حقیقتِ حج

حج اسلام کا ایک بنیادی رُکن ہے۔ دوسری عبادات کی طرح اس کی اصل روح تقویٰ ہے تاہم اس کی ایک منفرد نوعیت بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کو ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے۔

حج کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا جو بندہ مقامات حج پر پہنچ سکتا ہے وہ اپنی عمر میں کم از کم ایک بار ضرور وہاں پہنچے۔ وہاں مختلف اعمال کے ذریعہ وہ اپنی کامل عبدیت کا ثبوت دے۔ وہ ابراہیمی سر ز مین میں پہنچ کر علامتی طور پر آپ کے اعمال کو دہرائے اور اس طرح اپنے ظاہر و باطن کو ابراہیمی رنگ میں رنگنے کا جذبہ پیدا کرے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کرنے کے بعد آواز بلند کی تھی کہ اے لوگو، آؤ اور اپنے رب کا حج کرو۔ حج کا سفر اسی ابراہیمی پکار پر لبیک کہنا ہے۔ حج کے موسم میں ہر طرف سے لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ کی جو صدا بلند ہوتی ہے وہ اسی ندائے ابراہیمی کا جواب ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کرنے والا حضرت ابراہیم کی پکار پر لبیک کہتا ہوا اللہ کے یہاں حاضر ہو گیا ہے اور اس بات کا منتظر ہے کہ اس کو جو حکم بھی دیا جائے وہ اس کو دل و جان سے پورا کرنے میں لگ جائے۔

حج کے لفظی معنی ہیں قصد کرنا، زیارت کے لیے جانا۔ اسلامی شریعت میں حج سے مراد وہ سالانہ عبادت ہے جس میں آدمی مکہ جاکر خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے۔ عرفات کے میدان میں قیام کرتا ہے۔ اور دوسرے اعمال کرتا ہے جن کو مراسم حج کہا جاتا ہے۔

حج ایک جامع عبادت ہے۔ اس میں مال کا انفاق بھی ہے اور جسم کی مشقت بھی۔ اس میں اللہ کا ذکر بھی ہے اور اللہ کے لیے قربانی بھی۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں بقیہ عبادتوں کی روح بھی کسی نہ کسی اعتبار سے شامل ہو گئی ہے۔

حج کے فرائض کی ادائیگی کا مرکز بیت اللہ ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ بیت اللہ ایک بندۂ خدا کی اس پوری مومنانہ زندگی کی یاد دلاتا ہے جس کے آغاز میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی تاریخ ہے اور جس کے اختتام پر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تاریخ۔ بیت اللہ اس واقعہ کا ایک یاددگاری نمونہ ہے کہ کس طرح اللہ کا ایک بندہ اللہ کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے۔ کس طرح وہ اپنی زندگی کو اللہ کی مرضی میں ڈھال لیتا ہے۔ کس طرح وہ اللہ کے مشن میں اپنے آپ کو ہمہ تن لگا دیتا ہے یہاں تک کہ اسی حال میں اس کی موت آ جائے۔

خدا کی طرف سفر

حج کا سفر خدا کی طرف سفر ہے۔ وہ دنیا کی زندگی میں اپنے رب سے قریب ہونے کی انتہائی شکل ہے۔ دوسری عبادتیں اللہ تعالیٰ کی یاد ہیں، جب کہ حج خود اللہ تعالیٰ تک پہنچ جانا ہے۔ عام عبادت اگر غیب کی سطح پر خداکی عبادت ہے توحج شہود کی سطح پر خدا کی عبادت ہے۔

حاجی جب کعبہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے گویا وہ خود رب کعبہ کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ کعبہ کا طواف اس حقیقت کا مظہر ہے کہ بندہ اپنے رب کو پاکر پروانہ وار اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ جب وہ ملتزم کو پکڑ کر دعا کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے گویا اس کو اپنے آقا کا دامن ہاتھ آ گیا ہے جس سے وہ بے تابانہ لپٹ گیا ہے اور اپنی ساری بات اس سے کہہ دینا چاہتاہے۔

حج کی یہ خصوصیت اس لیے ہے کہ اس کے ادا کرنے کی جگہ ایک ایسا مقام ہے جہاں تجلیات الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ جس کو خدا نے اس مقصد کے لیے منتخب کیاکہ وہ خدا پر ستا نہ زندگی کے عظیم داعیِ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دینی عمل کا مرکز بنے۔ جہاں اسلام کی بنیاد پر بننے والی تاریخ ثبت ہے۔ جس کے ہر طرف اس مثالی ربانی انقلاب کے آثار پھیلے ہوئے ہیں جو خاتم النبیین کی رہنمائی میں چودہ سو سال پہلے واقع ہوا تھا۔

اس قسم کی روایات اور خصوصیات نے دیار حرم کو غیر معمولی اہمیت دے دی ہے۔ وہاں ایک خاص طرح کا روحانی اور تاریخی ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی وہاں جاتا ہے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ آدمی حج ادا کرنے کے بعد اس طرح لوٹتا ہے جیسے کوئی گردو غبار میں لپٹا ہوا آدمی دریا میں نہا کر واپس آئے۔

حج کو اسلامی عبادات میں ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ایک حدیث میں اس کو افضل عبادت کہا گیا ہے۔ تاہم حج کی یہ خصوصی اہمیت اپنی روح کے اعتبار سے ہے، نہ کہ محض اپنے ظاہر کے اعتبار سے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ محض دیار حرم میں جاکر واپس آجانے کا نام حج نہیں ہے بلکہ ان کیفیات کے حصول کا نام حج ہے جن کے لیے یہ فریضہ مقرر کیا گیا ہے۔ حج کے افضل عبادت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص حج کو اس کی سچی روح اور صحیح آداب کے ساتھ ادا کرے اس کے لیے حج اس کی سب سے بڑی عبادت بن جائےگا۔

عبادتوں کا سردار

حج حق تعالیٰ سے ملاقات ہے۔ آدمی جب سفر کرکے مقامات حج تک پہنچتا ہے تو اس پر خاص طرح کی ربانی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ ’’اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر ’’خدا کی دنیا‘‘ میں پہنچ گیا ہے۔ وہ اپنے رب کو چھو رہا ہے۔ وہ اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اس کی طرف دوڑ رہا ہے۔ وہ اس کی خاطر سفر کر رہا ہے۔ وہ اس کے حضور اپنی قربانی پیش کر رہا ہے۔ وہ اس کے دشمن پر کنکریاں مار رہا ہے۔ وہ اس سے مانگ رہا ہے جو کچھ وہ مانگنا چاہتا ہے۔ وہ اس سے پا رہا ہے جو کچھ اسے پانا چاہیے۔

کعبہ زمین کے اوپر خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ وہاں بھٹکی ہوئی انسانی روحوں کو خدا کی آغوش دی جاتی ہے۔ وہاں پتھرائے ہوئے سینوں میں عبدیت کے چشمے جاری کیے جاتے ہیں۔وہاں بے نور آنکھوں کو خدا کی تجلیات دکھائی جاتی ہیں۔ تاہم سب کچھ اس شخص کے لیے ہے جو اس کی استعداد لے کر وہاں جائے۔ بے استعداد لوگوں کے لیے حج بس ایک قسم کی سیاحت ہے۔ وہ صرف اس لیے وہاں جاتے ہیں تاکہ جیسے گئے تھے ویسے ہی دوبارہ واپس چلے آئیں۔

حدیث میں ارشاد ہوا ہے: الْحَجُّ ‌عَرَفَةُ (صحیح مسلم،حدیث نمبر55)۔یعنی عرفات کے میدان میں قیام حج ہے۔ اس سے عرفات کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حج کے زمانے میں عرفات کا میدان گویا حشر کے میدان کا منظر پیش کرتا ہے۔ ایک خاص تاریخ کو خدا کے بندے قافلہ در قافلہ چاروں طرف سے آتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہ بڑا عجیب منظر ہوتا ہے۔ تمام لوگوں کے جسم پر ایک ہی سادہ لباس(احرام) ہے۔ ہر ایک اپنی امتیازی صفت کو کھو چکا ہے۔ سب کی زبان پر ایک ہی کلمہ جاری ہے لَبَّيْك اللَّهُمَّ لَبَّيْك،لَبَّيْك اللَّهُمَّ لَبَّيْك۔ دیکھنے والوں کو یہ دیکھ کر قرآن کی وہ آیت یاد آنے لگتی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے دن جب صور پھونکا جائے گا تو تمام لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے:

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ (36:51)۔یعنی،اور صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ یکا یک قبروں سے اپنے رب کی طرف چلنے لگیں گے۔

عرفات کی یہ حاضری اس لیے ہے کہ آدمی حشر میں خدا کے سامنے اپنی حاضری کو یاد کرے۔ جو کچھ کل عملاً بیتنے والا ہے اس کو آج ہی تصوراتی طور پر اپنے اوپر طاری کر لے۔

حقیقت یہ ہے کہ حج تمام عبادتوں کا سردار ہے۔ کعبہ کا جو درجہ دوسری مسجدوں کے درمیان ہے وہی درجہ حج کا دوسری عبادتوں کے درمیان ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom