حج کا پیغام

حج کیا ہے۔ یہ اللہ کے لیے سفر کرنا ہے۔ اپنا وقت اور اپنامال خرچ کرکے ان مقامات پر پہنچنا ہے جہاں اللہ کی یاد گاریں ہیں، جن سے اللہ کے سچے بندوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ حج کے تمام مراسم اس بات کا عملی اظہار ہیں کہ آدمی اللہ کے لیے سر گرم ہے۔ اس نے اپنی زندگی اللہ کے کرد گھما رکھی ہے۔ وہ اللہ کے دوستوں کا دوست اور اللہ کے دشمنوں کا دشمن ہے۔ حشر کے میدان میں اللہ کے سامنے حاضری کی کیفیت کو آج ہی اس نے اپنے اوپر طاری کر لیا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ اللہ کی یاد کرنے والا ہے۔ وہ اسلام کو ایک عالمی حقیقت بنانے اور اس کو بین ا لاقوامی سطح پر رواج دینے کے لیے بے قرار ہے۔

حج بظاہر ایک وقتی عبادت ہے۔ مگر دراصل وہ ایک مومن کی پوری مومنانہ زندگی کی تصویر ہے۔ وہ آخری سانس تک کے لیے عبدیت کا اقرار نامہ ہے۔ آدمی اس لیے جیتا ہے تاکہ وہ اپنے رب کے لیے حج کرے۔ اور اس لیے حج کرتا ہے تاکہ وہ اپنے رب کے لیے جیے۔ حج مومن کی زندگی کی تعبیر بھی ہے اور اس کی موت کی تعبیر بھی۔

حج گویا حق تعالیٰ کی زیارت ہے۔ وہ دنیا کی زندگی میں اپنے رب سے قریب ہونے کی انتہائی شکل ہے۔ دوسری عبادتیں اگر اللہ کی یاد ہیں تو حج خود اللہ تعالیٰ تک پہنچ جانا ہے۔

حج کی یہ خصوصیت اس لیے ہے کہ وہ ایسے مقام پرکیا جاتا ہے جس کو اللہ نے مبارک اور ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے (آل عمران، 3:96)۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے کئی خداؤں کو اپنا مرجع بنانے کے بجائے ایک خدا کو اپنا مرجع بنایا۔ اور اس مقصد کے لیے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کی جو خدائے واحد کی عبادت کا عالمی مرکز ہے۔ یہی مرکز توحید حج کے مراسم کی ادائیگی کا مرکز بھی ہے۔ جہاں اسلام کی پوری تاریخ ثبت ہے۔ اس کے ہر طرف ان قابل نمونہ اصحابِ رسول کے نشانات پھیلے ہوئے ہیں جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی رہنمائی میں  خدا کے دین کو پہلی بار ایک تاریخی واقعہ بنایا۔

 ربانی جدو جہد کی اس تاریخ کی بنا پر مکہ روئے زمین پر اللہ کا سب سے محبوب اور سب سے بہترین مقام ہے (وَاللهِ إِنَّكِ ‌لَخَيْرُ ‌أَرْضِ ‌اللهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ عز وجل) مسند احمد، حدیث نمبر 18715۔ ان واقعات کی بنیاد پروہاں اسلام کے حق میں ایک خاص طرح کا تاریخی اور نفسیاتی ماحول بن گیا ہے۔ جو شخص بھی وہاں جاتا ہے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ حاجی اگر تیار ذہن ہو تو حج کے ذریعہ خدا کے ربانی رزق سے ایک ایسا حصہ لے کر لوٹتا ہے جو اس کی بقیہ زندگی میں اس کی دینی توانائی کا ذریعہ بنا رہے۔

حج کو اسلامی عبادات میں ہمیشہ ایک غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ وہ تمام عبادات کا مجموعہ ہے اور تمام عبادات میں زندگی پیدا کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم کے ذریعے جو عظیم ربانی منصوبہ زیر عمل آیا، حج کی عبادت گویا اسی کاایک ریہرسل ہے۔تاہم اس کی جو کچھ اہمیت ہے وہ اس کی حقیقی روح کے اعتبار سے ہے، نہ کہ محض ظاہری رسوم و آداب کے اعتبار سے۔ دوسرے لفظوں میں حج صرف اس کا نام نہیں ہے کہ آدمی دیار حرم میں جائے اور کچھ مخصوص مراسم دہرا کر واپس لوٹ آئے۔ بلکہ حج ان کیفیات کے حصول کا نام ہے جن کے لیے یہ مراسم مقرر کیے گئے ہیں۔ کھانا بلاشبہ آدمی کو طاقت دیتا ہے۔ مگر کھانا اسی شخص کے لیے طاقت ہے جو اس کو قاعدہ کے مطابق اپنے پیٹ میں ڈالے۔ اگر کوئی شخص اس کو محض دیکھے یا اپنے سر پر الٹ لے تو اس کے لیے انتہائی قیمتی غذا بھی با لکل بے فائدہ ثابت ہوگی۔ اسی طرح حج کا حقیقی فائدہ بھی اس شخص کو ملے گا جو حج کو اس طرح کرے جیسا کہ اس کو کرنا چاہیے۔ حج کی حقیقت کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ(2:197)۔ یعنی،حج کے مہینے معلوم ہیں۔ جو شخص ان میں حج کو اپنے اوپر مقرر کر لے توحج میں نہ فحش بات کرنی ہے، نہ گناہ کی بات اور نہ جھگڑا۔ اور تم جو بھلائی کرو گے، اللہ اس کو جان لے گا۔ اور زادراہ لے لیا کرو۔ سب سے بہتر زادراہ تقویٰ ہے۔ اے عقل والو مجھ سے ڈرو۔

رفث کے معنی ہیں فحش کلامی کرنا۔ فسق کا لفظ تقریباً اسی مفہوم میں آتا ہے جس کے لیے اردو میں کہتے ہیں’’اس نے انسانیت کا جامہ اتار پھینکا‘‘۔ جدال کے معنی ہیں ایک دوسرے سے جھگڑا کرنا۔ یہ تینوں الفاظ اس برائی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو عام طور پر زبان سے سرزد ہوتی ہے۔ جب مختلف لوگ اکٹھا ہوتے ہیں تو کوئی ہوس پرست آدمی فحش باتیں کرکے سنجیدہ ماحول کو بگاڑ دیتا ہے۔ کبھی عام عادت کے خلاف کوئی بات پیش آ تی ہے اور آدمی اپنا ظاہری لبادہ اتار کر ناحق باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی کسی سے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے اور آدمی برداشت نہ کرتے ہوئے اس سے جھگڑنے لگتا ہے۔

حج کا اجتماع اس قسم کی تمام برائیوں سے بچنے کی ایک تربیت ہے۔ ایک ایسا مقام جس سے تقدس اور احترام کی یادیں وابستہ ہیں، وہاں لے جاکر آدمی کو خصوصی طور پر اس کی مشق کرائی جاتی ہے کہ وہ اجتماعی ماحول میں رہتے ہوئے ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے آپ کو فواحش اور سطحی دل چسپیوں سے ہٹا کر سنجیدہ چیزوں کی طرف راغب کرے۔ اس کے اندر ہر حال میں حق و صلاح پر قائم ہونے کا مزاج پیدا ہو۔ اجتماعی زندگی میں ناخوش گوار تجربات پیش آنے یا دل کو ٹھیس لگنے کے باوجود وہ اپنے بھائی سے لڑنے کے لیے نہ کھڑا ہو جائے۔

جب بھی چند آدمی کہیں جمع ہوتے ہیں یا مل کر رہتے ہیں تو ایک کو دوسرے سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی صورت حال حج میں زیادہ بڑے پیمانہ پرپیش آتی ہے۔ کیوں کہ حج کے موقع پر مختلف قسم کے لوگ بہت بڑی تعداد میں ایک مقام پر اکٹھا ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حج کے دوران بار بار ایک کو دوسرے سے تکلیف پہنچتی ہے۔ اب اگر لوگ ذاتی شکایتوں کی بنا پر ایک دوسرے سے لڑنے لگیں تو عبادت کی فضا ختم ہو جائے اور حج کا مقصد حاصل نہ ہو سکے۔ اس لیے حج کے زمانہ میں جھگڑنے اور غصہ کرنے کو مطلق حرام قرار دے دیا گیا۔ اس طرح حج کو ایک بہت بڑی چیز کے لیے تربیت کا ذریعہ بنایا گیا۔ کیوں کہ لڑائی جھگڑا جس طرح حج کو باطل کر دیتا ہے اسی طرح وہ ایک مسلمان کی عام زندگی کو بھی اسلام سے دور کر دینے والا ہے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی ظاہری چیز کو تقویٰ کی علامت سمجھ لیتا ہے اور اس کو اختیار کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے متقیانہ زندگی حاصل کر لی۔ حالاں کہ اصل حقیقت کے اعتبار سے اس کا دل تقویٰ سے بالکل خالی ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ حج کے سفر میں زادِراہ نہ رکھنا تقویٰ کی علامت ہے وہ اس کا خوب اہتمام کرنے لگے۔ مگر زادِراہ کا تعلق ضرورت سے ہے، نہ کہ تقویٰ سے۔

اس قسم کی چیزوں میں آدمی کو اپنی ضرورت کے اعتبار سے تیاری کرنا چاہیے۔ مگر تقویٰ اس سے بالکل الگ چیز ہے۔ اس کا تعلق دل سے ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2564)۔ اللہ کے یہاں کوئی شخص محض اس لیے مقبول نہیں ہو جاتا کہ اس نے خوامخواہ زادِراہ کے بغیر سفر کیا اور اپنے جسم کو غیر ضروری مشقت میں ڈالا۔ اللہ کو دل کا تقویٰ مطلوب ہے۔ حج کے سفر کو تقویٰ کا زادِراہ فراہم کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے، کیونکہ یہی وہ زادِراہ ہے جو آخرت کے سفر میں آدمی کے کام آئے گا۔حج کے مسافر اور اسی طرح زندگی کے مسافر کے لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ شہوانی باتوں سے بچے، وہ اللہ کی نا پسندیدہ حرکتوں اور لڑائی جھگڑے کی چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔

چند پہلو

اکثر حاجیوں کو دیکھا گیا ہے کہ ارکانِ حج کو ادا کرتے ہوئے وہ بس رٹی ہوئی دعائیں دہراتے ہیں یا کتاب ہاتھ میں لے کر اس سے پڑھتے رہتے ہیں۔ حج کی فقہی ادائیگی اگرچہ اس سے ہو جاتی ہے مگر حج کے دوران ذکر و دعا سے جو چیز مطلوب ہے اس کا حق اس طرح ادا نہیں ہوتا۔ حج کے دوران آدمی پر وہ کیفیت گزرنی چاہیے جو حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان پر گزری تھی۔ مثلاً جب آدمی سعی کرتا ہے تو اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلنے چاہئیں کہ خدایا تو نے اس سعی کے بعد ہاجرہ کے لیے برکت کا ابدی چشمہ جاری کر دیا تھا، میری سعی کو بھی توایسی سعی بنا دے جس کے بعد میرے لیے خیرکے ایسے چشمے جاری ہو جائیں جو دنیا سے آخرت تک مجھے سیراب کرتے رہیں۔

السید سابق نے اپنی مشہور کتاب فقہ السنہ میں بجا طور پر لکھا ہے:

’’ يُستَحَبُّ لَهُ أَنْ يُكْثِرَ مِنَ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ، وَيَتَخَيَّرَ مِنْهُمَا مَا يَنْشَرِحُ لَهُ صَدْرُهُ، دُونَ أَنْ يَتَقَيَّدَ بِشَيْءٍ أَوْ يُرَدِّدَ مَا يَقُولُهُ الْمُطَوِّفُونَ. فَلَيْسَ فِي ذَلِكَ ذِكْرٌ مَحْدُودٌ، أَلْزَمَنَا الشَّارِعُ بِهِ. وَمَا يَقُولُهُ النَّاسُ مِنْ أَذْكَارٍ وَأَدْعِيَةٍ فِي الشَّوْطِ الْأَوَّلِ وَالثَّانِي، وَهَكَذَا، فَلَيْسَ لَهُ أَصْلٌ. وَلَمْ يُحْفَظْ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ، فَلِلطَّائِفِ أَنْ يَدْعُوَ لِنَفْسِهِ، وَلِإِخْوَانِهِ بِمَا شَاءَ، مِنْ خَيْرَيِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ‘‘ (فقہ السنۃ، جلداول، صفحہ 694)۔ یعنی، طواف کرنے والے کو چاہیے کہ طواف کے وقت خوب ذکراور دعا کرے اور ان میں سے جن پر اسے شرح صدر ہو ان کو اختیار کر لے بغیر اس کے کہ اپنے کو کسی سے مقید کرے یا معلمین کے کہے کو دہراتا رہے۔ کیونکہ طواف میں کوئی متعین ذکر نہیں ہے جس کا شارع نے ہم کو پابند کیا ہو۔ اور عوام جو اذکار اور دعائیں شوط اول، شوط ثانی وغیرہ میں پڑھتے ہیں ان کی کوئی اصل نہیں۔ اور اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ ثابت نہیں۔ طواف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے اور اپنے بھائیوں کے لیے جس طرح چاہے دنیا اور آخرت کی بہتری مانگے۔

حج کے مسائل جو قرآن و حدیث میں ہیں وہ اتنے کم ہیں کہ چند صفحات میں لکھے جا سکتے ہیں۔ مگر فقہاء نے دوسری عبادات کی طرح حج کے بے شمار مسائل و ضع کر رکھے ہیں جن کا احاطہ عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ اس  ’’اضافہ‘‘  کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ حجاج کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے مگر اس استدلال میں کوئی وزن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محض فقہی مسائل پڑھ کر کوئی شخص نہ نماز پڑھ سکتا ہے اور نہ حج کر سکتا ہے۔ یہ کا م ایسا ہے جو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کے مفصل احکام بتانے کے بجائے یہ فرمایا:

صَلوا كَمَا رَأيْتُمُوني أُصَلِّي (صحیح البخاری،حدیث نمبر 631)۔یعنی،جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو اسی طرح تم بھی نماز پڑھو۔

اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ لوگومجھ کو دیکھ کر حج کے طریقے سیکھ لو:

خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 1984)۔

یہی اصلی طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر صحابہ نے نماز پڑھی۔ صحابہ کو دیکھ کر تابعین نے۔ تابعین کو دیکھ کر تبع تابعین نے۔ اسی طرح یہ سلسلہ آج تک چلا جا رہا ہے۔ اگر لوگوں کے پاس صرف فقہ کے نام نہاد تفصیلی مسائل ہوتے تو لوگ کبھی صحیح طور پر نماز نہ پڑھ سکتے۔ امام ابو حنیفہ اس فن کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ مگر وکیع کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے ان سے کہا کہ میں نے مناسک کی ادائیگی میں پانچ غلطیاں کیں۔ پھر ایک حجام نے مجھے بتایا: عَنْ وَكِيعٍ، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو حَنِيفَةَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ رضي الله عنه:أَخْطَأْتُ فِي خَمْسَةِ أَبْوَابٍ مِنَ الْمَنَاسِكِ، ‌فَعَلَّمَنِيهَا ‌حَجَّامٌ  (البصائر والذخائرلابی حيان التوحيدی، جلد5، صفحہ 131)۔

آج کل حاجیوں میں تقریباً 95 فی صد تعداد زیادہ عمر والوں کی ہوتی ہے۔ ان میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بے حد بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ مناسک حج کو ادا کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے بہتریہ ہے کے وہ اپنا حج بدل کرائیں۔ حج بدل جو موجودہ زمانہ میں مُردوں کے لیے عام ہو گیا ہے وہ شریعت میں اصلاً ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

’’عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ:جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ عَامَ حَجَّةِ الوَدَاعِ، قَالَتْ:يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ:نَعَمْ‘‘ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1854)۔ یعنی،فضل بن عباس کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال بنو خثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ حج بندوں کے اوپر خدا کا فریضہ ہے۔ میرا ایک بوڑھا باپ ہے وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کروں۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔

حج بدل کی دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی مر گیا ہو اور یہ وصیت کی ہو کہ میری طرف سے حج ادا کر دینا۔ یہ صورت استنباطی طور پر نکلتی ہے۔

امام مالک کے نزدیک مردہ کی طرف سے حج بدل اسی وقت ہے جب کہ موت سے پہلے اس نے وصیت کی ہو: إِنَّمَا يُحَجُّ عَنْهُ إِذَا أَوْصَى۔ أَمَّا إِذَا لَمْ يُوصِ فَلَا يُحَجُّ عَنْهُ، لِأَنَّ الْحَجَّ عِبَادَةٌ غَلَبَ فِيهِ جَانِبُ الْبَدَنِيَّةِ، فَلَا يَقْبَلُ النِّيَابَةَ(فقہ السنۃ، جلد1،صفحہ  637)۔

حج ہر صاحب استطاعت پر عمر میں ایک بار فرض ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے: وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الجَنَّةُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1773؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1349)۔

 حضرت عمرو بن العاص کی ایک روایت ان الفاظ میں آتی ہے:

’’لَمَّا جَعَلَ اللهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم- فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلْأُبَايِعْكَ،فَبَسَطَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَمِينَهُ، فَقَبَضْتُ يَدِي فَقَالَ:مَا لَكَ يَا عَمْرُو؟،فَقُلْتُ:أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ، قَالَ:تَشْتَرِطُ بِمَاذَا؟ قُلْتُ:أَنْ يُغْفَرَ لِي،قَالَ:أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟،وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلِهَا؟وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ‘‘(صحیح مسلم، حدیث نمبر192)۔یعنی،جب اللہ نے اسلام میرے دل میں ڈالا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا کہ اپنا ہاتھ پھیلائیے تا کہ میں بیعت کروں۔ کہتے ہیں کہ پھر آپ نے ہاتھ پھیلایا۔ مگر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ آپ نے کہا اے عمرو ایسا کیوں۔ میں نے کہا کہ میری ایک شرط ہے۔ آپ نے فرمایا تمہاری کیا شرط ہے۔ میں نے کہا یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ نے فرمایا:کیا تم کو نہیں معلوم کہ اسلام پچھلے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ اور ہجرت پچھلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے اور حج پچھلے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔

حج مبرور

حج مبرور کو اکثر لوگ حج مقبول کے ہم معنی سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا حج جس کے ساتھ گناہ شامل نہ ہو: الْحَجُّ الَّذِي لَا يُخَالِطُهُ إِثْمٌ (شرح النووی، جلد9، صفحہ 118-119)۔حسن بصری تابعی نے کہا ہے کہ حج مبرور وہ ہے جس سے آدمی اس طرح لوٹے کہ وہ دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت کا شوق اس کے اندر پیدا ہو جائے: الْحَجُّ الْمَبْرُورُأَنْ ‌يَرْجِعَ ‌زَاهِدًا ‌فِي ‌الدُّنْيَا، رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ (التاریخ الکبیر للبخاری 36:75)۔ حقیقت یہ ہے کہ حج کو اگر صحیح شعور اور جذبہ کے ساتھ کیا جائے تو نہ صرف دورانِ حج آدمی گناہوں سے بچا رہے گا بلکہ وہ اس طرح لوٹے گا کہ ہر برائی سے اس کا دل متنفر ہو اور ہر بھلائی کی طرف اس کے اندر رغبت پیدا ہو چکی ہو۔

قابل غور

ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: الْحَاجَّ ‌فِي ‌ضَمَانِ ‌اللهِ مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا (الفردوس بماثور الخطاب، حدیث نمبر 2761)۔یعنی، حاجی اللہ کی نگرانی میں رہتا ہے، حج کے پہلے بھی اور حج کے بعد بھی۔

حاجی کے بارے میں یہ بات کسی پر اسرار معنی میں نہیں ہے بلکہ معلوم نفسیاتی معنی میں ہے۔ حج کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسے خصوصی اسباب مہیا کر رکھے ہیں کہ اس کا ارادہ پیدا ہوتے ہی آدمی کے اندر خدا کی یاد آنے لگتی ہے اور خدا کی طرف خصوصی رغبت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک شخص کو نیو یارک کا سفر پیش آئے تو ’’نیو یارک‘‘ کی نسبت سے اس کی نفسیات بننے لگتی ہے۔ اور لوٹنے کے بعد اس کے اوپر ’’نیو یارک‘‘ کا ذہن غالب رہتا ہے۔ اسی طرح جو شخص حج کا سفر کرے تو وہاں جانے سے پہلے اور وہاں سے لوٹنے کے بعد وہ اپنے اندر خاص طرح کی ربانی نفسیات محسوس کرے گا۔

تاہم حج کا یہ فائدہ کوئی مشینی انداز کا نہیں ہے جو لازماً اپنے آپ حاجیوں کو ملتا رہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حاجی کے اندر اس کے موافق استعداد موجود ہو۔ اس طرح کے تمام فائدوں کا انحصار ہمیشہ آدمی کی اپنی استعداد پر ہوتاہے۔ استعداد موجود ہو تو فائدہ ملے گا۔ اور اگر استعداد موجود نہ ہو تو فوائد کے سر چشمہ کے درمیان بھی آدمی بے فیض ہوکر رہ جائے گا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک روایت جو ان الفاظ میں آئی ہے:

يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ ‌يَحُجُّ ‌أَغْنِيَاءُ ‌أُمَّتِي ‌لِلنُّزْهَةِ وَأَوْسَاطُهُمْ لِلتِّجَارَةِ وَقُرَّاؤُهُمْ لِلرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ وَفُقَرَاؤُهُمْ لِلْمَسْأَلَةِ (تاریخ بغداد، حدیث نمبر 5386)۔یعنی، لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب کہ مالدار لوگ تفریح کے لیے حج کریں گے۔ اور ان کے درمیانی درجہ کے لوگ تجارت کے لیے حج کریں گے اور ان کے علماء دکھاوے اور شہرت کے لیے حج کریں گے۔ اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے حج کریں گے۔

حضرت انس کی یہ روایت بہت ڈرا دینے والی ہے۔ اس کی روشنی میں موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو خاص طور پر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ انھیں غور کرنا چاہیے کہ ان کا حج اس روایت کا مصداق تو نہیں بن گیا ہے۔ مالدار حضرات سوچیں کہ ان کے حج میں تقویٰ کی روح ہے یا سیر و تفریح کی روح۔ عام لوگ یہ سوچیں کہ وہ دینی فائدے کے لیے حج کرنے جاتے ہیں یا تجارتی فائدے کے لیے۔ علماء غور کریں کہ وہ عبدیت کا سبق لینے کے لیے بیت اللہ جاتے ہیں یا اپنی پیشوایانہ حیثیت کو بلند کرنے کے لیے۔ اسی طرح غریب لوگ سوچیں کہ حج کو انھوں نے خدا سے مانگنے کا ذریعہ بنایا ہے یا انسانوں سے مانگنے کا ذریعہ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom