گاڈ پارٹكل
گاڈ پارٹكل (God Particle) كيا هے۔ گاڈ پارٹكل كا مطلب خدائي ذره نهيں، گاڈ پارٹكل دراصل ايك سائنسي مسئلے كي سائنسي تشريح (scientific description) هے۔ گاڈ پارٹكل كا تصور دراصل خدا كا مشيني بدل (mechanical substitute of God) هے۔ گاڈ پارٹكل كي دريافت كا براهِ راست طورپر مذهبي عقيدے سے كوئي تعلق نهيں۔
God Particle: The Standard Model of physics is used by scientists to explain the building blocks of the universe. According to this model the universe began with a big bang. The Big Bang theory is widely accepted within the scientific community. This theory states that 13.7 billion years ago the universe was in the shape of a very dense and compact cosmic ball. Then an explosion occurred in this compact ball, and all its constituents started flying apart with the speed of light. All the particles released from this cosmic ball were drifting apart from each other at the speed of light, which is the maximum speed of any object in the universe. Everything in the universe is made up of atoms. These atoms are in turn made up of electrons and protons. But, after the explosion of the Big Bang, electrons and protons were speeding away from each other. These particles could bind together to form atoms only if their speed was decreased. And their speed could be decreased only by being given mass. This is why the Higgs boson is so important. Higgs boson is a subatomic particle. Physicists say its job is to give mass to the particles that make up atoms. Atoms then combined to form molecules, then molecules combined to form compounds, and these compounds gave rise to all the constituents of the universe as it exists today. If the Higgs Boson were taken away, the particles which make up atoms, would have zipped through the cosmos at the speed of light, unable to join together to form the atoms that make up everything in the universe, from planets to people. Then all creation would be unthinkable.
وہ منصوبہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم عراق کو چھوڑ کر اس صحرائی مقام پر جائیں، جہاں اب مکہ آباد ہے، اور یہاں اپنےبیٹے اسماعیل اور اپنی بیوی ہاجرہ کو آباد کریں۔ یہ مقام اس زمانے میں نیچر ورشپ کے ماحول سے بہت دور تھا۔
4جولائي 2012 كو سائنس دانوں نے ايك دريافت كا اعلان كيا۔ اس كو نيرڈسكوري (near discovery)كهاجاتاهے۔ يه دراصل ايك سب ايٹمك پارٹكل (subatomic particle) كي دريافت هے جس كے بارے ميں پچھلے تقريباً 50 سال سے ریسرچ هورهي تھي۔ اِسي درميان 1993 ميں ايك امريكي سائنس داں ليان ليڈرمين (Leon Lederman) نے ايك كتاب تيار كي۔ اس كا ٹائٹل اس نے گاڈ ڈيم پارٹكل (Goddamn Particle)تجويز كيا۔اُس وقت تك يه پارٹكل ايك پراسرار پارٹكل بنا هوا تھا۔ليان ليڈر مين اپني كتاب ميں اِس پارٹكل كا كوئي واضح تصور نهيں دے سكا تھا۔ اس نے جھنجھلاهٹ ميں اپني اِس كتاب كا نام ’گاڈڈيمن پارٹكل‘ ركھ ديا۔’گاڈڈيمن‘ ايك بگڑا هوا نام هے۔ اردو ميں كهتے هيں خدا كي لعنت۔ خراب موسم هو تو كها جائے گا،گاڈ ڈيمن ويدر (Goddamn weather)۔ پبلشر كو كتاب كا يه نام پسند نهيں آيا۔ اس نے بطور خود ’ڈيمن‘ كا لفظ نكال ديا اور كتاب كو ’گاڈ پارٹكل‘ كے نام سے چھاپ ديا۔ اُس وقت سے عوامي طورپر اِس ذرے كو گاڈ پارٹكل كهاجانے لگا۔ تاهم سائنس دانوں كے نزديك اِس ذرّے كا نام هگس بوزان (Higgs Boson) هے۔
بوزان كا لفظ دراصل ’بوس‘ كے نام سے ليا گيا هے۔ ستيندرناتھ بوس (SN Bose) ايك انڈين سائنس داں تھے۔ ان كي وفات 1974ميں هوئي۔ انھوں نے 1924 ميں ’سب ايٹمك پارٹكل‘(behaviour of subatomic particles) كے بارے ميں ايك پيپر تيار كيا تھا۔ اس پيپركو البرٹ آئن سٹائن (وفات 1955:) اور دوسرے سائنس دانوں نے بهت پسند كيا تھا۔ اُس وقت سے اِس پارٹكل كا نام بوزان (boson)پڑ گيا هے۔ اِس مخصوص پارٹكل كو ’بوزان‘ كا نام سب سے پهلے برٹش سائنس داں پال ڈيراك (Paul Dirac) نے ديا تھا۔ اسكاٹ لينڈ كے ايك سائنس داں پيٹر هگس (Peter Higgs) نے 1964 ميں اِس موضوع پر زياده واضح انداز ميں ايك مفصل پيپر تيار كيا ، جس كا ٹائٹل يه تھا:
Broken Symmetries and the Masses of Gauge Bosons
اس وقت سے زير ِ تلاش پارٹكل كو هگس بوزان كهاجانے لگا۔ سائنسي نقطه نظر سے هگس بوزان كي اهميت بهت زياده تھي، اِس ليے وه ساري دنيا كے سائنس دانوں كے ليے تلاش كا موضوع بن گيا۔ آخر كار 1998 ميں اِس موضوع كي تحقيق كے لئے ايك خصوصي سرنگ بنائي گئي۔ اِس سرنگ كو ايك يورپين اداره نے تيار كيا تھا۔ اس كا نام يه هے:
European Oganization for Nuclear Research
اِس سرنگ كا نام يه ہے — لارج هيڈرون كولائڈر(Large Hadron Collider) ۔ اِس پروجيكٹ ميں دنيا كے ايك سو ملك شريك هوئے اور 10 هزار سائنس دانوں اور انجينئروں نے اِس ميں كام كيا۔ 4 جولائي 2012 كو اس پروجيكٹ كے نتيجه (result) كا اعلان كيا گيا۔ سائنس دانوں نے اعلان كيا كه اِس تحقيق ميں وه ’نير ڈسكوري‘ تك پهنچ گئے هيں۔
’هگس بوزان‘ دراصل فزكس كے اسٹينڈرڈ ماڈل كا ايك گم شده پارٹكل هے جو اِس بات كي توجيهه كرتا هے كه ابتدائي انفجار كے بعد كائنات كيسے وجود ميں آئي۔ فزكس كے اسٹينڈر ماڈل كو سائنس داں كائنات كے بلڈنگ بلاك (building block) كي توجيهه كرنے كے ليے استعمال كرتے هيں۔ اِس ماڈل كے مطابق، كائنات كا آغاز بگ بينگ سے هوا۔ بگ بينگ كا نظريه سائنس دانوں كے نزديك عمومي طورپر تسليم كرليا گيا هے۔ يه نظريه بتاتا هے كه 13 بلين سال پهلے كائنات ايك بهت بڑے كاسمك بال كي صورت ميں تھي۔ كائنات كے تمام پارٹكل اس كے اندر شدت سے باهم پيوست تھے۔ پھر اِس كاسمك بال ميں ايك انفجار هوا اور اس كے تمام اجزا چاروں طرف روشني كي رفتار سے سفر كرنے لگے۔ روشني كي رفتار معلوم طورپر سب سے زياده هے جو ايك لاكھ 86 هزار ميل في سكنڈ هوتي هے۔ كاسمك بال سے جو پارٹكل خارج هوئے، وه نهايت تيزي كے ساتھ ايك دوسرے سے دور بھاگ رهے تھے۔هر چيز جو اِس كائنات ميں هے، وه ايٹم سے بني هے۔ يه تمام ايٹم اليكٹران اور پروٹان كے ملنے سے بنتے هيں۔ ضرورت تھي كه يه تمام پارٹكل باهم مليں، ليكن بگ بينگ كے انفجار كے بعد اليكٹران اور پروٹان بھاگ رهے تھے، كيوں كه اُن ميں كميت (mass) نهيں تھي۔ يه ذرات باهم مل كر ايٹم كو صرف اُس وقت بنا سكتے تھے جب كه ان كي رفتار كم هو، اور ان كي رفتار صرف اُس وقت كم هوسكتي تھي جب كه ان كے اندر كميت پيدا هوجائے۔
هگس بوزان كي اهميت يه هےكه وه اِس سائنسي مسئلے كا جواب فراهم كرتاهے۔ هگس بوزان ايك سب ايٹمك پارٹكل كا نام هے۔ سائنس دانوں كے مطابق، هگس بوزان كا كام يه هے كه وه ايٹم كے پارٹكل كو كميت عطا كرے۔ اس كے بعد هي يه ممكن هوتا هے كه ايٹم مل كر مالي كيول (molecule) بنائيں اور پھر مالي كيول كے بننے سے كمپاؤنڈ بنے۔ پھر كمپاؤنڈ كے ملنے سے وه تمام چيزيں بنتي هيں جوكه اِس وقت كائنات ميں موجود هيں۔اگر هگس بوزان نه هوتے تو پارٹكل ميں كميت پيدا نه هوتي جو كه باهم مل كر ايٹم بناتے هيں۔ اِس كا نتيجه يه هوتا كه تمام پارٹكل روشني كي رفتار سے خلا ميں سفر كرنے لگتے، پھر يه ناممكن هوجاتا كه وه باهم مل كر ايٹم بنائيں اور اس كے بعد كائنات كي تمام چيزيں وجود ميں آئيں، ستاروں سے لے كر سياروں تك اور غير ذي روح اشيا سے لے كر ذي روح اشيا تك۔
قرآن كي تصديق
قرآن کی ایک آیت هے:أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا(4:82)۔ يعني كيا يه لوگ قرآن پر غور نهيں كرتے، اگر يه (قرآن) الله كے سوا كسي اور كي طرف سے هوتا تو وه اُس ميں بهت زياده اختلاف پاتے۔
قرآن ساتويں صدي عيسوي كے ربع اول ميں اترا۔ يه سائنس كي دريافتوں سے بهت پهلے كا زمانه تھا۔ اِس قبل دريافت زمانے ميں قرآن كي اِس آيت كا اترنا گويا يه دعوي كرنا تھا كه بعد كي دريافت شده حقيقتيں قرآن كے عين مطابق هوں گي، قرآني بيانات اور دريافتوں كے درميان كبھي عدم مطابقت (inconsistency) نه هوگي۔ اِس طرح يه واقعه اِس بات كي تصديق هوگا كه قرآن عالم الغيب كي كتاب هے، كيوں كه عالم الغيب كے سوا كوئي بھي پيشگي طورپر اِن حقيقتوں كو نهيں بتا سكتا تھا۔
اِس اعتبار سے غور كيا جائے تو معلوم هوتا هے كه بگ بينگ كا تصور اور هگس بوزان كا تصور پيشگي طورپر قرآن ميں موجود تھا۔ اِس سلسلے ميں قرآن كي سوره الانبياء كي درج ذيل آيت كا مطالعه كيجئے: أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ (21:30)۔ يعني كيا انكار كرنےوالوں نے نهيں ديكھا كه آسمان اور زمين دونوں بند تھے، پھر هم نے اُن كو كھول ديا۔ اور هم نے پاني سے هر جان دار چيز كو بنايا۔ كيا پھر بھي يه لوگ ايمان نهيں لاتے۔
قرآن كي اِس آيت ميں تخليق كے تين مرحلوں كا ذكر هے — پهلے مرحلے كو ’رتق‘ كهاگيا هے۔ رتق كا مطلب هےمنضم الأجزاء يعني كائنات كے تمام پارٹكل كا باهم جڑاهوا هونا۔ اِس ميں كاسمك بال كي طرف اشاره ملتا هے۔ دوسرے مرحلے كو قرآن ميں ’فتق‘ سے تعبير كيا گياهے۔ فتق كا مطلب هے: الفصل بين المتصلين، يعني باهم ملي هوئي چيزوں كا ايك دوسرے سے الگ هوجانا۔ اس ميں بگ بينگ كے واقعے كي طرف اشاره هے۔ اِس كے بعد تيسرے مرحلے ميں پاني (الماء) كے بننے كا ذكر هے۔ يهاں پاني كا ذكر علامتي طورپر هے، يعني پاني اور دوسري تمام چيزيں۔
پاني ايك جوهري ماده(substance) هے۔ اِس طرح كے بهت سے جوهري مادّے كائنات ميں پائے جاتے هيں۔ پاني هائڈروجن كے دو ايٹم اور آكسيجن كے ايك ايٹم كے ملنے سے بنتا هے۔ يهي معامله دوسري تمام مادّي چيزوں كا هے۔ هر چيز ايٹم كے ملنے سے بني هے، اور ايٹم اُس وقت بنا جب كه اس كے پارٹكل ميں كميت (mass) پيدا هوئي۔ اِس طرح، اِس آيت ميں پاني كا ذكر كركے اِس نوعيت كي دوسري تمام مادي چيزوں كي طرف اشاره كردياگيا هے، يعني ’فتق‘كے واقعے كے بعد تمام پارٹكل ميں كميت كا پيداهونا اور پھر پارٹكل كا مجتمع هو كر تمام چيزوں كا وجود ميں آنا۔
قرآن، سائنس كي كتاب نهيں هے، البته قرآن ميں مظاهر فطرت كے بهت سے حوالے دئے گئے هيں جو كه سائنس كا موضوع تحقيق هيں۔ قرآن كا مقصد صرف يه هے كه فطرت ميں موجود آيات (signs) كا حواله دے كر قرآن كي آئڈيالوجي كو علمي طورپر ثابت كرنا۔ اِس طرح قرآن ميں فطرت كے بهت سے مظاهر كے متفرق حوالے (fragmentary references)دئے گئے هيں۔ اِن حوالوں كے بارے ميں قديم زمانے ميں كچھ معلوم نه تھا۔ گويا كه قرآن ميں يه حوالے مستقبل كي انساني نسلوں كو شامل كرتے هوئے دئے گئے تھے۔ اِس طرح انسان كے ليے يه ممكن هوگيا كه وه قرآن كے اِن حوالوں كا تقابل بعد كے حالات سے كركے قرآن كي صداقت كي تصديق حاصل كرے۔
چودھویں صدی ہجری اسلام کی پو ری تاریخ میں پہلی صدی تھی جب کہ یہ امکان پیدا ہوا تھا کہ اسلام کی دعوت تو حید کی یُسر (آسانی) کے حالات میں انجام دیا جائے جب کہ اس سے پہلے صرف عُسر (سختی) کے حالات ہی میں اس کو انجام دینا ممکن ہو تا تھا۔ اسی طرح یہ واقعہ بھی پہلی بار ہوا کہ خود انسان کے اپنے مسلّمات کے مطابق اسلام کا دیگر ادیان کے مقابلہ میں واحد معتبر دین ہو نا ثابت کیا جائے اوراس کو اعلیٰ ترین علمی شواہد سے اس طرح مد لّل کردیا جائے کہ کسی کے لئے انکار کا عذر باقی نہ رہے۔ نیز اس صدی میں پہلی بارتیز رفتار سواریاں اور تبلیغ کے جدید ذرائع انسان کے قبضہ میں آئے جن سے کام لے کر اسلام کے پیغام کو بین الاقوامی سطح پر پھیلایا جا سکتا تھا۔ مگر جو قومیں ان خدائی برکتوں کو ہماری طرف لارہی تھیں وہ اتفاقی حالات کے نتیجہ میں ہماری سیاسی حریف بن گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری مسلم دنیا مغرب کے بارے میں مخالفانہ نفسیات کاشکار ہو گئی، مغرب کی طرف سے آنے والے انقلاب کا افادی پہلو اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ حالاں کہ خدا نے مسلمانوں کے لئے ایسا دروازہ کھولا تھا کہ خود مغرب کے پیدا کردہ حالات دعوتی مقاصد میں استعمال کر کے مغرب کو نظریاتی طور پر فتح کر سکتے تھے۔ اگر مسلمانوں نے بر وقت اس دانشمندی کا ثبوت دیا ہو تا تو چودھویں صدی ہجری میں وہ واقعہ دوبارہ نئے انداز سے پیش آتا جو آٹھویں صدی ہجر ی میں تاتاری فا تحین کے خادمان اسلام بن جا نے کی صورت میں پیش آچکاہے۔