اپنا نقصان
اس دنیا میں سب سے بڑی چیز کیا ہے جس کو آدمی پائے ۔ اور جس کو پانے کا خصوصی طالب بنے ۔ یہ سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی خدائی تجلیات کا آخذ (Recipient) بن سکے۔ خدا کی رحمت کا فیضان ہر آن دنیا میں برستا ہے ، مگر اس کو پانے والا وہی شخص ہے جس نے اپنے اندرپانے کا استحقاق پیدا کیا ہو ۔
جب ایک شخص پر تنقید کی جائے اور وہ تنقید کو سن کر بگڑ اٹھے تو اس نے اپنے آپ کو فیضان الہٰی سے محروم کر لیا، کیوں کہ تنقید کوسن کر بگڑ نا کبر ہے ، اور جس سینے میں کبر ہو وہ سینہ کبھی فیضانِ الہٰی کا مہبط نہیں بن سکتا ۔
یہی معاملہ تمام دوسری چیزوں کا ہے۔ ایک شخص کے سامنے حق بات واضح دلائل کے ساتھ پیش کی جائے مگر وہ اس کو نہ مانے اور دھاندلی کا انداز اختیار کرے ، ایسا شخص کبھی خدا کی قربت کا تجربہ نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ خدا اعتراف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ، دھاندلی کرنے والےلوگ اُسے پسند نہیں ۔
آسمان سے بارش ہو تو زرخیز زمین اس کو قبول کرتی ہے ۔ پانی اس کے اندر داخل ہو کر اس کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اس سے فصل اُگے ، اس میں پھول اور پھل پیدا ہوں ۔ مگر یہی بارش پتھر کی چٹان پر پڑتی ہے تو وہ اوپر اوپر بہہ جاتی ہے ۔ وہ اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاتی ۔
یہی مثال خدائی فیضان کے معاملے میں انسان کی ہے۔ خدا کا فیضان ہرلمحہ دنیا میں برس رہاہے۔ تاہم اس کو وہی شخص پاتا ہے جس نے اپنے اندر اس کو پانے کی استعداد پیدا کی ہو۔ جس شخص کے اندر استعداد نہ ہو ، اس کے اوپر خدا کا فیضان برسے گا مگر وہ پتھر کی چٹان کی طرح اوپر ہی اوپر سے گزر جائے گا۔ وہ اس کے سینےکے اندر داخل نہیں ہو گا۔ وہ اس کی روح میں شامل ہو کر اس کو روشن نہیں کرے گا۔
اپنے سینے کے پتھر یلے پن کو ختم کیجیے ، اس کو نرم مٹی کی طرح بنا دیجیے ۔ اور پھر آپ دیکھیں گےکہ آپ کا سینہ ربّانی فصل کا چمنستان بن گیا ہے ۔