حج ایک تاریخ ساز عمل

کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کو اس میں تردد تھا کہ اسلامی عبادتوں میں کون سی عبادت افضل عبادت ہے۔ جب انھوں نے حج ادا کیا تو اس کے بعد انھوں نے کہا کہ اب مجھے یقین ہو گیا کہ حج تمام عبادتوں میں سب سے افضل عبادت ہے۔

حج کی اس فضیلت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ حج کا تعلق ایک عظیم خدائی منصوبہ سے ہے۔ حج ایک ایسے خدائی منصوبہ کی یاد گار ہے جس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اس کی آخری تکمیل ہوئی۔

حج کے مختلف مناسک اسی خدائی منصوبہ کے مختلف مراحل ہیں جن کو حاجی علامتی طور پر دہراتا ہے۔ حاجی اپنے گھر سے نکل کر حجاز کے لیے روانہ ہوتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم عراق سے نکل کر حجاز آئے۔ وہ مکہ کے قریب پہنچ کر سلے ہوئے کپڑے اتار دیتا ہے اور اپنے جسم پر دو چادریں لپیٹ لیتا ہے۔ یہ اسی قسم کی سادہ پوشاک ہے جو اس زمانہ میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی ہوتی تھی۔ حاجی مکہ پہنچتا ہے تو کعبہ کے گرد گھوم کر اس کا چکّر لگاتا ہے۔ یہ وہی طواف ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے عہد خداوندی کی توثیق کے لیے کیا تھا۔ حاجی صفا و مروہ کے درمیان سات بار سعی کرتا ہے۔ یہ حضرت ہاجرہ کی اس دوڑ کی نقل ہے جو انھوں نے اس بیابان میں پانی کی تلاش کے لیے کی۔ حاجی منیٰ جاکر قربانی کرتا ہے، یہ اس قربانی کا علامتی اعادہ ہے جو حضرت ابراہیم نے اولاً بیٹے کے لیے اور اس کے بعد خدا کے حکم سے مینڈھے کے لیے کی تھی۔ حاجی جمرات پر جاکر شیطان کو کنکریاں مارتا ہے۔ یہ اس عمل کی یاد گار ہے جو حضرت اسماعیل نے شیطان کی طرف کنکر یاں مار کر کہا تھا جب کہ اس نے انھیں بہکانے کی کوشش کی۔ پھر تمام حاجی عرفات کے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ اس عمل کی آخری صورت ہے جو لبیک اللہم لبیک کی صورت میں ہر حاجی کی زبان سے ادا ہوتا ہے۔ یہاں تمام حاجی کھلے میدان میں جمع ہو کر اپنے خدا سے اجتماعی عہد کرتے ہیں کہ وہ وہی کریں گے جس کا سبق انھیں حج کی صورت میں دیا گیا ہے۔ وہ اسی میں جئیں گے جس میں وہ لوگ جئے جن کی یاد گار میں حج کی عبادت ادا کی جاتی ہے۔

حج کے مناسک کو قرآن میں شعائر کہا گیا ہے(5:2)، یعنی علامتی چیزیں۔ یہ سب دراصل حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان پر گزرنے والے واقعات ہیں جو مذکورہ منصوبہ الٰہی کی تکمیل کے دوران پیش آئے۔ ان واقعات کو حاجی علامتی طور پر دہراتا ہے اور اس طرح یہ عہد کرتا ہے کہ وہ بھی اسی تاریخ کا جزء بنے گا۔

حاجی گویا یہ عہد کرتا ہے کہ اگر ضرورت پیش آئی تو وہ اپنی دنیا کو اجاڑ کر حق کی طرف بڑھے گا۔ وہ آرام و راحت کو چھوڑ کر قناعت اور سادگی پر اپنے آپ کو راضی کرے گا۔ وہ خدا کے لیے دوڑے گا اور خدا کے گرد گھومے گا۔ وہ شیطانی بہکاوے کو ’’پتھر مار‘‘کر اپنے سے دور بھگائے گا۔ خدا کا دین اس کو جہاں لے جائے وہاں وہ جائے گا۔ اور جس چیز کا تقاضا کرے گا اس کو وہ اس کے حوالے کر دے گا۔ وہ عمل کی زبان میں خدا سے کہتا ہے کہ اگر دوبارہ دین کے لیے ضرورت پیش آئی تو وہ اس آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہے کہ اپنی اولاد کو ذبح کرکے دین کی ضرورت پوری کرے۔

حضرت ابراہیم کا عراق سے چل کر مکہ آنا اور یہاں مذکورہ واقعات کا پیش آنا ایک عظیم خدائی منصوبہ تھا جو ڈھائی ہزار سال میں بروئے کار لایا گیا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اب سے پانچ ہزار سال پہلے انسانی ذہنوں پر شرک کا اتنا غلبہ ہو گیا تھا کہ زندگی کا کوئی شعبہ شرک سے خالی نہ تھا۔ یہ صورت حال نسل در نسل جاری رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسانی نسلوں میں شرک کا تسلسل قائم ہو گیا۔ اس زمانہ کی آبادیوں میں جو شخص بھی پیدا ہوتا وہ شرک کا ذہن لے کر پیدا ہوتا اور اسی پر اس کی پوری اٹھان ہوتی۔ اس بنا پر پیغمبروں کی توحید کی دعوت کسی طرح لوگوں کو اپیل نہیں کرتی تھی۔

اب خدا نے یہ منصوبہ بنایا کہ انسانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو مشرکانہ ماحول سے الگ ہوکر پرورش پائے تاکہ وہ مشرکانہ تسلسل سے آزاد ہوکر سوچ سکے۔ اس کے لیے شہری آبادیوں سے دور ایک غیر آباد مقام ہی مناسب ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے عرب کے خشک علاقہ کا انتخاب کیا گیا جو اس زمانہ میں آباد دنیا سے الگ تھلگ بالکل غیر آباد حالت میں پڑا ہوا تھا۔

اب اس بے آب و گیاہ علاقہ میں ایک نئی نسل تیار کرنے کے لیے وہ پہلا انسان درکار تھا جو موت کی قیمت پر وہاں بسنے کے لیے تیار ہو۔ اس نازک موقع پر حضرت ابراہیم کو خواب دکھایا گیا کہ آپ اپنے نوجوان بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ یہ جسمانی ذبح حقیقۃً صحرائی ذبح کی تمثیل تھی۔ اس کے ذریعہ یہ دیکھنا مقصود تھا کہ کیا ابراہیم اس کے لیے تیار ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدائی منصوبہ میں اس طرح شامل کریں کہ اپنی محبوب اولاد کو لے جاکر حجاز میں بسا دیں جہاں خشک پہاڑوں اور ریتیلے صحراؤں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس زمانہ میں حجاز میں بسنا موت کی وادی میں بسنے کے ہم معنی تھا۔

قدیم زمانہ میں حجاز اسی لیے غیر آباد پڑا رہا کہ وہاں پانی اور سبزہ نہ تھا۔ قدیم حجاز کا مشرکانہ تمدن سے پاک رہنا اسی لیے ممکن ہوا کہ وہ زندگی کے سامان سے خالی تھا۔ قدیم حجاز کی وہ خصوصیت جس نے اس کو مشرک انسانوں سے خالی رکھا تھا، اسی نے اس کو اس قابل بنا دیا کہ وہاں موحدین کی ایک نئی نسل تیار کی جائے۔ حضرت ابراہیم کا اپنے نوجوان بیٹے (اسماعیل) کے گلے پر چھری رکھنا اس بات کا اظہار تھا کہ وہ اس قربانی کے لیے آخری طور پر تیار ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کو اس منصوبہ خداوندی کے لیے چن لیا گیا اور ان کو قدیم حجاز کے الگ تھلگ علاقہ میں بسا کر ایک نئی نسل تیار کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ تاریخ میں اس واقعہ کا ذکر اس طرح آتا ہے:

’’عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي يَحْيَى، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَغَيْرُهُ، مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ:’’ أَنَّ اللهَ لَمَّا بَوَّأَ إِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ، خَرَجَ إِلَيْهِ مِنَ الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّهِ هَاجَرَ، وَإِسْمَاعِيلُ طِفْلٌ صَغِيرٌ يَرْضَعُ، وَمَعَهُ جِبْرِيلُ يَدُلُّهُ عَلَى مَوْضِعِ الْبَيْتِ وَمَعَالِمِ الْحَرَمِ. فَكَانَ لَا يَمُرُّ بِقَرْيَةٍ إِلَّا قَالَ:أَبِهَذِهِ أُمِرْتُ يَا جِبْرِيلُ؟ فَيَقُولُ جِبْرِيلُ: امْضِهْ. حَتَّى قَدِمَ بِهِ مَكَّةَ، وَهِيَ إِذْ ذَاكَ عِضَاهُ سَلَمٍ وَسَمُرٍ يَرُبُّهَا أُنَاسٌ يُقَالُ لَهُمُ الْعَمَالِيقُ خَارِجَ مَكَّةَ وَمَا حَوْلَهَا، وَالْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ رَبْوَةٌ حَمْرَاءُ مَدَرَةٌ، فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ لِجِبْرِيلَ: أَهَهُنَا أُمِرْتَ أَنْ أَضَعَهُمَا؟ قَالَ: نَعَمْ. فَعَمَدَ بِهِمَا إِلَى مَوْضِعِ الْحَجَرِ فَأَنْزَلَهُمَا فِيهِ، وَأَمَرَ هَاجَرَ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِ عَرِيشًا، فَقَالَ: ’’رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ‘‘ إِلَى قَوْلِهِ: ’’لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ‘‘ (تفسیر الطبری، جلد 2،صفحہ 554)۔

’’وَلَيْسَ بمكة يومئذ أحد، وليس بِهَا مَاءٌ، فَوَضَعَهُمَا هُنَالِكَ، وَوَضَعَ عِنْدَهُمَا جِرَابًا فِيهِ تَمْرٌ، وَسِقَاءً فِيهِ مَاءٌ، ثُمَّ قَفَّى إِبْرَاهِيمُ مُنْطَلِقًا فَتَبِعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، فَقَالَتْ: يَا إِبْرَاهِيمُ! أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الْوَادِي الَّذِي ليس فيه إنس ولا شي، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا وَجَعَلَ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ لَهُ:آللهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَتْ إِذًا لَا يُضَيِّعُنَا، ثُمَّ رَجَعَتْ، فانطلق إبراهيم. حتى إذا كان عند التثنية حَيْثُ لَا يَرَوْنَهُ، اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الْبَيْتَ ثُمَّ دَعَا بِهَذِهِ الدَّعَوَاتِ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ:’’رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ‘‘ حَتَّى بَلَغَ ’’يَشْكُرُون‘‘ (تفسیر القرطبی، جلد 9، صفحہ 368)۔

’’وَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تُرْضِعُ إِسْمَاعِيلَ وَتَشْرَبُ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ، حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا فِي السِّقَاءِ عَطِشَتْ وَعَطِشَ ابْنُهَا، وَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَيْهِ يَتَلَوَّى- أَوْ قَالَ يَتَلَبَّطُ۔ فَانْطَلَقَتْ كَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَتِ الصَّفَا أَقْرَبَ جَبَلٍ فِي الْأَرْضِ يَلِيهَا، فَقَامَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتِ الْوَادِي تَنْظُرُ هَلْ تَرَى أَحَدًا، فَلَمْ تَرَ أَحَدًا، فَهَبَطَتْ مِنَ الصَّفَا، حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْوَادِي، رَفَعَتْ طَرَفَ دِرْعِهَا، ثُمَّ سَعَتْ سَعْيَ الْإِنْسَانِ الْمَجْهُودِ، ثُمَّ جَاوَزَتِ الْوَادِي، ثُمَّ أَتَتِ الْمَرْوَةَ فَقَامَتْ عَلَيْهِ، فَنَظَرَتْ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’ فَذَلِكَ سَعْيُ النَّاسِ بَيْنَهُمَا ’’فَلَمَّا أَشْرَفَتْ عَلَى الْمَرْوَةِ سَمِعَتْ صَوْتًا فَقَالَتْ: صَهْ! تُرِيدُ نَفْسَهَا، ثُمَّ تَسَمَّعَتْ فَسَمِعَتْ أَيْضًا فَقَالَتْ: قَدْ أَسْمَعْتَ، إِنْ كَانَ عِنْدَكَ غِوَاثٌ!۔فَإِذَا هِيَ بِالْمَلَكِ عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ فَبَحَثَ بِعَقِبِهِ- أَوْ قَالَ بِجَنَاحِهِ- حَتَّى ظَهَرَ الْمَاءُ، فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وَتَقُولُ.۔ بِيَدِهَا هَكَذَا، وَجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنَ الْمَاءِ فِي سِقَائِهَا وَهُوَ يَفُورُ بَعْدَ مَا تَغْرِفُ‘‘  (تفسیر القرطبی، جلد 9، صفحہ 369)۔

’’ وَ ماتَت (ام اسماعیل) فَجَاءَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَ مَا تَزَوَّجَ إِسْمَاعِيلُ يُطَالِعُ تَرِكَتَهُ فَلَمْ يَجِدْ إِسْمَاعِيلَ، فَسَأَلَ امْرَأَتَهُ عَنْهُ فَقَالَتْ:خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا، ثُمَّ سَأَلَهُمْ عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ فَقَالَتْ: نَحْنُ بِشَرٍّ، نَحْنُ فِي ضِيقٍ وَشِدَّةٍ، فَشَكَتْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَقُولِي لَهُ يُغَيِّرُ عَتَبَةَ بَابِهِ، فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ كَأَنَّهُ آنَسَ شَيْئًا فَقَالَ: هَلْ جَاءَكُمْ مِنْ أَحَدٍ! قَالَتْ: نَعَمْ جَاءَنَا شَيْخٌ كَذَا وَكَذَا فَسَأَلَنِي عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ، وَسَأَلَنِي كَيْفَ عِيشَتُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا فِي جَهْدٍ وَشِدَّةٍ، قَالَ: فَهَلْ أَوْصَاكِ بِشَيْءٍ: قَالَتْ: أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ السَّلَامَ، وَيَقُولُ: غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ، قَالَ: ذَاكَ أَبِي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَطَلَّقَهَا وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَى، فَلَبِثَ عَنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ مَا شَاءَ اللهُ ثُمَّ أَتَاهُمْ بَعْدُ فَلَمْ يَجِدْهُ، وَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ فَسَأَلَهَا عَنْهُ فَقَالَتْ: خَرَجَ يَبْتَغِي لنا. قال:كَيْفَ أَنْتُمْ؟ وَسَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ فَقَالَتْ: نَحْنُ بِخَيْرٍ وَسَعَةٍ وَأَثْنَتْ عَلَى اللهِ. قَالَ: مَا طَعَامُكُمْ؟ قَالَتِ: اللَّحْمُ. قَالَ فَمَا شَرَابُكُمْ؟ قَالَتِ: الْمَاءُ. قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي اللَّحْمِ وَالْمَاءِ. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ يَوْمئِذٍ حَبٌّ وَلَوْ كَانَ لَهُمْ دَعَا لَهُمْ فِيهِ.‘‘ قَالَ: فَهُمَا لَا يَخْلُو  عَلَيْهِمَا أَحَدٌ بِغَيْرِ مَكَّةَ إِلَّا لَمْ يُوَافِقَاهُ ‘‘ ( تفسیر القرطبی، جلد 9، صفحہ 373)۔

’’ قَالَ: فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ، فَاقْرَئِي عَلَيْهِ مِنِّي السَّلَامَ، وَأْمُرِيهِ أَنْ يُثَبِّتَ عَتَبَةَ بَابهِ، فَلمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: هَلْ أَتَاكِ أَحَدٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، أَتَانَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ، وَأَثْنَتْ عَلَيْهِ، وَسَأَلَنِي عَنْكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، وَسَأَلَنِي عَنْ عَيْشِنَا؟ فَقُلْتُ: إِنَّا بِخَيرٍ، قَالَ: هَلْ أَوْصَاكِ بِشَيْءٍ؟ قَالَتْ: هُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ، وَيَقُولُ لَكَ أَنْ تُثَبِّتَ عَتَبَةَ دَارِكَ، قَالَ: ذَلِكَ أَبِي، وَأَنْتِ الْعَتَبَةُ، فَأَمَرَنِي أَن أُمْسِكَكِ۔ثُمَّ لَبِثَ عَنْهُمْ مَا شَاءَ اللهُ، ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ، وَإِسْمَاعِيلُ يَبْرِي نَبْلًا لَهُ، تَحْتَ دَوْحَةٍ، قَرِيبًا مِنْ زَمْزَمَ، فَلمَّا رَآهُ قَامَ، فَصَنَعَا كَمَا يَصْنَعُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ، ثُمَّ قَالَ: يَا إِسْمَاعِيلُ، إِنَّ اللهَ يَأْمُرُنِي أَنْ أَبتَنِيَ بَيْتًا هَاهُنَا، وَأَشَارَ إِلَى أَكَمَةٍ مُرْتَفِعَةٍ إِلَى مَا حَوْلَهَا، يَأْتِيهَا السَّيْلُ مِنْ نَاحِيَتَيْهَا، وَلَا يَعْلُو عَلَيْهَا، فَقَامَا يَحْفُرَانِ عَنِ الْقَوَاعِدِ، فَعِنْدَ ذَلِكَ رَفَعَ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ، فَجَعَلَ إِبْرَاهِيمُ يَأْتِي بِالْحِجَارَةِ، وَإِسْمَاعِيلُ يَبْنِي، حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ، جَاءَ بِهَذَا الْحَجَرِ، فَوَضَعَهُ لَهُ، فَقَامَ عَلَيْهِ، وَهُوَ يَبْنِي، وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ، وَهُمَا يَقُولَانِ:رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (مصنف عبد الرزاق، جلد 4، صفحہ 352)۔

ابن اسحاق روایت کرتے ہیں: مجاہد اور دیگر اہلِ علم نے بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خانہ کعبہ کی جگہ کا پتہ بتایا، تو وہ شام سے نکلے اور اپنے ساتھ اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ کو لے کر چلے، اس وقت اسماعیل ایک دودھ پیتے بچے تھے۔ ان کے ساتھ حضرت جبریل بھی تھے، جو انہیں بیت اللہ کی جگہ اور حرم کے نشانات کی طرف رہنمائی کر رہے تھے۔ حضرت ابراہیم جب بھی کسی بستی سے گزرتے تو پوچھتے: ’’اے جبریل! کیا مجھے یہاں قیام کا حکم دیا گیا ہے؟‘‘ تو جبریل جواب دیتے: ’’چلتے رہیں۔‘‘ یہاں تک کہ وہ ان کو لے کرمکہ پہنچے، اور اُس وقت وہاں ببول اور کیکر کے درخت تھے، اور مکہ کے باہر اور اس کے آس پاس عمالیق نامی قوم آباد تھی۔ بیت اللہ (کی جگہ) اس وقت ایک سرخ اونچی زمین تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبریل سے پوچھا: ’’کیا مجھے ان دونوں کو یہیں ٹھہرانے کا حکم ہے؟‘‘  جبریل نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ چنانچہ انہوں نے ماں اور بچے کو پتھر کے مقام پر اتارا اور ہاجرہ سے کہا کہ وہ یہاں خیمہ بنالیں۔ اس موقع پر انہوں نے دعا کی (جیسا کہ قرآن میں ہے)’’اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بےکھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرما، تاکہ وہ شکر کریں‘‘ (ابراہیم، 14:37)۔

اُس وقت مکہ میں انسانی آبادی نہ تھی، اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ حضرت ابراہیم علیہالسلام نے ان کے پاس ایک تھیلا کھجور اور ایک مشکیزہ پانی کا رکھا اور چل دیے۔ حضرت ہاجرہ تیزی سے ان کے پیچھے گئیں اور کہا:’’اے ابراہیم! آپ ہمیں اس وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے نہ کوئی چیز؟‘‘  انہوں نے کئی بار یہی کہا، مگر حضرت ابراہیم نے کوئی جواب نہ دیا۔ آخرکار انہوں نے پوچھا: ’’کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟‘‘ حضرت ابراہیم نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ تب حضرت ہاجرہ نے کہا: ’’پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ وہ واپس چلی آئیں، اور حضرت ابراہیم روانہ ہوگئے۔ جب وہ اتنےدور پہنچ گئے جہاں سے وہ ان دونوں کو نظر نہیں آتے تھے، انہوں نے کعبہ کی سمت رخ کر کے دعا کی(جیسا کہ قرآن میں ہے) ’’ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بےکھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرما، تاکہ وہ شکر کریں‘‘ (14:37)۔

اس کے بعد چند دن اس طرح گزرے کہ حضرت ہاجرہ (کھجور کھاتیں، اور) اسماعیل کو دودھ پلاتیں اور مشکیزہ میں موجود پانی سے پیتی رہیں، یہاں تک کہ مشکیزے کا پانی ختم ہو گیا۔ پھر انہیں اور شیر خوار اسماعیل کو پیاس لگنے لگی۔ وہ بچے کو تڑپتا ہوا دیکھ کر برداشت نہ کر سکیں اور (پانی کی تلاش میں) اپنے سے قریب ترین  پہاڑی صفا پر چڑھ گئیں، وادی کی طرف دیکھا کہ شاید کوئی نظر آئے، مگر کوئی نظر نہ آیا۔ وہ نیچے اتریں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنی چادر کا کنارہ اٹھایا اور نڈھال (exhausted) انسان کی طرح دوڑنے لگیں۔ پھر وادی کو عبور کر کے مروہ تک پہنچیں اور اس پر چڑھ کر دیکھنے لگیں کہ شاید کوئی دکھائی دے، لیکن وہاں بھی کوئی نظر نہ آیا۔ انہوں نے یہ عمل سات مرتبہ دہرایا۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:’ ’یہی وجہ ہے کہ لوگ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں‘‘۔ ساتویں مرتبہ جب وہ مروہ کے اوپر تھیں تو  انھوں نے آواز ایک سنی تو انھوں نے اپنے آپ سے کہا:  ’’خاموش رہو!‘‘ غور کیا تو دوبارہ آواز سنائی دی۔انھوں نے آواز سے مخاطب ہو کہ کہا: میں تمھاری آواز سن رہی ہوں، کیا تم میری مدد کرسکتے ہو۔ دراصل وہ ایک فرشتہ تھا، زمزم کے مقام پر۔ اس نے اپنی ایڑی (یا اپنے پَر) سے زمین پر مارایہاں تک کہ پانی ظاہر ہو گیا۔ حضرت ہاجرہ فوراً اس کے گرد حوض بنانے لگیں، اور اپنے مشکیزے میں پانی بھرنے لگیں،مگر مشکیزہ بھرنے کے بعد بھی زمین سے پانی اُبلتا رہا۔

(پانی کے بعد وہاں قبیلہ ٔجرہم آکر آباد ہوگیا۔اس کے بعد نارمل انداز میں دن گزرنےلگے۔)یہاں تک کہ انھوں نے جرہم قبیلہ کی ایک خاتون سے حضرت  اسماعیل کی شادی کردی پھر ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم آئے۔ تاکہ وہ ان سب کی خبر لے سکیں، جن کو وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ لیکن (وہ پہنچے تو)اسماعیل سے ملاقات نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ بہو نے جواب دیا: وہ ہمارے لیے روزی کی تلاش میں گئے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم نے اپنی بہو سے ان کے حالاتِ زندگی کے بارے میں پوچھا، تو بہو نے کہا کہ ہم بدحالی میں ہیں، تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ یعنی اس عورت نے شکایت کی۔

ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: جب تمہارا شوہر آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دے۔

جب اسماعیل واپس آئے تو گویا انہوں نے کچھ محسوس کیا اور پوچھا: کیا یہاں کوئی آیا تھا؟

بیوی نے کہا: ہاں، ایک بزرگ آئے تھے، انہوں نے مجھ سے تمھارے بارے میں پوچھا اور میں نے انہیں بتایا۔ انہوں نے  ہماری زندگی کے حالات کے بارے میں پوچھا، تو میں نے بتایا کہ ہم تنگ حالی میں ہیں۔

اسماعیل نے پوچھا:کیا انہوں نے میرے لیے تمھیں کوئی پیغام دیا ہے؟

بیوی نے کہا:ہاں، انہوں نے کہا کہ تمہیں سلام کہوں اور یہ کہ تم اپنے دروازے کی چوکھٹ کو بدل دو۔

اسماعیل نے کہا:وہ میرے والد تھے، اور انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں۔ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔ چنانچہ اسماعیل نے اسے طلاق دے دی، پھر دوسری عورت سے شادی کرلی۔

حضرت ابراہیم اللہ کے حکم سے کچھ عرصے کے بعد دوبارہ ان کے یہاں تشریف لائے۔ اس وقت بھی اسماعیل گھر پر نہ تھے۔ اس وقت ان کی ملاقات اسماعیل کی دوسری بیوی سے ہوئی، چنانچہ حضرت ابراہیم نے اس سے اسماعیل کے بارے میں پوچھا۔

بیوی نے کہا: وہ ہمارے لیے روزی کی تلاش میں گئے ہیں۔

ابراہیم  علیہ السلام نے پوچھا: تمہارے حالات کیسے ہیں؟

بیوی نے کہا: ہم خیر و عافیت میں ہیں اور کشادگی میں ہیں، اور اللہ کی تعریف کی۔

ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا:تمہارا کھانا کیا ہے؟

بیوی نے کہا: گوشت۔

انہوں نے پوچھا: اور تمہارا مشروب کیا ہے؟

بیوی نے کہا:پانی۔

ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی:اے اللہ! ان کے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔

نبی نے فرمایا:اس وقت ان کے پاس اناج نہ تھا، اگر ہوتا تو وہ اس کے لیےبھی دعا کرتے۔پھر فرمایا: اگر کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اورجگہ صرف ان دو چیزوں(گوشت اور پانی)پرگزارا کرے تو وہ اس کو راس نہیں آئے گا۔‘‘

ابراہیم  علیہ السلام نے فرمایا:جب تمہارا شوہر آئے، تو اسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھے۔

جب اسماعیل واپس آئے تو انہوں نے پوچھا: کیا یہاں کوئی آیا تھا؟

بیوی نے کہا: ہاں، ایک خوش شکل بزرگ آئے تھے، اور انھوں نے حضرت ابراہیم کی تعریف کی، اور کہا کہ اس بزرگ نے تمہارے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں بتایا، اور ہماری زندگی کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ ہم خیر و عافیت میں ہیں۔

اسماعیل نے پوچھا:کیا انہوں نے میرے لیے کوئی نصیحت کی؟

بیوی نے کہا:انہوں نے سلام کہلا بھیجا اور کہا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو قائم رکھو۔

اسماعیل نے کہا: وہ میرے والد تھے، اور تم ہی وہ چوکھٹ ہو، انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہیں اپنے پاس رکھوں۔

کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم پھر  تشریف لائے۔ اس وقت اسماعیل ایک درخت کے نیچے تیر بنا رہے تھے، قریب ہی زمزم کا کنواں تھا۔ جب انہوں نے اپنے والد کو دیکھا، تو اٹھ کر ان سے اس طرح ملے، جیسے باپ اور بیٹا ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:اے اسماعیل! اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں اللہ کے لیے ایک گھر بناؤں۔ اور ایک اونچی جگہ کی طرف اشارہ کیا جس کے اردگرد پانی بہتا تھا مگر وہ جگہ اونچی تھی۔

چنانچہ دونوں نے بنیاد کھودنی شروع کی، اس کے بعداسماعیل پتھر لاتے اور ابراہیم تعمیر کرتے۔ جب دیوار اونچی ہوگئی، تو ابراہیم نے اپنے پاؤں کے نیچے ایک پتھر رکھ لیا، اور اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔اسماعیل پتھر اٹھا کر لاتے تھے، اور دونوں دعا کرتے تھے۔اس طرح حضرت ابراہیم نے اسماعیل کے ساتھ کعبہ کی تعمیر مکمل کی۔ تعمیر کے دوران  دونوں یہ دعا کرتے رہتے تھے، (جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: ’’اے ہمارے رب، قبول کر ہم سے، یقیناً تو ہی سننے والا، جاننے والا ہے‘‘  (2:127)۔

حضرت ابراہیم نے اسماعیل کی نسل میں ایک پیغمبر پیدا ہونے کی دعا کی تھی(البقرہ، 2:129)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی دعا کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، دعا اور اس کی قبولیت کے درمیان ڈھائی ہزار سال کا فاصلہ ہے۔ اس تاخیر کا سبب یہ ہے کہ اس مدت کے دوران وہ نسل تیار کی جار ہی تھی جو شرک کے تسلسل سے منقطع ہوکر سوچ سکے اور صحرائی تربیت کے نتیجہ میں جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ پیغمبر کا ساتھ دے کر اس مشکل مشن کو تکمیل تک پہنچا سکے۔ اسی لیے اس گروہ کو ’’خیر امت‘‘  کہا گیا۔ یہ امت تاریخ کی انوکھی امت ہے۔ ابتدا ء ً ضرور اس کی ایک تعداد پیغمبر کی دشمن ہو گئی۔ مگر جب اس کی سمجھ میں آ گیا تو اس نے بھر پور طور پر آپ کا ساتھ دیا۔

اس طرح جو نسل بنائی گئی اس کے اندر اگرچہ بعد کو اطراف کی دنیا سے کچھ شرک کے اثرات آ گئے۔ مگر بنیادی طور پر وہ ایک محفوظ نسل تھی۔ کچھ ناقص افراد کو چھوڑ کر وہ لوگ صحیح فطرت پر قائم تھے۔ انھوں نے ابتداء ًپیغمبر کی مخالفت بھی کی۔ مگر اس کا سبب زیادہ تر نا سمجھی تھا۔ جب ان کی سمجھ میں آگیا کہ واقعی یہ پیغمبر ہیں اور ان کا دین بر حق ہے تو ان کی مخالفت دو بارہ موافقت میں تبدیل ہو گئی۔ وہ بھر پور طور پر آپ کے ساتھی بن گئے۔

حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو ’’ذبح‘‘کرکے جو نسل تیار کی اس کا سب سے زیادہ نمایاں وصف یہ تھا کہ وہ آزاد ذہن کے ساتھ حقیقت کو دیکھ سکتی تھی اور اس کا اعتراف کر سکتی تھی۔ حقیقت واقعہ کو مان لینے کی صلاحیت اس کے اندر کامل درجہ میں موجود تھی۔ یہاں اس سلسلہ میں تین مختلف مثالیں نقل کی جاتی ہیں۔ ایک شخص وہ جس نے حق کو سنتے ہی اسے مان لیا۔ دوسرا وہ جس نے ابتداء ً انکار کیا مگر جب بات سمجھ میں آ گئی تو اس نے اعتراف میں دیر نہیں کی۔ تیسرا وہ جس نے اگرچہ اپنی سرداری کی خاطر اعتراف نہیں کیا مگر وہ بھی اس صفت عام سے خالی نہ تھا۔

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جو لو گ ابتدائی مرحلہ میں ایمان لائے ان میں سے ایک خالد بن سعید بن العاص تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہا کہ: اے محمد، آپ کس چیز کی طرف بلاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں تم کو ایک اللہ کی طرف بلاتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور یہ کہ تم پتھروں کی عبادت چھوڑ دو جو نہ سنتے اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کس نے ان کی عبادت کی اور کس نے ان کی عبادت نہیں کی ( وَلاَ يَدْرِي مَنْ عَبَدَهُ مِمَّنْ لَمْ يَعْبُدَهُ )۔خالد نے یہ سن کر کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔

حضرت خالد کے والد جو مشرک تھے جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے اسلام قبول کر لیا ہے تو انھوں نے ان کو پکڑا اور انھیں مارنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ مارتے مارتے لکڑی ٹوٹ گئی۔ جب حضرت خالد اسلام سے پھر نے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو باپ نے کہا کہ میں تمہارا کھانا پینا بند کر دوں گا اور تجھے گھر سے نکال دوں گا۔ حضرت خالد نے جواب دیا، خدا کی قسم محمدؐ نے جو کہا سچ کہا اور میں ان کا پیرو ہوں: قَدْ صَدَقَ وَاللهِ وَاتَّبَعْتُه (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 5082)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ محمد جب ایک حق بات کہہ رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ میں اسے نہ مانوں۔

2۔ دوسری مثال سہیل بن عمرو کی ہے۔ صلح حدیبیہ کے وقت وہ مخالفین اسلام کے نمائندہ تھے۔ طویل گفت و شنید کے بعد جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو املا کراتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ یہ وہ دفعات ہیں، جن پر محمد رسول اللہ نے اہل قریش سے صلح کی:

هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ

سہیل بن عمرو نے ان الفاظ پر سخت اعتراض کیا۔ انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم اگر ہم جانتے کہ آپ خدا کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ سے نہ روکتے اور نہ آپ سے لڑائی کرتے: وَاللهِ لَوْ كُنَّا نَعْلَمُ أَ نَّكَ رَسُولُ اللهِ مَا صَدَدْنَاكَ عَنِ الْبَيْتِ، وَلَا قَاتَلْنَاكَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2732)۔

بعد کی تاریخ نے بتایا کہ سہیل بن عمرو ان الفاظ میں پوری طرح صادق تھے۔ وہ واقعۃً نہ سمجھنے کی وجہ سے مخالفت کر رہے تھے۔ چنانچہ بعد کو جب ان کی سمجھ میں آ گیا کہ آپ سچے پیغمبر ہیں تو وہ ایمان لائے اور اس کے بعد اپنی پوری زندگی اسلام کی حمایت اور تائید میں وقف کر دی۔

3۔ تیسری مثال ابو جہل کی ہے۔ ابو جہل نے اگرچہ اسلام قبول ہیں کیا۔ مگر اس کے یہاں بھی اس عرب کردار کا ایسا نمونہ ملتا ہے جس کی مثال مشکل سے کہیں دوسری جگہ ملےگی۔

مکی دَور کا واقعہ ہے کہ ایک روز ابو جہل کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوئی۔ اس نے آپ کو بہت برا بھلا کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے۔ یہ واقعہ مکہ کی ایک عورت دیکھ رہی تھی۔ اس نے آپ کے چچا حمزہ بن عبد المطلب سے کہا کہ آج ابوجہل نے آپ کے بھتیجے سے بہت نازیبا انداز میں کلام کیا ہے۔ اس وقت حمزہ کے ہاتھ میں لوہے کی کمان تھی۔ وہ اس کو لیے ہوئے ابو جہل کے پاس آئے اور کمان سے اس کے سر پر اس طرح مارا کہ اس کا سر بری طرح زخمی ہو گیا۔ ابو جہل کے قبیلہ (بنو مخزوم) کے کچھ لوگ حمزہ کو مارنے کے لیے دوڑے۔ ابو جہل نے اپنے آدمیوں کو روک دیا اور کہا کہ حمزہ کو چھوڑ دو کیوں کہ خداکی قسم میں نے ان کے بھتیجے کو آج بہت برا بھلا کہہ دیا تھا: دَعُوا أَبَا عُمَارَةَ، لَقَدْ سَبَبْتُ ابْنَ أَخِيهِ سَبًّا قَبِيحًا(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 4879)۔

4۔ ہرقل کے مشہور واقعہ میں آتا ہے کہ اس نے ابو سفیان سے پوچھا کہ کیا نبوت کے اعلان سے پہلے تم لوگوں نے محمد کو کبھی جھوٹ بولتے ہوئے پایا ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ نہیں۔ یہ واقعہ نقل کرکے ابن کثیر لکھتے ہیں:

’’وكان أَبُو سُفْيَانَ إِذْ ذَاكَ رَأْسَ الْكَفَرَةِ وَزَعِيمَ الْمُشْرِكِينَ وَمَعَ هَذَا اعْتَرَفَ بِالْحَقِّ‘‘ (تفسیر ابن کثیر،جلد4، صفحہ222)۔ یعنی،ابو سفیان اس وقت کا فروں کے سردار اور مشرکوں کے لیڈر تھے، اس کے باوجود انھوں نے حق کا اعتراف کیا۔

یہ تھی وہ انسانی نسل جو حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کو’’ذبح ‘‘کرکے بنائی اور پھر اس کے منتخب افراد کے ذریعہ وہ’’خیر امت‘‘ بنی جس نے دل وجان سے توحید کو قبول کیا اور پھر بے مثال قربانی کے ذریعہ دَورِ شرک کو ختم کر کے دَورِ توحید کو برپا کیا۔

حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت محمد تک یہ ایک ڈھائی ہزار سالہ منصوبہ تھا۔ اس کا مرکز عرب کا وہ علاقہ تھا جس کو حجاز کہا جاتا ہے اور جس میں مکہ واقع ہے۔ حج اسی تاریخ کا علامتی اعادہ ہے۔ حج کے ذریعہ مسلمان دوبارہ یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اس منصوبہ خداوندی میں اپنے آپ کو شامل کریں گے۔ وہ لبَیک اَللَّھُمَّ لَبَّیکۡ (ہم حاضر ہیں خدایا ہم حاضر ہیں) کہتے ہوئے ابراہیم اور اسماعیل کی سر زمین میں جمع ہوتے ہیں۔ جو کچھ ان لوگوں پر حقیقی طور پر گزرا تھا اس کو چند دن میں علامتی طور پر دہراتے ہیں۔ اس طرح وہ خدا سے کہتے ہیں کہ اگر ضرورت ہو تو وہ دوبارہ اس تاریخ کو دہرانے کے لیے تیار ہیں جو یہاں اس سے پہلے دہرائی گئی تھی۔

آج زمانہ گھوم کر دوبارہ وہیں پہنچ گیا ہے جہاں وہ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں تھا۔ اس وقت سارے عالم پر شرک کا غلبہ تھا، آج سارے عالم پر الحاد کا غلبہ ہے۔ قدیم زمانہ کا انسان اگر مشرکانہ طرز پر سوچتا تھا تو آج کا انسان ملحدانہ طرز پر سوچتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کو موجو دہ زمانہ کا مسئلہ وہی ہے جو قدیم زمانہ کا مسئلہ تھا۔ اس فرق کے ساتھ کہ قدیم زمانہ میں مشرکانہ شاکلہ لوگوں کے اوپر چھا یا ہوا تھا۔ آج لوگوں کے اوپر الحادی شاکلہ چھایا ہوا ہے۔ اس شاکلہ (ذہنی سانچہ) کو توڑنا ہی آج اسلام کا اصل کام ہے۔ آج بھی اسلامی مہم اسی نہج پر طے ہو گی جس نہج پر قدیم زمانہ کی اسلامی مہم طے ہوئی تھی۔

اب دوبارہ کچھ لوگوں کو ذبح ہونا ہے۔ اب پھر کچھ لوگوں کو اپنی اولاد کو صحرا میں ڈالنا ہے تاکہ دین کی تاریخ دوبارہ زندہ ہو۔ ماضی میں دور شرک کو ختم کرنے کے لیے ایک نسل کی قربانی درکار تھی۔ آج دور الحاد کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ ایک نسل کی قربانی درکار ہے۔یہی حج کا سب سے بڑا سبق ہے۔ اسی کا حج آج حج مبرور ہے جو حج کے بعد یہ عزم لے کر وہاں سے واپس آئے۔

حقیقت یہ ہے کہ حج سے فراغت کے بعد حاجی کا کام ختم نہیں ہو جاتا، حج سے فراغت کے بعد حاجی کا اصل کام شروع ہوتا ہے۔ حج کے سفر سے واپسی ایک نئے اہم تر سفر کا آغاز ہے۔

حاجی مراسم حج کے دوران بار بار لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ (حاضر ہوں خدایا میں حاضر ہوں)  کہتا ہے۔ یہ عہد نامے کے الفاظ ہیں۔ حج خدا اور بندے کے درمیان ایک عہد ہے۔ عہد ہمیشہ آغاز ہوتا ہے، وہ اختتام نہیں ہوتا۔ یہی حج کی عبادت کا معاملہ ہے۔ جو شخص مراسمِ حج کو اداکرکے واپس آتا ہے وہ گویا خدا سے ایک مقدس عہد کر کے واپس آتا ہے۔ واپس آنے کے بعد اسے مطمئن ہوکر بیٹھ نہیں جانا ہے بلکہ اپنے حالات اور صلاحیت کے اعتبار سے وہ کام شروع کر دیتا ہے جس کا وہ اپنے رب سے عہد کرکے واپس آیا ہے۔

حج سے لوٹنا مقام عہد سے نکل کر مقام عمل کی طرف لوٹنا ہے۔ حج کے بعد آدمی کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، حج کے بعد آدمی کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں۔

حج کا عہد نامہ کیا ہے۔ یہ ایک تاریخ کو دہرانے کا عزم ہے۔ حج تاریخ ابراہیمی کو دوبارہ ظہور میں لانے کا اقرار ہے۔ حضرت ابراہیم نے جب دیکھا کہ عراق کے متمدن لوگ توحید اور آخرت کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو انہوں نے اپنے عمل کا ایک نیا نقشہ بنایا انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو سخت ترین قربانی کے مرحلے سے گزار کر ایک نئی زندہ نسل پیدا کی۔ انہوں نے دعوت کے عمل کو ایک عظیم منصوبہ کا عمل بنا دیا۔ انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو یہ مقصد ان سے کرنے کا تقاضا کر رہا تھا۔

اسی طرح آج حاجی کو وہ سب کچھ کرنا ہے جو آج کے حالات کا تقاضا ہو اور اس وقت تک کرتے رہنا ہے جب کہ اس کی موت آئے یا وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے۔

حضرت ابراہیم کے زمانے میں جس طرح شرک کا عالمی غلبہ تھا۔ اسی طرح آج الحاد کا عالمی غلبہ ہے۔ اب حج سے لوٹنے والوں کو یہ کرنا ہے کہ الحاد کے غلبہ کو ختم کرکے دور توحید کو  واپس لانے کے لیے وه پرامن ابراہیمی سنت كو زنده كريں۔  وہ ابراہیمی عمل کو از سر نو زندہ کریں۔ وہ اس مقصد کی راہ میں اپنا وہ سب کچھ لگا دیں جس کو لگانے کا آج کے حالات ان سے تقاضا کرتے ہوں۔ وہ علامتی قربانی کو حقیقی قربانی بنا دیں۔

حج ایک تاریخ کے اعادہ کا عزم ہے۔ ایام حج میں علامتی مناسک کی صورت میں اور ایام حج کے بعد حقیقی زندگی میں منصوبہ بند عمل کی صورت میں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom