حج کا عاطفی پہلو

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں (51:56)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی عبادت کا جذبہ انسان کے اندر تخلیقی طور پر شامل ہے۔ انسان کو نہ صر ف یہ کہ ازروئے واقعہ خدا کی عبادت کرناچاہیے بلکہ اس کی فطرت کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ وہ ایسا کرے۔ خدا کی عبادت خود انسان کی اپنی فطرت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کی عبادت کے سوا کوئی چیز انسان کو حقیقی طور پر مطمئن نہیں کرتی: أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی،سن لو کہ اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

جس طرح ایک چھوٹا بچہ عین اندرونی جذبہ کے تحت مجبور ہے کہ وہ اپنی ماں کی طرف لپکے۔ اسی طرح انسان عین اپنی اندرونی پکار کی بنا پر مجبور ہے کہ وہ خدا کی طرف دوڑے۔ انسان اپنی اندرونی شخصیت کو بدل نہیں سکتا، اس لیے وہ خدا کو بھی اپنے دل و دماغ سے نکال نہیں سکتا۔

علم الانسان کی شہادت

یہ حقیقت موجودہ زمانہ میںانسانیات (Anthropology)کے ذریعہ علمی طورپر ثابت ہو گئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں علم الانسان کے ماہرین نے انسانی معاشرہ کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ تاریخ کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک کے انسانی معاشروں کا مطالعہ کرنے کے بعد جو حقیقتیں سامنے آئی ہیں ان میں سے ایک اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کے اُتار چڑھاؤ کے باوجود انسان ہمیشہ خدا کا پرستار رہا ہے۔ خدا اور مذہب کا جذبہ انسان کی فطرت میں اس طرح پیوست ہے کہ وہ کسی حال میں اس سے جدا نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں علم الانسان کی تحقیقات کا خلاصہ ہم انسائیکلوپیڈیا امریکانا کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں:

“From the earliest days of the world's history man has been more or less a religious creature. Almost invariably he has had a god, or several of them, to whom he looked for protection. At times these gods have been crude fetishes of whittled wood or roughly hewn stone; at times they have assumed the form of animals or reptiles, or have appeared as cruel monsters eager for the life-blood of those who reverenced them. But, however they may have come, man has worshipped them, because religion, as represented in the worship of a super-natural power, is interwoven with the entire fabric of human nature.”

(Encyclopedia Americana, 1961, Vol. 23, p. 354)

دنیا کی تاریخ کے با لکل ابتدائی دنوں سے انسان کم و بیش ایک مذہبی مخلوق رہا ہے۔ تقریباً ہر زمانہ میں وہ ایک خدا رکھتا تھا یا کئی خدا، جس کی طرف وہ بچاؤ کے لیے دیکھ سکے۔ کبھی یہ خدا لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے تھے۔ کبھی پتھر کے۔ کبھی جانوروں اور سانپوں کو خدا سمجھ لیا گیا، وغیرہ۔ مگر ہر حال میں وہ تھے اور انسان ضروری سمجھتا تھا کہ وہ ان کی پو جا کرے۔ کیونکہ مذہب، ایک مافوق طاقت کی پرستش کی صورت میں، انسان کی فطرت کے پورے ڈھانچہ میں گندھا ہوا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا شعور انسان کی فطر ت میں تخلیقی طور پر پیوست ہے۔ تاہم یہ شعور مجمل انداز میں ہے۔ اس لیے انسان ایسا کرتا ہے کہ جب وہ حقیقی خدا کو نہیں پاتا تو مصنوعی طور پر وہ خود ساختہ خداؤں کی پرستش کرنے لگتا ہے۔ فطرت کے زور پر اس کے اندر پرستش کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اگر اس کے سامنے پیغمبر کی رہنمائی ہو تو اس کا یہ جذبہ خدائے وحدہ لا شریک کی صورت میں اس کا جواب پا لے گا۔ اور اگر پیغمبر کی رہنمائی اس کے سامنے نہ ہو تو وہ اپنے جذبہ کی مصنوعی تسکین کے لیے غیر خداؤں کو خدا فرض کرکے ان کو پوجنے لگے گا۔

انسا ن کا مقصود اصلی صرف ایک ہے اور وہ وہی ہے جو اس کا خالق و مالک ہے۔ یہ مقصود اس کی فطرت میں گہرائی کے ساتھ شامل ہے۔ انسان یکسو ہوکر اپنی فطرت پر کان لگائے تو وہ خود اپنے اندر خدا کو پا لے گا۔ وہ اس کو اپنے دل کی دھڑکنوں میں محسوس کرے گا۔ یہ فطرت گویا انسان کا  ’’لا شعور‘‘ ہے۔ پیغمبر اسی لا شعور کو شعور کا درجہ عطا کرتا ہے۔

تاہم انسان جیسی ایک مخلوق کے لیے صرف یہ غیبی معرفت کافی نہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ وہ خدا کو محسوس طور پر بھی پائے۔ وہ خدا کا محسوس ادراک کر سکے۔ مگر یہاں یہ رکاوٹ ہے کہ خدا کا محسوس ادراک حقیقی معنوں میں آخرت سے پہلے ممکن نہیں۔

آخرت میں بلا شبہ انسان خدا کو دیکھے گا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آخرت کے دن کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے (75:22)۔حدیث سے بھی یہ بات تواتر کی حد تک ثابت ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ تم عنقریب اپنے رب کو کھلے طور پر دیکھو گے: إِنَّكُمْ ‌سَتَرَوْنَ ‌رَبَّكُمْ ‌عِيَانًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7435)۔

 عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، فَقَال:إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 554، صحیح مسلم، حدیث نمبر 633)۔ حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چودھویں رات میں چاند کی طرف دیکھا، پھر فرمایا کہ تم (آخرت میں) اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔

شعائر اللہ

یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا حقیقی مشاہدہ صر ف آخرت میں ہوگا۔ مگر آخرت کے خدائی مشاہدہ پر یقین رکھتے ہوئے بھی انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ خدا کو پائے۔ وہ کل کے آنے سے پہلے آج کے دن خدا کی قربت حاصل کرے۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کی یہ طلب موجودہ دنیا میں کس طرح پوری ہو۔

اس کا جواب شعائر اللہ (البقرہ،2:158) کی صورت میں فراہم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزوں کو ان کی مخصوص تاریخی اہمیت کی بنا پر اپنا شعیرہ (علامت) قرار دیا ہے۔ ان علامتوں یا یادگاروں کے گرد ایسے حالات جمع کیے گئے ہیں کہ ان کو دیکھنا خدا کو دیکھنا بن جائے۔ جس خدا کو انسان براہِ راست نہیں پا سکتا اس کو وہ با لواسطہ انداز میں پا لے۔ انسان موجودہ دنیا میں اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، البتہ شعائر اللہ کو دیکھ سکتا ہے۔ وہ موجودہ دنیا میں اللہ کو اس طرح نہیں پا سکتا کہ وہ اس کو چھوئے اور اس سے محسوس قربت حاصل کرے۔ البتہ وہ شعائر اللہ کو چھو سکتا ہے اور اس کے ذریعہ سے قربت خداوندی کا محسوس تجربہ کر سکتا ہے۔

شعیرہ (جمع شعائر) معنی ہیں نشان، علامت، یادگار۔ یعنی وہ چیز جو خود اصل نہ ہو۔ البتہ وہ کسی نسبت کی بناء پر اصل کی یاد دلائے۔ اس کی ایک مثال صفا اور مروہ پہاڑیاں ہیں جن کو قرآن میں شعائر کہا گیا ہے: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ (2:158)۔یعنی، صفا اور مروہ، بیشک اللہ کی یاد گاروں میں سے ہیں۔

صفا اور مروہ مکہ میں بیت اللہ کے قریب دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان تقریباً 500 قدم کا فاصلہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی اہلیہ ہا جرہ اور اپنے شیر خوار بچے اسماعیل کو لاکر یہاں بسایا تو یہاں نہ کوئی آبادی تھی اور نہ پانی۔ حضرت ہاجرہ کی مشک کا پانی ختم ہو گیا تو وہ صفا اور مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں سات بار دوڑیں۔ اسی کی یاد میں آج بھی تمام حاجی دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات بار سعی کرتے ہیں۔

یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کو پسند آیا اور اس نے صفا اور مروہ کو اپنا شعیرہ قرار دیدیا۔ یعنی خداپرستی کی مستند یادگار۔ صفا اور مروہ کو دیکھ کر وہ پوری تاریخ یاد آ جاتی ہے جب کہ اللہ کے ایک بندہ نے صرف اللہ کی رضا کی خاطر اپنے سر سبز وطن (عراق) کو چھوڑا اور اپنے بیوی اور بچہ کو بے آب و گیاہ علاقہ میں لاکر بسا دیا۔ یہ اللہ پر یقین اور اس کے اوپر اعتماد کی ایک کامل مثال ہے۔

اسی طرح کعبہ، حجر اسود اور حج سے متعلق دوسری چیزیں سب کی سب شعائر اللہ ہیں۔ یہ موحد کامل حضرت ابراہیم  خلیل اللہ کی خدا پرستانہ زندگی کی نشانیاں ہیں۔ ان کو دیکھ کر حضرت ابراہیم کی موحدانہ تاریخ یاد آتی ہے۔ ان کو دیکھ کر خدا کی عظمت و جلال کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ ان شعائر کے ماحول میں پہنچ کر آدمی اپنے آپ کو خدا کے ماحول میں محسوس کرنے لگتا ہے۔

حجر اسود کو حدیث میں  يَدُ اللهِ فِى الأَرْضِ (کنز العمال، حدیث نمبر 38072) کہا جاتا ہے، یعنی زمین میں اللہ کا ہاتھ۔ یہ حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ تمثیلی معنوں میں ہے۔ آدمی کے اندر اٹھنے والے ربانی جذبات اپنی محسوس تسکین کے لیے یہ چاہتے تھے کہ وہ اللہ کے ہاتھ کو چھوئیں اور اس کو چھو کر اپنے جذبے کو مطمئن کریں، حجر اسود کو چوم کر آدمی اپنے اسی جذبہ کی تسکین حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح آدمی چاہتا تھا کہ وہ اللہ کو پاکر اس کے گرد گھومے، کعبہ کے مقدس گھر کا طواف کرکے وہ اپنے اسی جذبہ کو تسکین دیتا ہے۔ آدمی چاہتا تھا کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے دوڑے، وہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتا ہے تو اس کو یہی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح حج کے تمام مراسم کسی نہ کسی اعتبار سے انسان کے چھپے ہوئے جذبات کی تسکین ہیں۔ وہ اپنے رب سے محسوس تعلق قائم کرنے کا ذریعہ ہیں۔

معبود کی پرستش کا جذبہ فطری طور پر انسان کے اندر چھپا ہوا ہے۔ شرک اور بت پرستی اسی فطری جذبہ کا غلط استعمال ہے۔ توحید کا عقیدہ اس فطری جذبہ کو صحیح رُخ عطا کرتا ہے، یہی معاملہ حج کے مراسم کا ہے۔ حج ایک اعتبار سے ایک انسانی غلطی کی اصلاح ہے۔ وہ انسان کی طلب کو غلط رُخ پر جانے سے روکتا ہے اور اس کو صحیح رُخ پر لگا دیتا ہے۔ حج اسی جذبہ کی تسکین کی صحیح صورت ہے جس کو انسان غلط طریقہ سے تسکین دینا چاہتا ہے۔

انسان یہ چاہتاہے کہ وہ خدا کو دیکھے، وہ محسوس طور پر اس کو پا کر اس کے آگے مراسمِ عبودیت ادا کرے، انسان نے اپنے اس جذبہ کی تسکین کے لیے یہ کیا کہ اس نے غیر مرئی خدا کی مرئی تصویر (image) بنائی۔ اور اس خود ساختہ تصویر کو خدا کی تصویر سمجھ کر اس کو پوجنا شروع کر دیا۔ مگر یہ قرآن کے الفاظ میں الحاد (انحراف) ہے۔ انسان اپنے جس فطری جذبہ کا جواب خدائی بتوں میں تلاش کر رہا ہے اس کا جواب زیادہ صحیح طور پر خدائی یاد گاروں (شعائر اللہ) میں موجود ہے۔

خدا کا بت بنانا ایسا ہی ہے جیسے کسی انسان کا مجسمہ بنانا۔ مجسمہ وہ شخص بناتا ہے جس نے صاحب مجسمہ کو یا اس کی تصویر کو دیکھا ہو۔ مگر خدا کے بارے میں کوئی مجسمہ ساز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ایک شخص جب خدا کا بت بناتا ہے تو وہ لامحدود کو محدود کرتا ہے۔ وہ ایک برتر ہستی کو غیر برتر چیزوں میں ڈھالتا ہے۔ اس قسم کا ہر فعل واقعہ کے خلاف ہے۔ اور وہ بلا شبہ سرکشی کے ہم معنی ہے۔

حج ایک اعتبار سے انسانی ذہن کی اصلاح ہے۔ حج کا پیغام یہ ہے کہ خدا کو  ’’مجسمہ‘‘  کی سطح پر اتارنے کی کوشش نہ کرو۔ خدا کو اس کے ’’شعائر‘‘  کی سطح پر دیکھو۔ موجودہ دنیا میں تم خدا کو اس کی ذات کی سطح پر نہیں پا سکتے۔ البتہ تم اس کو آثار ِذات کی سطح پر پا سکتے ہو۔ یہ شعائر وہ ہیں جو خدا کے معیاری پرستاروں کے عمل سے قائم ہوئے ہیں۔ یہ تاریخ کے ان لمحات کی مادی یادگاریں ہیں جب کہ خدا اور بندے کے درمیان براہِ راست اتصال قائم ہوا۔ جب بندہ نے خدا کو پایا اور خدا نے اپنے کو بندہ کے لیے بے نقاب کیا۔

تاریخ کے وہ قیمتی افراد جنھوں نے خدا پرستی کو اس کی اعلیٰ اور معیاری شکل میں اختیار کیا۔ ان کے آثار ہی کا نام شعائر اللہ (خدا کی یادگاریں) ہے۔ انھیں شعائر کے درمیان تمام مراسمِ حج ادا کیے جاتے ہیں۔ ان سے دوری خدا سے دوری ہے اور ان سے وابستگی خدا سے وابستگی۔

ملاقاتِ خداوندی

حج کے بہت سے پہلو ہیں۔ مگر اس کا خاص پہلو یہ ہے کہ حج حق تعالیٰ سے ملاقات ہے۔ آدمی جب سفر کرکے مقاماتِ حج تک پہنچتا ہے تو اس پر خاص طرح کی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ اس کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’’اپنی دنیا‘‘سے نکل کر ’’خدا کی دنیا‘‘میں پہنچ گیا ہے۔ وہ اپنے رب کو چھو رہا ہے وہ اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اس کی طرف دوڑ رہا ہے۔ وہ اس کی خاطر ادھر سے ادھر جا رہا ہے۔ وہ اس کے حضور قربانی پیش کر رہا ہے۔ وہ اس کے دشمن کو کنکریاں مار رہا ہے۔ وہ اس سے مانگ رہا ہے جو کچھ وہ اس سے مانگنا چاہتا ہے۔ وہ اس سے پار ہا ہے جو کچھ وہ اس سے پانا چاہتا ہے۔

عرفات کا میدان اس سلسلہ میں بڑاعجیب منظر پیش کرتا ہے۔ خدا کے بندے قافلہ در قافلہ چاروں طرف سے چلے آ رہے ہیں۔ سب کے جسم پر ایک ہی سادہ لباس ہے۔ ہر ایک اپنی امتیازی صفت کو کھو چکا ہے۔ سب کی زبان پر ایک ہی کلام جاری ہے:  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ،لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ (حاضر ہوں خدایا میں حاضر ہوں، حاضر ہوں خدایا میں حاضر ہوں)۔

یہ منظر دیکھ کر قرآن کی وہ آیت یاد آنے لگتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو اچانک تمام لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے:  وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ (36:51)۔حقیقت یہ ہے کہ عرفات کا اجتماع حشر کے اجتماع کی پیشگی خبر ہے۔ یہ آج کی دنیا میں آئندہ آنے والی دنیا کی تصویر دکھانا ہے۔ حدیث میں ارشادہوا ہے کہ الْحَجُّ عَرَفَةُ  (صحیح مسلم،حدیث نمبر55)۔یعنی، عرفات کے میدان میں قیام ہی حج ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا اہم ترین مقصد کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی میدان حشر میں خدا کے سامنے اپنی حاضری کو یاد کرے۔ جو کچھ کل عملاً بیتنے والا ہے اس کو آج ہی ذہنی طور پر اپنے اوپر طاری کر لے۔

کعبہ خدائے واحد کا گھر ہے۔ اس کو دو جلیل القدر پیغمبروں (حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل) نے مل کر بنایا۔ ان پیغمبروں کی اعلیٰ زندگی اور خدا کے لیے ان کی قربانی کے حیرت انگیز واقعات اس گھر سے وابستہ ہیں۔ پھر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے پا ک اصحاب کی زندگیاں اور ان کی خدا پرستانہ سرگرمیاں اس کی فضاؤں میں بسی ہوئی ہیں۔

خدا پرستی اور خدا کے لیے قربانی کی اس بے مثال تاریخ کو آدمی کتابوں میں پڑھتا ہے۔ وہ بچپن سے لے کر سفر حج تک اس کو مسلسل سنتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کے حافظہ کے خانہ کا جزء بن جاتی ہیں۔ایسی حالت میں جب وہ سفر کرکے کعبہ کے سامنے پہنچتا ہے تو حافظہ کی تمام یادیں اچانک اس کے اندر جاگ اٹھتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک تاریخ کے سامنے کھڑا ہوا پاتا ہے۔ خدا سے خوف اور محبت کی تاریخ، خدا کے لیے قربان ہو جانے کی تاریخ، خدا کو اپنا سب کچھ بنانے کی تاریخ، خدا کو قادر مطلق کی حیثیت سے پا لینے کی تاریخ، خدا کی خاطر اپنے آپ کو مٹا دینے کی تاریخ۔

اس قسم کی ایک عظیم ربانی تاریخ آدمی کے سامنے کعبہ کی صورت میں مجسم ہو جاتی ہے۔ وہ حجری حروف میں لکھی ہوئی اس کو نظر آنے لگتی ہے۔ یہ تجربہ اس کے دماغ کو ہلاتا ہے وہ اس کے سینہ کو پگھلا دیتا ہے۔ وہ اس کو بدل کر نیا انسان بنا دیتا ہے۔

راقم الحروف نے اپنے حج  (1982) کے سفر نامہ میں لکھا تھا:

’’ہماری قیام گاہ حرم سے بہت قریب شارع ابراہیم الخلیل پر تھی۔ چنانچہ کھانے اور مختصر سونے کے علاوہ میرا بیشتر وقت حرم میں گزرتا تھا۔ میرا روزانہ کا معمول تھا کہ میں باب الہجرہ کے پاس زمزم کے پانی سے وضو کرتا، اس کے بعد سیر ہوکر زمزم کو پیتا اورپھر حرم میں داخل ہو جاتا۔ اکثر میں حرم کے اوپر کے حصہ میں جاتا تھا۔ کیونکہ اوپر کے حصہ میں نسبتاً بھیڑ کم ہونے کی وجہ سے سکون رہتا تھا۔ وہاں میں نماز پڑھتا، تلاوت کرتا، کعبہ کو دیکھتا، اللہ کو یاد کرتا۔ روزانہ گھنٹوں اس طرح گزر جاتے کہ مجھے وقت کا کچھ اندازہ نہ ہوتا۔ خواہ کتنی ہی زیادہ دیر ہو چکی ہو، جب میں حرم سے لوٹتا تو محسوس ہوتا کہ طبیعت سیر نہیں ہوئی۔ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر دل کی جو کیفیت ہوتی تھی اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

مصیبت میں راحت

حج کے موقع پر بیک وقت ساری دنیا کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اس بنا پر حج میں بار بار ایک کو دوسرے سے تکلیف پہنچتی ہے۔ بار بار ایسے مواقع سامنے آتے ہیں جو آدمی کی طبیعت پر بے حد شاق معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر آدمی اگر اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرلے تو اس کا حال با لکل دوسرا ہو جائے گا۔ اس کے بعد تلخ تجربہ بھی شیریں تجربہ بن جائے گا۔ اس کے بعد وہی چیز اس کے لیے رزق ربانی کا سبب بن جائے گی جو عام حالات میں صرف رزق نفسانی کا ذریعہ بنتی ہے۔

مثلاً آپ مسجد حرام میں نماز کے لیے کھڑے ہیں کہ انسانوں کا ہجوم اندر داخل ہوا اور کشادہ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے عین آپ کے سامنے صف باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ آپ کے سامنے اتنی جگہ باقی نہ رہی کہ آپ درست طور پر رکوع کریں یا درست طور پر سجدہ کریں۔ ایسے موقع پر اگر آپ صرف سامنے کے انسانوں کو دیکھیں تو آپ کے اندر غصہ اور نفرت پیدا ہو گی۔ اس کے برعکس، اگر آپ خود اپنا احتساب کرنے لگیں تو آپ کا حال با لکل دوسرا ہو جائے گا۔ آپ کہہ اٹھیں گے کہ خدایا، تو میری اس ٹوٹی پھوٹی نماز کو قبول کر لے۔کیونکہ میری بظاہر صحیح نماز بھی حقیقۃً  اتنی ہی ٹوٹی پھوٹی نما ز ہے جتنی کہ میری یہ نماز۔ جو شخص اپنے ذہن کو اس طرح موڑے اس کا حال با لکل دوسرا ہو جائے گا۔ جس واقعہ سے اکثر لوگ صرف انسان بیزاری کی غذا لیتے ہیں اس واقعہ سے اس کو خدا کی قربت کا رزق ملنے لگا۔

اسی طرح حج کے سفر میں طرح طرح کے ناخوش گوار تجربات پیش آتے ہیں۔ رمی اور دوسرے مواقع پر انسانوں کی بھیڑ، منیٰ اور عرفات میں گرمی کی شدت، پانی لینے کے لیے ایک کا دوسرے پر ٹوٹنا، وغیرہ۔ اس قسم کی جو مختلف صورتیں حج کے سفر میں پیش آتی ہیں۔ ان میں اگر آپ صرف سامنے کے واقعہ کو دیکھیں تو آپ کے اندر غصہ اور جھنجھلاہٹ کا جذبہ بھڑکے گا۔ اس کے برعکس، اگر آپ اس وقت یہ سوچنے لگیں کہ جب دنیا کی چھوٹی مصیبت کا یہ حال ہے تو آخرت کی بڑی مصیبت کا کیا حال ہوگا، تو اچانک آپ یہ محسوس کریں گے کہ جو چیز بظاہر مصیبت نظر آرہی تھی وہ عین راحت بن گئی۔ اس نے خدا کی رحمت بن کر آپ کے اوپر سایہ کر لیا۔

غیر معمولی سفر

حج کے مذکورہ سفر نامہ (1982) میں تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:

’’ 1982میں میں بعض ملکوں کے سفر پر نکلا۔ اس سفر میں حج کا پروگرام شامل نہ تھا۔ حتیٰ کہ میرے ذہن میں اس کا تصور بھی نہ تھا کہ میں حجاز پہنچ کر حج کا فریضہ ادا کروں۔ افریقہ (روانڈا) پہنچا تو وہاں ایک بزرگ دوست محمد سلیمان القائد (وفات 1996) مل گئے اور ان کے ساتھ اچانک سفر حج کے اسباب پیدا ہو گئے۔ اس معاملہ میں میرے ساتھ با لکل وہ صورت حال پیش آئی جو کسی شاعر نے اپنے اس شعر میں بیان کی ہے:

خدا کے دَین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال   کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے

یہ میری محرومی تھی کہ میں نے ابھی تک حج کا پروگرام نہیں بنایا تھا۔ وطن سے میں ایک اور سفر کے لیے نکلا۔ مگر اللہ نے عجیب و غریب طور پر ایشیا اور پورپ اور افریقہ کا سفر کراتے ہوئے مجھ کو ارض حرم میں پہنچا دیا تاکہ میں حج کی سعادت حاصل کر سکوں۔ حج کرنے والا اگرچہ میں تھا مگر حج کرانے والا صرف خدا تھا۔ اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہ تھا۔ آخر کار جب میں حرم میں پہنچا اور کعبہ پر نظر پڑی تو یہ ایک ایسا منظر تھا جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کعبہ کو دیکھنا اور کعبہ کے پڑوس میں اپنے آپ کو پانا اتنا پرکیف ربانی تجربہ ہے جس کے اظہار سے میرا قلم عاجز ہے۔ اس غیر متوقع نعمت کو پاکر دل کی عجیب کیفیت ہوئی۔ بے اختیار میری زبان سے نکلا: خدایا، میں نے ابھی تک اپنی زندگی میں حج کا پروگرام نہیں بنایا تھا۔ گویا کہ میں حج کیے بغیر مر جانے پر راضی تھا۔ یہ تیرا کیسا عجیب احسان ہے کہ تونے مجھ کو اس ناقابل بیان محرومی سے بچا لیا۔‘‘

یہ بظاہر ایک حاجی کے وہ تاثرات ہیں جو مخصوص حالات میں اس پر طاری ہوئے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی تاثر ہر حاجی پر طاری ہونا چاہیے۔ ہر حاجی پر یہ کیفیات طاری ہونی چاہیےکہ وہ اپنے حج کو خدا کی طرف سے کرایا جانے والا حج سمجھے۔ وہ جب ارض حرم میں پہنچے تو وہ محسوس کرے کہ یہ دراصل خدا ہے جس نے اس کو اس نوبت تک پہنچایا ہے۔ وہ ایک عام مسافر کی حیثیت سے اپنے وطن سے نکلا مگر جب وہ منزل پر پہنچا تو وہ خدا کا مہمان تھا۔ اس نے صرف ایک زمینی راستہ طے کیا تھا مگر اللہ نے اس کو ایک ایسے ماحول میں پہنچا دیا جہاں ہر طرف آسمانی برکتیں بکھری ہوئی ہیں۔ اس کے پاس صرف محرومی کا اثاثہ تھا مگر اللہ نے اپنی رحمتِ خاص سے اس کے کھونے کو پانا بنا دیا۔

فیض بقدر استعداد

کعبہ زمین پر خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تاریخی طور پر یہاں ایسے اسباب فراہم کیے ہیں کہ جو شخص وہاں جائے وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بھٹکی ہوئی انسانی روحوں کو خدا کا آغوش دیا جاتا ہے۔ وہاں پتھرائے ہوئے سینوں میں عبدیت کے چشمے جاری کیے جاتے ہیں۔ وہاں بے نور آنکھوں کو خدا کی تجلیات دکھائی جاتی ہیں۔ تاہم اس دنیا میں ’’فیض بقدر استعداد‘‘  کا اصول رائج ہے۔ بیت اللہ کا فیض اس کو ملتا ہے جو اس کی استعداد لے کر وہاں جائے۔ بے استعداد لوگوں کے لیے حج کا سفر بس ایک قسم کی سیاحت ہے۔ وہ وہاں جاتے ہیں تا کہ جیسے گئے تھے ویسے ہی دوبارہ واپس چلے آئیں۔

مذکورہ سفرمانہ ٔحج (1982) میں حسب ذیل سطریں درج ہیں:

’’وہاں میں نے جو خدائی مناظر دیکھے، جس طرح وہ نا قابل بیان ہیں۔ اسی طرح وہ انسانی مناظر بھی ناقابل بیان ہیں جو وہاں مجھ کو دیکھنے کو ملے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ یا تو دنیا کی باتیں کرنے میں مشغول ہیں یا دنیا کا ساما ن خرید نے میں۔ کچھ لوگ دوسروں کو دھکا دے کر اپنی پر جوش مذہبیت کا اظہار کر رہے تھے۔ حالاں کہ اس قسم کی چیزیں مقامات حج میں جائز نہیں۔

جہاں ہر طرف خدا کے جلوے بکھرے ہوئے تھے تاکہ آدمی ان میں محو ہو جائے۔ وہاں لوگ انسانی جلوؤں میں گم تھے۔ جہاں خدا کے فرشتے اترے ہوئے تھے تا کہ لوگ ان سے باتیں کریں وہاں لوگ انسانوں سے باتیں کر نے میں مشغول تھے۔ جہاں ہر طرف آخرت کا سامان بِک رہا تھا وہاں لوگوں کو دنیا کا سامان خرید نے کے سوا کسی اور چیز سے دل چسپی نہ تھی۔ جس جگہ کا یہ حق تھا کہ خدا کا ڈر انھیں پیچھے کر دے وہاں لوگ دوسروں کو دھکا دے کر آگے بڑھ جانے کی مہارت دکھا رہے تھے‘‘۔

چند تاثرات

مذکورہ سفرنامہ میں حج کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:

’’4 اکتوبر 1982کی شام کو ہم نے طواف وداع کیا، اور رات کو مکہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔ کعبہ کا آخری طواف کرکے جب میں حرم سے نکلا تو میری عجیب کیفیت تھی۔ بار بار مڑکر حرم کو دیکھتا تھا۔ قدم آگے کی طرف بڑھ رہے تھے اور دل پیچھے کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میں اپنے وطن اصلی سے نکل کر وطن غیر کی طرف جا رہا ہوں۔ اس طرح کی کیفیات کے ساتھ ہم مسجد حرام سے رخصت ہوکر 4 اکتوبر کی شب کو مکہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے‘‘۔

’’حرم مدینہ میں داخلہ بڑااثر انگیز تھا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کی ایک پوری تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ میری زبان سے یہ دعا نکلی کہ خدایا، میں تیرے رسول پر صلوۃ و سلام بھیجتا ہوں۔ مجھ کو اپنے رسول کی امت میں شامل کر لے۔ مجھ کو ان لوگوں میں لکھ لے جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے دن شفاعت فرمائیں گے۔ اور جن کی شفاعت کو قبول کرکے آپ انھیں جہنم سے بچا لیں گے اور جنت میں داخل کریں گے۔ کیسا عجیب ہے وہ دن جو آچکا اور کیسا عجیب ہے وہ دن جو آنے والا ہے‘‘۔

’’مدینہ میں ہمارا قیام مسجد نبوی کے با لکل قریب ایک ہوٹل میں تھا۔ اذان اور تکبیر تک کی آواز ہمارے کمرے میں پہنچتی تھی۔ کئی دن تک مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ مگر یہاں نمازیوں کا ہجوم اس قدر ہوتا ہے کہ بہ مشکل کسی کو سکون اور توجہ کے ساتھ نماز پڑھنے کاموقع ملتا ہے۔ مکہ کے قیام کے ابتدائی دنوں میں میرے ساتھ یہی صورت پیش آئی تھی۔ اس کے بعد میں مسجد حرام کی اوپر کی منزل پر نماز پڑھنے لگا۔ وہاں مجھے کافی سکون رہتا تھا۔مسجد نبوی کو معلوم نہیں کس مصلحت کی بنا پر دو منزلہ نہیں بنایا گیا کہ میرے جیسا کوئی آدمی وہاں پناہ لے سکے۔

مسجد نبوی غیر معمولی طور پر وسیع اور شاندار ہے۔ مگر زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے تمام وسعتوں کے باوجود اس کو ناکافی بنا دیا ہے۔ تاہم میرے جیسے آدمی کے لیے یہ منظر کوئی خوش گوار منظر نہ تھا کہ مسجد نبوی کے اطراف کو دکانوں اور ہوٹلوں نے گھیر رکھا ہے۔ صرف ایک طرف کا حصہ دکانوں اور ہوٹلوں سے خالی ہے جس کے اوپر خیمہ نما تعمیرات نمازیوں کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔ کاش مسجد کے چاروں طرف کھلا ہوا میدان ہوتا تو مسجد کی عظمت زیادہ نمایاں ہوتی‘‘۔ تقریباً یہی صورت حال حرم مکہ کی بھی ہے۔

’’30 ستمبر 1982کو حج کے مناسک کی تکمیل ہوئی۔ اور ہم دوبارہ مکہ واپس آئے۔ مطابع دار الثقافہ (مکہ) کی طرف سے ہر سال حاجیوں کے اعداد و شمار شائع کیے جاتے ہیں۔ اس کے اعلان کے مطابق اس سال (1402ھ) سعودی عرب کو چھوڑ کر دوسرے تمام ممالک سے آنے والے حاجیوں کی کل تعداد 853555 تھی۔ زیادہ تعداد والے چند ملکوں کے نام یہ ہیں:

  1۔  مصر         98408      

  2۔  ایران        89503

  3۔  نائیجیریا      81128

  4۔  پاکستان      72844

  5۔  انڈونیشیا      57478

  6۔  ترکی         53788

  7۔  الجزائر       40400

  8۔  شام         27890

  9۔  ہندستان     26229

سعودی حکومت نے بے شمار اعلیٰ انتظامات کیے ہیں۔ اس انتظامات نے موجودہ زمانہ میں حج کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ تاہم ایک چیز ایسی ہے جس کا اس کے پاس شاید کوئی حل نہیں۔ اور وہ حاجیوں کا ہجوم ہے۔ خاص طور پرشیطان کو پتھر مارنے کے موقع پر لوگ جس طرح ایک دوسرے کے اوپر ٹوٹتے ہیں وہ انتہائی حد تک افسوس ناک ہے۔ بےشمار انسان بیک وقت شیطان کو مارنے کے لیے اس طرح ہجوم کرتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامتی شیطان کو کنکری مارنے کا انھیں اتنا جوش ہے کہ اس کی خاطر وہ حقیقی انسان کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ خدا کے ایک حکم کی تعمیل کے شوق میں خدا کے دوسرے حکم کو نظر انداز کرنے کی اس سے زیادہ بری مثال اب تک میں نے اپنی نگاہوں سے نہیں دیکھی تھی۔ کئی آدمی ایسے نظر پڑے جن کے ہاتھ یا پاؤں میں پلاسٹر بندھا ہوا تھا۔ ایک منظر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ رمی کے وقت ایک حاجی گر پڑا اور حاجیوں کے قدموں کے نیچے کچل کر ختم ہو گیا۔ لوگوں نے بتایا کہ اس طرح کے واقعات ہر سال ہوتے رہتے ہیں۔ کیسا عجیب ہے وہ حج جس میں انسان دشمن کی ایک علامت کو مارنے کے جوش میں خود انسان کو مار ڈالا جائے‘‘۔

تجدید ایمان

’’حج ایک قسم کا تجدید ایمان ہے۔ حج سے پہلے کا ایمان گویا ایک موقّت ایمان ہے۔ اس کے بعد مومن جب مکہ پہنچتا ہے اور لبیک لبیک کہہ کر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے تو گویا وہ اپنے ایمان کی تجدید کرتا ہے۔ وہ براہِ راست خدا سے ’’بیعت‘‘ہوتا ہے۔

حج کے بعد گناہوں کی معافی عین اس قانون کے تحت ہے جو قبولیت اسلام سے متعلق ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آدمی کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ بندے کے ساتھ یہ معاملہ ایمان اوّل کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ اور ایمان ثانی کے بعد گویا اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ ایمانِ اوّل اگر بالواسطہ ایمان تھا تو ایمان ثانی براہِ راست ایمان ہے۔ معذوری کی حالت میں ایمان اوّل ہی خدا کی رحمت سے آدمی کے گناہوں کی معافی کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ مگر صاحب استطاعت کے لیے ایمان ثانی کے بعد اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص استطاعت رکھتا ہو اور پھر بھی حج ادا کیے بغیر مر جائے تو خدا کو اس کی پرواہ نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرا یا نصرانی ہوکر مرا: مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلاَ عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا (سنن الترمذی، حدیث نمبر812) ‘‘۔

اسلام کا خلاصہ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر نا ہے۔ حج میں یہ حوالگی پوری طرح عمل میں آتی ہے۔ عرفات کے میدان میں جب تمام حاجی ’’حاضر ہوں، خدایا، میں حاضر ہوں‘‘ کہتے ہوئے جمع ہوتے ہیں تو یہ اسی بات کا ایک اجتماعی مظاہرہ ہوتا ہے۔ حج گویا خدا کے سامنے حاضری ہے۔ قیامت میں ہر شخص گرفتار کرکے خدا کے یہاں حاضر کیا جائے گا، حج کے موقع پر عرفات کے میدان میں پہنچنا گویا خود اپنی مرضی سے خدا کے یہاں حاضر ہو جانا ہے۔

’’حقیقت یہ ہے کہ حج تمام عبادتوں کا سردار ہے۔ کعبہ کا جو درجہ دوسری مسجدوں کے درمیان ہے وہی درجہ حج کا دوسری عبادتوں کے درمیان‘‘۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom