نیا مذہب

دہلی یونیورسٹی کے یونیسکو کلب کے تحت ایک میٹنگ ہوئی۔ ٹائمس آف انڈیا ( 3 اگست 1988) کی رپورٹ کے مطابق ، اس موقع پر مسٹر خوشونت سنگھ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت ہے کہ ملک میں ایک نیا مذہب بنایا جائے جو کہ عمل کی اخلاقیات ، عدمِ تشدد اور قدرتی ماحول کی حفاظت کی تبلیغ کرے ۔ یہ بہت ضروری ہو گیا ہے ، کیوں کہ لوگوں کے رحجان اور اقدار میں کچھ غلطی ہے جو کہ موجودہ مذاہب کے ذریعہ ان کے اندر آئی ہے :

There was need to form a new religion in the country which would propagate work ethics, non-violence and preservation of the environment. This has become imperative because there is something wrong with the attitudes and values of the people imbibed from the existing religions.

مسٹر خوشونت سنگھ نے موجودہ مذہبی لوگوں کی جو شکایت کی ہے ، وہ بجائے خود درست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مذہبی لوگ انسانی ترقی کا سبب بننے کے بجائے انسانی ترقی میں رکاوٹ بن گئے ہیں ۔ وہ انسانی قافلہ کو آگے لے جانے کی خدمت انجام نہیں دےرہے ہیں۔ یہی حال آج ہر مذہب کے ماننے والوں کا ہے۔

 مگر جہاں تک اصلاح کا تعلق ہے ، اصل ضرورت نئے مذہب کی نہیں، بلکہ نئے مذہبی انقلاب کی ہے ۔ مذہب کی تعلیم آج بھی صحیح ہے۔ مگر مذہب کی بنیاد پر لوگوں کے اندر ذہنی انقلاب نہیں لایا گیا ہے ۔ آج جو لوگ مذہب کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ جمود اور تقلید کی پیدا وار ہیں نہ کہ حقیقتاًمذ ہبی انقلاب کی پیدا وار۔

موجودہ زمانے میں جو لوگ مذہب کا نعرہ لے کر اٹھے ، انھوں نے صرف مذہب کو استعمال کیا ۔ انھوں نے مذہب کے مطابق لوگوں کا ذہن بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہی خرابی کا اصل سبب ہے ۔ اب جن لوگوں کو اصلاح کا درد ہو۔ انھیں مذہبی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کا ذہن بدلنے کی کوشش کرنا چاہیے ، نہ یہ کہ نیا مذہب پیدا کرنے کی بے فائدہ کوشش میں اپنا وقت ضائع کریں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom