مصلحت کی دوقسمیں
شریعت انسان کی بھلائی کے لیے مقرر کی گئی ہے ۔ اس لحاظ سے پوری شریعت مصلحت انسانی پر مبنی ہے۔ تاہم شریعت کے نزدیک بعض مصلحتیں قابل لحاظ ہیں اور بعض مصلحتیں نا قابل لحاظ ۔ اس بنا پر فقہاء اسلام نے مصلحت کی دوقسمیں قرار دی ہیں ۔ مصالح معتبرہ ، یعنی وہ مصلحت جس کا شریعت میں اعتبار کیا گیا ہو۔ اور مصالح ملغاۃ ، یعنی وہ مصلحت جس کو شریعت نے لغو قرار دیا ہو ۔
1۔ جان کی حفاظت کے لیے شریعت نے قصاص کا حکم دیا ہے ۔ اسی طرح مال کی حفاظت کے لیے چوری کی حد مقرر کی ہے۔ یہ مصالح معتبرہ کی مثالیں ہیں۔ مصالح کی اس فہرست میں قیاس و استنباط کے ذریعہ اضافے کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق نے تقسیم وظائف کے لیے رجسٹر کا طریقہ رائج کیا جو پہلے موجود نہ تھا۔ یہ بھی استنباطی طور پر مصالح معتبرہ میں شمار کیا جائے گا۔
2۔ میراث میں قرآن نے یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ مرد کو عورت سے دگنا حصہ دیا جائے (النساء: 11) اب اگر کوئی شخص بطور خود ایک وجہہ نکال کر کہے کہ عورت اور مرد دونوں کو برابر برابر حصہ دینا چاہیے تو یہ مصالح ملغاة کی مثال ہوگی۔ یہ ایک لغو مصلحت ہوگی جس کا اعتبار کرنے کی ضرورت نہیں ۔ کیوں کہ وہ حکم شریعت سے براہ راست ٹکراتی ہے ۔
مصالح معتبرہ اور مصالح ملغاۃ کا تعلق صرف روایتی قسم کے مسائل سے نہیں ہے ۔ اس کا تعلق زندگی کے تمام مسائل سے ہے ۔ مثلاً ہندستان میں جب مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ دوسرے فرقہ کے ساتھ ٹکراؤ نہ کرو۔ بلکہ قرآنی تعلیم کے مطابق ، اعراض کا طریقہ اختیار کرو ، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر ہم اعراض کریں تو وہ جری ہو جائیں گے اور ہمارے خلاف مزید کارروائیاں کریں گے ۔ مسلمانوں کی یہ مصلحت بھی مصالح ملغاۃ میں شامل ہے ، کیوں کہ وہ ان کے اپنے دماغ کی ایجاد ہے ، وہ قرآن کی کسی تعلیم یا پیغمبر کی کسی سنت پر مبنی نہیں۔
و ہی مصلحت معتبر مصلحت ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو ، جو مصلحت قرآن وسنت کے مطابق نہ ہو وہ ایک لغو مصلحت ہے ، جس کا لحاظ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ایسی مصلحت مسلمانوں کو کبھی فلاح و سعادت کی طرف نہیں لے جا سکتی ۔