قرآن کی سائنسی تفسیر
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین موجود ہیں اور اِن حوالوں کو لے کر قرآن کی سائنسی تفسیرکی جاسکتی ہے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گئے ہیں جس کو صرف غیرعلمی نقطۂ نظر کہاجاسکتا ہے۔ مثلاًاُن کا یہ کہنا کہ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (94:1)میں علم تشریح الابدان (anatomy)کا حوالہ ہے۔اور فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (50:22)میں علم امراضِ چشم کا بیان ہے، وغیرہ۔
قرآن میں سائنسی مضامین کا یہ نظریہ بلاشبہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن ان معنوں میں ہرگز کوئی سائنسی کتاب نہیں۔ لیکن ایک اور اعتبار سے یہ بات بالکل درست ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی تحقیقات فہمِ قرآن میں مدد گار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے:وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (21:30)۔ یعنی اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ یہ بات پچھلے دور کا قاریٔ قرآن بھی ابتدائی طور پر جانتا تھا، مگر موجودہ زمانے کا قاریٔ قرآن جب اِس آیت کو سائنس کی نئی دریافتوں کے ساتھ ملا کرپڑھتا ہے تو وہ اس کی مزید تفصیل جان لیتا ہے۔اِس بنا پر قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
اِسی طرح سورہ یٰس میں یہ آیت ہے: وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ(36:40)۔ یعنی اور سب ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں۔ اِس آیت میں اجرامِ سماوی کی گردش کے بارے میں جوبات کہی گئی ہے، اُسے قدیم زمانے کا قاریٔ قرآن بھی سمجھ سکتا تھا، لیکن آج کا ایک قاریٔ قرآن جب جدید سائنسی دریافتوں کو لے کر اِس آیت کو پڑھتا ہے تو وہ مزید اضافے کے ساتھ اِس آیت کو سمجھنے لگتاہے۔ اِس طرح قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
قرآن کی سائنسی تفسیر کا ایک تصور غلو پر مبنی ہے تو قرآن کی سائنسی تفسیر کا دوسرا تصور حقیقت پر مبنی ہے۔ پہلا تصور یقینی طورپر غلط ہے، اور دوسرا تصور یقینی طورپر درست۔