کائناتی عبادت
قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (45:13)۔ یعنی اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے ۔ بےشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں ۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ اس کائناتی تسخیر کا مقصد کیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے ، کائنات کی وسعت لامحدود حد تک زیادہ ہے۔ اتنی بڑی کائنات انسان کی رہائش گاہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ انسان اتنی بڑی کائنات کو اپنا رزق بنا ئے۔ پھر اس طرح کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
قرآن کی دوسری آیتوں، مثلاً سورہ آل عمران کی آخری رکوع کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے۔ یہ غور کرنا ، لُبّ (عقل ) کے ذریعے ہوتا ہے ، نہ کہ کسی جسمانی عمل کے ذریعے۔ قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نشانیاں (signs) اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی کوئی گنتی نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ لامحدود کائناتی نشانیاں ہیں جن پر عقل سے تدبر کرکے انسان اپنے رب کی کائناتی عبادت کرتا ہے۔
یہ صرف انسان ہے جو یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ کائناتی نشانیوں میں تدبر (contemplation) کرے۔ یہ تدبر پہلے روایتی فریم ورک میں کیا جاسکتا تھا۔ اب تدبر کا یہ عمل سائنسی فریم ورک میں کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح انسان اللہ کی بے پایاں عظمت کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اللہ سے حبّ شدید اور خوفِ شدید کا تعلق قائم کرتا ہے۔ وہ آخرت کی ابدی جنت کو اپنے تصور میں لاتا ہے۔یہی تدبر ہے، اور اسی تدبر کو کائناتی عبادت کہا گیا ہے۔