شرك خفي كا ظاهره
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن صلّیٰ یُرائی فقد أشرك، ومن صام یرائی فقد أشرك، ومن تصدّق یُرائی فقد أشرك (مسند احمد، جلد 4، صفحہ 126 ) یعنی جس شخص نے نماز پڑھی دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔ جس نے روزہ رکھا دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔ جس نے صدقہ کیا دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔
نماز اور روزہ اور صدقہ، خدا کی عبادتیں ہیں، پھر وہ شرک کیسے بن جاتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ مسلمانوں کا ایک معاشرہ بن جائے۔ معاشرہ ایک دنیوی تنظیم ہے۔ ایسی تنظیم جب وجود میں آتی ہے، تو وہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی۔ اب تمام مادّی روابط اِس سماجی تنظیم کے ساتھ جُڑجاتے ہیں۔ قیادت، مادّی فائدے، انسانی تعلقات، تمام دنیوی نوعیت کی چیزیں سماج کے اندر وجود میں آجاتی ہیں، جس طرح وہ عام قسم کے سیکولر سماج میں موجود ہوتی ہیں۔
یہی وہ وقت ہے، جب کہ مسلمانوں کے درمیان مذکورہ قسم کا ’’شرک‘‘ وجود میں آتا ہے۔ اِس کو سماجی شرک بھی کہہ سکتے ہیں۔ اِس سماج سے وابستہ ہر شخص کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے اندر اپنے سماجی اسٹیٹس کو برقرار (maintain) رکھے۔ اِس نفسیات کے تحت، یہ ہوتا ہے کہ لوگ دین کی اسپرٹ (spirit)کو الگ الگ کرکے صرف اس کا ظاہری ڈھانچہ (form) لے لیتے ہیں، اور اِسی ظاہری ڈھانچہ کی دھوم مچاتے ہیں۔
اِس ماحول میں لوگ ظاہری دین داری کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اپنے آپ کودین دار ثابت کرنے کے بعد ہی وہ مسلمانوں کے اندر اپنی مطلوب جگہ بنا سکتے ہیں، وہ مسلمانوں کے اندر موجود تمام سماجی فائدے اپنے گرد اکھٹا کرسکتے ہیں، وہ مسلمانوں کے نمائندے بن کر اُن کے درمیان ہر قسم کے قیادتی مناصب پر قابض ہوسکتے ہیں۔ اِس قسم کی ظاہری عبادت میں رضائے الٰہی کی اسپرٹ موجود نہیں ہوتی، اِس لیے حدیث میں اِس کو شرک کانام دیاگیا ۔