تسخيرِكائنات
انسان كے ليے الله كي ايك نعمت وه هے جس كو تسخير كها گيا هے۔ اِس سلسلے ميں قرآن كي دو آيتيں يه هيں: اَللّٰهُ الَّذِيْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيْهِ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ، وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ ط اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ (45:12-13) يعني الله هي هے جس نے تمھارے ليے سمندر كو مسخر كرديا، تاكه اس كے حكم سے اس ميں كشتياں چليں اور تاكه تم اس كا فضل تلاش كرو اور تاكه تم شكر كرو۔ اور الله نے آسمانوں اور زمين كي تمام چيزوں كو تمھارے ليے مسخر كرديا، سب كو اپني طرف سے۔ بے شك اِس ميں نشانياں هيں اُن لوگوں كے ليے جو غور كرتے هيں۔
تسخير كا مطلب هے كسي چيز كو بزور قابلِ استعمال يا قابلِ انتفاع بنانا۔ الله جو پوري كائنات كا خالق هے، اس نے كائنات كے هر جزء كو قوانينِ فطرت (laws of nature) كا پابند بنا ركھا هے۔ اِس بنا پر يه ممكن هوگيا هے كه انسان مخلوقات كو اپنے مقصد كے ليے استعمال كرے۔ خدائي قوانين كے ذريعے كائنات اگر اِس طرح مسخر نه هوتي تو انسان كے ليے اس كو استعمال كرنا ناممكن هوجاتا۔
اِس كي ايك مثال سمندر كي هے۔ سمندروں كي شكل ميں پاني كے جو قدرتي ذخائر هيں، وه زمین كے تقريباً تهائي حصه (71 %) پر پھيلے هوئے هيں۔ زمين ايك گول كره هے جو مسلسل طور پر گردش كررها هے۔ جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ايك زبردست قانون فطرت پاني كے ان ذخائر كو زمين پر قائم كیے هوئے هے۔
ايك طرف زمين كي غير معمولي كشش زمين كے ذخائر كو اپني طرف كھينچے هوئے هے، اور دوسري طرف سمندر كے اوپر هوا كا تقريباً پانچ ميل موٹا غلاف هے جو سمندر كے اوپر دباؤ بنائے هوئے هے۔ اِن دوطرفه اسباب كي بنا پر ايسا هےكه سمندروں كي گهرائي ميں پاني مسلسل طور پر موجود هے، ورنه پورا ذخيرهٔ آب اڑ كر فضا ميں تحليل هوجاتا۔
يهي معامله سمندر ميں چلنے والي كشتيوں كا هے۔ يهاں بھي خدا كا مقرر كيا هوا ايك قانونِ فطرت كام كررها هے۔ يه ايك آبي قانون هے جس كو آج كل كي زبان ميں هائڈرواسٹيٹكس (hydrostatics) كهاجاتا هے جس كا ايك شعبه بائنسي (buoyancy) هے۔
بائنسي (buoyancy) سے مراد پاني كا يه انوكھا قانون هے كه جب كوئي چيز پاني ميں ڈالي جاتي هے تو وه پاني كے اندر جتني جگه گھيرتي هے، اُسي كے بقدر وهاں اَپ ورڈ پريشر پيدا هوتا هے، جس كے نتيجے ميں كشتي پاني كي سطح پر تيرنے لگتي هے:
Buoyancy: The upward pressure by any fluid on a body partly or wholly immersed therein: it is equal to the weight of the fluid displaced.
تسخير كا دوسرا واقعه وه هے جس كا تعلق بالائي خلا سے هے۔ زمين كے اوپر جو وسيع خلا هے، وه بهت بڑے بڑے نهايت گرم ستاروں سے بھرا هوا هے، اِس ليے اس كو ستاروں كي دنيا (starry universe) كهاجاتا هے۔ يه تمام ستارے هماري زمين سے ايك مقرر دوري پر واقع هيں۔ يه مقرر دوري اگر قائم نه رهے تو هماري پوري زمين جل كر راكھ هوجائے۔
زمين كي سطح سے رات كے وقت جب كھلے آسمان كو ديكھا جائے تو اوپر كي فضا ميں بهت سے چھوٹے چھوٹے ستارے نظر آتے هيں۔ يه ستارے بهت بڑے بڑے ستارے هيں، ليكن دوري كي وجه سے وه چھوٹے نظر آتے هيں۔ آنكھ سے ديكھنے ميں تقريباً دس هزار ستارے دكھائي ديتے هيں۔ يه ستارے وه هيں جو هماري قريبي كهكشاں (Milky Way) سے تعلق ركھتے هيں۔
اِس كے علاوه، وسيع خلا ميں بے شمار بڑے بڑے ستارے هيں جو مسلسل حركت كررهے هيں۔ ايك سو بلين سے زياده كهكشائيں (galaxies) هيں اور هر كهكشاں ميں تقريباً ايك سو بلين ستارے پائے جاتے هيں۔
اِس وسيع عالمِ نجوم كو انسان اپني فطري آنكھ سے نهيں ديكھ سكتا تھا۔ الله تعالي نے هماري دنيا ميں ايسے مادي اسباب ركھ دئے جن كو انسان دريافت كرے اور ان كو ترقي دے كر طاقت ور دوربين (telescope) بنائے۔ چناں چه موجوده زمانے ميں خلائي دور بين كو استعمال كركے انسان بے شمار ستاروں اور كهكشاؤں كو ديكھتا هے۔
سمندروں (اور حيوانات) كے معاملے ميں تسخير كا مطلب يه تھا كه انسان قانونِ فطرت كو جانے اور اس كي مدد سے اِن چيزوں كو اپني ضرورت كے ليے استعمال كرے۔ عالمِ نجوم كے معاملے ميں تسخير كا مطلب اُن كو اپني ضرورت كے ليے استعمال كرنا نهيں هے، بلكه اِس كا مطلب يه هے كه وسيع عالمِ نجوم كو انسان آلات كي مدد سے ديكھے، وه ان پر غور وفكر كرے۔ وه غور وفكر كے ذريعے عالمِ نجوم كو اعلي معرفت كے حصول كا ذريعه بنائے۔
سمندروں اور حيوانات كي تسخير انسان كي خدمت كے ليے هے۔ اور عالمِ نجوم كي تسخير اِس ليے هے كه ان كے ذريعے سے آدمي خالق كي عظمت كو دريافت كرے۔وه اُن ميں غوروفكر كركے اپنے ليے معرفتِ اعلي كا رزق حاصل كرے۔
ایک سائنسداں نے کہا:میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گزار ہوگیا ہوں:
سائنس داں جب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے جس نے اتنی بامعنی کائنات بنائی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ در اصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے، جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طور پر انکارِ خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طور پر اقرارِ خدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ (ڈائری،1985 )