قدیم شرک، جدید شرک

موجودہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کے دوراستے ہیں— سیدھا راستہ اور بھٹکاؤ کا راستہ (النّحل 9)۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آدمی خالق کو اپنی زندگی میں مرکزی مقام دے، وہ خالق کو اپنا سب کچھ بنالے۔ بھٹکاؤ کا راستہ یہ ہے کہ آدمی مخلوق میں گُم ہو جائے، وہ مخلوق کی نسبت سے اپنی زندگی کا پورا نقشہ بنائے۔ پہلے طریقے کا نام توحید ہے،اور دوسرے طریقے کا نام شرک ہے۔ہماری کائنات میں صرف دو چیزیں ہیں— خالق اور مخلوق ۔ خالق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام توحید ہے، اور مخلوق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام شرک۔

جیسا کہ معلوم ہے، انسانیت کے آغاز ہی سے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور انسان کو صحیح اور غلط کی رہ نمائی دیتے رہے۔ ہر پیغمبر کا مشن ایک ہی تھا— انسان کو توحید کی طرف بلانا، اور اس کو شرک سے بچنے کی تلقین کرنا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہر زمانے میں توحیدایک تھی، اسی طرح شرک بھی ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔

قدیم شرک یا شرک کا قدیم ورژن (ancient version of shirk) نیچر پرستی (nature worship) پر قائم تھا۔ نیچر کی حیثیت مخلوق کی ہے۔ قدیم زمانے کے انسان نے نیچر کو معبود کا درجہ دے دیا۔ وہ نیچر پرستی کی بُرائی میں مبتلا ہوگیا، یعنی خالق کی پرستش کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِسی کو مظاہرِ فطرت کی پرستش کہاجاتا ہے۔

موجودہ زمانے میں بھی یہ شرک اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے کہ وہ خالق کے بجائے مخلوق کو اپنا سب کچھ (supreme concern) بنائے ہوئے ہے۔ قدیم شرک اور جدید شرک کے درمیان جو فرق ہے، وہ ظاہر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔

قدیم انسان نے نیچر کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنایا تھا۔ جدید انسان نے نیچر کو تفریح کا موضوع (object of entertainment) بنا لیا ہے۔ جذباتِ عُبودیت کا مرکز پہلے بھی مخلوقات تھیں، اور اب بھی جذباتِ عبودیت کا مرکز مخلوقات ہیں۔

موجودہ زمانے کے انسان کا نظریہ یہ ہے کہ اپنے آج (now) میں خوش رہو، کل کی فکر چھوڑ دو۔ یہ ’’آج‘‘ کیا ہے۔ یہ وہی سامانِ حیات ہے جو ہم کو نیچر کی صورت میں ملا ہے۔ یہ سامانِ حیات خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ تفریح کے سامانوں میں سے کوئی بھی سامان انسان نے خود نہیں بنایا، وہ اس کو خالق کی طرف سے ملا ہے۔ یہ خالق ہے جو ساری چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ آج کے انسان نے یہ کیا کہ اُس نے نعمت (blessing) کو لیا، اور منعم (giver) کو چھوڑ دیا۔ یعنی خالق رُخی نظریے کو ترک کرکے، مخلوق رخی نظریے کو اختیار کرلیا۔

انسان کی یہ فطرت ہے کہ اُس کو جب کوئی چیز ملے تو وہ دینے والے کا اعتراف کرے۔ احساسِ تشکُّر(gratitude) انسان کی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ موجودہ زمانے میں انسان نے دوبارہ یہ کیا کہ اُس نے اپنے احساسِ تشکر کو خالق کے بجائے مخلوق کی طرف موڑ دیا۔ جو قلبی اعتراف اس کو مُنعم کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا، اُس کو وہ منعم کی پیدا کردہ مخلوق کے لیے پیش کرنے لگا۔

آج کل کے لوگوں کی باتیں سنیے، یا ان کی تحریریں پڑھیے تو بار بار اِس قسم کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ہر آدمی اپنے روزانہ کے تجربات میں اِس کے نمونے دیکھ سکتا ہے۔ یہاں مثال کے طورپر میں ایک حوالہ نقل کروں گا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (27 جنوری 2008 ) میں اِس موضوع پر ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس کے لکھنے والے کا نام ڈونا (Donna Devane) ہے۔ اِس مضمون کاعنوان یہ ہے:

Be happy here and now.

آج کے زمانے میں انسان ایک عام مسئلے سے دوچار ہے۔ يه مسئله ٹنشن یا اسٹریس (stress) ہے۔ یہ ٹنشن کیوں ہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کو اُس کی مطلوب خوراک نہیں دے رہا ہے۔ وہ خالق کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بھر پور انتفاع کررہا ہے، لیکن وہ خالق کا اعتراف نہیں کرتا۔ یہ بے اعترافی، یا عدم تشکر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس لیے وہ انسان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر ٹنشن یا اسٹریس کا سبب بنا ہوا ہے۔

موجودہ انسان نے اِس کا یہ غیر فطری حل دریافت کیا ہے کہ دینے والے کے بجائے، خود دی ہوئی چیزوں پر تشکر کا اظہار کرنا۔ مذکورہ مضمون اِسی جدید ذہن کی نمائندگی کررہا ہے۔ چناں چہ اس میں کہاگیا ہے کہ — تم ملی ہوئی چیزوں پر خوب تشکر کا اظہار کرو اور تم ٹنشن سے بچ جاؤ گے۔ اِس سلسلے میں مضمون نگار کے الفاظ یہ ہیں:

Gratitude feels my soul as I enjoy my computer, more about my home, enjoy the feeling of a hug from my daughter. There is so much to be grateful for each moment of each day. I find that where gratitude goes, joy flows, spend a few moments throughout the day with thought shifter statements. A few of the thought shifter statements that I use are: I am so happy and joyful to believe. I am so happy and grateful for this wonderful mind, and body that allows me to enjoy touch, taste, sound, and movement. I am so happy and grateful for my family, and friends, and the love we share. I am so happy and grateful for my home and utilities. I am so happy and grateful for my computer, my internet, my ability to type and share with friends all over the world.

انسان کے اندر جس طرح بھوک اور پیاس کا طاقت ور جذبہ موجود ہے، اُسی طرح یہ جذبہ بھی انسان کے اندر نہایت طاقت ور شکل میں موجود ہے کہ وہ اپنے محسن کے احسان کا اعتراف کرے۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ اُس کو کسی سے کوئی بڑی چیز ملے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ آدمی کا فطری مزاج یہ ہے کہ جب اُس کو کسی سے کوئی بڑا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی پوری شخصیت چاہتی ہے کہ چیخ کر وہ اس کا اعتراف کرے۔ یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس سے کوئی بھی عورت یا مرد خالی نہیں۔

انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ سب خداکا عطیہ ہے۔ خواہ اس کا اپنا وجود ہو یا اس کے باہر کا وہ پورا نظام جس کو لائف سپورٹ سسٹم  (life support system) کہاجاتا ہے، سب کا سب اس کو خدا کی طرف سے یک طرفہ عطیہ کے طور پر ملا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کی فطرت چاہتی ہے کہ وہ اِن تمام عطیات (blessings) کے لیے ان کے مُعطی (giver)  کا بھر پوراعتراف کرے۔

 اِن عطیات میں سے ایک قسم اُن عطیات کی ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے انسان کو مل رہے ہیں۔ مثلاً ہوا اور پانی اور روشنی، وغیرہ۔ اور دوسری چیزیں وہ ہیں جو بالواسطہ طورپر خدا کا عطیہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو انسان نے عالم ِ فطرت میں دریافت کرکے خدا کی دی ہوئی عقل کے ذریعے اُن کو مختلف قسم کی مصنوعات میں تبدیل کیا ہے۔ مثلاً تمام قسم کے کنزیومر گُڈس (consumer goods

یہ تمام عطیات تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے سارے دل اور سارے دماغ کے ساتھ اُن کا اعتراف کرے۔ لیکن خود ساختہ فلسفوں کے تحت ،انسان نے یہ کیا کہ اُس نے عطیات کو لیا، اور اُن کے معطی (giver) کو حذف کردیا۔ یہ ایک بھیانک غلطی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی فطرت ایڈریس ہونے سے رہ گئی:

The human nature was left unaddressed.

یہ کسی انسان کے لیے ایک داخلی تضاد کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد اِسی داخلی تضاد میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا وہ مسئلہ جس کو ٹنشن اور اسٹریس کہا جاتا ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسی داخلی تضاد کا نتیجہ ہے۔

اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد28 ) یعنی اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتاہے:

Peace of mind can be achieved only through the remembrance of God  (13: 28)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom