حج کی دعوتی اہمیت
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے پہلے بیت المقدس پیغمبرانہ ہدایت کا مرکز تھا۔ خاتم النبیین کے بعد بیت اللہ الحرام پیغمبرانہ ہدایت کا مرکز ہے (البقرہ،2:144)۔ حج ایک اعتبار سے دنیا بھر کے پیرو ان اسلام کا سالانہ دعوتی اجتماع ہے۔ وہ خاص دنوں میں حرم کے گرد جمع ہوتے ہیں تاکہ اس کی مقدس فضاؤں میں خدا سے اپنا تعلق استوار کریں۔ اپنے باہمی اتحاد کو مضبوط کریں اور داعیِ اعظم حضرت ابراہیم کی دعوتی زندگی کے مختلف مراحل کو علامتی طور پر دہرا کر اس بات کا عزم کریں کہ وہ ہر حال میں خدا کے دین کے داعیِ بنے رہیں گے۔
حج کی تاریخ
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امام ہدایت بنایا: إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (2:124)۔ یعنی آپ کو اس مستقل کام کے لیے چنا کہ آپ کے ذریعہ نبوت کا علم لوگوں تک برابر پہنچتا رہے۔ ابتدائی دو ہزار سال تک اس خدائی فیصلہ کا ظہور آپ کے صاحبزادہ اسحاق کی شاخ میں ہوا۔ حضرت اسحٰق سے لے کر حضرت مسیح تک اس نسل میں کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے جنھوں نے فلسطین اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں دعوت حق کا کام مسلسل انجام دیا۔ حضرت مسیح کے بعد یہ دینی امامت آپ کے دوسرے صاحبزادہ اسماعیل کی نسل میں منتقل ہو گئی۔ ان کی اولاد میں آخری نبی پیدا ہوئے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر غلبہ کی نسبت دی تاکہ آپ کے ذریعہ کتاب الٰہی کی حفاظت کا یقینی انتظام ہو سکے اور دین کے مٹنے کا اندیشہ نہ رہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں اظہارِ دین: لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (9:33) کہا گیا ہے۔ عام پیغمبروں سے اصلاً صرف تبلیغ دین مطلوب تھی اور پیغمبر آخر الزماں سے تبلیغِ دین کے ساتھ اظہارِ دین بھی۔
اس مقصد کے لیے انسانوں کی ایک معاون جماعت درکار تھی جو تمام انسانی اوصاف سے متصف ہو۔ وہ پیغمبر آخر الزماں کا ساتھ دے کر اظہار دین کے منصوبہ کو تکمیل تک پہنچائے۔ اسی جماعت کی تیاری کے لیے حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو قدیم مکہ کے غیر آباد اور خشک علاقے میں لاکر بسا دیا، تاکہ تمدن سے دور فطرت کے سادہ ماحول میں تو الد و تناسل کے ذریعہ ایک ایسی قوم پیدا ہو جس کے اندر تمام اعلیٰ صلاحیتیں محفوظ ہوں۔ جو بے آمیز ڈھنگ سے سوچے۔ جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ جو ایک نظری حق کی خاطر اپنا سب کچھ لٹادے۔ جس کے اندر پہاڑوں کی صلابت، صحرا کی وسعت اور آسمان کی بلندی ہو۔ اس طر ح جب صحرائی ماحول میں پرورش پاکر ایک خیر امت وجود میں آگئی (آل عمران،3:110) تو عین وقت پر اس کے اندر وہ نبی پیدا کر دیے گئے جس کے لیے حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے وقت دعا کی تھی(البقرہ،2:129)۔
حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کے بطن سے خدا کو ایک پیغمبر پیدا کرنا تھا۔ یہ پیغمبر حضرت ابراہیم ہی کی زندگی میں پیدا ہو گیا اور اس کا نام اسحاق رکھا گیا۔ دوسری طرف حضرت ابراہیم نے مکہ میں دعا کی کہ میرے لڑکے اسماعیل کی اولاد میں ایک نبی پیدا کر، تو اس دعا کی تکمیل میں دو ہزار سال سے زیادہ مدت لگی۔ اس فرق کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ دونوں کے تاریخی کردار کا فرق تھا۔ پیغمبر آخر الزماں کو اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے کے لیے ایک زندہ قوم درکار تھی۔ اس طرح کی قوم اسباب کے پردہ میں بننے کے لیے دو ہزار سال سے زیادہ کی مدت لگ گئی۔ چنانچہ یہ قوم تیار ہو گئی تو آپ خدائی منصوبہ کے مطابق پیدا کر دیے گئے۔ تاہم یہ بھی ضروری تھا کہ تیاری کے اس طویل وقفہ کے دوران پیغمبر انہ دعوت کے تسلسل کو باقی رکھا جائے۔ اس لیے دوسرا انتظام یہ کیا گیا کہ حضرت ابراہیم کی نسل کی اسرائیلی شاخ میں انبیاء کی پیدائش کا سلسلہ قائم کر دیا گیا۔ اور ایک کے بعد ایک پیغمبر آکر لوگوں کو خدا پرستی کا پیغام دیتے رہے۔ تاآنکہ نبی آخر الزماں کے ظہور کا وقت آجانے کی وجہ سے اس کی ضرورت باقی نہ رہی۔
اس منصوبہ کے مطابق، حضرت ابراہیم اپنے وطن عراق سے نکلے۔ ایک طرف آپ نے فلسطین (جرون) میں اپنی بیوی سارہ کو بسایا جن سے اسحاق پیدا ہوئے۔ دوسری طرف آپ نے عرب (مکہ) میں اپنی دوسری بیوی ہاجرہ اور ان کے لڑکے اسماعیل کو رکھا اور یہاں کعبہ کی تعمیر کی۔ گویا حضرت ابراہیم کے ذریعہ ہدایت عالم کی جو منصوبہ بندی کی گئی اس کے ابتدائی جزء کا مرکز فلسطین تھا اور اس کے آخری جزء کا مرکز حجاز۔
حضرت ابراہیم کے بعد اولاً فلسطین ہدایت الٰہی کا مرکز بنا۔ اسی علاقہ میں اس زمانہ کے تمام انبیاء پیدا ہوئے۔ حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ وغیرہ۔ حضرت ابراہیم کے پوتے حضرت یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ انھیں کی نسبت سے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ بعد کو جب بنی اسرائیل پر زوال آ گیا اور پیغمبروں کی مسلسل فہمائش کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو خدا نے ہدایتِ آسمانی کے حامل ہونے کی حیثیت سے انھیں معزول کر دیا اور یہ مقدس منصب ابراہیمی نسل کی دوسری شاخ بنو اسماعیل کو دے دیا۔ یہ واقعہ عین اس وقت ہوا جب کہ دو ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں ان کے اندر ایک ایسی زندہ قوم تیار ہو چکی تھی جو خدا کے دین کی حامل بن سکے۔ اس تبدیلی کی ایک ظاہری نشانی کے طور پر قبلۂ عبادت بدل دیا گیا۔ حضرت ابراہیم کے بعد تمام انبیاء بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے تھے۔ اب قدیم قبلہ کو منسوخ کر کے کعبہ کو قبلۂ عبادت کی حیثیت دے دی گئی۔
حج ایک دعوتی ادارہ
حج ابراہیمی تاریخ کا اعادہ ہے۔ حضرت ابراہیم کے ذریعہ دعوتِ حق کی جو عالمی منصوبہ بندی کی گئی اسی کے مختلف مراحل کو حاجی علامتی طور پر دہراتا ہے اور اس طرح خدا سے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسی ربانی مشن میں لگائے گا جس میں حضرت ابراہیم نے اپنے آپ کو لگایا، وہ ختم نبوت کے بعد نبوت کے کام کو اسی طرح جاری رکھے گا جس طرح خدا کے پاک پیغمبر نے اس کو انجام دیا۔
خدا کے دعوتی منصوبہ کی تکمیل کے لیے حضرت ابراہیم اپنے وطن سے نکلے، اسی طرح حاجی بھی اپنے وطن سے نکل کر زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ وہ دین کی خاطر بے وطن ہونے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے با لکل سادہ اور معمولی زندگی پر قناعت کی۔ اسی طرح حاجی احرام باندھ کر یہ عزم کرتا ہے کہ وہ صرف ناگزیر ضرورت پر اکتفا کرکے اپنی توجہ کو اصل مقصد کی طرف لگائے رہے گا۔ انھوں نے کعبہ کے گرد طواف کرکے خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کو استوار کیا، اسی طرح حاجی بھی کعبہ کا طواف کرکے خدا کا وفادار ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ دینی تقاضوں میں مصروف ہونے کی وجہ سے ان کے اہل خاندان پر یہ حالت گزری کہ پانی کی تلاش میں وہ صفا و مروہ کے درمیان دوڑے، اسی طرح حاجی دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کرکے ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی خاطر وہ اس آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہے خواہ اس کے گھر والوں پر وہ کیفیت گزر جائے جو ہاجرہ اور اسماعیل پر گزری۔ حضرت ابراہیم کو شیطان نے خدا کے نام سے ہٹانے کی کوشش کی تو انھوں نے اس کے اوپر کنکریاں پھینکیں اسی طرح حاجی علامتی شیطان پر رمی کرکے اس ارادہ کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بھی شیطان کے ساتھ یہی سلوک کرے گا اگر اس نے اس کو ور غلایا۔ حضرت ابراہیم کو خدا کی خاطر بیٹے کی جان تک پیش کرنی پڑی اسی طرح حاجی جانور کو قربان کرکے یہ اعلان کرتا ہے کہ دین کی خاطر وہ قربانی کی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ حضرت ابراہیم کا دعوتی مشن آخرت سے آگاہ کرنے کا مشن تھا۔ چنانچہ حاجی میدان عرفات میں جمع ہو کر میدان حشر کو یاد کرتا ہے تاکہ اس سب سے بڑی حقیقت کی یاد کو وہ اپنے ذہن کا جزء بنائے اور اس کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرے۔ حضرت ابراہیم کو جب جب ان کے رب نے پکارا وہ فوراً حاضر ہو گئے، اسی طرح حاجی اٹھتے بیٹھتے اور حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے بار بار کہتاہے: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَك (صحیحالبخاری،حدیث نمبر 1549؛ صحیح مسلم حدیث نمبر،1184)۔یعنی،میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے اور اقتدار میں تیرا کوئی شریک نہیں۔ اس طرح حاجی اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے رب کی پکار پر ہر وقت حاضر ہونے کے لیے تیار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیت اللہ دعوت اسلامی کا مرکز ہے اور حج اسلام کے داعیوں کا عالمی اجتماع۔ حج کے موقع پر جو افعال کیے جاتے ہیں وہ سب وہی ہیں جو حضرت ابراہیم کی دعوتی زندگی کی یادگار ہیں۔ حج کے مناسک انھیں واقعات کا تمثیلی اعادہ ہیں جو حضرت ابراہیم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کے درمیان مختلف صورتوں میں پیش آئے۔ حاجی بطور شعار (علامت) انھیں حج کے دنوں میں دہراتا ہے اور اس طرح اس بات کا عزم کرتا ہے کہ وہ اسی طرح داعیِ بن کر رہے گا جس طرح حضرت ابراہیم دنیا میں خدا کے بن کر رہے۔ ان میں سے کچھ دعوتی زندگی کے براہِ راست مرحلے ہیں اور کچھ بالواسطہ مرحلے۔
حضرت ابراہیم کی زندگی بتاتی ہے کہ حج کے یہ مراسم ان کی دعوتی زندگی کا جزء یا ان کے دعوتی سفر کے مراحل تھے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لیے حج اور کعبہ کی زیارت محض ایک قسم کی سالانہ مذہبی رسم بن کر رہ گئی ہے۔ مسلمانوں میں اگر دعوتی شعور اور تبلیغی روح زندہ ہو تو حج کا اجتماع خود بخود دعوتی اہمیت اختیار کر لے گا اور سالانہ دعوتی کانفرنس کے ہم معنی بن جائے گا۔ مگر جب مسلمانوں میں دعوتی روح ختم ہو جائے تو حج اسی طرح ایک بے روح عمل بن کر رہ جاتا ہے جیسا کہ وہ اس وقت مسلمانوں کے درمیان بنا ہوا ہے۔ وہ پتھر کے شیطان پر کنکریاں پھینکتے ہیں مگر زندہ شیطان کو زیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ وہ علامتی اعمال کو دہراتے ہیں مگر حقیقی اعمال کی ادائیگی کے لیے ان کے اندر کوئی جذبہ نہیں بھڑکتا۔
حج ذریعۂ اتحاد
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا اختلاف و انتشار ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حج جیسا نادر اجتماعی ادارہ کے درمیان پوری طرح موجود ہے، اس کے باوجود ان کے اندر باہمی اتحاد پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ حج اپنے سالانہ عالمی اجتماع کے ساتھ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اتحاد کا ایسا طاقت ور ذریعہ ہونا چاہیے جس میں تمام اختلافات پگھل کر رہ جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حج موجودہ حالت میں صرف ایک قسم کا روایتی ہجوم بن کر رہ گیا ہے، نہ کہ کسی عظیم مقصد کے حاملین کا زندہ اجتماع۔
اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے درمیان کوئی ایسا مشترک مقصد موجود ہو جو ان کی توجہات کو بلند تر نصب العین کی طرف لگا دے۔ اگر ایسا کوئی بڑا قصد سامنے موجود نہ ہوگا تو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر رہ جائیں گے اور بڑے بڑے اجتماعات کے باوجود مجتمع اور متحد نہ ہوں گے۔ دعوت، امت مسلمہ کا یہی عظیم مقصد ہے۔ اگر مسلمانوں کے اندر دعوتی جذبہ ابھر آئے تو اچانک پوری امت ایک بڑے نشانہ کی طرف متوجہ ہو جائے گی۔ اس کے بعد حج کا اجتماع اپنے آپ مسلمانوں کے درمیان عالمی اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا اور اسی کے ساتھ اسلام کی دعوت کا عالمی مرکز بھی۔
حج ایک زندہ عمل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے10 ھ میں آخری حج ادا فرمایا۔ اس موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کی موجودگی میں آپ نے 9 ذی الحجہ کو میدان عرفات میں ایک مفصل خطبہ دیا جو خطبۂ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کے اس حج کو حجۃ البلاغ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں آپ نے اسلام کی تمام بنیادی تعلیمات کو امت تک پہنچا کر اس سے اس کا عہد لیا تھا۔ چنانچہ خطبہ کے آخر میں یہ الفاظ آتے ہیں:
أَلَا فَلْيبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الغائب، فربّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ (دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد1، صفحہ23) وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟ ’’ قَالُوا نَشْهَدُ أَنْ قَدْ بَلَّغْتَ، فَأَدَّيْتَ، وَنَصَحْتَ، فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللهُمَّ، اشْهَدْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1218؛ صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 1457) یعنی، خبردار، جو موجود ہیں وہ میری بات کو غیر موجود تک پہنچا دیں۔ کیونکہ پہنچائے جانے والے اکثر سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا پھر تم کیا جواب دو گے۔ لوگوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے امانت ادا کر دی اور پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ۔
اس واقعہ کے دو مہینے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک اسلام عملاً عرب کے ملک تک پھیلا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے اصحاب عرب سے باہر نکلے۔ انھوں نے تبلیغ اسلام کو اپنا مشن بنا لیا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اور سارا اثاثہ دین کی اشاعت کی راہ میں لگا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی وفات کے پچاس سال کے اندر اسلام قدیم آباد دنیا کے بڑے حصہ میں پھیل گیا۔
اب بھی حج با قاعدہ ادا کیا جاتا ہے اور ’’حجۃ البلاغ‘‘ سے زیادہ بڑے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے امام حج ہر سال اسی قسم کی باتیں دہراتا ہے جو پیغمبر اسلام نے چودہ سو سال پہلے کہی تھیں۔مگر آج ان باتوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اس فرق کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے حج ایک زندہ عمل تھا، آج وہ ایک روایتی عمل بن گیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے حج کے موقع پر جن لوگوں کو خطاب کیا تھا وہ اسی ارادہ اور عزم کے ساتھ وہاں جمع ہوئے تھے کہ ان کو جو ہدایت دی جائے اس کو انھیں پورا کرنا ہے۔ اس کے برعکس، آج حاجیوں کی بھیڑ مکہ اور مدینہ میں صرف اس لیے جاتی ہے کہ وہ حج کے نام پر کچھ رسوم ادا کرکے واپس آجائے۔ اور جس حال میں پہلے تھی اسی حال میں دوبارہ رہنے لگے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حج کو ایک مؤثر عمل کی حیثیت سے زندہ کرنے کا کام سب سے پہلے ’’حاجیوں‘‘ کو زندہ کرنے کا کام ہے۔ جب تک حاجیوں، با لفاظ دیگر مسلمانوں میں شعور بیدار نہ کیا جائے، حج کی عبادت اسی طرح بے اثر رہے گی، جیسے ایک خراب بندوق جس کی لبلبی (trigger) دبائی جائے مگر اس کے باوجود وہ فائر نہ کرے۔
حج کی تنظیم نو
حج کو دوبارہ اس کی اصل روح کے ساتھ زندہ کرنا یہ ہے کہ اس کو دعوتی ادارہ کی حیثیت سے زندہ کیا جائے۔ حج کو دعوت اسلامی کی عالمی منصوبہ بندی کا مرکز بنا دیا جائے۔ اس بین الاقوامی موقع پر ہر ملک کے لوگ اپنے ملک کے دعوتی حالات پیش کریں۔ ایک جگہ کے لوگ دوسری جگہ کے تجربات کو جانیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ حج کے خطبات میں دعوت کی اہمیت اور اس کے جدید مواقع کی وضاحت کی جائے۔ حج کے ادارہ کے تحت مختلف زبانوں میں موثر دعوتی لٹریچر تیار کرنے کا انتظام کیا جائے اور اس کو عالمی سطح پر پھیلایا جائے، وغیرہ۔
تاہم یہ بھی اس طرح جان لینا چاہیے کہ حج کی نئی رخ بندی خود مسلمانوں کی زندگی کی نئی رخ بندی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ مسلمان کی اصل ذمہ داری شہادت علی الناس ہے۔ ان کے اور دوسری قوموں کے درمیان داعیِ اور مدعو کا رشتہ ہے۔ مگر مسلمان موجودہ زمانہ میں اس حقیقت کو با لکل بھول گئے ہیں۔ انھوں نے ساری دنیا میں غیر مسلم اقوام کو اپنا مادی حریف اور قومی فریق بنا رکھا ہے۔ حج کو دعوتی ادارہ کی حیثیت سے زندہ کرنے کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں کو دعوتی گروہ کی حیثیت سے زندہ کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اس کے لیے آمادہ کرنا ہوگا کہ دنیا بھر میں وہ اپنی ان قومی سرگرمیوں کو ختم کر دیں جو ان کے اور دوسری قوموں کے درمیان داعیِ اور مدعو کی فضا پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ اگر آپ کے اور دوسری قوموں کے درمیان معتدل فضا نہ ہو تو آپ کس کو تبلیغ کریں گے اور کون آپ کی تبلیغ کو سنے گا۔
پھر اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اعلیٰ درجہ کی تبلیغی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ جن کا نصاب اور نظام کامل طور پر دعوت رخی ہو۔ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں لوگوں کی تربیت داعیانہ انداز سے کی جائے۔ایسا لٹر یچر تیار کیا جائے جو ایک طرف لوگوں کے اندر دعوتی ذہن بنائے اور دوسری طرف ان کو دعوتی معلومات سے مسلح کرے۔ حتیٰ کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کاجدید بنیادی لٹریچر دوبارہ تیار کیا جائے۔ کیونکہ موجودہ زمانہ میں تفسیر قرآن اور سیرت رسول پر جو کتابیں تیار ہوئی ہیں وہ زیادہ تر ردعمل کی نفسیات کے تحت لکھی گئی ہیں، وہ غیر قوموں کے فکری اور عملی حملوں کے جواب کے طور پر وجود میں آئی ہیں، نہ کہ دعوت اسلام کی مثبت وضاحت کے لیے۔
اب سے چودہ سو سال پہلے مکی دور میں چلے جائیے تو آپ دیکھیں گے کہ اسلام کا پیغمبر تنہا کعبہ کا طواف کر رہا ہے۔ اس وقت اسلام دنیا میں اجنبی تھا۔ مگر آج ہر دن کثرت سے لوگ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور حج کے زمانہ میں ساری دنیا کے لاکھوں انسان اس طرح ہجوم کرکے مکہ آتے ہیں کہ مسجد حرام کی مسلسل توسیع کے باوجود ہر سال اس کی عمارت ناکافی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تعداد کی یہ کثرت کیسے ممکن ہوئی، جواب یہ ہے کہ دعوت کے ذریعہ۔ حقیقت یہ ہے کہ حج کا عالمی اجتماع اسلام کی دعوتی قوت کا ایک سالانہ مظاہرہ ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اسلام کی دعوتی قوت ہی میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام ترقیوں کا راز چھپا دیا ہے۔ اس میں اہل اسلام کی دنیوی نجات بھی ہے اور اسی میں ان کی اخروی نجات بھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کی قوت ہمیشہ دعوت رہی ہے۔ ابتدائی دور میں اسلام اگرچہ مکہ کے عوام کو متاثر نہ کر سکا، مگر وہ سارے قیمتی افراد مکہ کے ابتدائی دور ہی میں ملے جو بعد کو اسلام کی تاریخ کے ستون قرار پائے۔ یہ صرف اسلامی دعوت کا نتیجہ تھا، کیوں کہ اس وقت اسلام کے پاس کوئی دوسری قوت موجود ہی نہ تھی۔ بعد کو مکہ کے جو لوگ اسلام لائے وہ بھی اسلام کی نظر یاتی برتری سے متاثر ہو کر اسلام لائے، مثلاً عمرو بن العاص اور خالد بن ولید وغیرہ۔
دوسرے مرحلہ میں مدینہ میں اسلام کا مستحکم ہونا بھی دعوت ہی کے ذریعہ عمل میں آیا۔ مدینہ پر کبھی کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔ صرف چند لوگ اسلام کے داعیِ بن کر مدینہ پہنچے، وہاں انھوں نے سادہ انداز میں اسلام کی دعوت شروع کی۔ اس کے نتیجہ میں لو گ جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ یہاں تک کہ وہ نوبت آئی کہ مدینہ اسلام کا فکری اور عملی مرکز بن گیا۔
بعد کے دور میں مغلوں اور تاتاریوں کا مسئلہ اسلام کے لیے پیش آیا۔ یہ وحشی قومیں گھوڑوں پر سوار ہوکر تیر اور تلوار لیے ہوئے مسلم ملکوں پر ٹوٹ پڑیں اور ان کے طاقتی مراکز کو زیر و زبر کر ڈالا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کی تاریخ اسی طرح ختم ہو جائے گی جس طرح اس سے پہلے بہت سی تہذیبوں کی تاریخ پیدا ہوئی اور ختم ہو گئی۔ مگر عین اس وقت اسلام کی دعوتی طاقت ابھری اور اس نے سارے مسئلہ کو اس طرح حل کر دیا کہ خود فاتح قوموں کو اسلام کا جزء بنا لیا۔
حج اور بیت اللہ ایک عظیم دعوتی منصوبہ بندی کی علامت ہے۔ حضرت ابراہیم کی آواز جب عراق اور شام اور مصر کے متمدن علاقوں میں نہیں سنی گئی تو آپ نے خدا کے حکم سے اپنی اولاد کو لاکر مکہ میں بسایا اور یہاں کعبہ کی تعمیر کی تاکہ وہ ہدایت الٰہی کے مستقل مرکز کے طور پر کام دے:
- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (3:96)۔ یعنی،پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کے لیے رہنما۔
- عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ الدِّينَ لَيَأْرِزُ إِلَى الحِجَازِ كَمَا تَأْرِزُ الحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا، وَلَيَعْقِلَنَّ الدِّينُ مِنَ الحِجَازِ مَعْقِلَ الأُرْوِيَّةِ مِنْ رَأْسِ الجَبَلِ، إِنَّ الدِّينَ بَدَأَ غَرِيبًا وَيَرْجِعُ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ الَّذِينَ يُصْلِحُونَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2630)۔یعنی،دین حجاز کی طرف سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے اور دین حجاز کے ساتھ باندھ دیا جائے گا جس طرح بکرے کو پہاڑ کے تھا ن پر باندھ دیا جاتا ہے۔ دین شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا۔ وہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا تو اجنبیوں مبارک ہو۔ یہی لوگ ہیں جو اس وقت لوگوں کی اصلاح کریں گے جب کہ وہ بگڑ جائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں حجاز دعوت اسلامی کا مرکز بنا اسی طرح آئندہ بھی جب دین لوگوں کے اندر سے گم ہوگا تو دوبارہ حجاز ہی خدا کے دین کو زندہ کرنے کا مرکز بنے گا۔ حج کا مقام خدا کی عبادت کا مقام بھی ہے اور خدا کے دین کی دعوت و تجدید کا مرکز بھی۔ ضرورت ہے کہ آج حج کے مراکز کو دوبارہ اسی حیثیت سے زندہ کیا جائے۔
موجودہ زمانہ میں سائنسی انقلاب نے بہت سے نئے دعوتی امکانات کھول دیے ہیں۔ ان کے نتیجہ میں آج یہ بات ہمیشہ سے زیادہ بڑے پیمانہ پر ممکن ہو گئی ہے کہ حج کے عالم گیر اجتماع کو دعوت دین کی عالمی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا جائے، اور اس طرح اسلام کے طرز فکر کو دنیا میں دوبارہ غالب طرز فکر بنا دیا جائے۔جیسا کہ ماضی میں وہ غالب طرز فکر بنا ہوا تھا۔ یہی وہ مقصود ہے جس کو قرآن میں اظہار دین اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کہا گیا ہے، اور اس کو پانے کا راز بلا شبہ حج کی دعوتی اہمیت کو دوبارہ زندہ کرنے میں چھپا ہوا ہے۔
ایک ضروری شرط
حج کے ادارے کو عالمی دعوتی ادارہ بنانے کی ایک ہی لازمی شرط ہے۔ اور وہ یہ کہ حج کے فریضے کو سیاست سے بالکل الگ رکھا جائے۔
راقم الحروف نے ستمبر 1982 ء میں حج کا فریضہ ادا کیا تھا۔ ایک روز جب کہ میں بیت اللہ کے اندر تھا ایک خاص ملک کے کچھ لوگ وہاں آئے اور اپنے ملک کے لیڈر کا نام لے کر زندہ باد پائندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ یہ سن کر بہت سے حاجی ان کے گرد جمع ہو گئے۔ آپس میں اختلافی بحثیں شروع ہو گئیں یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔ بیت اللہ کا ماحول ذکر اور عبادت کا ماحول ہے مگر مذکورہ نادانی کے نتیجہ میں وہ سیاسی نزاع کا ماحول بن کر رہ گیا۔
یہی قصہ مدینہ میں بھی پیش آیا۔ مدینہ میں میں ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ وہاں کچھ نوجوان میرے کمرے میں آئے۔ ان کے پاس بہت سے چھپے ہوئے پمفلٹ تھے جو انگریزی اور عربی زبان میں تیار کیے گئے تھے۔ ان کتابچوں میں ایک خاص مسلم ملک کے حکمراں کو نشانہ بنا کر اس کے بارے میں مخالفانہ باتیں لکھی گئی تھیں۔ ان نو جوانوں نے یہ کتابچے مجھے دیے تو میں نے کہا کہ آپ اپنا قیمتی وقت بھی برباد کر رہے ہیں اور ایّام حج کو بھی نہایت غلط طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ نوجوان مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ وہ بگڑ کر چلے گئے۔
موجودہ زمانہ میں یہ رجحان کافی بڑھا ہے۔ کچھ ادارے اور کچھ حکومتیں حج کو صرف اس نظر سے دیکھتی ہیں کہ یہاں بیک وقت ساری دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو اپنے محدود سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ مگر یہ طریقہ سراسر غلط اور حج کے مقاصد کے با لکل خلاف ہے۔ حج میں جمع ہونے والے مسلمانوں کو صرف اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ وہ حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اس عالمی اجتماع سے فائدہ اٹھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر دعوتی روح پیدا کی جائے تا کہ وہ واپس جاکر اپنے اپنے علاقوں میں اللہ کے دین کا اعلان کرنے والے بنیں، نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے والے۔
حج ایک زبردست قوت ہے اور اس کو نہایت موثر طور پر عالمی اسلامی دعوت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کو آپس کے اختلاف کا میدان نہ بنایا جائے۔