الٹا کام
ایک شخص اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتا ہو اور اس سے کہے کہ تم پہلے بازار میں ایک دکان لے کر مطب کھول لو ۔ اس کے بعد ڈاکٹری پڑھتے رہنا۔ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو اس قسم کا مشورہ دے تو لوگ اس کو پاگل یا کم از کم غیر سنجیدہ انسان سمجھیں گے۔ کیوں کہ ڈاکٹری پہلے سیکھی جاتی ہے اور مطب اس کے بعد کھولا جاتا ہے ۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی الٹا کام ہمارے تمام لیڈر کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی انھیں غیر سنجیدہ نہیں کہتا۔ بلکہ انھیں مفکر اور رہنما کا خطاب دےدیا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم لیڈر اٹھے وہ تقریباً سب کے سب قوم کو اسی قسم کی لاحاصل رہنمائی دیتے رہے –––– پہلے سیاسی آزادی حاصل کر لو ، اس کے بعد قومی تعمیر کا کام کرنا ۔پہلے ایک زمینی خطہ حاصل کر لو ، اس کے بعد وہاں اسلامی نظام جاری کرانا۔ پہلے حکومت کا تختہ الٹ دو اس کے بعد اصلاح معاشرہ کا کام انجام دینا ، پہلے پارلیمنٹ سے قانون پاس کرا لو اس کے بعد لوگوں کی ذہنی اصلاح کرنا۔ وغیرہ ۔
اس قسم کی تمام باتیں اتنی ہی بے معنی ہیں جتنا ڈاکٹری سیکھنے سے پہلے ڈاکٹری کی دکان کھولنا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سو سال سے بھی زیادہ لمبی مدت تک ہنگامہ آرائی کرنے کے باوجود مسلمانوں کے حصے میں بربادی اور ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں آیا ۔
انسان کوئی لوہا یا لکڑی نہیں ہے جس کو مرحلہ وارگڑھا جا سکے ۔ انسان ایک ہی بار بنتا ہے اور پہلی بار جیسا بن جائے اسی پر وہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خارجی انداز کی تحریکیں اپنے دوسرے مرحلہ کے منصوبہ میں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔ خارجی نشانہ پورا کرنے کے بعد ان کے لیڈر افراد کی داخلی اصلاح پر تقریریں شروع کرتے ہیں، مگر اس قسم کی تقریروں کا ایک فی صد بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کا تجربہ انسانی نفسیات سے بے خبری ہے اور بدقسمتی سے موجودہ زمانے کے تمام مسلم لیڈرنفسیات انسانی سے اسی بے خبری کی مثال بنے ہوئے ہیں ۔
تعمیر ِقوم حقیقتاً تعمیر ِشعور کا دوسرا نام ہے ۔ شعور کی تعمیر کے بعد ہر چیز اپنے آپ حاصل ہو جاتی ہے ، شعور کی تعمیر کے بغیر کوئی بھی چیز حاصل نہیں ہوتی ۔