۔ گویا کہ فطرت کا علم ان آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کی سائنسی تفسیرکی حیثیت رکھتا ہے۔
سیریکم آیاتہ فتعرفونھا میں ضمیر ھا کا مرجع آیا ت ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ تائیدی معلومات (supporting data) ہیں، جو مستقبل میں سائنسی مطالعے کے ذریعہ دریافت ہوں گی، اور قرآن کی آیت میں جو چیز اشارے کی زبان میں کہی گئی ہے، اس کو انسان تفصیل کی زبان میں جان لے گا۔ قرآن کی اس آیت میں سیریکم آیاتہ سے مراد قرآنی بیان کا وہ سپورٹنگ ڈیٹا (supporting data) ہے، جو بعد کو دریافت ہوگا، اور فتعرفونہا کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ نشانیوں سے معرفت کے درجے میں واقف ہوجانا۔
مثلاً اس سلسلۂ بیان میں اوپر کی آیت میں پہاڑ کے بارے میں یہ کہا گیاہے : اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتے ہو کہ وہ جمے ہوئے ہیں، مگر وہ چل رہے ہیں جیسے بادل چلتے ہیں۔ یہ اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو محکم کیا ہے۔ بیشک وہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو (27:88)۔ یہ آیت قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں پہاڑوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بظاہر وہ پہاڑ زمین پر ساکن نظر آتے ہیں، مگر حقیقت کے اعتبار سےوہ زمین کے ساتھ چل رہے ہیں، جس طرح تم بادلوں کو چلتے ہوئےدیکھتے ہو۔ یہ ایک فطرت (nature) کا واقعہ ہے۔ لیکن ساتویں صدی میں انسان اس کو نہیں جانتا تھا۔ بعد کو فلکیاتی مطالعے سے معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو زمین کی اپنے محور (axis)پر گردش کرنے سے پیش آتا ہے۔ گویا موجودہ زمانے کی یہ فلکیاتی دریافت قرآن کی آیت کو معرفت کے درجے میں قابل فہم بنا دیتی ہے۔