رسول اللہ کا حج

حج کی عبادت کا نظام حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے قائم فرمایا تھا۔ اس کے بعد اگرچہ اس نظام میں بہت سے بگاڑ پیدا ہوئے، تاہم اس کا رواج برابر باقی رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ میں پیدا ہوئے تو حج جاہلی رسوم کی آمیزش کے باوجودپوری طرح زندہ تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کتنی بار حج ادا فرمایا۔ تاریخی اعتبار سے اس سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک ہجرت سے پہلے۔ دوسرا ہجرت کے بعد۔ ثانی الذکر حصہ کے بارے میں ہم کو مکمل معلومات حاصل ہیں۔ مگر جہاں تک اول الذکر حصہ کا معاملہ ہے اس کی بابت قطعی معلومات حاصل نہیں۔

ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف ایک بار حج کا فریضہ ادا کیا جس کو عام طور پر حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ ہجرت سے پہلے آپ مکہ میں مقیم تھے۔ روایات سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ مکہ کے زمانۂ قیام میں بھی آپ نے حج کا فریضہ ادا کیا۔ مگر اس کی قطعی تفصیل نہیں ملتی۔ سنن الترمذی (حدیث نمبر 826)اور ابن ماجہ (حدیث نمبر 3076)میں ہے کہ آپ نے ہجرت سے پہلے دو حج ادا کیے۔ صحیح مسلم (حدیث نمبر 1253)میں صرف ایک حج کا ذکر موجود ہے۔ بعض محدثین کا قول ہے کہ آپ اہل مکہ کی عادت کے مطابق ہر سال حج ادا کرتے تھے۔ طبقات ابن سعد (جلد2، صفحہ 157)کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے بعد آپ نے ایک حج کے سوا اور کوئی حج ادا نہیں کیا۔ ایک طرف ہجرت سے قبل حج کے بارے میں اتنی کم معلومات ہیں اور دوسری طرف حجۃ الوداع کے بارے میں اتنی تفصیلی روایات ملتی ہیں کہ اس کے متعلق اول سے آخر تک مکمل ڈائری مرتب کی جا سکتی ہے۔

اس فرق کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ زمانہ کا فرق ہے۔ ہجرت سے پہلے آپ کی حیثیت ایک ناقابلِ ذکر شخصیت کی تھی۔ لوگوں کی نظر میں آپ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ مگر حجۃ الوداع آپ کی آخری عمر میں ا س وقت پیش آیا جب کہ آپ کی حیثیت عرب کے فاتح کی ہو چکی تھی۔ آپ کی زندگی کے دو دَوروں کا یہی فرق ہے جس کی بنا پر آپ کے ابتدائی حج کے واقعات کو تاریخ نے باقاعدہ ریکارڈ نہیں کیا۔ اور آپ کے آخری حج کو تاریخ نے اتنی تفصیل کے ساتھ ریکارڈ کیا کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا جزء بھی غیر مذکور نہیں۔

روایات کے ذخیرہ میں حجۃ الوداع کی جو تفصیلات بکھری ہوئی ہیں ان کو بعض مولفین نے یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں چند کتابوں کے نام یہ ہیں:

السیرۃ النبویہ                               امام ابو الفداء اسماعیل بن کثیر

زاد المعاد                                  علامہ شمس الدین ابن قیم الجوز یۃ

شرح المواہب اللدنیہ                         علامہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی

حجۃ الوداع و جزء عمرات النبی صلی اللہ علیہ و سلم    الشیخ محمد زکریاکاندھلوی

ذیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حج کا بیان مختصر طور پر نقل کیا جاتا ہے:

حجۃ الوداع 10ھ میں پیش آیا۔ اس کے تقریباً دو ماہ بعد مدینہ میں آپ کی وفات ہو گئی۔ آپ کے اس حج کو حجۃ الوداع اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ نے منی میں اور عرف کے خطبہ میں اس وقت کے اہل ایمان کو وداع کہا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اس سال کے بعد آئندہ اس جگہ تم سے میری ملاقات نہ ہو سکے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حج مختلف پہلوؤں سے اہمیت رکھتا تھا۔ اسی لیے اس کو کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ مثلاً حجۃ الوداع، حجۃ السلام، حجۃ البلاغ، حجۃ الکمال، حجۃ التمام۔

مکہ رمضان8ھ میں فتح ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم 8اور9ھ میں حج کے لیے تشریف نہیں لے گئے۔ البتہ آپ کی ہدایت کے مطابق 9ھ میں تین سو مسلمانوں کی ایک جماعت نے مدینہ سے مکہ جاکر حج ادا کیا۔ اس جماعت کے امیر حضرت ابو بکر صدیق تھے۔ اس حج میں عرب کے مشرکین بھی شریک تھے۔مگر سورہ التوبہ میں نازل شدہ حکم کے مطابق 9ھ کے حج میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ آئندہ سے کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ اعلان حضرت علی نے کیا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 369)۔

اگلے سال 10ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔ اسی کے ساتھ تمام قبائل میں اہتمام کے ساتھ اطلاعات بھیج دی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کے ساتھ شریک ہو سکیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے بعد حج کی عبادت اگرچہ جاری تھی۔ مگر اس میں بہت سی جاہلی رسمیں شامل ہو گئی تھیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ آپ کو حج کے اعمال کرتے ہوئے دیکھ لیں اور آئندہ اسی کے مطابق حج ادا کرتے رہیں۔ اس قسم کے اعمال ہمیشہ دیکھ کر ہی سمجھ میں آتے ہیں، لفظوں میں بتانے سے سمجھ میں نہیں آتے۔

حضرت جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا۔ آپ اپنی سواری پر تھے اور رمی جمار کر رہے تھے۔ آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو، حج کے طریقے مجھ سے سیکھ لو۔ شاید اس سال کے بعد میں دو بارہ حج نہ کر سکوں (السنن الکبری للنسائی، حدیث نمبر 4002)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سفر حج کی خبر اطراف ملک میں پھیلی تو لوگ آنا شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ مدینہ میں تقریباً ایک لاکھ آدمیوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا۔ آپ 25 ذی قعدہ 10 ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ راستہ میں بھی لوگ اس قافلہ میں شریک ہوتے رہے۔ آپ اس طرح مکہ کی طرف جا رہے تھے کہ آپ کے چاروں طرف آدمیوں کا ہجوم تھا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ میری نگاہ جہاں تک جاتی تھی مجھے ہر طرف انسان ہی انسان دکھائی دیتے تھے۔ مکہ پہنچ کر یہ مجمع تقریباً سوا لاکھ ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اس اونٹنی پر سوار تھے جس کا نام قصواء تھا۔ یہ ایک غیر معمولی قسم کی تیز رفتار اونٹنی تھی۔ تاہم اس وقت اس کے اوپر جو کجاوہ بندھا ہوا تھا۔ اس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی۔ گویا ضرورت کی حد تک اعلیٰ معیار اور جہاں ضرورت کی حد ختم ہو جائے وہاں صرف سادگی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روانگی سے پہلے ظہر کی چار رکعتیں لوگوں کے ساتھ پڑھیں۔ آپ نے ایک تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ احرام باندھنے کے فرائض و آداب کیا ہیں۔ اس کے بعد آپ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ مدینہ سے پانچ میل کے فاصلہ پر ذو الحلیفہ ایک مقام ہے جو اہل مدینہ کی میقات ہے۔ یہاں پہنچ کر آپ نے رات گزاری۔ اگلے دن آپ نے غسل کیا۔ ظہر کی نماز دو رکعت ادا کی۔ اور حج و عمرہ (قران) کا احرام باندھا۔ پھر تلبیہ کہتے ہوئے روانہ ہوئے:

 لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر1549؛صحیح مسلم، حدیث نمبر1184)۔یعنی،حاضر ہوں خدایا میں حاضر ہوں۔ حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے اور بادشاہی میں تیرا کوئی شریک نہیں۔

اس طرح آپ مدینہ سے مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ راستہ میں کوئی ٹیلہ ملتا تو اس پر چڑھ کر آپ بلند آواز سے اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کہتے۔ گویا کہ یہاں سے آپ سارے عالم کے سامنے اللہ کی بڑائی کا اعلان کر رہے ہوں۔

آپ 4ذی الحجہ کو مکہ پہنچے۔ مدینہ سے مکہ کا سفر نو دن میں طے ہوا۔ یہ سہ پہر کا وقت تھا۔ آپ چلتے ہوئے حرم میں داخل ہوئے۔ بیت اللہ پر نظر پڑی تو آپ کی زبان مبارک سے نکلا:

اللَّهُمَّ زِدْ بَيْتَكَ هَذَا تَشْرِيفًا، وَتَعْظِيمًا، وَتَكْرِيمًا، وَبِرًّا، وَمَهَابَةً (المعجم الاوسط، حدیث نمبر6132)۔ یعنی، اے اللہ تو اپنے اس گھر کے شرف اور عظمت اور بزرگی اور ہیبت میں اضافہ فرمایا۔

آپ اپنے ہاتھ کو اٹھا کر تکبیر کہتے اور فرماتے:

اللَّهُمَّ ‌أَنْتَ ‌السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، فَحَيِّنَا ‌رَبَّنَا ‌بِالسَّلَامِ (اے اللہ تو سلامتی ہے، تجھی سے سلامتی ہے،اے ہمارے رب ہم کو سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ)۔

حرم میں داخل ہوکر آپ نے تحیۃ المسجد کا دو گانہ نہیں پڑھا بلکہ طواف قدوم شروع کر دیا۔ آپ حجر اسود کے پاس آئے اور بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر اس کا استلام کیا۔ پھر دائیں طرف سے چل کر سات بار اس کا طواف اس طرح کیا کہ کعبہ آپ کے بائیں طرف تھا۔ طواف کے پہلے تین شوط (پھیرے) میں آپ تیز تیز چلے جس کو رمل کہا جاتاہے۔ باقی چار پھیروں میں آپ معمول کی چال چلے۔ آپ کے بائیں شانہ پر احرام کی چادر پڑی ہوئی تھی اور دایاں شانہ کھلا ہوا تھا۔ اس طریقہ کو اضطباع کہا جاتا ہے۔ طواف کے دوران جب آپ حجر اسود کے سامنے سے گزرتے تو اس کی طرف اشارہ کرکے اپنی چھڑی سے استلام کرتے۔

حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان یہ دعا ماثور ہے: رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّار(مسند احمد، حدیث نمبر 15399)۔یعنی،اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔ اسی طرح طواف میں آپ سے بعض اور دعائیں بھی منقول ہیں۔

طوافِ کعبہ سے فراغت کے بعد آپ مقام ابراہیم کے پاس آئے اور قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى (2:125) یعنی،اور مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالو۔پھرمقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوکر آپ نے دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد حجر اسود کے پاس گئے اور اس کا بوسہ لیا۔ پھر صفاکی طرف روانہ ہوئے۔ قریب آئے تو فرمایا: إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ۔أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ بِهِ (صحیح مسلم،حدیث نمبر1218)۔یعنی،بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ نے شروع کیا ہے۔

پھر آپ صفا پر چڑھے یہا ں تک کہ کعبہ دکھائی دینے لگا۔ آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر یہ الفاظ کہے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ (صحیح مسلم،حدیث نمبر1218)۔ یعنی، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تمام گروہوں کو تنہا شکست دی۔

پھر آپ صفا سے اتر کر مروہ کی طرف روانہ ہوئے۔ دونوں پہاڑیوں کے درمیان آپ نے اس طرح سعی فرمائی کہ جب آپ نشیب میں (میلین اخضرین کے درمیان) پہنچے تو دوڑنے لگے۔ نشیب ختم ہوا تو آہستہ چلنے لگے۔ مروہ پہنچ کر آپ اس کے اوپر اتنا چڑھے کہ کعبہ دکھائی دینے لگا۔ یہاں بھی آپ نے تکبیر و تہلیل کی اور دعا مانگی۔ اسی طرح آپ نے صفا و مروہ کے درمیان سات پھیرے کیے۔ بعض روایات کے مطابق آپ نے ابتدائی چند پھیرے پیروں پر کیے اور بقیہ پھیرے اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر۔ آپ نے ایسا غالباً اس لیے کیا کہ دور تک پھیلا ہوا مجمع آپ کے عمل کو بخوبی طور پر دیکھ سکے۔ آپ کا ساتواں پھیرا مروہ پر ختم ہوا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم 4 ذی الحجہ کو مکہ میں مقام ابطح میں اترے تھے۔ یہاں آپ 8ذی الحجہ تک (چار دن) رہے۔ اور وہیں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ قصر کرکے نماز پڑھتے رہے۔ 8 ذی الحجہ کو آپ اپنے تمام اصحاب کے ساتھ منیٰ گئے۔ جاتے وقت کوئی طواف نہیں کیا۔ اس دن ظہر اور عصر اور مغرب اور عشا کی نمازیں آپ نے منیٰ میں پڑھیں اور رات کو یہیں قیام کیا۔ صبح 9 ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد آپ عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ نمرہ (وادیِ عرنہ) کے ایک خیمہ میں اترے۔ صحابہ میں سے کوئی لبیک پکارتا تھا اور کوئی تکبیر کہتا تھا۔ کوئی ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کرتا تھا۔

جب زوال کا وقت آیا تو آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر چلے اور میدان عرفہ کے بیچ میں ٹھہرے۔ یہاںموجودہ مسجد نمرہ کی جگہ اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے آپ نے وہ خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ یہ خطبہ اور دوسرا خطبہ جو آپ نے منیٰ میں دیا، وہ متفرق طور پر حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ان کا مجموعہ اگلے صفحات میں نقل کیا جا رہا ہے۔

یہ جمعہ (9 ذی الحجہ) کا دن تھا۔ جب آپ خطبہ دے چکے تو آپ نے حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا۔ انھوں نے اذان دی۔ آپ نے ایک اذان اور دو اقامت سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کرکے دو دو رکعت پڑھی۔ یہ جمعہ کی نماز نہیں بلکہ ظہر کی قصر نماز تھی۔ کیوں کے آپ نے اس میں قرأت بالجہر نہیں کی۔ فرض کے علاوہ اس موقع پر کوئی سنت یا نفل آپ نے نہیں پڑھی۔

نماز سے فارغ ہوکر آپ عرفات کے اس مقام پر آئے جس کو وقوف کی جگہ کہا جاتا ہے۔ یہاں آپ نے اپنے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے سورج ڈوبنے تک دعا کی۔ آپ نے فرمایا کہ اس دن کی دعا بہترین دعا ہے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3585)۔ اس وقت آپ کس قسم کے ربانی احساسات سے بھرے ہوئے تھے، اس کا اندازہ ان کلمات سے ہوتا ہے جو اس وقت آپ کی زبان سے نکل رہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا:

’’اللهُمَّ إِنَّكَ تَسْمَعُ كَلَامِي، وَتَرَى مَكَانِي، وَتَعْلَمُ سِرِّي وعلانيتِي، لَا يَخْفَى عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ أَمْرِي، أَنَا الْبَائِسُ الْفَقِيرُ الْمُسْتَغِيثُ الْمُسْتَجِيرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنَبِهِ، أَسْأَلُكَ مَسْأَلَةَ الْمِسْكِينِ وأَبْتَهِلُ إِلَيْكَ ابتهالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِيلِ، وَأَدْعُوكَ دُعَاءَ الْخَائِفِ الضَّرِيرِ مَنْ خَضَعَتْ لَكَ رَقَبَتُهُ وَفَاضَتْ لَكَ عَيْنَاهُ وذلَّ جَسَدُهُ وَرَغِمَ أَنْفُهُ لَكَ، اللهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي بدُعائِكَ شَقِيًّا، وَكُنْ بِي دَوْمًا رَحِيمًا، يَا خَيْرَ الْمَسْئولينَ وَيَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ ‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر11405)۔اے اللہ تو میری بات سن رہا ہے اور تو میری جگہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو میرے چھپے اور کھلے کو جانتا ہے۔ میری کوئی بات تجھ سے چھپی ہوئی نہیں۔ میں مصیبت زدہ ہوں، محتاج ہوں، تجھ سے فریادی ہوں۔ تیری پناہ چاہتا ہوں۔ پریشان ہوں۔ خوف زدہ ہوں۔ اپنے گناہوں کا اقرار و اعتراف کر رہا ہوں۔ تجھ سے بے کس آدمی کی طرح سوال کر رہا ہوں۔ اور گنہ گار اور حقیر انسان کی طرح تیرے سامنے گڑگڑا رہا ہوں۔اور تجھ سے خوف زدہ اور آفت رسیدہ آدمی کی مانند سوال کرتا ہوں، جیسے وہ شخص جس کی گر دن تیرے آگے جھکی ہوئی ہو اور اس کی آنکھیں تیرے لیے بہہ پڑی ہوں، اور اس کا جسم تیرے آگے فروتنی کیے ہوئے ہو اور اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہا ہو۔ اے اللہ، تو مجھے اپنے سے دعا مانگنے میں نا کام نہ رکھ اور تو میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم والا بن جا۔ اے تمام مانگے جانے والوں سے بہتر اور اے سب دینے والوں سے اچھا۔

اس اثنا میں لوگ حج کے مسائل پوچھنے آتے تھے۔ کچھ نجدیوں نے پوچھا کہ حج کیا ہے۔ آپ نے فرمایا  ‌الْحَجُّ ‌عَرَفَةُ (مسند احمد، حدیث نمبر 18774)۔ یعنی، حج عرفات میں ٹھہرنے کا نام ہے۔یعنی جو شخص یوم النحر سے پہلے یہاں آ جائے اس کا حج ہو گیا۔

قرآن کی یہ آیت یہیں عرفہ میں خطبہ حجۃ الوداع کے بعد نازل ہوئی: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (5:3)۔ یعنی،  آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔

سورج ڈوبنے کے بعد آپ عرفہ سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اسامہ بن زید کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ راستہ بھر آپ تلبیہ کرتے رہے۔ مزدلفہ پہنچنے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آپ نے لوگوں کو تیز چلنے سے منع فرمایا۔ آپ نے کہا: السَّكِينَةَ أَ يُّهَا النَّاسُ فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالْإِيضَاعِ (السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر9483)یعنی، لوگو، سکون اور اطمینان کے ساتھ چلو۔ دوڑ نا کوئی ثواب کی بات نہیں۔ مزدلفہ میں آپ نے حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا۔ اذان کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور اونٹوں کو بٹھانے اور سامان اتارنے سے پہلے مغرب کی نماز ادا کی اس کے بعد جب لوگوں نے سامان اتار لیا تو آپ نے عشاء کی نماز دو رکعت ادا فرمائی۔ یہاں بھی آپ نے ایک اذان اور دو اقامت سے دونوں نمازیں اد اکیں۔ فرض کے علاوہ آپ نے کوئی اور نماز نہیں پڑھی۔ اس کے بعد آپ لیٹ گئے اور صبح تک سوئے۔ صبح اٹھ کر فجر کی نمازآپ نے اول وقت پڑھی۔ یہ ذی الحجہ کی دس تاریخ تھی۔ پھر آپ سواری پر بیٹھے اور مشعر حرام آئے۔ یہاں قبلہ کی طرف رخ کرکے دعا اور تضرع کرتے رہے، یہاں تک کہ پوری طرح اجالا ہو گیا۔ سورج نکلنے سے پہلے آپ مزدلفہ سے روانہ ہوئے۔ آپ برابر تلبیہ کرتے رہے۔ فضل بن عباس آپ کے پیچھے سوار تھے۔ آپ نے ان کو حکم دیا کہ رمی جمار کے لیے یہاں سے سات کنکریاں چن لیں۔

جب آپ وادیٔ مُحسر میں پہنچے تو لوگوں سے کہا کہ یہاں سے تیزی سے گزر جاؤ۔ اپنی اونٹنی بھی آپ نے تیز کر دی۔ وادی محسّر وہ جگہ ہے جہاں اصحاب فیل پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا۔ آپ چلتے رہے،یہاں تک کہ آپ منیٰ پہنچ گئے۔پھر آپ جمرۃ العقبہ آئے۔ یہاں آپ اس طرح کھڑے ہوئے کہ مکہ آپ کے بائیں طرف تھا اور منیٰ دا ہنی طرف۔ آپ نے سواری پر بیٹھے ہوئے سورج نکلنے کے بعد ایک کے بعد ایک سات کنکریاں ماریں جس کو رمی کہا جاتا ہے۔ ہر کنکری کے ساتھ آپ تکبیر کہتے جاتے تھے۔ رمی جمار کے بعد آپ نے تلبیہ موقوف کیا۔ اس کے بعد آپ منیٰ واپس ہوئے۔ آپ نے دین کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان فرمایا:

  • اعْبَدُوا رَبَّكُمْ، وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ، ‌وَصُومُوا ‌شَهْرَكُمْ، وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ، تَدْخُلُوا ‌جَنَّةَ رَبِّكُمْ (مسند احمد، حدیث نمبر22258)۔ یعنی،اپنے رب کی عبادت کرو۔ اور پانچ وقت کی نماز پڑھو اور رمضان کے مہینہ کے روزہ رکھو اور اپنے صاحب امر کی اطاعت کرو، اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔

منیٰ میں آپ نے ایک خطبہ دیا۔ یہ اہم خطبہ عرفہ کے خطبہ سے مشابہ تھا۔ یہ تکرار غالباً اس لیے تھی کہ جس نے وہاں نہ سنا ہو وہ یہاں سن لے۔ اور اچھی طرح یاد کر لے۔ یہاں آپ نے جن باتوں کا اعلان فرمایا ان میں سے یہ بھی تھا:

  • لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى (مسنداحمد،حدیث نمبر23489)۔  یعنی،کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں۔ اور کسی کا لے کو کسی سرخ پر فضیلت نہیں اور کسی سرخ کو کسی کالے پر فضیلت نہیں۔ فضیلت کا مدار صرف تقویٰ پر ہے۔

نیز آپ نے فرمایا:

  • أَلَا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ ‌يُعْبَدَ ‌فِي ‌بَلَدِكُمْ هَذَا أَبَدًا، وَلَكِنْ سَتكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِي بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَيَرْضَى بِهَا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3055)۔ یعنی، سُن لو، شیطان اس سے مایوس ہو گیا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں قیامت تک اس کی پرستش کی جائے۔ مگر تم ایسے کاموں میں اس کی پیروی کروگے جس کی تمہاری نظر میں اہمیت نہ ہوگی اور وہ اس سے راضی ہو جائے گا۔

اس کے بعد آپ منیٰ میں مقام نحر (قربانی کی جگہ) پر گئے۔ یہاں آپ نے تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کیے۔ آپ کی عمر 63 سال ہوئی۔ اس کے بعد آپ رکے اور حضرت علی سے کہا کہ سو اونٹ میں جو تعداد باقی ہے اس کو تم پورا کر دو۔ قربانی سے فارغ ہوکر آپ نے معمر بن عبد اللہ (حجام) کو بلا یا اور اپنے بال منڈائے جس کو حلق کہا جاتا ہے اور ناخن کتروائے۔ عورتوں کو آپ نے صرف تقصیر (بال کتروانے) کا حکم دیا۔ مونڈنے سے منع فرمایا۔ اس کے بعد آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ قربانی مقام نحر کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی کی جا سکتی ہے۔ قربانی کا گوشت آپ نے تھوڑا سا پکوا کر کھایا اور بقیہ خیرات کر دیا۔ آپ نے لوگوں سے کہا کہ قربانی کا گوشت کھاؤ اور کھلاؤاور جب تک چاہے اس کو سکھا کر رکھو۔

10 ذی الحجہ کو آ پ مکہ پہنچے۔ یہاں آپ نے ظہر سے پہلے طواف افاضہ کیا جس کو طواف زیارت بھی کہا جاتا ہے۔ اس طواف میں آپ نے رمل اور اضطباع نہیں کیا اور نہ سعی کی۔ اس کے بعد آپ زمزم کے کنویں کے پاس آئے اور کھڑے ہوکر زمزم پیا۔ اس وقت حسب دستور خاندان عبد المطلب کے لوگ پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہے تھے۔ اس کے بعد آپ اسی روز منیٰ کے لیے واپس ہو گئے۔ رات آپ نے منیٰ میں گزاری۔

اگلے روز 11 ذی الحجہ کو آپ منیٰ میں سورج ڈھلنے کا انتظار کرتے رہے۔ جب زوال کا وقت آیا تو آپ سواری سے اتر کر رمی جمار کے لیے گئے۔ پہلے آپ نے جمرہ اولیٰ پر ایک کے بعد ایک سات کنکریاں ماریں۔ اس کے بعد کچھ دیر تک دعا کرتے رہے۔ اور پھر جمرۂ وسطیٰ پر اسی طرح کنکریاں ماریں۔ اس کے بعد پھر کچھ دیر تک دعا کرتے رہے۔ ہر کنکری پر آپ اللہ اکبر فرماتے رہے۔ اس کے بعد جمرۃ العقبہ کے قریب جاکر اس کو سات کنکریاں ماریں۔ پھر آپ وہاں سے ہٹ گئے۔

اس کے بعد 12 ذی الحجہ اور 13 ذی الحجہ( ایام تشریق کے تینوں دن تک) آپ منیٰ ہی میں رہے۔ منیٰ میں آپ نماز قصر بغیر جمع پڑھاتے رہے۔ 13 ذی الحجہ کو زوال کے بعد مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ آپ نے وادی محصّب (ابطح) کے ایک خیمہ میں قیام کیا۔ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازیں یہیں پڑھیں، رات کو یہیں آرام کیا۔ رات کو پچھلے پہر اٹھ کر حرم گئے اور کعبہ کا طواف (طواف الوداع) کیا اور وہیں فجر کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد قافلہ کو سفر کا حکم دیا۔ سب لوگ اپنے اپنے مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔ آپ مہاجرین اور انصار کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مکہ میں داخل ہونے سے لے کر نکلنے تک آپ کا قیام کل دس دن رہا۔

جب ذو الحلیفہ (مدینہ کے قریب) پہنچے تو آپ ٹھہر گئے اور رات یہاں گزری۔ صبح کو طلوع آفتاب کے وقت مدینہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ کی نظر سواد مدینہ پر پڑی تو آپ نے تین بار تکبیر کہی اور فرمایا:

اللهُ ‌أَكْبَرُ، لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1797؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1344)۔ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہی ہے۔ اور اسی کے لیے تعریف ہے اور و ہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم لوٹ رہے ہیں توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے، سجدہ کرتے ہوئے، اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچا کیا، اور اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس نے تمام گروہوں کو تنہا شکست دی۔

حضرت اسامہ بن شُریک کہتے ہیں کہ منیٰ میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتے تھے۔ کوئی شخص کہتا کہ اے خدا کے رسول، میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی۔ کوئی کہتا کہ میں نے رمی جمار سے پہلے حلق کر الیا۔ کسی نے کہا کہ میں نے پہلے قربانی کی اور اس کے بعد رمی کیا۔ اسی طرح لوگ مختلف مسائل پوچھتے رہے۔ آپ اس قسم کے سوالات کے جواب میں فرماتے: لاَ حَرَجَ،لاَ حَرَجَ (کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں)۔ حرج کی بات تو یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے بھائی کو بے عزت کرے۔ ایسا ہی شخص ظالم ہے۔ اسی نے حرج والا کام کیا اور ہلاک ہوا۔

’’عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ، قَالَ:خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجًّا فَكَانَ النَّاسُ يَأْ تُونَهُ، فَمَنْ قَالَ:يَا رَسُولَ اللهِ، سَعَيْتُ قَبْلَ أَنْ أَطُوفَ أَوْ قَدَّمْتُ شَيْئًا أَوْ أَخَّرْتُ شَيْئًا فَكَانَ يَقُولُ:لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ، إِلَّا عَلَى رَجُلٍ اقْتَرَضَ عِرْضَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَهُوَ ظَالِمٌ، فَذَلِكَ الَّذِي حَرِجَ وَهَلَكَ‘‘ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2015)۔

ایک سبق

حجۃ الوداع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس طرح ادا فرمایا اس میں ہمارے لیے بہت سے نہایت اہم سبق ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اجتماعی زندگی ہمیشہ روایات کے اوپر چلتی ہے۔ روایات کو توڑنا اجتماعی زندگی میں ناقابل تلافی خلل پیدا کر دیتا ہے۔ اس لیے اجتماعی زندگی میں جو کچھ کیا جائے روایات کو توڑے بغیر کیا جائے۔ روایات کو توڑ کر کام کرنا پیغمبرانہ طریقہ کے مطابق نہیں۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ بِالْمَدِينَةِ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ بالحجِّ فِي الْعَاشِرَةِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ فَخَرَجْنَا مَعَهُ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 14705)۔یعنی،حضرت جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں نو سال رہے مگر آپ نے حج ادا نہیں کیا۔ پھر ہجرت کے دسویں سال اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حج کے لیے جانے والے ہیں چنانچہ مدینہ میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پھر ہم آپ کے ساتھ حج کے لیے نکلے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس اسوہ کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے دس سال تک حج کیوں نہیں ادا فرمایا۔ ابتدائی سالوں میں بظاہر قریش کی طرف سے مزاحمت کا اندیشہ تھا جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر انھوں نے آپ کو عمرہ کرنے سے روکا۔ مگر رمضان    8ھ میں جب مکہ فتح ہوا تو اس کے بعد یہ رکاوٹ ختم ہو چکی تھی۔ فتح مکہ کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے 8 ھ اور 9ھ میں حج ادا نہیں کیا۔ آپ صر ف10ھ میں حج کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے دو ماہ بعد آپ کی وفات ہو گئی۔ اس تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ آپ یہ چاہتے تھے کہ حج کے نظام میں مطلوبہ اصلاح روایات کو توڑے بغیر انجام دی جائے۔

کیلنڈر دو قسم کے ہیں۔ ایک قمری، دوسرا شمسی۔ قمری کیلنڈر چاند کے بڑھنے اور گھٹنے کے اعتبار سے مقرر ہوتا ہے۔ جس کا ہر آدمی براہِ راست مشاہدہ کر رہا ہے۔ شمسی کیلنڈر علم الحساب کے ماہر ین سورج کی گردش کا ریا ضیاتی شمار کرکے بناتے ہیں۔ با الفاظ دیگر، قمری کیلنڈر فطری کیلنڈر ہے اور شمسی کیلنڈر حسابی کیلنڈر۔

عبادات کے نظام کے لیے اللہ تعالیٰ نے قمری کیلنڈر کو پسند فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ قمری کیلنڈر افضل یا مقدس ہے۔ جس خدا نے چاند کی گردش مقرر کی ہے اسی خدا نے سورج کی گردش بھی مقرر کی ہے۔ پھر ایک مقدس اور دوسرا غیر مقدس کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کا سبب دراصل عملی ہے، نہ کہ اعتقادی۔ عبادات میں فطری سادگی کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ اسی لیے عبادات کو قمری کیلنڈر کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔

یہی وہ حقیقت ہے جو ایک روایت میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:

عَن ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ، الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، وَعَقَدَ الْإِبْهَامَ فِي الثَّالِثَةِ وَالشَّهْرُ هَكَذَا، وَهَكَذَا، وَهَكَذَا۔ يَعْنِي تَمَامَ ثَلَاثِينَ مرَّةً تسعٌ وعِشرونَ ومَرّةً ثلاثونَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1913  ؛  صحیح مسلم، حدیث نمبر1080)۔ يعني، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ہم نا خواندہ لوگ ہیں۔ ہم نہ لکھتے اور نہ حساب کرتے۔ مہینہ یوں ہے اور یوں ہے اور یوں ہے۔ اور آپ نے تیسری بار انگوٹھے کو موڑا،پھر فرمایا کہ مہینہ یوں ہے اور یوں ہے اور یوں ہے۔ یعنی پورے تیس۔کسی بار 29 دن کا اور کسی بار 30 دن کا۔

قمری مہینہ کی بنیاد چاند کی رویت پر ہے۔ اس لیے وہ کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو سادہ طور پر اس طرح سمجھا یا کہ آپ نے دونوں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر تین بار دکھائیں، یعنی 10+10+10(کل 30)۔ پھر دوسری بار آپ نے دونوں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر تین بار دکھائیں۔آخر ی بار ایک ہاتھ کا انگوٹھا سمیٹ لیا، یعنی 10+10+9(کل 29)۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قمری مہینہ کوئی دینی مہینہ ہے اور تمام معاملات کا حساب قمری کیلنڈر کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس کا تعلق دراصل عبادتی امور سے ہے۔اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ عبادات کے معاملہ میں قمری تاریخوں کا لحاظ کیا جائے گا تاکہ ہر آدمی بآسانی اس کا اتباع کر سکے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حج کا نظام بنایا تو اسی مصلحت کی بنا پر اس کو قمری مہینہ کی بنیاد پر بنایا۔ مگر قریش مکہ جو کعبہ کے متولی تھے انھوں نے بعد کو اپنے تجارتی مفاد کی خاطر یہ چاہا کہ حج کا نظام شمسی کیلنڈر کی بنیاد پر مقرر کریں تاکہ حج کی تاریخیں ہمیشہ ایک ہی موسم میں پڑیں۔ اس کے لیے انھوں نے بعض دوسری قوموں سے کبیسہ (Intercalation)  کا اصول لیا اور اس کو حج کے معاملہ میں رائج کر دیا۔

شمسی سال 365 دن کا ہوتا ہے اور قمری سال 354 دن کا۔ یعنی دونوں کے درمیان گیارہ دن کا فرق ہے۔ ہر آٹھ سال میں یہ فرق تقریباً تین مہینہ کا ہو جاتا ہے۔ اہلِ عرب یہ کرتے تھے کہ قمری مہینوں میں فرق کے بقدر دنوں کا اضافہ کرتے رہتے تھے تاکہ دونوں مہینے ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔ اس طرح قمری مہینے اپنے جگہ سے ہٹتے رہتے تھے۔ یہ چکر 33 سال میں پورا ہوتا تھا۔ چنانچہ 33 سال میں مسلسل ایسا ہوتا کہ حج اپنی اصل تاریخوں کے بجائے دوسری تاریخوں میں آتا تھا اور 34 ویں سال میں پہنچ کر وہ دوبارہ اصل ابراہیمی تاریخ (ذی الحجہ) میں پڑتا تھا۔

رمضان 8ھ میں مکہ فتح ہوا تویہ 33 سالہ دَور اپنے آخری مرحلہ میں تھا۔ یعنی8ھ اور9ھ کا حج تو سابقہ طریقہ پر ذی قعدہ کے مہینہ میں پڑرہا تھا۔ مگر 10ھ میں 33 سالہ دَور پورا ہو کر حج عین اپنی اصل تاریخ میں آرہا تھا۔ یعنی ذی الحجہ میں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک اعتبار سے دین ابراہیمی کے مجدد تھے۔ آپ اللہ کی طرف سے اس پر مامور تھے کہ حج کے نظام کو دوبارہ ابراہیمی بنیاد پر قائم کریں۔8ھ میں فاتح مکہ کی حیثیت سے آپ اس کا اعلان کر سکتے تھے۔ مگر آپ نے اس وقت ایسا نہیں کیا۔ اسی طرح9ھ میں آپ کے لیے ممکن تھا کہ حج کو ابراہیمی تاریخوں میں ادا کیے جانے کی ہدایت جاری کر دیں۔ مگر اب بھی آپ خاموش رہے۔ یہ ضروری کام آپ نے10ھ میں کیا جب کہ حج کی تاریخ اپنے آپ ابراہیمی تاریخوں میں پہنچ گئی تھی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ8ھ اور9ھ میں ایسا کرنے کے لیے صدیوں کی قائم شدہ روایات کو توڑنا پڑتا۔ جب کہ 10ھ میں روایات کو توڑے بغیر یہ مقصد اپنے آپ حاصل ہو رہا تھا۔ سماجی زندگی میں روایات کی بیحد اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے پیغمبر کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ روایات کو توڑے بغیر اپنا مقصد حاصل کیا جائے۔ آپ نے10ھ میں حسب قاعدہ ابراہیمی تاریخ پر حج ادا فرمایا اور پھر یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ اب ایسا ہی ہوتا رہے گا۔

یہی وہ حکمت ہے جو رسول خداکے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:

’’عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5550؛ صحیح مسلم،حدیث نمبر 1679)۔ یعنی،اے لوگو! زمانہ گھوم گیا۔ پس آج کے دن وہ اپنی اس ہیت پر ہے جس دن کہ اللہ نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا تھا۔ اور مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔

یعنی 33 سالہ چکر پورا ہوکرآج 9 ذی الحجہ دوبارہ 9 ذی الحجہ کو پڑ رہا ہے۔ یہی نظامِ قدرت کے مطابق ہے۔ اب سابقہ مصنوعی کیلنڈر ختم کیا جاتا ہے۔ آئندہ اسی قدرتی کیلنڈر کے مطابق ہر سال ذی الحجہ میں حج ادا کیا جاتا رہے گا۔

خطبہ حجۃ الوداع

حجۃ الوداع کا خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری اہم ترین تقریر ہے۔ یہ وہ خطبہ ہے جو آپ نے 9ذی الحجہ 10ھ کو عرفات کے میدان میں دیا تھا۔ حجۃ الوداع گویا زمانۂ نبوت کا سب سے بڑا اسلامی اجتماع تھا۔ اس موقع پر تقریباً سوا لاکھ اصحاب رسول جمع تھے۔ اس وقت اپنی وفا ت سے تقریباً دو ماہ قبل آپ نے یہ خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے ان تمام باتوں کا آخری اعلان فرمایا جس کے لیے آپ مبعوث کیے گئے تھے۔

حدیث کی کتابوں میں حجۃ الوداع کا نہایت تفصیلی تذکرہ ہے۔ مگر خطبہ حجۃ الوداع کسی روایت میں ایک کامل متن کی صورت میں مذکور نہیں۔ مختلف روایتوں میں اس کے متفرق اجزاء ملتے ہیں۔ متعدد اہل علم نے ان اجزا ء کو جوڑ کر ایک مجموعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

یہ خطبہ ایک لفظ میں خدا کی عظمت اور انسان کی مساوات کا اعلان تھا۔ آپ نے بتایا کہ انسانوں کے درمیان صحیح تقسیم صرف ایک ہے اور وہ خداپرست ہونے اور خدا پر ست نہ ہونے کی ہے۔ اس کے سوا دوسری تمام تقسیمات مصنوعی ہیں۔ آپ نے انہیں باطل ٹھہرا یا اور امت کو ذمہ دار بنایا کہ وہ ہمیشہ اس کا اعلان کرتی رہے۔

اس اعلان کا ایک عملی اظہار یہ تھا کہ جس وقت سوا  لاکھ انسانوں کے درمیان آپ نے عظمتِ خداوندی اور مساوات انسانی کا یہ خطبہ دیا اس وقت آپ کے سب سے زیادہ قریب دو آزاد شدہ غلام تھے۔ ایک بلال حبشی جو آپ کی سواری کی مہار پکڑے ہوئے تھے۔ اور دوسرے اسامہ بن زید جو آپ کے سر پر کپڑے کا سایہ کیے ہوئے تھے۔

ذیل میں یہ اہم خطبہ شائع کیا جا رہا ہے۔ اولاً خطبۂ نبوی کا عربی متن اور اس کے بعد اس کا اردو ترجمہ۔

نص الخطبۃ التی خطبھا رسول اللہ یوم عرفۃ

’’إِنَّ دِمَائَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ تَحْتَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ تَحْتَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُهُ دِمَاؤُنَا: دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَانَا: رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، اتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ، وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَإِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللهِ (وَسُنَّةَ ‌نَبِيِّهِ) وَأَنْتُمْ مَسْؤلُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟‘‘ قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّكَ وَنَصَحْتَ لِأُمَّتِكَ وَقَضَيْتَ الَّذِي عَلَيْكَ فَقَالَ بإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاس:’’اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ‘‘

(المنتقی لابن الجارود، جلد 1، صفحہ123؛ مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 321)۔

ترجمہ

بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تمہارے اوپر حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس شہر میں حرام ہے۔ سن لو کہ جاہلیت کے معاملے کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے ہے اور جاہلیت کے تمام خون با طل کر دیے گئے اور سب سے پہلا خون جو میں درگزر کرتا ہوں وہ ہمارا خون، ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ وہ بنو سعد میں دودھ پلانے والی دائی کے پاس تھا تواس کو ہذیل نے قتل کیا۔ اور جاہلیت کے تمام سود باطل ہیں۔ اور سب سے پہلا سود جو میں باطل کرتا ہوں وہ ہمارے خاندان کا سود، عباس بن عبد المطلب کا سود ہے وہ سب کا سب باطل ہے۔ تم لوگ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے۔ اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمہ سے حلال کیا ہے۔ اور ان کے اوپر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو، جس کا آنا تمہیں پسند نہیں، نہ آنے دیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو ایسی مار مار سکتے ہو جو ظاہر نہ ہو۔ اور تمہارے اوپر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کو معروف طریقہ پر کھانا اور کپڑا دو۔ اور میں تمہارے درمیان ایک چیز چھوڑ رہا ہوں۔ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑو گے تو تم گمراہ نہ ہوگے۔ وہ چیز خدا کی کتاب ہے۔ اور تم سے میری بابت پوچھا جائے گا۔ تو تم کیا کہو گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پہنچا دیا اور ادا کر دیا اور خیر خواہی کی۔ آپ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر اس کو لوگوں کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ۔

دوسرا خطبہ

نص الخطبۃ التی خطبھا رسول اللہ  فی اوسط أیام التشریق

’’يَا أَ يُّهَا النَّاسُ، هَلْ تَدْرُونَ فِي أَيِّ يَوْمٍ أَنْتُمْ؟ وفِي أَيِّ شَهْرٍ أَنْتُمْ؟ وَفِي أَيِّ بَلَدٍ أَنْتُمْ؟ قَالُوا:فِي يَوْمٍ حَرَامٍ، وَشَهْرٍ حَرَامٍ، وَبَلَدٍ حَرَامٍ، قَالَ:فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَهُ، ثُمَّ قَالَ: ’’اسْمَعُوا مِنِّي تَعِيشُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، إِنَّهُ لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ، وَمَالٍ وَمَأْثَرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمِي هَذِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمُ (ابْنِ) ‌رَبِيعَةَ ‌بْنِ ‌الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَإِنَّ اللهَ قَضَى أَنَّ أَوَّلَ رِبًا يُوضَعُ، رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لَا تَظْلِمُونَ، وَلَا تُظْلَمُونَ، أَلَا وَإِنَّ الزَّمَانَ قَدْ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ، أَلَا لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ، وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَكُمْ، فَاتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٌ، لَا يَمْلِكْنَ لِأَنْفُسِهِنَّ شَيْئًا، وَإِنَّ لَهُنَّ عَلَيْكُمْ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ حَقًّا: أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا غَيْرَكُمْ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِأَحَدٍ تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ خِفْتُمْ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ ’’وَلَهُنَّ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنَّمَا أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ ألا وَمَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَانَةٌ فَلْيُؤَدِّهَا إِلَى مَنْ ائْتَمَنَهُ عَلَيْهَا، وَبَسَطَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: ’’أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟‘‘ ثُمَّ قَالَ:                                                               ’’لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَإِنَّهُ رُبَّ مُبَلَّغٍ أَسْعَدُ مِنْ سَامِعٍ‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر 20695)۔

دوسرا خطبہ

اے لوگو! تم کیا جانتے ہو کہ تم کس مہینہ میں ہو اور تم کس دن میں ہو اور تم کس شہر میں ہو۔ لوگوں نے کہا کہ حرام دن اور حرام شہر اور حرام مہینہ میں۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے اوپر اسی طرح قیامت تک کے لیے حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارا یہ مہینہ اور تمہارا یہ شہر حرام ہے۔پھر فرمایا، میری بات سنو اور اس کے مطابق زندگی گزارو۔ خبردار، ظلم نہ کرنا۔ بے شک کسی مسلمان آدمی کا مال لینا جائز نہیں، الاّ یہ کہ وہ راضی ہو۔ سنو، جاہلیت کا ہر خون اور مال اور شرف قیامت تک کے لیے میرے دونوں قدموں کے نیچے ہیں، پہلا خون جو درگزر کیا جاتا ہے وہ ربیعہ ابن حارث ابن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے۔ وہ بنو سعد میں دودھ پلانے والی دائی کے پاس تھا تواس کو ہذیل نے قتل کر دیا تھا۔ جاہلیت کے تمام سود باطل کیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ پہلا سود جو باطل کیا جائے وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ تمہارے لیے تمہارا راس المال (principal sum)ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تمہارے اوپر کوئی ظلم کیا جائے۔ سنو، زمانہ گھوم گیا (پس وہ آج) اسی نقطہ پر ہے جس دن کہ خدا نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: خدا کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں، خدا کی کتاب میں، جس دن کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مہینے محترم ہیں۔یہی سیدھا دین ہے، پس تم ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو (9:36)۔ سنو، میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ سنو، شیطان اس سے مایوس ہو چکا ہے کہ نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں، لیکن آپس میں تم کو بر انگیختہ کرکے وہ اپنا مقصد حاصل کرے گا۔ اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ کیونکہ وہ تمہاری دست نگر ہیں۔ وہ اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتیں اور تمہارے اوپر ان کا حق ہے اور ان کے اوپر تمہارا حق ہے، یہ کہ تمہارے بستر پر وہ تمہارے سوا کسی اور کو نہ آنے دیں اور نہ ایسے شخص کو تمہارے گھر میں آنے دیں جس کو تم نا پسند کرتے ہو۔ پھر اگر تم ان سے نافرمانی کا اندیشہ محسوس کرو تو ان کو نصیحت کرو۔ اور ان کو خواب گاہوں میں چھوڑ دو۔ اور ان کو ہلکی مار مارو۔ اور انہیں معروف طریقے پر کھانے اور کپڑے کا حق ہے۔ تم نے ان کو خدا کی امانت کے طور پر لیا ہے۔ اور ان کی شرمگا ہوں کو اللہ کے کلمہ سے حلال کیا ہے۔ سنو، جس کے پاس کوئی امانت ہو تو وہ اس کو صاحب امانت کو واپس کر دے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور فرمایا۔ کیا میں نے پہنچا دیا، کیا میں نے پہنچا دیا۔ پھر آپ نے کہا جو حاضر ہے وہ غیر حاضر کو پہنچا دے کیونکہ بہت سے وہ لوگ جنہیں پہنچایا جائے وہ سننے والوں سے زیادہ خوش بخت ہوتے ہیں۔

تشریح

اس پورے خطبہ کا خلاصہ اس کے اس لفظ میں ہے: ألَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا (خبردارظلم نہ کرنا۔ خبر دار ظلم نہ کرنا)۔ اس خطبہ کا مقصد ظلم کے ہر دروازہ کو بند کرنا ہے خواہ وہ جھوٹے توہمات کی وجہ سے پیدا ہوا ہو یا غلط قوانین کی وجہ سے یا غرور اور سرکشی کی وجہ سے۔

اس مقصد کے لیے اعلان کر دیا گیا کہ اصولی طور پر ہر آدمی کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو دوسرے کے لیے حرام ہے، اِ لاّ یہ کہ اللہ کے واضح قانون کی بنا پر اس کا جواز ثابت ہوتا ہو۔ جاہلی روایات اور انتقامی جذبات کے تحت ایک دوسرے کے خلاف جو کارروائیاں کی جاتی ہیں وہ مطلق طور پر ممنوع قرار دیدی گئیں۔

سودی لین دین کو با لکل حرام قرار دے دیا گیا جو کہ سماج کے مختلف طبقات کے درمیان معاشی ظلم پیدا کرتا ہے۔ نیز دوسرے بالواسطہ طریقوں سے سماجی انصاف میں زبردست رکاوٹ ہے۔ عورتوں کے حقوق کو واضح طور پر متعین کر دیا گیا۔ اور مردوں کو اس سے روک دیا گیا کہ وہ عورت کو کمزور پاکر انھیں اپنی زیادتی کا نشانہ بنائیں۔

انسانوں کے درمیان باہمی معاملات کے لیے خدا کی کتاب اور رسول کی سنت کو آخری معیار قرار دے دیا گیا۔ لوگوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنا ہر جھگڑا قرآن و سنت کے احکام کے ماتحت طے کریں، خواہ قرآن و سنت کا فیصلہ ان کی مرضی کے موافق ہو یا ان کی مرضی کے خلاف۔

مسلمانوں کو ان کی گمراہی کے واحد سب سے بڑے سبب سے روکا گیا، اور وہ آپس کی نزاع ہے۔ خدا نے آخری دین کو اتنا محفوظ اور مستحکم کر دیا ہے کہ اب دین میں بگاڑ کے لیے شیطان کوئی راستہ نہیں پا سکتا۔ البتہ مختلف قسم کے جھوٹے نزاع کھڑے کرکے وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑائے گا۔ مسلمان اگر اس فتنہ سے بچ گئے تو پھر کوئی دوسری چیز انھیں ہر گز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر امانت کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو۔ خدا کے دین کو دوسروں تک پہنچانا بھی ادائیگی امانت ہے۔ لوگوں کے اموال کو انھیں لوٹانا بھی ادائیگی امانت ہے۔ اہل شخص کی اہلیت کا اعتراف کرکے اس کے لیے جگہ خالی کر دینا بھی ادائیگی امانت ہے۔ اور مسلمان کو پابند کیا گیا ہے کہ امانت کی ادائیگی کے ہر معاملہ میں وہ پوری طرح امین اور ذمہ دار ثابت ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ خطبہ گویا ایک زندہ پکار ہے۔ وہی حاجی حقیقی معنوں میں حاجی ہے جو حج کے دوران اس پکار کو سنے اور وہاں سے اس حال میں لوٹے کہ یہ خطبہ اس کی پوری زندگی کا لائحۂ عمل بن گیا ہو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom