توحيد اور شرك

قرآن کی سورہ نمبر2کی ایک آیت یہ ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا  ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ (البقرۃ165 ) یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب سے دوچار ہوں گے تو وہ سمجھ لیتے کہ زور سارا کا سارا اللہ کا ہے اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے۔

اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا نِدّ ٹھہرایا جائے۔ نِدّ کے معنی مِثل (equal) کے ہیں۔ اللہ کے سوا، کسی اور کو اُس کا نِدّ ٹھہرانا شرک ہے، خواہ وہ کلی معنی میں ہو یا جزئی معنی میں۔

اللہ کا نِدّ ٹھہرانا کن پہلوؤں سے ہوتا ہے، مذکورہ آیت میں اِس کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں— محبت، اور قوت۔ قرآن کی ایک اور آیت کے مطابق، اِس کا تیسرا پہلو خشیت (التوبۃ18 ) ہے۔ بنیادی طورپر یہی تین چیزیں ہیں جو شرک کی پہچان ہیں۔ مذکورہ تینوں معاملے میں جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کیا، اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ حتی کہ اگر کسی شخص نے خود اپنے آپ کو اِس قسم کا درجہ دیا تو اس کا کیس بھی شرک کا کیس بن جائے گا (الجاثیۃ23 )۔

اِس بات کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے — توحید کا مطلب ہے ہر اعتبار سے، صرف ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور شرک کا مطلب ہے— جزئی یا کلی طورپر کسی غیر اللہ کو اِس کنسرن میں شریک کرنا۔

جب کوئی شخص اللہ کو اِس حیثیت سے دریافت کرے کہ یہ اللہ ہے جس نے اس کو عدم سے وجود بخشا، جس نے اس کو اعلیٰ درجے کی شخصیت عطا فرمائی، جس نے اس کو زمین جیسے نادر سیارے پر آباد کیا، جس نے اُس کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کا انتظام کیا، وغیرہ۔ اِس طرح کا احساس آدمی کے اندر اللہ کے ساتھ بے پناہ تعلق پیدا کرتا ہے، وہ اللہ کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ یہی اللہ کے ساتھ شدید محبت کی بنیاد ہے۔

پھر جب وہ اللہ کی اِس حیثیت کو دریافت کرتا ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کا یک طرفہ عطیہ ہیں، کسی بھی وقت اللہ اس کو چھین سکتا ہے۔ پھر یہ کہ ہر عطیہ کے ساتھ جواب دہی (accountability) جڑی ہوئی ہے۔ یہ احساس اس کو مزید اِس اندیشے میں مبتلا کردیتا ہے کہ اگر میں نے ان عطیاتِ الٰہی کا حق ادا نہ کیا تو اللہ کے یہاں میری سخت پکڑ ہوگی۔ یہ احساسات آدمی کے اندر وہ کیفیت پیدا کردیتے ہیں جس کو قرآن میں خوفِ شدید (التوبۃ18 ) کہا گیا ہے۔

اِسی کے ساتھ آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ اِس دنیا میں سارا اختیار صرف ایک اللہ کو حاصل ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو جزئی درجے میں بھی کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اللہ ہی دینے والا اور اللہ ہی محروم کرنے والا ہے۔ یہ احساس اُس کو اپنے عجز ِ کامل کی یاد دلاتا ہے۔ وہ اِس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں پاتا کہ وہ اللہ کے آگے اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کردے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom