معرفت کی تاریخ
کائنات اور انسان کی صورت میں جو عظیم دنیا ہمارے سامنے ہے، وہ بلاشبہ ایک خدائی منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور خدائی منصوبے کے مطابق، اس کا ایک بامعنی انجام ہونا مقدر ہے۔ یہ بلاشبہ سنجیدہ مطالعے کا ایک موضوع ہے۔ اس کا تعلق ہر فرد سے بھی ہےاور پوری انسانی تاریخ سے بھی۔ اس معاملے میں متعلق لٹریچر (relevant literature)کے گہرے مطالعے سے جو تصویر بنتی ہے، اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے۔ علمی مطالعہ کے مطابق، اللہ رب العالمین نے موجودہ کائنات کا آغاز تقریباً تیرہ بلین سال پہلے کیا۔ اس مدت میں منصوبہ بند اندازمیں تدریجی (gradually) طور پر پوری کائنات وجود میں آئی ۔ اس مدت کو توسیعی تقسیم (broad division)کے مطابق چھ بڑے ادوار (periods) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
-1 اس سلسلے میں معلوم طور پر، پہلا واقعہ جو اس کائنات میں پیش آیا، وہ یہ تھا کہ خالق نے تقریبا 13 بلین سال پہلے خلا (space) میں ایک عظیم دھماکہ مینج (manage) کیا۔ اس دھماکہ کو انگلش عالم فلکیات (astronomer) فریڈ ہائل (Fred Hoyle)نے 1949 میں بگ بینگ (Big Bang) نام دیا ۔یہ بگ بینگ اب سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ (established fact)بن چکا ہے۔ اس دھماکہ سے موجودہ کائنات کا آغاز ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا (21:30) ۔یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔
اس کا مطلب سائنسی معلومات کی روشنی میں یہ ہے کہ ابتدا میں ایک عظیم گولا(super atom) تھا، جس کے اندر کائنات کے تمام پارٹیکل موجود تھے۔ اس دھماکے کے بعد بگ بینگ کے پارٹیکل (particles)وسیع خلا میں تیزی سے پھیل گیے۔ اور پھر ایک حکیمانہ منصوبہ کے تحت مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ان ذرات(particles) کے مجموعے سےموجودہ کائنات وجود میں آئی۔
-2مذکورہ تدریجی عمل کا دوسرا بڑا واقعہ وہ ہے جس کو سولر بینگ (Solar Bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد لمبے عمل (process)کے تحت شمسی نظام اپنے تمام سیاروں (planets) کے ساتھ وجود میں آیا۔ اس کائناتی واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ یَسْبَحُونَ (21:33)۔ یعنی اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے۔ سب ایک ایک مدار (orbit)میں تیر رہے ہیں۔
یہ شمسی نظام ایک عظیم کہکشاں (galaxy) کے ایک کنارے پر قائم کیا گیا ہے، جس کو ملکی وے (Milky Way) کہا جاتا ہے۔ اس طرح شمسی نظام کو کائنات میں ایک محفوظ علاقہ (area) مل گیا۔اس حقیقت کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں کیا گیاہے: فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ، وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (56:75-76) ۔یعنی میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی۔ اور اگر تم جانو تو بیشک یہ بہت بڑی قسم ہے ۔یہاں مواقع سے مراد محل وقوع ہے۔ اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ شمسی نظام کو نہایت بامعنی طور پرعظیم ملکی وے کے ایک کنارے پر قائم کیا گیا ہے۔ اس محل وقوع کی بنا پر شمسی نظام کو ایک محفوظ علاقہ (safe area) مل گیا ، جو انسان جیسی مخلوق کی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
-3کائنات میں تیسرا واقعہ وہ ہے جس کو واٹر بینگ (water bang) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی سیارۂ ارض کا ٹھنڈا ہونا اور پھر زمین کے اوپر پانی کے ذخائر کا وجود میں آنا، اور پھر پانی کی وجہ سے ہر قسم کی زندگیوں کا پیدا ہونا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (21:30)۔یعنی اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔تمام زندہ چیزوں کے وجود کا بڑا حصہ پانی ہوتا ہے۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے ،انسان کا جسم تقریبا 60 پرسنٹ پانی پر مشتمل ہے۔
Water is of major importance to all living things, in some organisms, up to 90% of their body weight comes from water. Up to 60% of the human adult body is water.
-4چوتھا بڑا واقعہ جو زمین پر پیش آیا وہ دنیائے نباتات کا وجود میں آنا تھا۔ اس کو پلانٹ بینگ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد زمین جو پہلے خشک کرہ کی مانند تھی، اب سر سبز سیارہ (Green Planet) کی صورت اختیار کرگئی۔اس واقعہ کا اشارہ قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصراتِ مَاءً ثَجَّاجًا ، لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا، وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا(78:14-16)یعنی اور ہم نے پانی بھرے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔ تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے اگائیں غلہ اور سبزی۔ اور گھنے باغ۔
-5اس سلسلہ کا پانچواں دور وہ ہے جب کہ زمین پر مختلف قسم کی جاندار چیزیں وجود میں آئیں، کیڑے مکوڑوں سے لے کر ہاتھی اور شیر تک۔ تخلیق کے اس پانچویں فیز (phase)کو انیمل بینگ (animal bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں مختلف قسم کے بیشمار جاندار اشیاء (species) پیدا ہوئیں، جن کی واقعی تعداد اب تک نامعلوم ہے:
Eight million seven hundred thousand is the latest estimated total number of species on Earth and the most precise calculation ever offered, according to a study co-authored by a researcher with the United Nations Environment Programme (UNEP). Around 6.5 million species are found on land and 2.2 million (about 25 percent of the total) dwell in the ocean depths. The report also shows that 86% of all species on land and 91% of those in the seas have yet to be discovered, described or catalogued.
-6اس سلسلہ میں چھٹا بینگ وہ تھا جس کو ہیومن بینگ (Human Bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس آخری دور میں انسان کو پیدا کیا گیا ، اور نسل درنسل پھیلتا ہوااس زمین (planet earth)پر آباد ہو گیا۔ بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقریبا 13 بلین سال کے دوران تمام تخلیقی واقعات منصوبہ بند انداز میں پیش آئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آخر کار انسان کو پیدا کرکے اس کو زمین پر آباد کیا جائے۔ اور پھر انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی آزادانہ کوشش سے اس چیز کو وجود میں لائے جس کو تہذیب (civilization) کہا جاتا ہے۔تہذیب گویا محدود معنی میں کلمات اللہ (31:27, 18:109) کی جزئی اَن فولڈنگ (unfolding)تھی۔ فطرت کے اس طریقِ عمل کا یہ نتیجہ تھا کہ انسان کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی عقل کو اعلیٰ ارتقائی درجہ (high level of development) تک پہنچا سکے۔
موجودہ کائنات کے دو حصے ہیں، انسانی دنیا (human world)اور دوسرے غیر انسانی دنیا(non-human world) ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر انسانی دنیا خارجی طور پر مینج کی جانے والی دنیا (externally managed world) ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی دنیا خود مینج کی جانے والی دنیا (self-managed world) ہے۔ اب تاریخ ایک ایسےاعلی ترقی یافتہ دور (super developed world)کی طرف جارہی ہے جہاں ماضی کے ریکارڈ کے مطابق غیر مطلوب انسانوں کو چھانٹ دیا جائے، اور مطلوب انسانوں کو الگ کرکے یہ موقع دیا جائے کہ وہ آئیڈیل ورلڈ میں ابدی راحت کی زندگی گزاریں۔یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیاهے — صادقین زمین کے وارث ہوں، اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے:
The righteous will inherit the land, and dwell in it permanently. (Psalm: 37:29)
بائبل میں مذکور اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (21:105)۔یعنی اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
یہ دنیا پوری تاریخ بشری کے منتخب انسانوں کا معاشرہ ہوگا۔ یہ منتخب افراد دراصل دورِ ماضی کے تربیت یافتہ افراد (trained individuals)ہوں گے۔ یہاںپوری تاریخ کے منتخب افراد (selected people of history) کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اعلیٰ فکری سرگرمیوں (high level of intellectual activities)کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اس اعلی معاشرہ (high society)کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (4:69)۔ یعنی یہ اہل جنت ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ اس اگلے دورِ حیات کو قرآن میں جنت (Paradise)کا نام دیا گیا ہے۔
انسان کائنات کا ہیرو ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کے اعتبار سے انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ لیکن انسان موجودہ دنیا میں صرف محدود مدت کے لیے رہتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی اوریج (average) عمر تقریباً 70 سال ہے۔ ابدیت کا طالب انسان عملاً ابدیت کو پانے سے محروم رہتا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ محرومی کی بات نہیں۔ ایسا خالق کے تخلیقی پلان کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ انسان کی اپنی خواہش کی بنا پر۔ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں صرف محدود مدت تک کے لیے رہنا ہے۔ اس کے بعد انسا ن کو اس کے ہیبیٹاٹ (habitat)میں پہنچادیا جاتا ہے، جہاں اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی پسند کی دنیا میں ابدی طور پر رہے۔
یہاں انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کے پلان کو جانے اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرے۔ انسان کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ لیکن اپنے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنا مکمل طور پر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر اس پرسنالٹی کو ڈیولپ کرے جس کی وجہ سےوہ اگلی دنیا میں بننے والی پیراڈائزکے لیےمستحق امیدوار(deserving candidate) قرار پائے۔
اس تخلیقی مقصد کی بنا پر ایسا ہوا کہ خالق نے پوری کائنات کو کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) بنایا۔ اس واقعہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (45:13)۔ یعنی خدا نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔آیت میں جمیعا منہ کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ تسخیر کا یہ معاملہ اتفاقی طور پر نہیں ہوا، بلکہ وہ خالق کے باقاعدہ منصوبہ (well-considered plan) کے تحت ہوا ہے۔
انسان اس پوری کائنات میں ایک خصوصی تخلیق کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان کو اس کے خالق نے دماغ (mind) دیا، جو کسی بھی دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوا۔ انسا ن کو اس کے خالق نے لامحدود صلاحیتیں دی ہیں۔ مزید یہ کہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو امانت الٰہی (الاحزاب 72:) سے سرفراز کیا گیا۔ انسان واحد مخلوق ہے جس کو کامل آزادی (total freedom) دی گئی ہے۔ انسان کے لیے یہ مقدر کیا گیا ہے کہ اگر وہ آزادی پاکر اس کا غلط استعمال (misuse) نہ کرے، بلکہ آزادی کو وسیع تر تخلیقی نقشہ (Creation plan of God)کےمطابق استعمال کرے تو اس کے لیے ابدی جنت (eternal Paradise) کا انعام (reward)ہے۔
مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے سوا جو دوسری مخلوقات ہیں، مادیات، نباتات، حیوانات، وہ سب کی سب فطرت کے قانون (law of nature) کے ماتحت ہیں۔ حتی کہ حیوانات بھی مکمل طور پر اپنی مقرر کردہ جبلت (instinct) کے تحت کام کرتے ہیں۔ یہ صرف انسان ہے جو اس معاملے میں استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کو یہ موقع ہے کہ وہ اپنے ذاتی ارادے کے تحت سوچے اورکامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔
اس میں شک نہیں کہ انسان مکمل طور پر ایک آزاد مخلوق ہے۔ لیکن یہ آزادی صرف ذاتی عمل کے اعتبار سے ہے۔ یعنی انسان آزاد ہے کہ وہ وسیع تر نقشۂ تخلیق کے مطابق عمل کرے یا اس کا باغی بن جائے۔ لیکن جہاں تک عمل کے نتیجہ کا تعلق ہے، اس پر انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہاں خالق نے مقدرکیا ہے کہ انسان اگر خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق عمل کرے تو اس کے لیے ابدی جنت ہے۔ اور اگر وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کی خلاف ورزی کرے تو اس کے لیے ابدی جہنم ہے۔
رب العالمین کے اس تخلیقی نقشہ کو قرآن میں اشارات کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مادی کائنات کی تخلیق کے بعد انسان کو پیدا کیا گیا ، اور اس کو زمین پر خلیفہ (البقرۃ30:) کی حیثیت سے آباد کیا گیا۔خلیفہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو انسانی زبان میں انچارج کہا جاتا ہے۔فرشتے خدا کے حکم کے مطابق، کائنات کا نظام اس طرح چلا رہے ہیں کہ ہمیشہ انسان کے لیے وہ ایک موافق دنیا بنی رہے۔ اس کے بعد انسان نے جب نیچر کے خفیہ رازوں کو دریافت کرنا شروع کیا اور ٹکنالوجی پر مبنی تہذیب کی تشکیل کی تو اس معاملے میں بھی انسان کو مسلسل طور پر فرشتوں کی مدد حاصل رہی۔ اس کا اشارہ پیغمبر نوح کی کشتی سازی کے ذکر میں اس طرح کیا گیا ہے:وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا (11:37)۔اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ یہی واقعہ جدیدتہذیب (modern civilization) کی تشکیل کے معاملہ میں پیش آرہا ہے۔ گویا خالق نے انسان سے یہ کہہ دیا کہ اصنع الحضارۃ باعیننا و وحینا۔ یعنی تہذیب بناؤ ہماری آنکھوں کے سامنے، اور ہماری وحی کے مطابق۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر سائنسی دریافتیں کسی نہ کسی اتفاق (chance)کے ذریعہ وجود میں آئیں۔تفصیل کے لیے وکی پیڈیا پر یہ مضمون دیکھا جاسکتا ہے:
"Role of Chance in Scientific Discoveries".
یہ اتفاقات محض اتفاقات نہیں ہیں ، بلکہ وہ فرشتوں کے تعاون کی مثالیں ہیں، جو غیر مرئی مدد کے طور پر سائنسدانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اس قسم کے اتفاق کے لیے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جس کو سرنڈیپیٹی (Serendipity)کہا جاتا ہے:
Serendipity is a happy and unexpected event that apparently occurs due to chance and often appears when we are searching for something else. Serendipity...happens in our daily lives and has been responsible for many innovations and important advances in science and technology.
تاریخ انسانی کے دوسرے دور میں ایک نئی دنیا بنائی جائے گی۔ یہ دنیا، اسی زمین و آسمان کے اندر ہوگی۔ لیکن اس وقت زمین و آسمان ایک بدلے ہوئے زمین و آسمان ہوں گے(ابراہیم48:)۔ اسی بدلی ہوئی کائنات میں جنت واقع ہوگی۔ اس جنت کا کیمپس اتنا بڑا ہوگا جتنے بڑے موجودہ زمین و آسمان (آل عمران 143:)ہیں۔ اس اعلی جنت کا انتظام دوبارہ فرشتے کریں گے۔ انسان کے لیے اس جنت میں ہر قسم کی مطلوب چیزیں موجود رہیں گی(فصلت31:) ۔ جنت کی یہی وہ معیاری دنیا ہے جو منتخب لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ بائبل میں ان کے لیے صادقین (righteous) کا لفظ آیا ہے، اور قرآن میں اسی کا ہم معنی صالحین کا لفظ استعمال ہواہے۔ یہاں وہ اعلی معرفت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔
انسان کےساتھ تخلیق کا یہ معاملہ بیحد نازک معاملہ تھا۔ یہاں ضروری تھا کہ انسان کو صحیح رہنمائی (right guidance) ملے، جو انسان کو خالق کے تخلیقی نقشہ سے باخبر کرے۔ اور یہ بتائے کہ انسان کے لیے اپنی آزادی کو استعمال کرنے کا درست لائحہ عمل کیا ہے۔
انسان کی یہی ضرورت ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اللہ نے انبیاء (prophets) بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ انبیاء مکمل طور پر انسان تھے۔ البتہ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ خالق نے تقریباً 40 سال کی عمر تک ان کا جائزہ لینےکے بعد یہ پایا کہ وہ کارِ نبوت کی انجام دہی کے لیے ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے لائق (competent) فرد ہیں۔ اس طرح ہر نبی کی انفرادی خصوصیت کی بنا پر اس کا انتخاب کیا گیا۔ اور فرشتہ جبرئیل کے ذریعہ خالق نے ان کو اپنی رہنمائی، وحی (revelation) کے ذریعہ بھیجی، اور ان پر کتاب نازل کی تاکہ وہ خالق کے نمائندہ (representative) کی حیثیت سے انسان کو درست رہنمائی (right guidance) دیں۔ اور پھر انسان ان کی رہنمائی کے مقابلے میں جو رسپانس (response) دے ، اس کے ریکارڈ کو دیکھ کر ہر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔
اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔
انذار و تبشیر کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیغمبروں کا مشن خالص اخروی مشن تھا۔ ان کے مشن کا فوکس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ انسان کے لیے وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو ابدی جنت تک پہنچانے والا ہے، اور وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو اس خطرے (risk) میں ڈالتا ہے کہ اگلے دورِ حیات میں اس کو ابدی طورپر جہنم والوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔
پیغمبروں کے ذریعے انسان کو جو رہنمائی ملی، اصولی طور پر اس کا خلاصہ دو چیزیں تھیں:
(1) نظریۂ توحید (Ideology of Tawheed)
(2) طریقِ کار (Method)
پیغمبرانہ طریقِ کار ایک لفظ میں غیر نزاعی طریق کار (non-confrontational method)ہے۔نظریہ اور طریق کار کے اعتبار سے یہی دو چیزیں پیغمبروں کے ذریعے انسان کو دی گئیں۔
پہلے انسان (آدم) سے لے کر محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر انسان کی طرف آئے۔ انھوں نے انسا ن کو بتایا کہ یہ زمین تمھارے لیے ابدی قیام گاہ (eternal habitat) نہیں ہے، بلکہ یہ تمھارے لیے ایک عارضی قیام گاہ (temporary abode) ہے۔ یہاں تمھیں یہ موقع دیا گیا ہے کہ تم اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق (deserving candidate) بناؤ، اور تاریخِ انسانی کے خاتمہ پر جنت کی شکل میں اپنے مطلوب ابدی ہیبیٹاٹ (habitat) میں جگہ پاؤ۔ ساتویں صدی عیسوی میں محمد عربی کے ظہور کے بعد انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ مگر خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان پھر بھی پیدا ہوکر زمین پر آباد ہورہے تھے۔ اب یہ سوال تھا کہ بعد کو پیدا ہونے والے انسانوں تک خدائی رہنمائی کی نمائندگی کون کرے۔
ساتویں صدی عیسوی میں ختم نبوت سے پہلے خدا کی طرف سے اس رہنمائی کی ذمہ داری پیغمبروں نے ادا کی۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر امت وسط (middle ummah)کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف اللہ رب العالمین تھا اور ان کے دوسری طرف تمام انسان۔ انھوں نے اس رہنمائی کو اللہ سے لیا اور پورے معنوں میں ناصح اور امین (الاعراف68:) بن کر اس کو انسانوں تک پہنچایا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632 عیسوی میں مدینہ میں ہوئی۔ آپ اللہ کے آخری رسول تھے۔ آپ نے اپنے بعد ہدایت کے دو مستند ذریعے (authentic sources)چھوڑے، ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول۔ اب کوئی پیغمبر دنیا میں آنے والا نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کے مشن کی بات ہے، وہ بدستور جاری ہے۔پہلے انبیاء کی حیثیت امت وسط کی ہوتی تھی، اب پیغمبر آخرالزماں کے متبعین کی حیثیت امت وسط کی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (2:143) ۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔
امت وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle community) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین سب کے سب امت محمدی ہیں۔ ان کی حیثیت دوبارہ امت وسط کی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر، خدا اور انسان کے درمیان امت وسط ہوتے تھے۔ اب پیغمبر آخرالزمان کے متبعین ، محمد بن عبد اللہ اور اقوام عالم کے درمیان امت وسط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیغمبر آخرالزمان کی رہنمائی کو جاننےکا ذریعہ قرآن اور سنت رسول ہے۔ امت کو یہ کرنا ہے کہ خالص موضوعی (objective) انداز میں وہ قرآن اور سنت رسول کا مطالعہ کرے، اوراس کی تعلیمات کو کسی آمیزش کے بغیر پر امن انداز میں ہر دور کے انسانوں تک پہنچاتی رہے۔ یہ کام اس کو تمام اقوام کی قابل فہم زبان میں کرنا ہے۔جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُم(14:4)۔ اس کی پرکٹیکل صورت یہ ہے کہ قرآن کے تراجم تیار کرکے ان کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے۔ یہاں تک کہ حدیث (مسند احمد، حدیث نمبر23814)کے مطابق، وہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں پہنچ جائے۔ یہی امت محمدی کا ابدی مشن ہے۔
خلاصہ یہ کہ امت محمدی کی حیثیت سے مسلمانوں کا ایک ہی مشن ہے۔ اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔دعوت کا یہ پر امن کام مکمل طور پر غیر سیاسی (non-political) اور غیر قومی (non-communal) انداز میں کرنا ہے۔مزید یہ کہ اس کام کو اس اصول کے تحت انجام دینا چاہیے جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ60:) کہا گیا ہے۔ تالیف قلب ایک ابدی اصول ہے۔ وہ کبھی اور کسی حال میں منسوخ ہونے والا نہیں۔