آیا ت و احادیث
حج کی ادائیگی (بشرط استطاعت) تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ وہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک لازمی رکن ہے۔ یہاں حج کے فریضے سے متعلق کچھ آیتیں اور حدیثیں نقل کی جاتی ہیں:
آیات
- وَلِلهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِين (3:97)۔ یعنی، اور لوگوں پر بیت اللہ کا حج اللہ کا حق ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور جو شخص انکار کرے تو اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (3:96)۔ یعنی، پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کے لیے رہنما۔
- وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ۔ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ۔ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيق (22:27-29)۔ یعنی، اور لوگوں میں حج کے لیے پکار دو، وہ پیدل چل کر اور دُبلے اونٹوں پر سوار ہوکر چلے آئیں دور کی راہوں سے۔ تاکہ وہ اپنے فائدہ کی جگہوں پر پہنچیں اور معلوم دنوں میں اللہ کا نام لیں ان چو پایوں پر جو اللہ نے انھیں دیے ہیں۔ پس تم اس میں سے کھاؤ اور محتاجوں کو کھلاؤ۔ پھر چاہیے کہ وہ اپنا میل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم گھر کا طواف کریں۔
- الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ (2:197)۔یعنی، حج کے متعین مہینے ہیں۔ پس جس نے حج کا عزم کر لیا تو پھر اس کو حج کے دوران نہ کوئی فحش بات کرنی ہے اور نہ گناہ کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی۔ اور جو نیک کام تم کرو گے اللہ اس کو جان لے گا اور تم زادِراہ لو۔ بہتر زادِراہ تقویٰ کا زادِراہ ہے اور اے عقل والو، مجھ سے ڈرو۔
احادیث
- بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ:شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَان (صحیح البخاری، حدیث نمبر8؛صحیح مسلم، حدیث نمبر16)۔ یعنی،اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا۔
- أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ، فَحُجُّوا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 3236)۔یعنی، اے لوگو، اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے تو تم حج کرو۔
- مَنْ حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1521؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1350)۔یعنی، جو شخص اللہ کے لیے حج کرے پھر وہ نہ کوئی فحش بات کرے اور نہ کوئی گناہ کرے تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا جیسے کہ وہ اس دن تھا جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔
- العُمْرَةُ إِلَى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الجَنَّةُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1773؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1349)۔ یعنی، ایک عمرہ کے بعد دو سرا عمرہ درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے۔
- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ:إِيمَانٌ بِاللهِ وَرَسُولِهِ. قِيلَ:ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:الجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ. قِيلَ:ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:حَجٌّ مَبْرُورٌ (صحیح البخاری، حدیث نمبر26؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر83)۔یعنی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ پر اور رسول پر ایمان۔ پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے راستہ میں جہاد۔ پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا۔ فرمایا کہ حج مبرور (یعنی وہ حج جس کے ساتھ گناہ شامل نہ ہو)۔
- سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ اللهِ ثَلَاثَةٌ الْغَازِي وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ (سنن النسائی،حدیث نمبر2624)۔ یعنی، حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:اللہ کے وفد تین ہیں: غازی اور حاجی اور عمرہ کرنے والا۔
- عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلى الله عَليهِ وسَلم: مَنْ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ،أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ فَمَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ فَلْيَمُتْ إِنْ شَاءَ يَهُودِيًّا وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِيًّا (مسند الدارمی، حدیث نمبر1811)۔یعنی، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کو کوئی کھلی ہوئی ضرورت حج سے نہ روکے اور نہ کوئی ظالم بادشاہ یا کوئی سخت مرض روکے اور وہ حج کیے بغیر مرجائے تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔
- عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللهِ، مَا يُوجِبُ الحَجَّ؟ قَالَ:الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ (سنن الترمذی،حدیث نمبر813)۔یعنی، حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا چیزحج کو واجب کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ زادِراہ اور سواری۔
- عَنْ عَلِيٍّ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلاَ عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا (سنن الترمذی، حدیث نمبر812)۔یعنی، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس زادِ سفر اور سواری ہو جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے اور وہ حج نہ کرے تو وہ خواہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہو کر۔
- عن ابن عباسِ، قال قال رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلم مَنْ أرادَ الحَجَّ فلْيَتَعجَّلْ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر1732)۔یعنی، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص حج کرنا چاہتا ہو وہ جلدی کرے۔
- عن ابنِ عمرَ، قال: قام رجلٌ إلى النبيِّ صلى الله عليه وسلم فقال: من الحاجُّ يا رسولَ الله؟ قال:’’الشَّعِثُ التَّفِلُ‘‘ فقامَ رجلٌ آخَرُ، فقال: أيُّ الحجِّ أفضلُ يا رسولَ الله؟ قال: ’’العَجُّ والثَّجُّ‘‘. فقامَ رجلٌ آخرُ، فقال: ما السَّبيلُ يا رسولَ الله؟ قال: ’’الزَّادُ والرَّاحِلَةُ ‘‘(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3243)۔ یعنی، حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، حاجی کون ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پراگندہ بال اور بودار۔ ایک دوسرا شخص اٹھا اورکہا کہ کون سا حج افضل ہے، آپ نے فرمایا، بآواز بلند لبیک کہنا اور جانور قربان کرنا۔ پھر ایک اور شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ پھر ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ اس کی سبیل کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ زاد سفر اور سواری۔
- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ خَرَجَ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ غَازِيًا ثُمَّ مَاتَ فِي طَرِيقِهِ كَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْغَازِي وَالْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِر(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر3806)۔یعنی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جوشخص حج یا عمرہ یا جہاد کے ارادے سے نکلے پھر وہ راستہ میں مر جائے تو اللہ اس کے لیے غازی اور حاجی اور عمرہ کرنے والے کا اجر لکھ دے گا۔
- عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ:اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الجِهَادِ، فَقَالَ:جِهَادُكُنَّ الحَج ُّ(صحیح البخاری، حدیث نمبر2875)۔ یعنی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جہاد میں جانے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا کہ عورتوں کا جہاد حج ہے۔
- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ أَهْلُ اليَمَنِ يَحُجُّونَ وَلاَ يَتَزَوَّدُونَ، وَيَقُولُونَ: نَحْنُ المُتَوَكِّلُونَ، فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ، فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى (صحیح البخاری، حدیث نمبر1523)۔ یعنی، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یمن کے لوگ حج کرتے تھے اور زاد سفر نہیں لیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم متوکل ہیں۔ جب وہ مکہ آتے تو لوگوں سے سوال کرتے۔ چنانچہ اللہ نے یہ آیت (2:197) اتاری کہ ’’تم لوگ زادِراہ لے لیا کرو۔ بہترین زادِراہ تقویٰ ہے‘‘۔
- إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ؛ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللهِ عز وجل(سنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر 9646)۔ یعنی، کعبہ کا طواف کرنا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا اور جمعرات پر کنکریاں مارنا یہ سب صرف اللہ کی یاد قائم کرنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔
- الْحَجُّ مَرَّةٌ، فَمَنْ زَادَ فَهُوَ تَطَوُّعٌ (مسند احمد، حدیث نمبر2642)۔ یعنی، حج زندگی میں ایک بار ہے، پھر جو زیادہ کرے تووہ تطوع (نفل)ہے۔
- مَنْ قَدَرَ عَلَى الْحَجِّ فَلَمْ يَحُجَّ، فَلْيَمُتْ إِنْ شَاءَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا (المغنی لابن قدامہ، جلد14، صفحہ 170)۔ یعنی، جو شخص حج کرنے پر قادر ہو پھر بھی وہ حج نہ کرے تو چاہیے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر مرے۔
- عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:قُلْتُ:يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ عَلَى النِّسَاءِ مِنْ جِهَادٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، عَلَيْهِنَّ جِهَادٌ لَا قِتَالَ فِيهِ،الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ (مسنداحمد،حدیث نمبر 25322)۔ یعنی، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا۔ کیا عورتوں پر جہاد ہے۔ آپ نے فرمایا:ہاں۔ان پر ایسا جہاد ہے جس میں قتال نہیں۔ وہ ہے حج اور عمرہ۔
- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَ نَّهُ قَالَ:سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ لَمْ يَحْجُجْ، أَيَسْتَقْرِضُ لِلْحَجِّ؟ قَالَ:لا (مسند الشافعی، حدیث نمبر745)۔ یعنی، حضرت عبد اللہ بن اوفیٰ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے حج نہیں کیا ہے، کیا وہ حج کے لیے قرض لے سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا، نہیں۔
- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ حَاجًّا بِنَفَقَةٍ طَيِّبَةٍ، وَوَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، فَنَادَى:لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، نَادَاهُ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، زَادُكَ حَلَالٌ، وَرَاحِلَتُكَ حَلَالٌ، وَحَجُّكُ مَبْرُورٌ غَيْرُ مَأْزُورٍ، وَإِذَا خَرَجَ بِالنَّفَقَةِ الْخَبِيثَةِ، فَوَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، فَنَادَى: لَبَّيْكَ، نَادَاهُ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: لَا لَبَّيْكَ وَلَا سَعْدَيْكَ، زَادُكَ حَرَامٌ وَنَفَقَتُكَ حَرَامٌ، وَحَجُّكَ غَيْرُ مَبْرُورٍ (المعجم الاوسط،حدیث نمبر 5228)۔ یعنی، جب آدمی پاک مال کے ساتھ حج کے لیے نکلتا ہے اور اپنا پاؤں رکاب میں رکھتا ہے تو وہ کہتا ہے: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، اس وقت آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ لبیک، خوش آمدید، تمہارا زادِ سفر حلال اور تمہاری سواری حلال ہے اور تمہارا حج مبرور ہے۔ اس میں گنا ہ شامل نہیں۔ اور جب آدمی ناپاک مال کے ساتھ حج کے لیے نکلتا ہے اور وہ اپنا پاؤں رکاب میں رکھتا ہے اور کہتا ہے لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ۔ اس وقت آسمان سے ایک پکار نے والا پکارتا ہے کہ نہ لبیک اور نہ خوش آمدید۔ تمہارا زادِ سفر حرام ہے۔ تمہارا مال حرام ہے اور تمہارا حج غیر مبرور ہے۔
- اللهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ (السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر 10316)۔ یعنی، اے اللہ ہم تجھ سے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری مانگتے ہیں اور وہ عمل جس کو تو پسند کرے۔ اور جس سے تو راضی ہو۔اے اللہ تو ہی سفر میں ساتھی ہے۔ اور تو ہی گھر (اور مال) کی خبر گیری کرنے والا ہے۔
- لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1549،صحیح مسلم، حدیث نمبر1184)۔ یعنی، حاضر ہوں خدایا میں حاضر ہوں۔ حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے اور بادشاہی میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
- اللهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا مَبْرُورًا، وَذَنْبًا مَغْفُورًا (مسند احمد، حدیث نمبر4061)۔ یعنی، خدایا، میرے اس حج کوتو حج مبروربنا دے اور اس کو میرے گناہوں کی بخشش بنا دے۔
Book :