اهلِ توحيد اور اهلِ شرك

آدمي جب خدائے واحد پر سچا يقين كرتا هے تو نفسياتي سطح پر خدا سے اس كا رشته قائم هوجاتا هے۔ اس كے بعد روحاني تاروں پر اس كي پوري هستي جگمگا اٹھتي هے۔ وه اپني يادوں ميں خدا كوپانے لگتا هے۔ وه اپنے آنسوؤں ميں خدا كي جھلك ديكھنے لگتا هے۔ اس كي سوچ اورجذبات ميں خدا اس طرح بس جاتا هے جيسے كه وه خدا كے پڑوس ميں پهنچ گيا هو، جيسے كه وه خدا كے رحمت بھرے سايه ميں زندگي گزارنے لگا هو۔

قرآن ميں شرك كے باره ميں بتايا گيا هے كه شرك سب سے بڑا ظلم هے (لقمان13)۔ ظلم كا مطلب هے كسي چيز كو غير جگه پر ركھ دينا (وضع الشئ في غيرموضعه)۔ يعني شرك (خدا كے ساتھ كسي اور كو شريك كرنا) اس كائنات ميں سراسر اجنبي هے۔ اس دنيا ميں شرك كا عقيده ركھنے يا مشركانه فعل كرنے كے لئے كائنات ميں كوئي جگه نهيں۔

اس دنيا كا خالق ايك هي خدا هے۔ وهي اس كا مالك هے۔ وهي اس كو سنبھالنے والا هے۔ اسي كے پاس هر قسم كے اختيارات هيں۔ ايسي حالت ميں جو شخص خدا كے سوا كسي اور كو خدا مانے يا كسي اور كو خدا كي خدائي ميں شريك كرے اس نے ايك خود ساخته مفروضه كو واقعي حقيقت كا درجه دے ديا۔ اس نے ايك ايسي چيز كو موجود فرض كيا جس كا اس دنيا ميں سرے سے كوئي وجود هي نهيں۔

مشركانه طرز فكر تمام برائيوں ميں سب سے بڑي برائي هے۔ جس آدمي كا ذهن مشركانه طرز پر سوچے، جس آدمي كے دل ميں مشركانه خيالات پرورش پائيں، وه ايك بے حقيقت چيز كو اختيار كرتا هے۔ كائنات اپنے پورے وجود كے ساتھ اس كي ترديد كرتي هے۔

شرك كا عقيده يا نظريه آدمي كو فكري غذا دينے والا نهيں۔ وه اس كو اس روحاني روشني سے منور كرنے والا نهيں جس كے بغير آدمي كا پورا وجود هي اس دنيا ميں بے معني هو جاتا هے۔

توحيد كي حقيقت كو كسي ايك لفظ ميں بيان نهيں كيا جاسكتا۔ تاهم قرآن سے معلوم هوتا هے كه يه الله كے ساتھ بندے كے ايك ايسے تعلق كا نام هے جو محبت اور خوف اور توكل كے جذبات كا مجموعه هوتا هے۔ كوئي بنده اس وقت الله كا موحد بنتا هے جب كه وه الله كو اس طرح پائے كه وهي اس كا محبوب بن جائے۔ اسي پر وه سب سے زياده بھروسه كرنے لگے۔ اس كو سب سے زياده جس بات كا انديشه هو وه يه كه كهيں اس سے كوئي ايسا فعل سرزد نه هو جو اس كو خدا كي رحمتوں سے محروم كردے۔ ان تمام انساني جذبات كے لئے صرف الله كوخاص كرلينے كا نام توحيد هے۔ اس سلسله ميں يهاں قرآن سے چند آيتيںنقل كي جاتي هيں:

’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب سے دوچار ہوںگے تو وہ سمجھ لیتے کہ زور سارا کا سارا اللہ کا ہے اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے‘‘۔(البقرۃ 165 )

اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ  (التغابن13) يعني  اﷲ ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، اور ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔

اِنَّهُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَـيْرٰتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا  ۭ وَكَانُوْا لَنَا خٰشِعِيْنَ (الانبياء90) يعني وه لوگ دوڑتے تھے بھلائيوں پراورپکارتے تھے هم كو اميد سے اور ڈر سے اور ونه ہمارے آگے عاجزي كرنے والے تھے۔

ان آيات كے مطابق توحيد، اعتقادي طورپر يه هے كه آدمي سب سے زياده اپنے رب سے محبت كرنے لگے۔ اس كے لئے سب سے زياده بھروسه كي چيز اس كا خدا بن جائے۔ اس كي اميديں اور اس كے انديشے الله كے ساتھ اس طرح وابسته هوجائيں كه وه اپنے روز وشب كے لمحات ميں اس كو بے تابانه پكارنے لگے۔

اِسی دریافت کا نام معرفت (realization)ہے۔ اِس دریافت سے جس کے اندر وہ شخصیت بنے جب کہ ایک اللہ ہی اس کے لیے سب کچھ بن جائے، وہ اُسی کی یاد میں جئے اور یہی سوچ اس کی غالب سوچ بن جائے، ایسا انسان شریعت کی اصطلاح میں مو حّد ہے۔ اِس کے برعکس، اللہ جس کا واحد کنسرن نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ وہ دوسری چیزوں کو بھی اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہو، ایسا انسان شریعت کی اصطلاح میں شرک میں مبتلاہے۔ موحد کی شخصیت انٹگریٹیڈ پرسنالٹی (integrated personality) ہوتی ہے، اور مشرک کی شخصیت اسپلٹ پرسنالٹی(split personality) ۔

شریعت کے مطابق، اللہ انسان کی اصل غایت ہے، اور دوسری چیزیں صرف اس کی ضرورت۔ توحید اور شرک دونوں کا تعلق حقیقت سے ہے، نہ کہ صرف مظاہر سے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom