نیچر ورشپ
توحید کیا ہے۔ اس کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (41:37)۔یعنی اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔
قدیم زمانے میں نیچر ورشپ (nature worship) کا رواج چھایا ہوا تھا۔نیچر ورشپ کے کلچر میں قدیم انسان اتنا زیادہ مسحور ہوگیا تھا کہ وہ پیغمبروں کی لمبی کوشش کے باوجود اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ اس منفی تجربے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق، پیغمبر ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ خصوصی تربیت کے ذریعہ ایک نئی قوم بنا ئی جائے۔ جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔
وہ منصوبہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم عراق کو چھوڑ کر اس صحرائی مقام پر جائیں، جہاں اب مکہ آباد ہے، اور یہاں اپنےبیٹے اسماعیل اور اپنی بیوی ہاجرہ کو آباد کریں۔ یہ مقام اس زمانے میں نیچر ورشپ کے ماحول سے بہت دور تھا۔
اس حقیقت کا ذکر پیغمبر ابراہیم کی دعا میں ان الفاظ میں ملتا ہے: رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ (14:35-36)۔ یعنی اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا۔ اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح ختم ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر (فطرت) کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔