امیدافزار جحان

موجودہ فسادات کے بعد عام طور پر ایک ایسے رجحان کا اظہا ر ہوا ہے جس کو "فطرت انسانی کا احتجاج " کہا جا سکتا ہے۔ جو لوگ ہندی اور انگریزی اخبارات پڑھتے ہیں ، انھوں نے کثرت سےاس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ یہاں ہم صرف چند مثالیں نقل کریں گے ۔

 مسٹر نکھیل چکرورتی فرقہ وارانہ دنگے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم اب غیر انسانی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک فرقہ وارانہ فساد اب ہمارے ضمیر میں ہلچل پیدا نہیں کرتا۔ اس کے متعلق ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن میں سنتے ہیں۔ مگر انسانی مصیبت کی اصطلاحوں میں نہیں، بلکہ شماریات کی زبان میں ، اتنے آدمی ہلاک ہوئے ، اتنے آدمیوں کو چھرا مارا گیا ، اتنی دکانیں لوٹی گئیں ، اتنے مکان جلائے گئے ، بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں :

We are getting dehumanised. A communal riot no longer seems to stir our conscience. We read about it in newspapers or hear about it over the radio and television  ––––––not in terms of human suffering, but in terms of bare statistics-so many killed, so many stabbed, so many shops looted or houses gutted. Nothing more.

ایک اور مثال مسٹر کے آر ملکانی کی ہے۔ ماضی میں وہ آرگنائزر کے اڈیٹر کی حیثیت سے کافی بد نام رہ چکے ہیں۔ مگر حالیہ واقعات نے غالباً ان کے ضمیر کو جگا دیا ہے ۔ ان کا ایک مفصل مضمون اخبار اسٹیٹسمین ( 30 مئی 1987) میں شائع ہوا ہے ۔ یہ نہایت معتدل اور متوازن مضمون ہے۔ اس میں کسی بھی اعتبار سے مسلمانانِ ہند کے خلاف کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ بلکہ ہر اعتبار سے ان کا دفاع کیا گیا ہے۔ اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو بھائی بھائی (Blood brothers) کہا گیا ہے۔ یہ مضمون ان شاء اللہ انگریزی الرسالہ میں شائع کر دیا جائے گا۔ یہاں ہم صرف اس کا آخری پیرا گراف نقل کرتے ہیں :

If Hindus and Muslims ponder over these matters dispassionately and respond to suggestions positively, the ground could be prepared for a great reconciliation in the subcontinent. That will be a great day for all mankind.

اگر ہندو اور مسلمان ان باتوں پر جذبات سے الگ ہو کر غور کریں اور ان تجویزوں کو مثبت طور پر لیں تو برصغیر میں ایک عظیم اتحاد کی زمین تیار ہو سکتی ہے۔ یہ تمام انسانیت کے لیے ایک عظیم دن ہو گا۔

 اخبار پر تاپ (دہلی) اپنی جارحانہ فرقہ پرستی کے لیے کافی بد نام رہا ہے ۔ مگر حالیہ فسادات کے بعد وہ بھی تڑپ اٹھا ہے۔ اڈیٹر پرتاپ مسٹر انل نریندر نے اپنے ایک مفصل اداریہ میں ابتداء ً  بابری مسجد کے تین حل پیش کیے ہیں۔ (1) مسجد اور مندر دونوں ساتھ ساتھ رہیں (2) تاریخی ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کیا جائے (3) بابری مسجد کی عمارت کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے ۔ اس کے بعد وہ اپنے اداریہ میں لکھتے ہیں :

 "اگر مندرجہ بالا تینوں راستوں میں سے ایک بھی راستہ دونوں کو قبول نہ ہو تو میں ہاتھ جوڑ کر اپنے ہندو بھائیوں سے درخواست کروں گا کہ اپنی خاطر ، اپنے دیش کی خاطر آپ یہ قبول کر لیں کہ اس جگہ پر پھر سے تالا لگا دیا جائے اور اسے اسی حالت میں پہنچا دیا جائے جہاں وہ یکم فروری 1986 کو جج پانڈے کے فیصلہ سے پہلے تھی۔ میں جانتا ہوں کہ میرے اس سجھاؤ سے میرے کئی ہندو بھائی متفق نہ ہوں گے لیکن انھیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ دیش کی خاطر ایکتا کی خاطر، آخر کچھ قربانی دینی ہی پڑے گی۔ کب تک ہم اپنے ہندو بھائیوں کو دنگوں کی آگ میں تباہ برباد ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ کیا تین سو کروڑ  کا نقصان کافی نہیں ہے؟ کتنی جانیں گنوانی پڑیں گی ؟ کتنے کروڑ کا مزید نقصان برداشت کرنا ہو گا اس ایک جگہ کے لیے "۔ (پرتاپ  یکم جون 1987)

 انڈین اکسپریس (یکم جون 1987 ) نے دہلی کے فساد کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان ہے :

Cost of a riot

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہلی میں 22 مئی 1987 کو جو فساد شروع ہوا، اس میں جو انسانی جانیں ضائع ہوئیں ، ان کے نقصان کا تو کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس سلسلے میں ہونے والے مالی نقصان کا اندازہ ایک حد تک کیا جاسکتا ہے۔ رپورٹر کا کہنا ہے کہ وہ پرانی دہلی کے بڑے بڑے تاجروں سے ملا اور یہ اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ اس فساد کے نتیجےمیں جب کر فیو نافذ ہوا اور تقریباً تین ہفتے کے لیے ہول سیل مارکٹ بند رہا تو اس سے انھیں کیا نقصان پہنچا۔

دہلی ٹریڈ ایسوسی ایشن کے وائس پریسیڈنٹ مسٹر منوہر لال کمار نے رپورٹر کو بتایا کہ کرفیو کے دنوں میں پرانی دہلی کی 30  ہزار سے زیادہ دکانیں بندر ہیں۔ اس کے نتیجے میں بجلی، کاغذ ، سونا چاندی ، لوہے کا سامان ، رنگ ، بساطہ ، غلہ ، کپڑا وغیرہ کے تھوک کا روبار پر اثر پڑا۔ اور مجموعی طور پر تقریباً 50 کرور روپیہ روزانہ کے کاروبار کا نقصان ہوا۔

مسٹر پی راج گوپال نے اس تجارتی نقصان کو ایک جزیرۂ امید (Island of hope) قرار دیا ہے۔ انھوں نے ایک مضمون (انڈین اکسپریس یکم جون 1987) میں کہا ہے کہ بہت سے مقامات پر کاروبار میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک دوسرے پر انحصار (Interdependence) فساد کے خلاف ایک روک کا کام کرے گا –––––  حالیہ فساد کے بعد ہندو صاحبان کے نقطہ ٔنظر میں "تبدیلی " کا سبب غالب یہی واقعہ ہے۔

 مسٹر پی آر راج گوپال سنٹرل رزر و پولیس فورس (CRPF) میں تھے ۔ وہ اس سے ڈائرکٹر جنرل (D.G) کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ انھوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے :

Communal Violence in India (1987)

مسٹر راج گوپال نے اپنے طویل تجربات کی روشنی میں فرقہ وارانہ فسادات پر ایک مضمون شائع کیا ہے جو انڈین اکسپریس (23 مئی 1987) میں چھپا ہے۔ اس مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ میں اس ملک کے فرقہ وارانہ فسادات کا براہ راست مشاہد ہوں ۔ میرا یقین ہے کہ ہر بار جب کوئی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے تو وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا تا جتناہمارے  امیدوں اور خوابوں والے ہندستان کو :

Every successive communal riot deals a body blow not so much to the Hindus or the Muslims but to the India of our hopes and dreams.

مسٹر راج گوپال کی یہ بات صد فی صد درست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات جو 1947 سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہیں ، ہندستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ میرٹھ اور دہلی کے حالیہ فساد کے بارےمیں بیان دیتے ہوئے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے کہا :

Nothing –––– I repeat, nothing –––– is more damaging to our nationhood and our future than the cancer of communalism. India will survive as a secular India or not at all.

کوئی چیز، میں بتکر ار کہتا ہوں کہ کوئی چیز ہماری قومیت اور ہمارے مستقبل کے لیے اتنا نقصان دہ نہیں ہے جتنا کہ فرقہ واریت کا سرطان ۔ ہندستان یا تو سیکولر ہندستان کے طور پر زندہ رہے گا یا وہ سرے سے مٹ جائے گا ( ٹائمس آف انڈیا ، 23 مئی 1987)

 یہ فسادات بتاتے ہیں کہ اس ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے حقیقت پسندی کو کھو دیا ہے، اور جو لوگ حقیقت پسندی کو کھو دیں ان کا انجام اس دنیا میں بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔

 میرا یہ مطلب نہیں کہ تمام کے تمام ہند و یا تمام کے تمام مسلمان فسادی ہو گئے ہیں۔ اس قسم کا فساد کرنے والے ہمیشہ کم تعداد میں ہوتے ہیں اور یقینی طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھی وہ کم تعداد ہی میں ہیں۔ مگر اصل المیہ یہ ہے کہ فسادی لوگ جب فساد کرتے ہیں تو بقیہ لوگ ان کا ہاتھ نہیں پکڑتے۔ بلکہ فوراً اس کو قومی مسئلہ بنا کر اپنی قوم کے فسادیوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ یورپ کے لوگوں نے وطن پرستی کا یہ کلمہ وضع کیا تھا کہ میرا ملک ، خواہ وہ حق پر ہو یا نا حق پر ہو :

My Country, right or wrong

ہندستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے معمولی ترمیم کے ساتھ اس کو اس طرح اپنا لیا ہے کہ میرا فرقہ خواہ وہ صحیح ہو یا غلط :

My community, right or wrong

چنانچہ ہر فساد کے بعد یہ ہوتا ہے کہ مسلم رہنما ایک طرفہ طور پر ہندوؤں کو برابھلا کہنا شروع کرتے ہیں اور ہندو رہنما یک طرفہ پر مسلمانوں کو ۔ ان میں کو ئی بھی نہیں جو خود اپنی قوم کا محاسبہ کرے۔ اسی کا نام فرقہ پرستی ہے اور اس فرقہ پرستی نے ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے ۔

میرٹھ ایک چیتا ونی ہے ۔ مسلمانوں کے لیے ، ہندوؤں کے لیے اور سارے ملک کے لیے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom