حج اور اتحاد
حج کا ایک پہلو اسلامی اتحاد ہے۔ حج کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان ایک مقام پر اکٹھا ہوتے ہیں اور ایک ساتھ حج کے مراسم ادا کرتے ہیں۔ حج مسلمانوں کا عالمی دینی اجتماع ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی چند آیتوں پر غور کیجئے:
- وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا (2:125)۔یعنی،اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے اجتماع کی جگہ اور امن کا مقام بنا دیا۔
- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (3:96)۔ یعنی،بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور سارے جہاں کے لیے ہدایت کا مرکز۔
- جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ (5:97)۔یعنی،اللہ نے کعبہ، حرمت والے گھرکو لوگوں کے لیے قیام کا باعث بنایا۔
- فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ (14:37)۔یعنی،پس اے اللہ، تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے۔
- وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (22:27)۔ یعنی،اور تم لوگوں میں حج کے لیے پکار دو کہ وہ تمہاری طرف آئیں پیدل چل کر اور سوار ہوکر، وہ دُبلے اونٹوں پر چلے آئیں دور کی راہوں سے۔
توحید کا عالمی مرکز
قرآن کی ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے ذریعہ حجاز میں کعبہ کی تعمیر خاص طور پر اس لیے کی گئی تھی کہ وہ اہل توحید کا مرکز بنے۔ قریب کے لوگ بھی آئیں اور دور کے لوگ بھی سواریوں کے ذریعہ وہاں پہنچیں۔ کعبہ کے گرد ایسے تاریخی اسباب پیدا کیے گئے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف کھنچیں۔ اور ہر طرف سے لوگ امنڈ کر وہاں پہنچیں۔ بیت اللہ قیامت تک کے لیے خدا کا مقرر کیا ہوا عالمی اسلامی مرکز ہے۔ وہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا بین الاقوامی اجتماع گاہ ہے۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ لوگوں سے پکار کر کہو کہ وہ سفر کرکے اس گھر کے حج کے لیے آئیں:
قَالَ يَا رَبّ كَيْف أُبَلِّغ النَّاس وَصَوْتِي لَا يَنْفُذهُمْ فَقَالَ نَادِ وَعَلَيْنَا الْبَلَاغ فَقَامَ عَلَى مَقَامه وَقِيلَ عَلَى الْحِجْر وَقِيلَ عَلَى الصَّفَا وَقِيلَ عَلَى أَبِي قُبَيْس وَقَالَ: يَا أَيّهَا النَّاس إِنَّ رَبّكُمْ قَدْ اِتَّخَذَ بَيْتًا فَحُجُّوهُ فَيُقَال إِنَّ الْجِبَال تَوَاضَعَتْ حَتَّى بَلَغَ الصَّوْت أَرْجَاء الْأَرْض وَأَسْمَعَ مَنْ فِي الْأَرْحَام وَالْأَصْلَاب وَأَجَابَهُ كُلّ شَيْء سَمِعَهُ مِنْ حَجَر وَمَدَر وَشَجَر وَمَنْ كَتَبَ الله أَ نَّهُ يَحُجّ إِلَى يَوْم الْقِيَامَة لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ (تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ414)۔ یعنی، حضرت ابراہیم نے کہا کہ اے میرے رب کیسے میں لوگوں کو پکاروں اور میری آواز ان تک نہیں پہنچے گی۔ اللہ نے کہا تم پکار و اور ہمارے اوپر ہے پہنچانا۔ پس حضرت ابراہیم پتھر پر کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے لوگو،تمہارے رب نے ایک گھر مقرر کیا ہے، تم اس کا حج کرو۔ پس کہا جاتا ہے کہ پہاڑ جھک گئے یہاں تک کہ آواز زمین کے کناروں تک پہنچ گئی اور انھوں نے بھی سن لیا جو رحم میں تھے۔ اور پتھر اور خیمہ اور درخت اور جس پر قیامت تک اللہ نے لکھ دیا تھا کہ وہ حج کرے گا سب نے سنا اور یہ کہا:ہم حاضر ہیں، خدایا، ہم حاضر ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابراہیم نے جس وقت پکارا، عین اسی وقت حال اور مستقبل کے تمام لوگوں نے آپ کی آواز کو سن لیا۔ حضرت ابراہیم کی پکار علامتی پکار تھی۔ بے شک تمام لوگوں نے اس کو سنا۔ مگر یہ سننا اس وقت بالقوہ طور پر تھا، نہ کہ بالفعل طور پر۔ حضرت ابراہیم کی پکار دراصل ایک مسلسل واقعہ کا آغاز تھا۔ آ پ نے اپنے وقت میں پکارا۔ آپ کے بعد دوسرے لوگوں نے آپ کی آواز کو لے کر اسے دوسروں کو سنایا۔ پھر اسی طرح لوگ نسل در نسل پکارتے رہے۔ پریس اور ریڈیو کا دور آیا تو پریس اور ریڈیو کے ذریعہ یہ پکار مزید تیزی کے ساتھ شروع ہوئے۔ وہ پہاڑوں اور سمندروں کو پار کرکے دور دور تک پہنچ گئی۔ یہاں تک کہ اس کا اندیشہ ختم ہو گیا کہ کوئی شخص بھی اس پیغمبرانہ پکار کو سننے سے خالی رہ جائے۔
عمومی اعلان
حج اجتماعی امور کے اعلان کا فطری مقام ہے۔ چنانچہ اسلام کے اہم ترین امور کا اعلان حج کے موقع پر کیا گیا۔ اس کی ایک مثال اعلانِ براءت ہے جو سورہ التوبہ کے اترنے کے بعد کیا گیا۔
مکہ رمضان 8ھ میں فتح ہوا۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں تین حج پڑے ہیں۔ ابتدائی دو حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف نہیں لے گئے۔ آپ نے صرف 10ھ میں حج ادا فرمایا جو عام طور پر حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ کی وفات ہو گئی۔
9ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابو بکر صدیق کو امیر الحجاج مقرر فرمایا اور ان کے ساتھ دوسرے صحابہ حج کے ارادے سے مکہ روانہ ہوئے۔ حضرت ابو بکر کی روانگی کے بعد سورہ التوبہ کا ابتدائی حصہ نازل ہوا جس میں یہ حکم تھا کہ اس بات کااعلان کر دو کہ اللہ اور رسول مشرکین سے بری ہیں۔ اور اب آخری فیصلہ کے لیے انھیں صرف چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں روایات میں آتا ہے:
لَمَّا نَزَلَتْ بَرَاءَة عَلَى رَسُول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ كَانَ بَعَثَ أَبَا بَكْر لِيُقِيمَ الْحَجّ لِلنَّاسِ فَقِيلَ يَا رَسُول الله: لَوْ بَعَثْت إِلَى أَبِي بَكْر فَقَالَ ’’لَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا رَجُل مِنْ أَهْل بَيْتِي ‘‘ ثُمَّ دَعَا عَلِيًّا فَقَالَ’’ اِذْهَبْ بِهَذِهِ الْقِصَّة مِنْ سُورَة بَرَاءَة وَأَذِّنْ فِي النَّاس يَوْم النَّحْر إذَا اِجْتَمَعُوا بِمِنًى أَ نَّهُ لَا يَدْخُل الْجَنَّة كَافِر وَلَا يَحُجّ بَعْد الْعَام مُشْرِك وَلَا يَطُوف بِالْبَيْتِ عُرْيَان‘‘ (تفسیر الطبری،جلد14، صفحہ108)۔ یعنی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پرآیاتِ براءت اتری اس وقت آپ حضرت ابو بکر کو بھیج چکے تھے کہ وہ لوگوں کو حج ادا کرائیں، اس وقت کہا گیا کہ اے خدا کے رسول، آپ اس کو ابو بکر کے پاس بھیج دیں۔ آپ نے فرمایا کہ میری طرف سے صرف میرے گھر کا کوئی آدمی اس کو انجام دے سکتا ہے، پھر آپ نے حضرت علی کو بلایا اور کہا کہ سورہ البراءۃ کے اس حکم کو لے کر جاؤ اور یوم النحر کو جب لوگ منیٰ میں جمع ہوں تو ان کے درمیان اعلان کر دو کہ کافر جنت میں نہیں جائے گا۔ اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور کوئی شخص عریاں ہوکر کعبہ کا طواف نہیں کرنے پائے گا۔
حضرت علی کہتے ہیں کہ میں مکہ گیا اور مجمع عام میں گھوم گھوم کر بآواز بلند اس کا اعلان کرتا رہا کہ یہاں تک کہ میری آواز بیٹھ گئی: قَالَ فَكُنْتُ أُنَادِي حَتَّى صَحِلَ صَوْتِي (مسند احمد، حدیث نمبر 7977)۔
مشرکین عرب سےبراءت کا حکم مدینہ میں اترا مگر اس کا اعلان مکہ میں موسم حج میں کیا گیا یہ واضح طور پر اس کا ثبوت ہے کہ اسلام کے تمات اہم فیصلوں کے اعلان کا اصل مقام مکہ اور زمانہ حج ہے۔ حج تمام دنیا کے مسلمانوں کا اجتماعی مرکز ہے۔ یہیں ان کو جمع ہونا ہے۔ یہیں انھیں اپنے بڑے بڑے فیصلوں کا اعلان کرنا ہے۔ اور یہیں سے وہ عالمی منصوبہ بندی کرنی ہے جو خدا اور رسول کے حکم کے مطابق ان کے لیے ضروری ہو۔
اس سلسلہ میں دوسری نمایاں مثال حجۃ الوداع کے خطبہ کی ہے۔ یہ آپ کا اہم ترین خطبہ ہے۔ آپ اپنی وفات سے پہلے آخری طور پر لوگوں کو بتا دینا چاہتے تھے کہ دین کے بنیادی تقاضے کیا ہیں۔ مگر ان کا اعلان آپ نے کہیں او رنہیں کیا بلکہ اس کو موخر کرتے رہے۔ یہاں تک کہ 10ھ میں حج کے موقع پر ان کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ خطبہ کے شروع میں یہ الفاظ آئے ہیں:
أَ يُّهَا النَّاسُ، اسْمَعُوا قَوْلِي، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَلْقَاكُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا بِهَذَا الْمَوْقِفِ أَبَدًا (سیرت ابن ہشام،جلد2، صفحہ603)۔ یعنی،اے لوگو، میری بات سنو، کیونکہ میں نہیں جانتا، شاید میں اس سال کے بعد تم سے اس مقام پر کبھی نہ ملوں۔
اس کے بعد آپ نے تمام بنیادی باتیں لوگوں کو بتائیں اور آخر میں فرمایا: أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ (کیا میں نے پہنچا دیا، کیا میں نے پہنچا دیا)۔ لوگوں نے گواہی دی کہ ہاں، آپ نے پہنچا دیا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 105 و 1741)۔
فتح مکہ (8ھ) کے بعد پورا عرب آپ کے لیے مسخر ہو چکا تھا۔ آپ عرب کے کسی بھی مقام پر پہنچ کر یہ اعلان کر سکتے تھے۔ اس وقت مدینہ اسلام کا سیاسی مرکز تھا۔ آپ یہ بھی کر سکتے تھے کہ لوگوں کو مدینہ میں بلائیں اور وہاں لوگوں کے سامنے ان باتوں کا اعلان کریں جن کا اعلان آپ نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا، مگر آپ نے ان میں سے کوئی طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ بلکہ حج کا انتظار کیا اور حج کے موقع پر مکہ پہنچ کر ان کا اعلان کیا۔ آپ کی یہ سنت اس کا واضح ثبوت ہے کہ حج اسلام کی تمام اہم باتوں کا مقامِ اعلان ہے۔
فطری انداز
اس اہتمام کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ سادہ اور فطری طریقہ کو پسند کرتا ہے۔ مثلاً حج کے اعمال میں سے ایک عمل یہ ہے کہ صفا اور مروہ (پہاڑیوں)کے درمیان سعی کی جائے۔ اس سلسلہ میں ایک سوال ترتیب کا تھا۔ یعنی یہ کہ سعی کا عمل صفا کی طرف سے شروع کیا جائے یا مروہ کی طرف سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کے موقع پر یہ عمل کیا تو فرمایا : أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ بِهِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1218)۔یعنی،میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ نے شروع کیا۔
اس سے آپ کا اشارہ قرآن کی اس آیت کی طرف تھا: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ (2:158)۔یعنی، صفا اور مروہ، بیشک اللہ کی یاد گاروں میں سے ہیں۔ یہ وہ آیت ہے جس میں حاجی کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس آیت کی ترتیب بیان یہ ہے کہ اس میں صفا کا لفظ پہلے ہے اور مروہ کا لفظ اس کے بعد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ترتیب بیان ہی کو ترتیب عمل بھی بنا لو۔ تاکہ ایک ترتیب کا یاد رکھنا دوسری ترتیب کے لیے کافی ہو جائے۔ دوترتیب الگ الگ یاد رکھنی نہ پڑے۔
حج کو مقام اعلان بنانے میں بھی یہی فطری حکمت ہے۔ حج کی عبادت کو ادا کرنے کے لیے تمام دنیا کے مسلمان ہر سال ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ہمیشہ جمع ہوتے رہیں گے۔ اس لیے اللہ نے اسی کو اجتماعی اعلان کا مقام بنا دیا۔ تاکہ ایک ہی اجتماع دونوں مقصد کے حصول کے لیے کافی ہو جائے۔
حج کے موقع پر اجتماعی اعلان کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح اس کو ایک مقدس حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ حج کا مقام مسلمانوں کا انتہائی مقدس مقام ہے، اس لیے جو اعلان حج کے مقام پر کیا جائے وہ بھی اپنے آپ لوگوں کی نظر میں مقدس اور محترم بن جائےگا۔
حج کی اجتماعیت
حج اسلام کی ایک نہایت اہم سالانہ عبادت ہے۔ وہ قمری کیلنڈر کے آخری ماہ ذو الحجہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ حج کی عبادت کے مراسم بیت اللہ (مکہ) میں یا اس کے آس پاس کے مقامات پر ادا کیے جاتے ہیں جو عرب میں واقع ہے۔ اس عبادت کو تمام عبادتوں کا جامع کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس میں ہر قسم کے عبادتی پہلو پائے جاتے ہیں۔ انھیں میں سے ایک اجتماعی پہلو بھی ہے حج کی عبادت میں اجتماعیت کا پہلو بہت نمایاں طور پر موجود ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (1984) میں حج کی تفصیل دیتے ہوئے یہ جملہ لکھا گیا ہے :
“About 2,000,000 persons perform the Hajj each year. and the rite serves as a unifying force in Islam by bringing followers of diverse background together in religious celebration.”
(Encyclopedia Britannica, 1985, Vol. 4, p. 844)
تقریباً دو ملین آدمی ہر سال حج کرتے ہیں اور یہ عبادت مختلف ملکوں کے مسلمانوں کو ایک مذہبی تقریب میں یکجا کرکے اسلام میں اتحادی طاقت کا کام کرتی ہے۔
قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا (2:125)۔ یعنی خدا نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مثابہ بنایا اور اس کو امن کی جگہ بنا دیا۔ ’’مثابہ ‘‘کے معنی عربی زبان میں تقریباً وہی ہیں جس کو آج کل کی زبان میں مرکز کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں۔ جس کی طرف سب لوگ رجوع کریں جو سب کا مشترک مرجع اور شیرازہ ہو۔
حج کی عبادت کے لیے ساری دنیا سے ہر ہر ملک کے لوگ آتے ہیں۔ ہر ہر قوم کے لوگ آتے ہیں۔ ان کی تعداد سالانہ تقریباً 25 لاکھ ہو جاتی ہے۔ حج کے موسم میں مکہ اور اس کے آس پاس ہر طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ان کے حلیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ مگر یہاں آنے کے بعد سب کی سوچ ایک ہو جاتی ہے۔ سب ایک ہی مشترک نشانہ پر چلتے نظر آتے ہیں۔ا یسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ربانی مقناطیس ہے جو’’لوہے ‘‘کے تمام ٹکڑوں کو ایک نقطہ پر کھینچے چلا جا رہا ہے۔
مختلف ملکوں کے یہ لوگ جب مقامِ حج کے قریب پہنچتے ہیں تو سب کے سب اپنا قومی لباس اتار دیتے ہیں اور سب کے سب ایک ہی مشترک لباس پہن لیتے ہیں جس کو احرام کہا جاتا ہے۔ احرام باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر سلی ہوئی ایک سفید چادر نیچے تہمد کی طرح پہن لی جائے اور اسی طرح ایک سفید چادر اوپر سے جسم پر ڈال لی جائے۔ اس طرح لاکھوں انسان ایک ہی وضع اور ایک ہی رنگ کے لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔
یہ سارے لوگ مختلف مراسم ادا کرتے ہوئے بالآخر عرفات کے وسیع میدان میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ اس وقت ایک عجیب منظر ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انسانوں کے تمام فرق اچانک مٹ گئے ہیں۔ انسان اپنے تمام اختلافات کو کھو کر خدائی وحدت میں گم ہو گئے ہیں۔ تمام انسان ایک ہو گئے ہیں جیسے ان کا خدا ایک ہے۔
عرفات کے وسیع میدان میں جب احرام باندھے ہوئے تمام حاجی جمع ہوتے ہیں، اس وقت کسی بلندی سے دیکھا جائے تو ایسا نظر آئے گا کہ زبان، رنگ، حیثیت، جنسیت کے فرق کے باوجود سب کے سب انسان بالکل ایک ہو گئے ہیں۔ اس وقت مختلف قومیں ایک ہی بڑی قومیت میں ضم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کے حج اجتماعیت کا اتنا بڑا مظاہرہ ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال غالباً دنیامیں کہیں اور نہیں ملے گی۔
کعبہ مسلمانوں کا قبلۂ عبادت ہے۔ مسلمان ہر روز پانچ وقت اس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ گویا ساری دنیا کے مسلمانوں کا عبادتی قبلہ ایک ہی ہے۔ عام حالت میں وہ ایک تصور اتی حقیقت ہوتا ہے۔ مگر حج کے دنوں میں مکہ پہنچ کر وہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت بن جاتا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان یہاں پہنچ کر جب اس کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں تو محسوس طور پر دکھائی دینے لگتا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مشترک قبلہ ایک ہی ہے۔
کعبہ ایک چوکور قسم کی اونچی عمارت ہے۔ اس عمارت کے چاروں طرف گول دائرہ میں سارے لوگ گھومتے ہیں جس کو طواف کہا جاتا ہے۔ وہ صف بہ صف ہو کر اس کے گرد گول دائرہ میں عبادت کرتے ہیں۔ حج کے دوران وہ ان کی تمام توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس طرح حج ایک ایسی عبادت بن جاتا ہے جو اپنے تمام اعمال اور تقریبات کے ساتھ انسان کو اجتماعیت اور مرکزیت کا سبق دے رہا ہے۔
حج کی تاریخ
حج کی تاریخ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں ہستیاں وہ ہیں جن کو نہ صرف مسلمان خدا کا پیغمبر مانتے ہیں بلکہ دوسرے بڑے مذاہب کے لوگ بھی ان کو عظیم پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح حج کے عمل کو تاریخی طور پر تقدس اور عظمت کا وہ درجہ مل گیا ہے جو دنیا میں کسی دوسرے عمل کو حاصل نہیں۔
حضرت ابراہیم قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل ان کے صاحبزادے تھے۔ اس وقت عراق ایک شاندار تمدن کا ملک تھا۔ آزر حضرت ابراہیم کے والد اور حضرت اسماعیل کے دادا تھے۔ ان کو عراق کے سرکاری نظام میں اعلیٰ عہدہ دار کی حیثیت حاصل تھی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے لیے عراق میں شاندار ترقی کے اعلیٰ مواقع کھلے ہوئے تھے۔ مگر عراق کے مشرکانہ نظام سے وہ موافقت نہ کر سکے۔ ایک خدا کی پرستش کی خاطر انھوں نے اس علاقہ کو چھوڑ دیا جو کئی خداؤں کی پرستش کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہ عراق کے سرسبز ملک کو چھوڑ کر عرب کے خشک صحرا میں چلے گئے جہاں کی سنسان دنیا میں خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ تھی۔ یہاں انھوں نے ایک خدا کے گھر کی تعمیر کی۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے اس عمل کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کئی خداؤں کو اپنا مرجع بنانے کے بجائے ایک خدا کو اپنا مرجع بنایا۔ اور اس مقصد کے لیے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کی جو خدائے واحد کی عبادت کا عالمی مرکز ہے۔ یہی مرکز توحید حج کے مراسم کی ادائیگی کا مرکز بھی ہے۔
حج کی عبادت میں جو مراسم ادا کیے جاتے ہیں ان کے بعض پہلوؤں کو دیکھیے۔ حج کے دوران حاجی سب سے زیادہ جو کلمہ بولتا ہے وہ یہ ہے:
اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلهِ الْحَمْدُ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 9538)۔اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اور اسی کے لیے ہے ساری تعریف۔
حاجی کی زبان سے بار بار یہ الفاظ کہلوا کر تمام لوگوں کے اندر یہ نفسیات پیدا کی جاتی ہے کہ بڑائی صرف ایک اللہ کی ہے۔ اس کے سوا جتنی بڑائیاں ہیں، سب اس لیے ہیں کہ اسی ایک عظیم تر بڑائی میں گم ہو جائیں۔ یہ احساس اجتماعیت کا سب سے بڑا راز ہے۔ اجتماعیت اور اتحاد ہمیشہ وہاں نہیں ہوتا جہاں ہر آدمی اپنے کو بڑا سمجھ لے۔ اس کے برعکس،جہاں تمام لوگ کسی ایک کے حق میں اپنی انفرادی بڑائی سے دست بردار ہو جائیں وہاں اتحاد اور اجتماعیت کے سوا کوئی اور چیز پائی نہیں جاتی۔ بے اتحادی بڑائیوں کی تقسیم کا نام ہے اور اتحاد بڑائیوں کی وحدت کا۔
اسی طرح حج کا ایک اہم رکن طواف ہے۔ دنیا بھر کے لوگ جو حج کے موسم میں مکہ میں جمع ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا عملی اقرار ہے کہ آدمی اپنی کوششوں کا مرکز و محور صرف ایک نقطہ کو بنائے گا۔ وہ ایک ہی دائرہ میں حرکت کرے گا۔ یہ عین وہی مرکز ہے جو مادی سطح پر نظامِ شمسی میں نظر آتا ہے۔ نظامِ شمسی کے تمام سیارے ایک ہی سورج کو مرکزی نقطہ بنا کر اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی طرح حج یہ سبق دیتا ہے کہ انسان ایک خدا کو اپنا مرجع بنا کر اس کے دائرے میں گھومے۔
اس کے بعد حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے۔ وہ صفا سے مروہ کی طرف جاتا ہے اور پھر مروہ سے صفا کی طرف لوٹتا ہے۔ اس طرح وہ سات چکر لگاتا ہے۔ یہ عمل کی زبان میں اس بات کا سبق ہے کہ آدمی کی دوڑ دھوپ ایک حد کے اندر بندھی ہوئی ہونی چاہیے۔ اگر آدمی کی دوڑ دھوپ کی کوئی حد نہ ہو تو کوئی ایک طرف بھاگ کر نکل جائے گا اور کوئی دوسری طرف۔ مگر جہاں دوڑ دھوپ کی حد بندی کر دی گئی ہو وہاں ہر آدمی بندھا رہتا ہے۔ وہ بار بار وہیں لوٹ کر آتا ہے جہاں اس کے دوسرے بھائی اپنی سرگرمیاں جاری کیے ہوئے ہوں۔
یہی حج کے دوسرے تمام مراسم کا حا ل ہے۔ حج کے تمام مراسم مختلف پہلوؤں سے لوگوں کو ایک ہونے اور مل کر کام کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ وہ ایک آواز پر حرکت کرنے کا عملی مظاہرہ ہیں۔
مرکز اتحاد
حج اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے خدا کی طرف سفر ہے۔ عام انسان موت کے بعد خدا کے دربار میں حاضر ہوں گے، مومن موت سے پہلے ہی اپنے آپ کو خدا کے دربار میں حاضر کر دیتا ہے۔ دوسروں کی خدا کے یہاں حاضری مجبورانہ حاضری ہے۔ اور مومن کی خدا کے یہاں حاضری اختیارانہ حاضری۔ عرفات کے میدان میں بیک وقت ساری دنیا کے حاجیوں کا اجتماع یہی منظر پیش کرتا ہے۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے: الْحَجُّ عَرَفَةُ (صحیح مسلم،حدیث نمبر55)۔عرفہ ہی حج ہے۔
تاہم حج ایک جامع عبادت ہے۔ اس میں دوسرے تمام پہلو بھی براہِ راست یا بالواسطہ انداز میں جمع کر دیے گئے ہیں۔ انھیں مزید فائدے میں سے ایک یہ ہے کہ حج عالمی اسلامی اتحاد کا ذریعہ ہے کعبہ گویا وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد دنیا بھر کے خدا پرستوں کا عبادتی دائرہ قائم ہوتا ہے۔
عرفات کی حاضری کا اصل پہلو وہی ہے جو اخروی ہے۔ تاہم اس میں اہلِ اسلام کے اتحاد کا بھی گہرا راز چھپا ہوا ہے۔ کیو نکہ اتحاد ایک مرکز پر جمع ہونے کا نام ہے۔ مسلمان جب حج کے موقع پر اپنے رب کے گرد اکٹھا ہوتے ہیں تو اس عمل کے دوران وہ اس مرکزی نقطہ کو بھی دریافت کر لیتے ہیں جو ان کی کثرت کو وحدت میں تبدیل کر سکے۔ وہ اپنی آخرت کا راز پانے کے ساتھ اپنی دنیا کا راز بھی پا لیتے ہیں۔
میرے سامنے دیوار پر بیت اللہ کی تصویر ہے۔ وسیع مسجد کے درمیان کعبہ کی جانی پہچانی عمارت ہے اور اس کے چاروں طرف لاکھوں انسان گول دائرہ میں اپنے رب کے آگے جھکے ہوئے عبادت کر رہے ہیں۔ یہ سالانہ اجتماعی نماز ہے جو ہر بار حج کے مہینہ میں ادا کی جاتی ہے۔ اس میں دنیا بھر کے 25 لاکھ سے زیادہ مسلمان شرکت کرتے ہیں۔ یہ پوری طرح ایک مرئی واقعہ ہے اور اس کا فوٹو لیا جاسکتا ہے۔
مگر کعبہ کو قبلہ بناکر اس کے گرد نماز پڑھنے والے صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو حرم کعبہ میں دکھائی دیتے ہیں، حرم کعبہ کے باہر کے مسلمانوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ تمام عرب کے لوگ اسی طرح روزانہ کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح سارے ایشیا اور افریقہ کے مسلمان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہ دائرہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سارے کرۂ ارض پر پھیل جاتا ہے۔
تصور کی آنکھوں سے دیکھیے تو جو واقعہ صحن کعبہ میں ہوتا ہے وہی واقعہ زیادہ بڑے پیمانہ پر ہر روز ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔ ساری دنیا کے لوگ روزانہ پانچ بار کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔
وہ ساری دنیا میں کعبہ کے چاروں طرف کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح گویا ہر روز پانچ بار روئے زمین پر مسلمانوں کا گول دائرہ بنتا ہے۔ درمیان میں کعبہ ہوتا ہے اور ساری دنیا میں اس کے گرد دائرہ بنائے ہوئے مسلمان نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی عظیم اور مکمل اجتماعیت ہے جس کی مثال کسی بھی دوسرے مذہبی یا غیر مذہبی گروہ کے یہاں نہیں ملتی۔
یہ ایک عظیم الشان نظام ہے جو ہزاروں سال کی تاریخ کے ذریعہ قائم ہوا ہے۔ مسلمانوں کے اندر اس کا حقیقی شعور ہو اور وہ اس سے وہ سبق لے سکیں جس کے لیے یہ عظیم الشان نظام بنایا گیا ہے تو مسلمانوں کی زندگی میں ایک انقلاب آ جائے۔ ان کا ہر فرد ایک عالم گیر مقدس اجتماعیت کے ساتھ متحد ہو جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ کعبہ زمین پر خدا کا نشان ہے اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے اتحاد اور اجتماعیت کا نشان بھی۔ایکتا کے اس عظیم تر بیتی نظام ہی کا یہ بھی ایک ظاہری پہلو ہے کہ تمام لوگوں سے ان کے انفرادی لباس اُتروا کر سب کو ایک ہی سادہ لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ یہاں بادشاہ اور رعایا کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہاں مشرقی لباس اورمغربی لباس کے امتیازات فضا میں گم ہو جاتے ہیں۔ احرام کے مشترک لباس میں تمام لوگ اس طرح نظر آتے ہیں جیسے کہ تمام لوگوں کی صرف ایک حیثیت ہے۔ تمام لوگ صرف ایک خدا کے بندے ہیں۔ اس کے سوا کسی کو کوئی اور حیثیت حاصل نہیں۔
حج کے مقررہ مراسم اگرچہ مکہ میں ختم ہو جاتے ہیں مگر بیشتر حاجی حج سے فارغ ہوکر مدینہ بھی جاتے ہیں۔ مدینہ کا قدیم نام یثرب تھا۔ مگر پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی کے آخری زمانہ میں اس کو اپنا مرکز بنا یا۔ اس وقت سے اس کا نام مدینۃ النبی (نبی کا شہر) پڑ گیا۔ مدینہ اسی کا اختصار ہے۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بنائی ہوئی مسجد ہے۔ یہاں آپ کی قبر ہے۔ یہاں آپ کی پیغمبرانہ زندگی کے نشانات بکھرے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں حاجی جب مدینہ پہنچتے ہیں تو یہ ان کے لیے مزید اتحاد اور اجتماعیت کا عظیم سبق بن جاتا ہے۔ یہاں کی مسجد نبوی میں وہ اس یاد کو تازہ کرتے ہیں کہ ان کا رہنما صرف ایک ہے۔ وہ یہاں سے یہ احساس لے کر لوٹتے ہیں کہ ان کے اندر خواہ کتنے ہی جغرافی اور قومی فرق پائے جاتے ہوں، انھیں ایک ہی پیغمبر کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے۔ انھیں ایک ہی مقدس ہستی کو اپنی زندگی کا رہنما بنانا ہے۔ وہ خواہ کتنے ہی زیادہ اور کتنے ہی مختلف ہوں مگر ان کا خدا بھی ایک ہے اور ان کا پیغمبر بھی ایک۔
پرہیزگاری کا سبق
حج کے بارے میں جو آیتیں قرآن میں آئی ہیں، ان میں سے ایک آیت یہ ہے :
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ (2:197)۔یعنی،حج کے متعین مہینے ہیں۔ بس جو شخص ان میں حج کا عزم کرے تو اس کے لیے حج میں نہ شہوت کی بات کرنا ہے،نہ فسق کی بات، نہ لڑائی جھگڑا۔ اور تم جو نیکی بھی کروگے اللہ اس کو جانتا ہے۔ اور تم زادِراہ لو۔ کیونکہ تقویٰ کا زادِراہ سب سے بہتر ہے۔ اور اے عقل والو مجھ سے ڈرو۔
اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں بھی حج کا رواج تھا۔ مگر ان لوگوں کے لیے حج ایک قسم کا قومی میلہ تھا، نہ کہ اللہ واحد کی عبادت۔ چنانچہ اس زمانہ میں حج کے دنوں میں وہ سب کچھ ہوتا تھا جو قومی میلوں میں عام طور پر ہوتا ہے۔ اسلام نے ان تمام چیزوں کو بند کردیا۔
اس سلسلہ کا ایک حکم یہ دیا گیا کہ حج کے زمانہ میں رفث اور فسوق اور جدال سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ رفث سے مراد شہوانی باتیں ہیں۔ فسوق کا مطلب اللہ کی نافرمانی ہے۔ اور جدال سے مراد آپس کا لڑائی جھگڑا ہے۔ یہ چیزیں عام حالات میں بھی منع ہیں۔ مگر حج کے دنوں میں ان کو خصوصی اہتمام کے ساتھ قابل ترک قرار دے دیا گیا۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ سفر اور اجتماع کی وجہ سے حج کے دنوں میں ان چیزوں کے مواقع نسبتاً زیادہ پیش آتے ہیں۔ آدمی کا شعور اگر ان برائیوں کے خلاف پوری طرح بیدار نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ اس زمانہ میں وہ دانستہ یانا دانستہ طور پر اس میں پڑ جائے گا۔
مومن وہ ہے جو شہوت کے لیے جینے کے بجائے مقصد کے لیے جینے لگے۔ وہ اپنے معاملات میں خدا کی نافرمانی سے بچنے کا اہتمام کرتا ہو۔ وہ اجتماعی زندگی میں آپس کے لڑائی جھگڑے سے بچا رہے۔ یہ اوصاف مومن کے اندر ہمیشہ ہونے چاہیے۔ مگر حج کے زمانہ میں تو وہ اس بات کی خصوصی علامت ہیں کہ آدمی فی الواقع حاجی بنا ہے یا نہیں۔ اگر آدمی کے اوپر تقویٰ کی وہ کیفیات طاری ہوئی ہوں جو واقعۃً سفر حج کے دوران طاری ہونی چاہیے تو ناممکن ہے کہ وہ ان برائیوں میں پڑے۔ یہ تمام چیزیں تقویٰ کی نفی ہیں جہاں یہ چیزیں ہوں گی وہاں تقویٰ نہیں ہوگا اور جہاں تقویٰ ہوگا وہاں یہ چیزیں بھی لازماً رخصت ہو جائیں گی۔
مزید اہتمام
حج کے دنوں میں جو کچھ کرنا منع ہے وہ وہی ہے جس کو بقیہ دنوں میں بھی کرنا منع ہے۔ حج کے دوران میں ان چیزوں کی ممانعت بطور خصوصی تربیت ہے۔ حج میں شریعت کی ان ممنوعات پر مبالغہ کے ساتھ عمل کرایا جاتا ہے تاکہ ان کے بارے میں آدمی کا احساس تیز ہو اور بقیہ دنوں میں ان سے بچنے کی خصوصی استعداد اس کے اندر پیدا ہو جائے۔
انسان جب اپنے گھر اور کاروبار میں ہوتا ہے تو وہ اپنے ذاتی معاملات میں الجھا رہتا ہے۔ وہ اس سے آگے کی حقیقتوں کو بھول جاتا ہے۔ اس لیے آدمی کو روزانہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں لایا جاتا ہے تا کہ کچھ دیر کے لیے وہ اپنے ذاتی ماحول سے علیحدہ ہو اور اپنے ذہن کو غیر متعلق چیزوں سے خالی کرکے یکسوئی کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہو سکے۔ حج کا سفر بھی اس نوعیت کی ایک چیز ہے۔ حج کے دنوں میں اسی مقصد کے لیے آدمی کو اس کے محدود ماحول سے نکال کر زیادہ لمبی مدت تک کے لیے حجاز (عرب) کے مختلف مقامات پر لے جایا جاتا ہے۔ حج کسی آدمی کے لیے اس کے دنیوی ماحول سے کامل علیحدگی کا نام ہے تاکہ وہ کامل یکسوئی کے ساتھ اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو سکے۔
عرب کے ساتھ بہت سی عظیم دینی روایتیں وابستہ ہیں۔ اس بنا پر حج کے مراسم کی ادائیگی کے لیے عرب کا جغرافیہ سب سے زیادہ موزوں جغرافیہ ہے۔ یہاں کعبہ ہے جس کے بارے میں ہزاروں سال سے تقدس کی روایتیں قائم ہو چکی ہیں۔ یہاں پیغمبروں کی قربانی کی داستانیں لکھی گئی ہیں۔ یہاں خدا کے نیک بندوں پر خدا کے انعامات کی یادگاریں ہیں۔ یہ وہ زمین ہے جہاں خدا کے آخری رسول اور آپ کے اصحاب کی زندگیوں کے نشانات ثبت ہیں۔
اس قسم کی تاریخی نسبتوں نے حج کے مقامات کے ساتھ غیر معمولی تقدس اور احترام کی فضا وابستہ کر دی ہے۔ یہاں کے ماحول میں پہنچتے ہی آدمی کے ذہن میں ایک پوری دینی تاریخ جاگ اٹھتی ہے۔ یہاں بالکل قدرتی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی دینی حس میں اضافہ ہو جائے۔ وہ زیادہ سنجیدگی اور انہماک کے ساتھ خدا کے مقرر کیے ہوئے فرائض کو ادا کرنے لگے۔ اسی مخصوص تاریخی اہمیت کی بنا پر اس علاقہ کو خدا نے اس کے لیے چنا کہ یہاں اسلامی زندگی کے بارے میں ایک علامتی مشق (ریہرسل) کرائی جائے، اور پھر آدمی کو دوبارہ اس کے سابقہ ماحول میں واپس پہنچا دیا جائے، تاکہ وہ زیادہ بہتر طور پر خدا پرستانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔
حج کے زمانہ میں مخصوص مراسم کی ادائیگی کے دوران حاجی کے لیے جو چیزیں منع ہیں ان میں سے تین خاص چیزوں کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
1۔ زبان سے کسی شخص کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا۔
2۔کسی جانور کو نہ مارنا اور نہ اس کو زخمی کرنا۔
3۔لذّت اور آرائش کی چیزوں سے پرہیز۔ مثلاً ناخن کاٹنا، بال سنوارنا، سلاہوا کپڑا پہننا، خوشبو لگانا، ازدواجی تعلقات وغیرہ۔
کلام میں احتیاط
مل جل کر رہنے میں لوگوں کو ایک دو سرے کی جس چیز سے سب سے زیادہ سابقہ پیش آتا ہے وہ زبان ہے۔ ایک شخص کو دوسرے شخص سے سب سے زیادہ تکلیف زبان ہی سے پہنچتی ہے۔ حج کے زمانہ میں بیک وقت بہت سے لوگوں کا ساتھ ہو جانے کی وجہ سے بار بار یہ موقع آتا ہے کہ آدمی کی زبان بے قابو ہو جائے اور ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان کو ٹھیس پہنچے۔ چنانچہ حج کے موسم کو خصوصیت سے کلام میں احتیاط کی تربیت کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ زبان سے کسی کو تکلیف پہنچانا عام دنوں میں اسلامی اخلاقیات کا ایک جزء ہے۔ مگر حج کے دنوں میں اس کو اسلامی عبادات کا لازمی جزء بنا دیا گیا تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اہتمام کرکے اپنے آپ کو اس سماجی برائی سے بچائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص حج اس طرح ادا کرے کہ انسان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے محفوظ رہیں تو اس کے اب تک کے گناہ معاف ہو جائیں گے (تاريخ دمشق، جلد 29،صفحه 362)۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے:حج کے چند معلوم مہینے (شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ{ FR 2957 }) ہیں۔ جو شخص ان مہینو ں میں اپنے اوپر حج مقرر کرے تو پھر حج میں نہ کوئی فحش بات ہو اور نہ بدکلامی اور نہ جھگڑا اور نہ تکرار کیا جائے (2:197)۔زبان سے دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی یہی تین خاص صورتیں ہیں۔ آدمی فحش باتیں اپنی زبان سے نکالتا ہے جو دوسروں کے لیے دل خراشی کا باعث ہوتی ہیں۔ وہ دوسرے کو برے الفاظ سے یاد کرتا ہے اور اس کے بارے میں نازیبا کلمات بول کر اس کو بے آبرو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بات چیت کے دوران تکرار اور سخت کلامی پر اتر آتا ہے۔ یہ تمام چیزیں حج میں بالکل حرام کر دی گئیں۔ تا کہ ان کے بارے میں آدمی کی حسّاسیت بڑھ جائے اور جب وہ حج کے مقدس سفر سے لوٹے تو اس کے اثر سے اس کی زبان ہمیشہ کے لیے ان چیزوں سے محفوظ ہو چکی ہو۔
جارحیت سے پرہیز
حج کے لیے احرام باندھنے کے بعد خشکی کے جانوروں کا شکار کرنا حاجی کے لیے حرام ہے۔ یہاں تک کہ شکار کیے ہوئے جانور کا گوشت بطور ہدیہ قبول کرنا، پرندہ کا پر اکھاڑنا، شکار میں مدد دینا، شکار کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے چھری دینا، وغیرہ سب حاجی کے لیے حرام ہیں۔
حج کے دوران میں حاجی کسی موذی جانور مثلاً سانپ کو مار سکتا ہے۔ یا وہ قربانی کے جانور کو ذبح کرتا ہے جو حج کے مراسم کا ایک جزء ہے۔ اس کے علاوہ کسی جانور کو مارنا یا اسے تکلیف دینا حاجی کے لیے حرام ہے۔ جانور کا شکار عام حالات میں بالکل جائز ہے مگر حج کے دوران ان کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔
یہ دراصل ایک شرعی حکم پر مبالغہ کے ساتھ عمل کرانا ہے۔ آدمی پر یہ فرض ہے کہ وہ انسان کو نہ مارے، وہ کسی جاندار کو نہ ستائے۔ یہ شریعت کا ایک عام حکم ہے جو ہر آدمی سے ہر حال میں مطلوب ہے مگر حج کے دوران اس کو شکار کے جانوروں تک وسیع کرکے اس حکم کے بارے میں آدمی کے احساس کو تیز کیا جاتا ہے تا کہ حج سے واپسی کے بعد وہ زیادہ اہتمام کے ساتھ اس کی تعمیل کر سکے۔ وہ بقیہ دنوں میں بھی لوگوں کے درمیان غیر جارح (no problem) انسان بن کر رہے۔
پابند زندگی
اسلامی زندگی کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھ کر زندگی گزاری جائے۔ حج کے سفر کو اس قسم کی پابند زندگی کے لیے خصوصی تربیت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ حج کی یہ حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث میں ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔ جس شخص نے حج کے مراسم اس طرح ادا کیے کہ دوسرے انسان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے محفوظ رہے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے: من قَضَى نُسُكَهُ وَسَلِمَ الناس مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (تاريخ دمشق، جلد 29،صفحه 362)۔
گویا حج کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حاجی کو جس چیز سے خاص طور پر بچنا ہے،وہ یہ کہ اس کی زبان سے کسی بندۂ خدا کے دل کو ٹھیس نہ لگے۔ اس کے ہاتھ سے کسی انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ جو حج آدمی کے تمام گناہوں کو ختم کر دیتا ہے وہ وہی حج ہے جس سے آدمی اس قسم کی زبان اور اس قسم کا ہاتھ لے کر واپس آیا ہو۔
خود فراموشی
حج کے دوران لذّت اور آرائش کی چیزوں کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ حج کا عمل احرام سے شروع ہوتا ہے۔ احرام ایک سادہ لباس (ایک سفید تہمد اور ایک سفید چادر) ہے جو حرم کے حدود میں داخل ہوتے ہی ہر حاجی اور (احناف کے مطابق) زائر کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ احرام گویا ایک قسم کا فقیرانہ لباس ہے جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے۔
یہ پہلی علامتی تدبیر ہے جس کے ذریعہ سے خدا اپنے بندوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ سارے انسان برابر ہیں۔ جن ظاہری چیزوں کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے پر فخر کرتے ہیں یاکسی کو اونچا یا کسی کو نیچا سمجھتے ہیں وہ سب خدا کی نظر میں سراسر باطل ہیں۔ خدا سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے حج کے زمانہ میں لاکھوں حاجی ایک قسم کا لباس پہننے کی وجہ سے بالکل ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا حج کا احرام اسلام کے اس اصول کا ایک عملی مظاہرہ ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ جو لوگ خدا کے اچھے بندے بننا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر قسم کے دوسرے ’’لباس‘‘ اپنے اوپر سے اتار دیں اور سب کے سب ایک خدائی لباس میں ملبوس ہو جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ حاجی کون ہے۔ آپ نے فرمایا ’’پر اگندہ بال اور غبار آلود‘‘(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3243)۔ ان الفاظ میں اصلی حاجی کی تعریف بتائی گئی ہے۔ الجھے ہوئے بال اور گرد سے اٹا ہوا جسم با مقصد آدمی کی پہچان ہے۔ جب کوئی شخص پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے آپ کو کسی خاص کام کے لیے وقف کر دے تو اس کو آرائش و زیبائش کی فرصت نہیں رہتی۔ حج میں با لقصد اس قسم کا حلیہ بنانے کا حکم گویا بامقصد زندگی گزارنے کا ایک تاکیدی سبق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدائی مقصد میں اپنے آپ کو اس حد تک مشغول کرے کہ اس کو اپنے ظاہر کو بنانے اور سنوارنے کی سُدھ نہ رہے۔ وہ وقتی لذّتوں کو بھول جائے۔ برتر مقصد کو پانے کی دھن میں اس کو اپنے ذاتی تقاضے یاد نہ رہیں۔
حج کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے:اور تم سفر حج میں تقویٰ کا زادِراہ لو، بہترین زادِراہ تقویٰ کا زادِراہ ہے۔ اے عقل والو اللہ سے ڈرو (2:197)۔
قدیم عرب میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ حج کے لیے زادِراہ لے کر نکلنا دنیادارانہ فعل ہے۔ جو شخص حج کے لیے اس طرح نکلے کہ وہ دنیا کا سامان لیے بغیر حج کے سفر پر چل پڑا ہو وہ پارسا اور دیندار خیال کیا جاتا تھا۔ ایسے لوگ اپنے بارے میں کہتے کہ ہم متوکل ہیں: نَحْنُ المُتَوَكِّلُونَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1523)۔یعنی،ہم خدا کے سوا کسی چیز پر بھروسہ نہیں کرتے۔ مگر قرآن میں یہ بتایا گیا کہ اس قسم کی ظاہری نمائش کا نام دین داری نہیں ہے۔ دین داری کا تعلق دل اور ذہن سے ہے، نہ کہ کسی قسم کے خارجی مظاہرہ سے۔ آدمی کو جس چیز سے بچنا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا دل اور اس کا ذہن غیر اللہ کےحبِّ شديد(البقرہ، 2:165)سے خالی ہو، نہ یہ کہ اس کی جھولی میں کوئی کھانے پینے کا سامان نظر نہ آتا ہو۔