میرٹھ کا سفر
جہاں تک یاد آتا ہے ، "میرٹھ " کا لفظ پہلی بار میرے کان میں اس وقت آیا جب کہ میری عمر ابھی دس سال سے کم تھی ۔ اقبال احمد سہیل (1955 – 1887) کے بڑے صاحبزادے اسلام احمد خاں صاحب کی شادی مسٹر عبد الغنی انصاری ( سابق کمشنر انکم ٹیکس) کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ یہ خاتون اپنے والد کے ساتھ میرٹھ میں تھیں ۔ 1931 میں ان کے یہاں، اکرام احمد خاں صاحب کی پیدائش ہوئی جو اقبال احمد سہیل کے پہلے پوتے ہیں۔ اس پیدائش کی خبر اعظم گڑھ پہنچی تو اقبال احمد سہیل صاحب نے برجستہ یہ شعر کہا :
زہے نصیب یہ دن بعد انتظار آیا پیام عیش کا میرٹھ سے آج تار آیا
میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے ابتدائی تعلیم کے زمانے میں اسماعیل میرٹھی (1917 - 1884) کی ریڈ ریں پڑھی ہیں۔ ایک زمانہ میں ابتدائی مدارس میں سب سے زیادہ اسی "اردو ریڈر" کا رواج تھا۔ اس کے بعد ابتدائی اردو نصاب کے لیے بے شمار کتاب میں لکھی اور چھاپی گئی ہیں جو آج کل عام طورپر رائج ہیں۔ مگرمیرا خیال ہےکہ میرٹھ کے مولانا محمداسماعیل کی ریڈر سے بہتر کتاب اس موضوع پر اب تک نہ لکھی جاسکی۔ میں اپنی ابتدائی زندگی میں جن چیزوں سے متاٴثر ہوا ان میں مولانا اسماعیل میر ٹھی کے مضامین اور اشعار بھی تھے ۔ ان کے جو اشعار مجھ کوابھی تک یاد ہیں ان میں سے ایک شعر یہ ہے :
جو پتھر پہ پانی پڑے متصل تو گھس جائے بے شبہ پتھر کی سل
میرٹھ کے لیے میرا پہلا سفر جنوری 1968 میں ہوا۔ اس سفر کی روداد اسی زمانے میں الجمعیتہ ویکلی 9 فروری 1968 میں شائع ہوئی تھی۔ 28-29 جنوری 1968 کو میرٹھ میں ایک مسلم کانفرنس ہوئی ۔ میں اس میں "مشاہد" کے طور پر شریک ہوا تھا ۔ اس موقع پر عین جلسہ کے دوران فرقہ وارانہ فساد ہو گیا اور شہر میں کرفیو لگ گیا ۔ اس بنا پر کانفرنس صرف 28 جنوری کو ہو سکی ۔ کرفیوکی وجہ سے اگلے دن ( 29 جنوری) کا اجلاس منسوخ کرنا پڑا ۔
اس فساد کا سبب سابق کشمیری لیڈر شیخ محمد عبد الله (1982- 1905) کی اس میں شرکت تھی ۔ یہ شیخ عبد اللہ کا وہ دور ہے جب کہ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا ہندستان سے الحاق مکمل نہیں ہے، اس کے لیے کشمیری عوام سے استصواب رائے کیا جانا چاہیے۔ اپنے اس موقف کی وجہ سے وہ ہندستان کے اکثریتی فرقہ کی نظر میں ایک غیر مطلوب شخصیت بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ جب اعلان ہوا کہ وہ میر ٹھ آرہے ہیں تاکہ مسلمانوں کے اجلاس کو خطاب کریں تو اکثریتی فرقہ کے انتہا پسند طبقہ میں اشتعال پیدا ہو گیا جو بالآخر فرقہ وارانہ فساد اور پولیس فائرنگ تک جا پہنچا۔
شیخ عبد اللہ کو مسلم کا نفرنس میں بلانے کا مقصد غالباً یہ تھا کہ ان کے نام پر بڑا مجمع اکھٹا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ شیخ عبد اللہ کا نام سن کر بے شمار مسلمان جلسہ گاہ میں جمع ہو گئے بھیڑ جمع کرنے کی یہ تدبیر آج مسلمانوں میں بہت زیادہ مقبول ہے ۔ مزید یہ کہ اب اس فہرست میں بیرونی شخصیتوں کا بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔ تاہم اس قسم کی بھیڑ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے زہر ہے۔ یہ شخصی یا جماعتی مفاد کی خاطر پوری ملت کے مفاد کو قربان کرنے کے ہم معنی ہے ۔ اس دنیا میں اُس سے زیادہ نادان کوئی شخص نہیں جو چپ رہنے کے موقع پر بولے اور اخفاء کے موقع پراعلان کرے ۔
میرٹھ کے لیے میرا دوسرا سفر جون 1979 میں ہوا۔ اس موقع پر وہاں میری چند تقریریں ہوئیں اور مختلف اہل علم سے ملاقاتیں ہوئیں ۔
اس سفر کا ایک واقعہ اللہ اکبر (صفحہ 90) میں درج ہے ۔ 3 جون 1979 کو میں اور مولانا شکیل احمد قاسمی (صدر مدرس مدرسہ امداد الاسلام )ایک رکشہ پر بیٹھے ہوئے جا رہے تھے ۔ ہم صدر بازار کی سٹرک سے گزر رہے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے کے مکان کا اگلا حصہ دھماکے کے ساتھ سڑک پر گر پڑا ۔ ہمارا رکشہ اس مقام سے بمشکل چند گز کے فاصلہ پر تھا۔ یہ مکان اگر چند سکنڈ بعد گرتا تو یقینا ً اس کا پورا ملبہ ہمارے اوپر آجاتا اور ہم دونوں کا سفرِ حیات اچانک اسی سڑک پر ختم ہو جاتا ۔
یہ دنیا حادثات کی دنیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو ہر آدمی کسی نہ کسی حادثہ کے عین کنارے کھڑا ہوا ہے ۔ آدمی اور اس کی موت کے درمیان صرف چند سکنڈ کا فاصلہ ہے –––– انسان کی زندگی کتنی کم ہے ، مگر بے خبر انسان اس کو کتنا زیادہ سمجھ لیتا ہے۔
میرٹھ کے لیے میرا تیسرا سفر جون 1987 میں ہوا۔ یہ سفر خاص طور پر میرٹھ کے فساد کا جائزہ لینے کے لیے کیا گیا تھا۔ میر ٹھ کا فساد محض ایک فساد نہیں، وہ ایک علامتی واقعہ ہے۔ اس کی روشنی میں ملک کی موجودہ صورت حال کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس کا تجزیہ کر کے ہندستانی مسلمانوں کے لیےراہِ عمل کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
میرٹھ ہندستان کا ایک قدیم شہر ہے جو دہلی سے 70 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ میرٹھ میں انگریزوں کے زمانے سے بہت بڑی فوجی چھاؤنی ہے۔ میرٹھ کو سب سے زیادہ شہرت 1857 میں ہوئی جب کہ یہاں کی ہندستانی فوج کے کچھ سپاہیوں نے اپنے انگریز افسروں کے خلاف بغاوت کر دی اور اس کے بعد وہ واقعہ پیش آیا جس کو عام طور پر غدر (1857-59) کہا جاتا ہے۔
انگریزوں نے اسی سال فوج میں نئے قسم کی رائفل کا استعمال شروع کیا تھا جس کو انفیلڈ رائفل (Enfield rifle) کہا جاتا ہے۔ اس را ئفل میں کار توس استعمال کیے جاتے تھے ۔ 24 اپریل 1857 کو جنرل اسمائتھ نے حکم دیا کہ میرٹھ کے سپاہیوں کو نئی رائفل کے استعمال کی تربیت دی جائے ۔ مگر اسی زمانے میں ان کارتوسوں کے بارے میں ایک افواہ پھیل گئی ۔ چنانچہ پانچ سپاہیوں کے سوا سب نے یہ کارتوس لینے سے انکار کر دیا۔ ان باغی سپاہیوں کی تعداد 85 تھی جن میں 49 مسلم تھے اور 36 غیر مسلم۔ فوجی عدالت نے ا ن سپاہیوں کو قید ِبامشقت کی سزا دے کر جیل میں بند کر دیا۔
اس واقعے کے بعد دیسی سپاہیوں کے درمیان شدید نفرت پھیل گئی ۔ 10 مئی 1857 کی شام کو جب گر جا گھر کا گھنٹہ بجا اور عیسائی افسران گر جا چلے گئے تو ہندستانی رسالے نے جیل کا دروازہ توڑ کر تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا اور اعلان جنگ کرتے ہوئے دہلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ میرٹھ میں بعض انگریز افسروں کے بنگلوں کو لوٹ لیا گیا اور بعض انگریزوں کو قتل کر دیا گیا ۔
میرٹھ کے انقلابی سپاہی جب دہلی پہنچے تو یہاں بھی شورش پیدا ہو گئی۔ انھوں نےشہر پر "قبضہ" کر لیا۔ بہادر شاہ کے شہنشاہِ ہندستان ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ اسی کے ساتھ بادشاہ کے ایک بیٹے کو انقلابی فوج کا سربراہ بنایا گیا۔ مگر بغاوت کو منظم کرنے کی صلاحیت نہ باپ میں تھی اور نہ بیٹےمیں۔ مزید یہ کہ انقلابی فوج کے پاس وسائل کے نام سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ بھنے ہوئے چنے بھی میسر نہ تھے جن کو کھا کر سپاہی اپنی بھوک مٹا سکیں ۔ نہ بہادر شاہ کے پاس کوئی خزانہ تھا اور نہ ہی دہلی کے دولت مند لوگ ان کو قرض دینے کے لیے تیار تھے ۔ ایسی حالت میں اس کاکوئی امکان ہی نہ تھا کہ یہ بغاوت کامیاب ہو ۔
دوسری طرف انگریز کے پاس تنظیم بھی تھی اور وسائل بھی۔ اس کے ساتھ انگریزوں نے جنید،پٹیالہ اور آس پاس کی سکھ ریاستوں سے امداد کی اپیل کی ۔ سکھ چونکہ اورنگ زیب (1707- 1618)کے زمانے سے مسلمانوں سے بیزار تھے ، وہ فورا ً انگریزوں کا ساتھ دینے پر راضی ہو گئے ۔ یہ در اصل سکھ ہی تھے جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہو کر لال قلعہ پر انگریزوں کو قبضہ دلوایا۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے لکھا ہے کہ جب ہندستان میں 1857 کی بغاوت ہوئی تو پنجاب کا صوبہ انگریزوں کا وفادار رہا۔ سکھوں نے اس بغاوت کو فرو کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس وفاداری کی بھاری قیمت سکھوں کو ملی ۔
اس کے بعد انگریزی حکومت نے سکھوں کو زمینیں دیں۔ انگریزی فوج میں سکھوں کا تناسب بڑھا دیا گیا۔ ایک ضابطہ منظور کیا گیا جس کے تحت سکھ فوجیوں کو یہ آزادی تھی کہ وہ خالصہ روایات پرعمل کر سکیں ۔ پنجاب میں نہروں کا وسیع نظام قائم کیا گیا جس کے نتیجے میں سکھوں کی ریاست پنجاب میں ایسی خوش حالی آئی جو اب تک اس علاقے میں دیکھی نہیں گئی تھی۔ سکھوں کے ساتھ انگریزوں کا معاملہ نہایت فیاضانہ رہا۔ پنجاب میں یہ حال ہوا کہ انیسویں صدی کے خاتمہ پر اگرچہ سکھوں کی تعداد صرف 12 فی صد تھی مگر وہ صوبہ کی مال گزاری کا 25 فی صد حصہ ادا کر رہے تھے۔ اور مال گزاری اور پانی کا ٹیکس ملاکر سر کاری مالیہ میں ان کا حصہ 40 فی صد تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت برطانی فوج میں سکھوں کی تعداد 20 فی صد تھی (جلد 16 ، صفحہ 745)
1857 میں جو واقعہ میرٹھ میں پیش آیا اس میں ایک پہلو شوشہ کا تھا، اور دوسرا پہلو وہ تھا جو حقیقی تھا۔ مسلمان واقعہ کے اصل پہلو پر دھیان نہ دے سکے ، وہ شوشہ والی بات میں الجھ کر رہ گئے ۔
ابتدائی زمانے میں بندوقیں اور رائفلیں غیر توڑے دار ہوتی تھیں۔ ان کو منھ کی طرف سے بھری جانے والی (Muzzle-loader) رائفل کہا جاتا تھا ۔ اس طریقہ میں گولی کو رائفل کی نالی کے آخری سرے سے ڈال کر گز کے ذریعہ اندر داخل کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ دشوار طلب تھا اور اس میں تیز رفتار فائرنگ ممکن نہ تھی ۔ انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں پہلی بار وہ بندوقیں اور رائفلیں بنائی گئیں جن کو توڑے دار (Breech-loader) رائفل کہا جاتا ہے ۔ ان رائفلوں میں کارتوس استعمال ہوتے تھے جو کندا اور نالی کے درمیان رائفل کو توڑ کر بھرے جاتے تھے ۔ ان رائفلوں کو عام طور پر انفیلڈ رائفل (Enfield rifle) کہا جاتا ہے۔
یہ رائفل کی دنیا میں ایک انقلابی واقعہ تھا۔ اس وقت دہلی کی سلطنت قائم تھی ۔ ملک میں متعددمسلم ریاستیں موجود تھیں۔ مگر کسی نے بھی یہ غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس نئی دریافت کو سمجھا جائے جو مشرق اور مغرب کے درمیان فوجی توازن کو توڑ دینے کے ہم معنی ہے ۔ البتہ ایک معمولی سی بات پر ایک ایسا ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا جس کا بدترین خمیازہ سب سے زیادہ خود مسلمانوں کے حصے میں آیا۔
انفیلڈ رائفل میں ابتداء ً جو کار توس استعمال ہوتے تھے ان میں برائے ضرورت گریز (Grease) لگی ہوئی ہوتی تھی ۔ یہ گریز حیوانی چربی سے تیار کی گئی تھی ۔ ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے پہلے انھیں کھولنا پڑتا تھا۔ اس کی ایک آسان صورت (نہ کہ واحد صورت) یہ تھی کہ ان کو دانت سے کاٹ کر کھولا جائے ۔ اس طرح لوگوں کو ایک شوشہ مل گیا۔ یہ مشہور کیاگیا کہ یہ گریز سور اور گائے کی چربی سے بنائی گئی ہے اور ان کو فوج میں اس لیے رائج کیا گیا ہے کہ ہندؤوں اور مسلمانوں دونوں کو بے دین (ادھرم) بنا دیا جائے ۔ اب فوجیوں کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ اپنے دھرم اور مذہب کو بچانے کے لیے بغاوت کر دیں۔
کارتوس کے بارے میں مذکورہ افواہ کتنی سخت ثابت ہوئی ، اس کا ذکر مسٹرا چیسن (Atchison) نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ اس آتش گیر مادہ پر کارتوس کی مبالغہ آمیز کہانی اس طرح گری جیسے سوکھی لکڑی پر آگ کی چنگاری گرے ، اور پورا ملک ستلج سے لے کر نرمدا تک جل اٹھا:
On this inflammable material, the too true story of the cartridges fell as a spark on dry timber, and the whole country from the Sutlej to the Narmada was ablaze.
غور کیجیے تو اسی ایک واقعہ میں ملت کی پچھلے ڈیڑھ سو سال کی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ اس مدت میں مسلمانوں نے لاتعداد طوفانی تحریکیں چلائیں۔ مگر سب کا خلاصہ یہ تھا کہ لوگوں کو شوشہ والاپہلو تو مبالغہ کے ساتھ نظر آیا ۔ مگر واقعہ کا جو اصلی اور حقیقی پہلو تھا اس کو دیکھنے سے وہ صد فی صد قاصر رہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی بربادی کی واحد وجہ ان کے اصاغر و اکابر کی یہی غفلت ہے نہ کہ سازش کی وہ کہانیاں جو ہم نے بطورِخود گھڑ رکھی ہیں تاکہ اپنی بربادی کی ذمہ داری دوسروں کے اوپر ڈال سکیں ۔
میرٹھ کے فسادات کے بارےمیں اردو اور انگریزی اخبارات میں بہت کچھ پڑھ چکا تھا۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود وہاں جاؤں، واقعات کو اپنی آنکھ سے دیکھوں اور لوگوں سے براہ راست معلومات حاصل کروں۔
28 جون 1987 کی صبح کو میں ساڑھے تین بجے بستر سے اٹھ گیا۔ وضو کر کے دورکعت نماز پڑھی۔ پہلی رکعت میں سورہ والضحیٰ اور دوسری رکعت میں سورہ الم نشرح کی تلاوت کی ۔ نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو میری زبان سے نکلا : خدایا ، میرے اس سفر کو اپنی مرضی کا سفر بنا دیجیے۔ یہی احساس لے کر میرٹھ کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں بھی یہی دعائیں نکلتی رہیں کہ میرا یہ سفر میرے لیے سفرِ حق بن جائے ۔ 28 جون کی صبح کو میں دہلی سے روانہ ہوا۔ میرے ساتھ مزید حسبِ ذیل افراد تھے:
رئیس الاسلام میرٹھی ، ایم اے، ایل ایل بی (پیدائش 1948)
محفوظ علی خاں ، ایم اے (پیدائش 1954)
ڈاکٹر ثانی اثنین خان ( پیدائش 1959)
ڈیڑھ گھنٹہ جی ٹی روڈ پر سفر کرنے کے بعد ہم منزل پر پہنچے ۔ "یہ میرٹھ ہے " میرے ساتھی نے کہا اب دونوں طرف عمارتیں نظر آنے لگیں ۔ ہم کئی میل تک میرٹھ کے اندر چلتے رہے۔ مگر وہ فسادز دہ میرٹھ نظر نہیں آیا جس کی تصویر یں اخباروں میں دیکھی تھیں۔ یہاں تک کہ ہم ان علاقوں میں پہنچے جو فساد کےدوران جلائے اور پھونکے گئے تھے۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ کیا وجہ ہے کہ بڑی بڑ ی سرکاری شخصیتیں میرٹھ آتی ہیں مگر وہ اس سے حقیقی تاٴثر لیے بغیر واپس چلی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فساد زدہ حصہ کمیت کے اعتبار سے کل میرٹھ کا بہت تھوڑا حصہ ہے ۔ اب ایک شخص اگر ہیلی کا پٹر سے آئے اور مجموعی میرٹھ پر طائرانہ نظر ڈال کر چلا جائے تو ہ اپنے مشاہدہ کی نسبت سے اصل واقعہ کا اتنا کم تاٴثرلے گا کہ واپس پہنچتے پہنچتے وہ اس کے ذہن میں ایک دھندلی یاد سے زیادہ باقی نہ رہے –––––– اخباری میرٹھ اور ہیلی کا پٹر والے میرٹھ میں کتنا زیادہ فرق ہے۔
میرٹھ پہنچ کر میں نے ان مقامات کو دیکھا جو اپریل اور مئی کے فسادات میں متاٴثر ہوئے ہیں۔ شہر کے بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں کیں ، جن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی ۔ عوام بھی تھے اور اعلیٰ مناصب کے لوگ بھی ۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ میرٹھ میں جو کچھ ہوا اس کی رودادیں اردو اور انگریزی اخبارات میں کافی تفصیل سے پڑھ چکا ہوں ۔ یہاں میں نے اپنی آنکھوں سے بھی ان کو دیکھ لیا ہے۔ اسی طرح" کیا ہوا"کے بارے میں میں کافی جان چکا ہوں ۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے "کیوں ہوا " کے بارے میں بتائیں۔ مگر تجربہ سے معلوم ہواکہ تمام جاننے والے یہی بات نہیں جانتے ، یہاں کے لوگ بس " کیا ہوا " کو جانتے ہیں اور باہر سے آنے والے لوگ بھی کیا ہوا کو دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔"کیوں ہوا "سے نہ مقامی لوگوں کو دل چسپی ہے اور نہ با ہر سے آنے والوں کو ۔
میرٹھ کی کہانی اجودھیا کی بابری مسجد کی کہانی سے شروع ہوتی ہے ۔ بابری مسجد- رام جنم بھومی جھگڑا آزادی (1947)کے پہلے سے چلا آ رہا تھا۔ عدالت نے ایک حکم کے تحت 1949میں اس میں تالا لگا دیا گیا۔ ابھی مقدمہ چل رہا تھا کہ ضلع جج فیض آباد کے حکم سے پولیس نے یکم فروری 1986 کو بابری مسجد کا تالا کھول دیا۔ اس کے بعد مسجد عملاً ہند و فرقہ کے قبضہ میں چلی گئی ۔
اب ایک صورت یہ تھی کہ مسلمان اس معاملے کو عدالت اور گفت و شنید کے دائرے میں رکھ کر اپنی مہم جاری رکھیں۔ مگر مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر نہایت بے تابانہ طور پر اس کو سٹرک پر لے آئے۔ مسلم اخبارات نے دھواں دھار مضامین شائع کرنا شروع کر دیا۔ سارے ملک میں پُر جوش تقریر میں کرکے مسلمانوں کے خون کو اس مسئلہ پر گر ما دیا گیا ۔ اس کے بعد" بابری مسجد ایکیش کمیٹی" کے فیصلہ کے مطابق اوّ لاً 26 جنوری 1987 کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ بعد کو اسے واپس لے لیا گیا اور اس کے بجائے 20 مارچ 1987 کو دہلی میں بابری مسجد کے نام پر مسلمانوں کی احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی اور اطراف دہلی کے تقریباً 5 لا کھ مسلمان بوٹ کلب (نئی دہلی) میں جمع ہوئے۔ وہاں مسلم لیڈروں نے ان کے سامنے دھواں دھار تقریریں کیں اس کےبعد مسلمانوں میں جوش و خروش کا ایک لاوا ابل پڑا ۔ وہ ریلی سے اس طرح لوٹے جیسے انھوں نے ہندستان کو دوبارہ فتح کر ڈالا ہو ۔
یہ ریلی یقینی طور پر محض ایک وقتی بھیڑ تھی ۔ مگرنادان مسلمانوں نے اس کو "بے نظیر اتحاد" کے ہم معنی سمجھ لیا۔ اس کے لیے حد درجہ مبالغہ آمیز الفاظ بولے جانے لگے۔ ریلی کے موقع پرمسلم لیڈروں نے جو باتیں کہیں یا اس کے بعد مسلم اخباروں نے جو سرخیاں لگائیں ، ان میں سے چند یہ ہیں:
مسلمانوں کے بے مثال مظاہرے سے انڈیا گیٹ لرز اٹھا۔
5 لاکھ فرزندان توحید کا ٹھاٹھیں مارتا ہو اسمندر : مسلمانوں کی تاریخ کا نیا موڑ
اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے پارلیمنٹ کے درو دیوار تھرّا اٹھے
بابری مسجد اشو نے مسلمانوں کو متحد کر کے انھیں ناقابل ِتسخیر بنا دیا ہے
اب ہمیں طاقت کے بل پر اپنے مطالبات کو منوانا ہے
ہندستان کا مسلمان جاگ اٹھا ، اب وہ کسی سے دبنے والا نہیں
انصاف نہ ہوا تو ہم دشمنانِ اسلام کے قلعہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
حکومت کے رویّہ نے سوئے ہوئے شیروں کو جگا دیا
"بابری مسجد واپس کرو"کے نعروں کی زد میں آکر فضا کے ہیلی کا پٹر ا پنا توازن کھو بیٹھے
مسلمانوں نے اپنی طاقت کو از سر نو دریافت کر لیا ہے ۔
نام نہاد مسلم لیڈروں نے بابری مسجد کے نام پر فضا میں جو اشتعال پیدا کیا اسی کا براہِ راست نتیجہ میرٹھ کا فساد تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اس فساد کی مکمل ذمہ داری مسلم لیڈروں پر ہے ، مگر انھوں نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ اس کو ہندو فرقہ پرستوں یا انتظامیہ کے سر پر ڈال دیا ہے۔
بابری مسجد کی ریلی میں زیادہ تر یوپی کے لوگ تھے ۔ خاص طور پر میرٹھ کے لوگ اس میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے ۔ اور ذہنی طور پر تو میرٹھ کے تقریباً تمام مسلمان اس مہم میں شریک تھے۔میرٹھ کے ایک مسلمان نے کہا کہ اگر سواری کی رکاوٹیں نہ ہوتیں تو میرٹھ سے کم از کم پچاس ہزار مسلمان اس ریلی میں جاتے۔ ایک ہندو نے کہا کہ" میرٹھ کا مسلمان بابری مسجد کے معاملے میں بہت زیادہ سہیوگ دیتا ہے" ۔
ان مسلمانوں نے ریلی کو دیکھ کر اپنی طاقت کا احمقانہ حد تک غلط اندازہ لگایا۔ بوٹ کلب پر مسلمانوں کی بھیڑ اور مسلم مقررین کی پرجوش تقریروں اور مسلم اخبارات کی مبالغہ آمیز سرخیوں سے وہ بھڑک اٹھے ۔ ریلی کے بعد مسلمان اس احساس کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے کہ اب انھیں دب کر نہیں رہنا ہے بلکہ طاقت کے زور پر اپنے حقوق کی منوانا ہے۔ اس کے بعد مسلمان کھلم کھلا سکھوں والا طریقہ اختیار کرنے کی بات کرنے لگے۔ حتیٰ کہ میرٹھ میں ایک شخص پیدا ہو گیا جو فخر کے ساتھ کہتا تھا کہ میں مسلمانوں کا بھنڈراں والا ہوں۔
ایم جے اکبر( ٹیلی گراف) نے لکھا ہے کہ میرٹھ میں ایک 40 سالہ مسلمان نے اپنے بارے میں یہ مشہور کیا کہ وہ مسلمانوں کا بھنڈراں والا ہے ۔ اسی نام سے پکارنے میں اس کو ذہنی تسکین ملتی ہے۔ جب بابری مسجد کا تنازعہ شروع ہوا تو اس شخص نے مسلم نوجوانوں کو" مارنا ہے یا مر جانا ہے "۔ کے نعروں پر منظم کر نا شروع کیا۔ اکثر اوقات وہ اپنی تقریروں میں یہ اعلان کرتا رہتا تھا کہ" ایک کر ور سردار ہیں اور ان کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے، پھر راجیو گاندھی 20 کر ور مسلمانوں کو کس طرح سنبھالیں گے" ۔
اشتعال انگیزی کی یہ سیاست بوٹ کلب نئی دہلی پر بابری مسجد کی ریلی سے شروع ہوئی ۔ اس ریلی میں یہاں تک کہا گیا کہ فریق ثانی کو ہندستانی مسلمانوں کے غصہ کے نتائج سے باخبر رہنا ہوگا۔
میرٹھ میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کو مسلمانوں کے لیڈر پولیس اور حکومت کے خانہ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ وحشیانہ معاملہ تمام کا تمام خودمسلم لیڈروں کے خانے میں جاتا ہے۔ کیوں کہ انہیں کی بد تد بیری کا یہ نتیجہ تھا جومسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔ بابری مسجد کے نام پر انھوں نے اشتعال انگیز سیاست کا جو طریقہ اختیار کیا ، یہ صرف اس کا
ر دِّ عمل تھا اس کے سوااور کچھ نہیں۔ مسلم لیڈروں نے فریق ثانی کو بھڑ کا کر مسلم عوام کے اوپر گولی چلا دیں۔ اور جب خود گولی کھانے کا وقت آیا تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
میرٹھ کے مصیبت زدگان میں بڑی تعداد ان مزدوروں کی تھی جو بہار سے تعلق رکھتے تھے۔ بہار کے بہت سے مزدور جن کو محلہ اِملیان سے پکڑ کر فتح گڑھ جیل لے جایا گیا تھا، ان کےبیان کے مطابق پولیس نے تھا نہ میں ان لوگوں پر لاٹھیاں برسائیں۔ جیل کے اندر قیدیوں سے بھی انھیں پٹوایا گیا۔ اس وحشیانہ مار پیٹ میں کئی آدمیوں کی موت واقع ہو گئی۔ ان بہاری حضرات نے بتایاکہ پولیس انھیں مارتے ہوئے یہ کہتی تھی :
لوبا بری مسجد ، بلاؤ اپنے لیڈروں کو ، دیکھیں تمہیں کون بچاتا ہے۔
یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ کیا چیز تھی جس نے انھیں غضب ناک بنایا اور وہ وحشیانہ انتقام پر اترآئے ( نقیب 20 جولائی 1987)
ان اسباب کے نتیجے میں شمالی ہند ، خاص طور سے یوپی میں سخت فرقہ وارانہ تناؤ کی فضا پیدا ہو گئی۔ مسلمانوں نے ( اور اسی طرح ہندؤوں نے بھی) باقاعدہ "تیاریاں" شروع کر دیں ۔ تاکہ موقع آنے پر ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف کارروائی کر سکے۔ اس بارود میں چنگاری لگنے کا پہلاواقعہ 14 ا پریل 1987 کو میرٹھ میں پیش آیا۔
ڈاکٹر ہر پال سنگھ سے ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ فساد کی اصل ذمہ داری کس پرہے۔ انھوں نے جواب دیا "اصل ذمہ دار رام جنم بھومی- بابری مسجد تنازعہ ہے ۔ ایک جانب با بری مسجد ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے بھڑ کیلی تقریریں کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف اخبارات میں مسلسل ایسے مضامین چھاپے جاتے ہیں جن میں ماضی میں مسلمانوں کے ذریعہ ہندوؤں پر ظلم وستم کا رونا رویا جاتا ہے۔ اس سے تناؤ بڑھتا ہے ۔ لیکن حکومت روک تھام کے لیے کچھ بھی نہیں کرتی (افکار ملی یکم جون 1987 صفحہ 21-22 )
مشتاق احمد رامپوری (عمر 70 سال ) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ 14 اپریل 1987 کو میں میرٹھ کے اس جلسہ میں موجود تھا جہاں سے فساد کے پہلے مرحلہ کا آغاز ہوا ۔
ان کے بیان کے مطابق جو صورتِ واقعہ ہے وہ یہ ہے کہ 14 اپریل کو شاہ پیر گیٹ کی سٹرک پر مسلمانوں کا جلسہ تھا۔ یہ جلسہ شب ِبرات کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا۔ جلسہ گاہ کے سامنے مین سڑک ہے اور اس سڑک کے دوسری طرف ایک چھوٹا سامندر ہے ۔ یہ مندر لودھوں والی گلی میں ہے۔ لودھے لوگ اس دن مندر میں اپنی کوئی تقریب منا رہے تھے اور ریکارڈنگ کر رہے تھے ۔ اس کی تیز آوازمسلمانوں کے جلسہ تک پہنچ رہی تھی۔
مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ اس ریکارڈنگ سے ان کے جلسہ میں خلل پڑرہا ہے۔ چنانچہ کچھ مسلم نوجوان وہاں گئے اور ان سے کہا کہ تم اپنا لاؤڈ اسپیکر بند کر دو یا اس کی آواز کم کر دو ۔ انھوں نے کہا کہ تم ہی کر لو ، ہم کیوں کریں ۔ اس پر بات بڑھی۔ مسلمان غصہ میں آگئے ۔ انھوں نے لودھوں کے لاؤڈاسپیکر کوتوڑ ڈالا اور انھیں مارنے پیٹنے لگے۔ شور سن کر جلسہ کے اور لوگ بھی وہاں پہنچ گئے۔ انھوں نے بھی مار پیٹ میں حصہ لیا۔ انھوں نے لودھوں کی ایک قریب کی ٹال میں آگ لگا دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے سفر میں لوگوں کو نعرۂ تکبیر بلند آواز کے ساتھ کہنے سے منع فرما دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے نازک مواقع پر" اللہ اکبر" کی دھوم بھی نہیں مچائی جو ایک ثابت شدہ اسلامی عمل ہے۔ اور موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انتہائی نازک موقع پر شبِ برات کی دھوم مچاتے ہیں ، حالاں کہ دین میں شب برات کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے بعد اگر فساد ہوتا ہے تو مسلمانوں کو دوسروں کی نہیں خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔
میرٹھ میں جو فساد ہوا اس کے دو مر حلے تھے۔ ایک وہ جو 14 اپریل 1987 کو پیش آیا۔ دوسرا وہ جو 18 مئی 1987 کو شروع ہوا۔ پہلا فساد شاہ پیر گیٹ سے شروع ہوا تھا، چنانچہ میرٹھ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے ہم اس مقام پر گئے۔ یہاں ہم مندر والوں سے بھی ملے تا کہ معلوم کریں کہ اس بارےمیں ان کا نقطۂ نظر کیا ہے ۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت مندر کا دروازہ بند تھا۔ اس کے سامنے کے چبوترہ پر چند ہند و صاحبان بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے ان سے مذکورہ واقعہ کے بارے میں سوالات کیے۔ مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بارے میں آپ کو ڈاکٹر جین بتائیں گے۔
ڈاکٹر جین کا مطب سڑک پر شاہ پیر گیٹ کے سامنے ہے۔ مگر اس وقت ان کا مطب بند تھا۔ دن میں کئی بار ہم وہاں گئے تاکہ ان سے گفتگو کریں مگر ہر بار ان کا مطب بند پایا۔
مندر والوں سے یا ڈا کٹر جین سے اگر چہ براہ راست معلومات نہ ہو سکی تاہم اس واقعہ میں ہمارے لیے ایک بہت بڑا سبق تھا۔ "مندر والوں" نے اپنا ایک ترجمان بنا لیا ہے۔ خود جواب دینے کے بجائے وہ ہر ایک سے یہ کہتے ہیں کہ جاکر ان سے پوچھو ۔ اس کے برعکس آپ مسجد میں چلے جائیں تو ہر" مسجد والا "یہ چاہے گا کہ سب سے پہلے وہی بولے۔
14 اپریل کو جو فساد شروع ہوا اس کو مقامی انتظامی نے چند دن کے اندر کنٹرول کر لیا ۔ تاہم دونوں فریقوں کی طرف تناؤ باقی رہا۔ میرٹھ میں پرنسپل نایاب زیدی نے بتایا کہ رمضان کے مہینے میں ہماری ملاقات جس ہند و یا مسلمان سے ہوئی وہ یہ کہتا ہو اسنائی دیا کہ "پھر جھگڑا ہونے والا ہے" ۔ لوگوں کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً ہر کمیونٹی کو احساس تھا کہ پچھلے فساد میں اس کا زیادہ نقصان ہوا ہے ، اس لیے دوبارہ اس کا بدلہ لینا ہے۔
افواہیں اور لیڈروں کی تقریریں اور اخبارات کے سنسنی خیز مضامین جذبات کو بھڑکاتے رہے۔ مئی کے تیسرے ہفتہ میں چند اشتعال انگیز واقعات ہوئے۔ یہاں تک کہ 18 مئی کو دوسری بارشدید تر انداز میں فساد کا طوفان ابل پڑا ۔
دہلی روڈ کے مسٹر سلیم بھارتی (عمر 50 سال) نے دوسرے مرحلے میں شروع ہونے والے فساد کے بارےمیں بتایا کہ 16 مئی 1987 کو چھیپی واڑہ میں ایک پٹاخہ ( بقول بعض دستی بم) پھٹا۔ یہ پٹا خہ (یابم ) شیعہ امام باڑہ میں پھٹا تھا مسلمانوں نے کہا کہ یہ پٹاخہ (یا بم) ہندو کی طرف سے پھینکا گیا ہے ۔ ہندؤوں نے کہا کہ یہ خود مسلمانوں کی کارروائی ہے۔ اگلے دن پھر یہی واقعہ ہوا۔ یعنی پٹاخہ (یا دستی بم ) دوبارہ اسی مقام پر پھٹا۔
انھوں نے بتایا کہ اسی چھیپی واڑہ میں ایک پراپرٹی ہے جس کا مالک مسلمان ہے اور ہندو اس کا کرایہ دار ہے۔ دونوں میں کرایہ دار اور مالک کا جھگڑا چل رہا تھا ۔ کرایہ دار کا چھوٹا بھائی اجے شرما اگلے دن اپنے بھائی سے ملنے کے لیے آیا ۔ جب وہ واپس ہوا تو کسی نے اس کو گولی ماردی( ایک روایت ہے کہ یہ گولی مالک ِمکان نے ماری ) اجے شرما اپنے اسکوٹر پر بھاگا۔ وہ قینچی والان میں پہنچا جو مسلمانوں کا محلہ ہے۔ مسلمانوں نے اس کو خون آلو دحالت میں دیکھا تو انھوں نے سمجھا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے امام باڑہ میں دو دن پٹاخہ (یا بم )پھینکا ہے۔ آج بھی وہ اسی طرح پھینک رہا تھا مگر وہ خود زخمی ہو گیا ۔
یہ ایک نازک موقع تھا۔ اس وقت اگر مسلمان اجے شرما کو فرسٹ ایڈ پہنچاتے تو یقیناً میرٹھ کی تاریخ دوسری ہوتی ۔ مگر انھوں نے اس کے برعکس عمل کیا۔ انھوں نے زخمی اجے شرما کو پکڑ کر مارنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ پولیس آگئی اور وہ اجے شرما کو اپنے ساتھ لے گئی۔ مگر اجے شر مااسپتال پہنچ کرمرگیا۔
اجے شرما کو فرسٹ ایڈ پہنچانے کی صورت میں یہ ہوتا کہ شہر میں مسلمانوں کی شرافت اور انسانیت کی خبر گو نجتی۔ مگر دوسری صورت میں شہر کے اندر مسلمانوں کے ظلم کی خبر گونجی۔ اس کے لازمی نتیجے کےطور پر شہر میں سخت تناؤ پھیل گیا۔ اسپتال کے پاس مسلمانوں کے کچھ کھوکھے تھے ، ان کو ہندؤوں کے ایک مشتعل مجمع نے جلا دیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے ہندوؤں کی دکانوں پر حملہ کیا۔ آخر میں پولیس آئی اور اس نے وہ سب کچھ کیا جس کی خبریں تفصیل کے ساتھ اخبارات میں آچکی ہیں۔ یہ نا خوش گوارواقعہ 18 مئی 1987 کو پیش آیا۔
مسٹر بھارتی نے بتایا کہ اس کے بعد گذری بازار میں ایک میٹنگ تھی جس میں مجسٹریٹ اور پولیس افسران شریک تھے۔ مسلمانوں نے اس موقع پر کہا کہ ہمار ا محلہ جھگڑالو محلہ نہیں ہے۔ یہاں کبھی کچھ نہیں ہوا ۔ ہم تو امن کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ اس پر ایک پولیس افسر نے کہا : "اجے شرما کا قتل کر کے سوئچ کو آن تو آپ ہی لوگوں نے کیا ہے"۔ واضح ہو کہ گذری بازار اورقینچی والان دونوں بالکل ملے ہوئے محلے ہیں۔
اسی روز رات کو سحری کے وقت پولیس محلہ ہاشم پورہ میں داخل ہو گئی ۔ وہ گھروں کی تلاشی لے کر ہتھیار بر آمد کرنا چاہتی تھی۔ جب یہ خبر پھیلی کہ ہاشم پورہ اور املیان (مسلم محلہ )میں پولیس داخل ہو گئی ہے اور سختیاں کر رہی ہے تو محلہ کے امام نے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر "جہاد"کی تقریر شروع کر دی ۔ "حضرات پی اے سی نے ہم پر حملہ کر دیا ہے ۔ آپ لوگ مقابلے کے لیے اپنے گھروں سے باہر آجائیں" ۔ اس قسم کی تقریروں کے نتیجے میں آس پاس کی آبادیوں سےبہت سے مسلمان نکل آئے۔ انھوں نے ہندو علاقوں پر حملہ کر دیا۔ امام نے پولیس سے "دفاع" کے لیے پکارا تھا انھوں نے غیر متعلق ہندوؤں پر "ہجوم" کر دیا۔
یہاں انھوں نے ہندوؤں کی گاڑیاں جلائیں۔ ان کی دکانوں اور شوروموں پر حملے کیے۔ ہا پور روڈ اور پلو کھڑی پر ہندوؤں کی بہت سی فیکٹریاں تباہ کر دیں۔ اس جنون کے وقت انھوں نے شہر کے ایک نہایت قیمتی شخص ڈاکٹر پر بھات سنگھ پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ وہ و میں سڑک پر مر گئے ۔ اس دوران افواہ پھیلی کہ مسلمانوں نے اسٹیٹ بنک کالونی (ایک ہندوآبادی ) کو تباہ کر دیا ہے۔ اس سے ہندوؤں میں مزید اشتعال پیدا ہوا۔ انھوں نے شاستری نگر وغیرہ میں مسلمانوں کے ساتھ وہی کام شدید تر انداز میں کرنا شروع کیا جو مسلمانوں نے ہند و علاقہ میں کیا تھا۔
مسٹر پدم رو شا( سابق ڈائرکٹر جنرل آف پولیس) کا ایک مضمون انگریزی اخبار انڈین اکسپریس ( 30 جون 1987) میں شائع ہوا ہے۔ یہ ایک بہت منصفانہ مضمون ہے ۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس میں سے ایک بات یہ ہے کہ فرقہ وارانہ جھگڑوں میں عملی طور پر سب سے زیادہ دخل دو چیزوں کا رہا ہے۔ ایک جلوس اور دوسرے لاؤڈاسپیکر ۔ جلوس کے بارےمیں انھوں نے لکھا ہے کہ انسانوں کے متحرک ہجوم کو دونوں فریق نہایت آسانی سے مظاہرۂ طاقت (Show of strength) کے ہم معنی سمجھ لیتے ہیں۔ یہی معاملہ لاؤڈ اسپیکر کا ہے۔ ایک پر جوش مقرر کی آواز عام حالات میں صرف اس کے قریبی افراد تک پہنچ سکتی تھی ، مگر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اس کی گونج پوری بستی کے لیے چیلنج بن جاتی ہے۔
راقم الحروف کو مسٹر پدم روشا کی بات سے صد فی صد اتفاق ہے ۔ میں مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جلوس اور لاؤڈاسپیکر دو نوں کو یک طرفہ طور پر اور رضا کارانہ طور پر بالکل ترک کر دیں۔ اور اگر فریق ثانی جلوس نکالتا ہے تو اس سے تعرض نہ کریں ۔ عرب ممالک میں آج یہ دونوں چیز میں مکمل طور پر ممنوع ہو چکی ہیں۔ اور وہاں کے مسلمان ، مقامی اور غیر مقامی دونوں ، اس ممانعت کو پوری طرح تسلیم کیے ہوئے ہیں۔ یہی طریقہ وہ ہندستان میں بھی اختیار کر لیں ۔ اس کے بعد سارے جھگڑے اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔ اور ہمیں وہ وقفۂ تعمیر مل جائے گا جس کی آج کے مسلمانوں کوسب سے زیادہ ضرورت ہے۔
میرٹھ کے فساد پر جن اخبارات نے براہ ِراست اور غیر جانبدار رپورٹیں شائع کیں ، ان میں سے ایک ممتاز نام ہندی ہفت روزہ "چوتھی دنیا " کا ہے۔ چوتھی دنیا( 31 مئی 1987 ) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 22 مئی کو ہاشم پورہ محلہ میں دو بجے دن میں پی اے سی کے پانچ چھ ٹرک پہنچے۔ ان کے ساتھ کچھ ٹرکوں میں فوجی جوان بھی تھے۔ انھوں نے محلہ کی تلاشی لے کر تقریباً ڈیڑھ سو جوانوں کو ٹرک میں بھرا اور پھر لے کر روانہ ہو گئے۔ یہ ٹرک تیزی سے چل کر مراد نگر کے کنارے بہنے والی گنگا نہر کے پُل پر رکے۔ تب تک رات کے تقریباً آٹھ بج چکے تھے۔ یہیں ایک ٹرک میں بھرے دو درجن نوجوانوں کو کھڑا کر کے سامنے سے گولی مار دی گئی اور ان کی لاشیں نہر میں پھینک دی گئیں۔ اس کے بعد ٹرک پھر تیز رفتاری کے ساتھ چلے۔ تقریباً ساڑھے نو بجے رات کو مکن پور کے پاس ہنڈن نہر کے پل کے پاس باقی نوجوانوں کو لائن میں کھڑا کر کے گولی ماری گئی اور انھیں نہرمیں ڈال دیا گیا۔ یہ سب ہاشم پورہ کے مزدور مسلمان تھے۔
یہ قتل عام کیوں ہوا ۔ اس کے بارےمیں چوتھی دنیا کے نامہ نگار نے میرٹھ جا کر تحقیقات کی تو قتل عام کی وجہ بھی سامنے آگئی ۔ ہوا یہ کہ 21 مئی کو مسلم اکثریتی علاقہ ہاشم پورہ کی ایک گلی سے چلی گولی سے سورج کنڈ کے ایک نوجوان پر بھات کو شک (24 سال) کی موت ہوگئی ۔ پر بھات کو شک شہر کے با اثر شہری اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی یونٹ کی سکریٹری شکنتلا کو شک کا بھانجا تھا۔ گولی چلنے کے اس واقعے میں شکنتلا کو شک کا بیٹا اتیج بھی زخمی ہوا تھا۔ مرنے والے پر بھات کا ایک بھائی ستیش چندر میرٹھ چھاؤنی میں ہی فوج میں میجر کے عہدے پر ہے۔ جب اسے بھائی کی موت کی اطلاع ملی تو وہ بوکھلا گیا۔ یہاں تک کہ 22 مئی کو میڈیکل کالج میں پوسٹ مارٹم کے لیے رکھی پر بھات کو شک کی لاش کو وہ ملازمین کو ڈرا دھمکا کر بغیر پوسٹ مارٹم کے ہی لے آیا۔ اس کے ساتھ کئی فوجی بھی تھے۔ اسی شام جب مسلمان نوجوانوں کو ٹرکوں میں بھرا گیا تو لوگوں نے میجر ستیش چندر کو بھی وہاں دیکھا تھا۔ اس بات کا شک ہے کہ اس میجر کی اسکیم پر ہی یہ قتل عام کیا گیا( بحوالۂ نئی دنیا 15 جون 1987)
میرٹھ کے المیہ میں سب سے بڑا انسانی کردار ڈاکٹر ہر پال سنگھ کا ہے جس کی مثال میرے علم کی حد تک نہ ہندوؤں میں پائی جاتی ہے اور نہ مسلمانوں میں ۔ ڈاکٹر ہر پال سنگھ میرٹھ کے این ایس کالج میں پولٹیکل سائنس کے استاد ہیں۔
19 مئی 1987 کو صبح سحری کے وقت مسلح پولیس محلہ املیان (میرٹھ) میں داخل ہوگئی۔ اس نے محلہ والوں پر کافی ظلم کیا۔ اس کی خبر پھیلی تو اس محلہ سے چار فرلانگ دور ہا پو رروڈ پر بپھرے ہوئے مسلمان نکل آئے۔ انھوں نے انتقامی جذبہ کے تحت وہاں کے ہندوؤں کے مکانوں اور دکانوں کو آگ لگا نا شروع کر دیا ۔ ہاپور روڈ پر ہندوؤں کے تین پٹرول پمپ جلا دیے۔ اور بہت سے دوسرےنقصانات کیے۔
یہ دن کا وقت تھا۔ ڈاکٹر ہر پال سنگھ کے صاحب زادہ ڈاکٹر پر بھات سنگھ اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہاپور روڈ سے گزرے۔ غصہ میں بھرے ہوئے مسلمانوں نے ڈاکٹر پر بھات سنگھ کو پکڑا۔ ان کی گاڑی کو جلایا اور ان کے اوپر تیل چھڑک کر آگ لگا دی ۔ ڈاکٹر پر بھات اس وقت ایک مریض کے آپریشن کے لیے اسپتال جا رہے تھے ، مگر اس حادثہ کے بعد خود ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال لے جائی گئی۔
ڈاکٹر ہر پال سنگھ اور ان کے بیٹے دونوں حد درجہ شریف اور انسان دوست آدمی تھے۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے۔ ان کی اعلیٰ شرافت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عزیز بیٹے کی اس درد انگیز ہلاکت پر مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی سخت بات نہیں کہی ۔ جب وہ اپنے جوان اور اکلوتے بیٹے کی جلی ہوئی ہڈیاں لیے ہوئے گھر واپس آرہے تھے تو راستے میں انھوں نے ہندوؤں کی بھیڑ دیکھی جو مسلمانوں کے خلاف شدید طور پر بپھری ہوئی تھی اور مسلمانوں کو جلانے مارنے پر آمادہ تھی۔ انھوں نے بھیڑ کو منع کیا۔ کسی نے کہا کہ تم ان لوگوں کی طرف داری کر رہے ہو جنھوں نے تمہارے جو ان بیٹے کو بلا سبب مار ڈالا۔ ڈاکٹر ہر پال سنگھ نے جواب دیا : "اگرپر بھات میرا بیٹا تھا تو تم جس کو جلانے مارنے جا رہے ہو وہ بھی تو کسی کا بیٹا ہو گا"۔
ڈاکٹر ہر پال سنگھ کا ایک بیان بے حد قابلِ غور ہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا : "میرا اب تک مسلمانوں کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ صرف اپنے دفاع کی لڑائی لڑتے ہیں۔ وہ کسی پر حملہ نہیں کرتے۔ لیکن میرٹھ شہر میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلمان نہ جانے کیوں بھڑک اٹھا۔ انھیں کس نے بھڑکایا ہے کہ وہ اس طرح سڑکوں پر نکل آئے اور آگ زنی شروع کر دی ؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ حالاں کہ اس کام میں پیش پیش غنڈہ اور جرائم پیشہ عناصر ہی تھے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ شریف اور مہذب و معز ز لوگ بھی تماشائی بنے رہے۔ انھوں نے روکا نہیں ۔ وہ روکتےتو شاید میرا بیٹا بچ جاتا"۔
میرٹھ کے ڈاکٹر ا تول بھٹنا گر (کمل نرسنگ ہوم ) نہایت شریف اور انسان دوست آدمی ہیں ۔ انھوں نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر 50 مسلمانوں کو بچایا جو 18 مئی کو ان کے نرسنگ ہوم میں موجود تھے ۔ اس کی قیمت انھیں یہ ملی کہ ان کے ہم قوم انھیں غدار کہہ رہے ہیں اور ان کوجان سے مار ڈالنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر اتول بھٹنا گر نے کہا کہ 18 مئی کی رات کو تقریباً ساڑھے دس بجے سکھ بیر سنگھ اور اس کا بہنوئی زخمی حالت میں ان کے نرسنگ ہوم میں آئے ۔ دونوں کے جسم پر تیزاب اور شیشے کے زخم تھےانھوں نے بتا یا کہ ہم آرہے تھے کہ محلہ املیان پر لوگوں کی بھیڑ اکھٹا تھی جس نے ہم پر کانچ کی بوتلوں اور پتھروں سے حملہ کیا اور ہمارے اوپر تیزاب پھینکا۔ ہم بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر یہاں آئے ہیں (افکار جون 1987)
میرٹھ میں اور دوسرے مقامات پر بہت سے ہندوؤں نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر مسلمانوں کوبچایا۔ اس قسم کے تجربات مسلمانوں کے ساتھ بار بار پیش آتے ہیں۔ مگر مسلمان یہ کرتے ہیں کہ جو ہندو کے ساتھ بار ان سے اچھا سلوک کرتا ہے اس کو وہ "فرد" کے طور پرلیتے ہیں اور جو ہندو برا سلوک کرتا ہے اس کو وہ پوری کمیونٹی پر پھیلا دیتے ہیں۔
ہم لوگ میاں محمد نگر (کھتہ روڈ) پر گئے۔ یہاں کا منظر اتنا بھیانک تھا کہ اس کو نہ قلم بیان کر سکتا ہے اور نہ کیمرہ ۔ میاں محمد نگر گاؤں کی مانند ایک بستی تھی ۔ تنگ گلیوں کے دونوں طرف لوگوں نے پچاس گز یااس سے کم یا زیادہ زمینیں خرید کر چھوٹے چھوٹے پختہ مکان بنائے تھے۔ ان مکانات کی تعداد تقریباً 280 تھی۔ یہ لوگ محنت مزدوری کر کے ان میں زندگی گزار رہے تھے ۔ اچانک ایک روز پی اے سی کے ساتھ ایک غول آیا جس میں زیادہ تر ہریجن تھے۔ ان کے پاس خاص طرح کے کیمیکل تھے۔ وہ گھروں کو لوٹتے اور کیمیکل چھڑک کر آگ لگا دیتے۔
جب ہم وہاں پہنچے تو یہ منظر تھا کہ مکانات کی دیواریں تو کھڑی ہوئی تھیں مگر چھت سب کی گرچکی تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے شدید بمباری سے تمام مکانات ڈھ پڑے ہوں ۔ میں نے دیکھا مرد عورتیں اور بچے اپنے مکان کے کھنڈروں پر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں ان کے پاس نہ سایہ کی کوئی جگہ ہے اور نہ کھانے پینے کا یا زندگی کا اور کوئی سامان۔
میاں محمد نگر کے اس کھنڈر کو دیکھ کر ہم باہر سڑک پر آئے تو ایک پولیس پارٹی اس کے اندر داخل ہو رہی تھی۔ آگے آگے ایک پولیس افسر تھا۔ پیچھے چار سپاہی رائفلیں لیے ہوئے اس کے ساتھ چلے جار ہےتھے۔ ان کے داخلہ کا انداز ایسا تھا جیسے فاتح اپنے مفتوح کے علاقے میں داخل ہو رہا ہو۔ وہ معاوضہ کی فہرست تیار کرنے کے لیے یہاں آئے تھے۔
میرٹھ سے واپسی کے بعد اگلے دن میں نے ہندستان ٹائمس (29 جون 1987) میں مسٹر رو میش بھنڈاری کا مضمون پڑھا۔ مسٹر بھنڈاری فارن سکریٹری کے عہدہ سے ابھی حال میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ یہ مضمون سری لنکا کے موجودہ حالات کے بارے میں ہے۔ اس میں انھوں نے ہندستان کی طرف سے کسی فوجی مداخلت کو خارج از بحث قرار دیا ہے اور تصفیہ بذریعۂ ترغیب (Settlement by persuasion) کی وکالت کی ہے ۔ میں نے سوچا کہ ہندستانی سیاست کا یہی تضاد ہے جو ہندستان کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ یہ ملک "میاں محمد نگر" کے غریبوں پر گولی چلاتا ہے اور جس کو طاقتور دیکھتا ہے اس کے مقابلے میں فورا ًترغیب (Persuasion) کا طریقہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اگر ہمیں اس ملک کوترقی کی طرف لے جانا ہے تو ہمیں اپنی قومی زندگی کے اس تضاد کو ختم کرنا ہوگا۔
میرٹھ کی کہانی کا سب سے زیادہ وحشت ناک باب وہ ہے جو ملیانہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ملیا نہ گویاوسیع تر میرٹھ کا ایک محلہ ہے جو شہر کی بیرونی سمت میں واقع ہے۔ یہاں کی آبادی تقریباً 25 ہزار ہےجس میں مسلمانوں کی تعداد 4 ہزار بتائی جاتی ہے۔ 23 مئی 1987 کو دو ٹرک مسلح پولیس آئی اور چھتوں پر چڑھ کر مسلم علاقے میں اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس کے نتیجے میں 73 مسلمان ہلاک ہو گئے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ یہاں کے ہندو اور مسلمان باہم مل جل کر رہتے تھے ۔ 1947 سے لے کراب تک یہاں ایک بار بھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ۔
ایسی حالت میں 23 مئی کا واقعہ کیوں ہوا ۔ 13 مارچ 1988 کو ملیا نہ کے تین آدمی ہمارے دفترمیں آئے ۔ نصیر احمد صاحب، افتخار علی صاحب اور آصف اختر صاحب ۔ یہ لوگ مذکورہ حادثے کے دن ملیا نہ میں موجود تھے۔ ان سے گفتگو کے دوران جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ میرٹھ فساد کے موقع پر اسلام آباد محلہ کے مسلمانوں نے جم کر پولیس کا مقابلہ کیا اور علاقہ کے ہندوؤں کو نقصان پہنچایا۔ پولیس یہاں کے مسلمانوں کو دبانے میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہی تھی ۔ چنانچہ اس نے یہ اسکیم بنائی کہ قریب کے علاقہ (ملیانہ) میں انتقامی کارروائی کرے تاکہ میرٹھ( اسلام آباد ) کے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ حالاں کہ خود ملیانہ کے مسلمانوں نے کسی قسم کی کوئی اشتعال انگیز کارروائی نہیں کی تھی۔
جس وقت ملیانہ میں مسلمانوں کو مارا جا رہا تھا اور ان کے گھروں کو جلایا جا رہا تھا ، وہاں کے ایک باشنده اعجاز علی صدیقی نے ایک پولیس افسر سے کہا جو وہاں موجود تھا ، آپ ان فسادیوں سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتے ۔ پولیس افسر نے جواب دیا : ہم یہاں مسلمانوں کو بچانے کے لیے نہیں آئے ہیں ، ہم ان کو سبق دینے کے لیے آئے ہیں۔
ملیانہ میں جس بے دردی کے ساتھ پولیس نے مسلسل دو گھنٹہ تک گولی چلائی ، اس نے عالمی سطح پر ضمیر کو بیدار کیا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل (لندن) کی مفصل رپورٹ اس سلسلے میں اخبارات میں آچکی ہے۔ اس رپورٹ (ٹائمس آف انڈیا 20 نومبر 1987) میں بتایا گیا تھا کہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ذمہ داروں نے اس سلسلے میں لندن کے ہندستانی سفارت خانہ سے رابطہ قائم کیا۔ سفارت خانہ نے جواب دیا کہ –––––– یہ یقین کرنے کا معقول سبب موجود ہے کہ سماج دشمن عناصر نے پولیس کے یونیفارم چُرا لیے اور ان کو پہن کر گولیاں چلائیں:
There is reason to believe that police uniforms were stolen and used as a disguise by anti-social elements.
سفیرِ ہند کی یہ توجیہہ نہایت عجیب ہے۔ مگر آج کل ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ جہاں اس کی اپنی ذات زد میں آئے وہاں ہر آدمی "سفیر ہند " بن جاتا ہے۔ انسان کو اگر اس کی غلطی یا ددلائی جائے تو اس کو اخذ کرنے کے لیے اس کی عقل عاجز ثابت ہوگی۔ مگر جب اپنی غلطی کی جھوٹی تو جیہ تلاش کرنا ہو تو ہر آدمی آخری حد تک ذہین بن جاتا ہے ۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کی یہ ذہانت صرف اس کے جُرم میں اضافہ کر رہی ہے۔ ایسا آدمی یہ خطرہ مول لے رہا ہے کہ خدا کی عدالت میں اس سے یہ کہا جائے کہ جب تم اپنی غلطی کی تردید کرنے میں اتنے ہوشیار تھے تو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں اتنے بے وقوف کیوں بن گئے۔
میرٹھ کے فساد کی رپورٹوں میں جو الفاظ بار بار اخبارات میں آئے ان میں سے ایک نام زیدی فارم کا تھا۔ یہ سید محمد علی زیدی کے نام پر مشہور ہے ۔ ہم ان کے مکان پر گئے۔ اتفاق سے موصوف اس وقت موجود نہ تھے۔ ان کی بہن نایاب زیدی سے ملاقات ہوئی۔ یہ ایک معمر خاتون ہیں اور ایم ایس سی اور بے ایڈ کیے ہوئی ہیں۔
خاتون نے بتایا کہ خود زیدی فارم میں کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ البتہ آس پاس میں کچھ واقعات ہوئے ۔ محترمہ نایاب زیدی سے میں نے پوچھا کہ اس کا حل کیا ہے ۔ ان کا جواب یہ تھا "اس کا حل صرف محبت ہے، اور کچھ نہیں" ۔ انھوں نے اپنے مالی رام داس سے ملایا۔ ان کی عمر تقریباً 65 سال ہے۔ وہ زیدی ہاؤس میں بارہ سال سے مالی کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ رام داس مالی بے حد سیدھے سادھے آدمی ہیں۔ ان سے میں نے پوچھا کہ جوکچھ میرٹھ میں ہوا تو اب کیا کیا جائے کہ پھر ایسا نہ ہو۔ انھوں نے جواب دیا : کہیں ہندوؤں کا زور ہے تو ان کو محبت سے پیار سے رکھیں۔ یہ سب سے زیادہ صحیح بات ہے جو میرٹھ میں مجھے ایک مالی کی زبان سے سننے کوملی ، مگر یہی وہ بات ہےجو ہمارے بڑے بڑے عالموں تک کو نہیں معلوم۔
ایک صاحب نے کہا کہ میرٹھ کا فساد پلاننگ کے تحت ہوا۔ یعنی ہندوؤں نے پہلے سے پلان بنا کر مسلمانوں کو مارا ۔ انہیں صاحب نے مسلمانوں کی بہادری ثابت کرنے کے لیے یہ بھی کہا کہ پہلے دن جب تک پولیس نہیں آئی تھی مسلمانوں نے زیادہ مارا۔ مگر جب مسلح پولیس (پی اے سی) آگئی تو مسلمان زیادہ مارے جانے لگے۔ میں نے کہا کہ اگر پلاننگ یک طرفہ تھی تو مسلمان کیسے اس قابل ہو سکے کہ وہ پہلے دن زیادہ ماریں ۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو جواب میں تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔
میں نے کہا کہ یہ طریقہ سراسر غلط ہے۔ فریق ثانی اگر بالفرض فساد کی پلاننگ کر رہا ہے تو اس کامقابلہ جوابی فساد کے ذریعہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ حکیمانہ تدبیر سے آپ ان کی پلاننگ کو فیل کر دیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مثال کے طور پر غزوۂ خندق کے موقع پر عمل فرمایا۔ فریق ثانی بہت بڑی تعداد میں تیار ہو کر لڑنے کے لیے آرہا تھا، مگر آپ نے ایک ایسی آڑ قائم کر دی کہ دونوں کے درمیان ٹکراؤ کی عملی صورت ہی ختم ہوگئی۔
حالیہ فسادات کے زمانے میں مختلف لوگوں نے نہایت طاقتور الفاظ میں فساد کو برا کہا ہے اور امن کے ساتھ رہنے کی وکالت کی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ باتیں عملی طور پر بالکل بے کار ہیں۔ اس لیے کہ وہ متعین انداز میں نہیں کہی گئی ہیں ۔ وہ "فساد" کے خلاف ہیں نہ کہ "مفسد " کے خلاف۔
مثلاً انڈین اکسپریس (30 جون 1987) نے اپنے صفحہ 6 پر ایک شخص کا یہ قول نقل کیا :
Man's liberty ends, and it ought to end, when that liberty becomes the curse of his neighbours.
آدمی کے لیے آزادی کا حق ختم ہو جاتا ہے اور اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔ جب کہ یہ آزادی اس کےپڑوسی کے لیے لعنت بن جائے ۔
موجودہ شکل میں جو شخص اس قول کو پڑھے گا وہ اس کو دوسروں پر چسپاں کرے گا اور اپنے آپ کو اس سے الگ کرلے گا۔ اس لیے صرف وہ تنقید مفید ہے جو متعین انداز میں کی جائے۔ اس کی موزوں ترین صورت یہ ہے کہ ہندو اپنے فرقہ کی زیادتی پر انھیں ٹوکے اور مسلمان اپنے فرقہ کی زیادتی پر بولیں۔
ایک مسلمان نے کہا کہ" مقامی ہندی اخبارات نے میرٹھ کے فساد کو بھڑکانے میں بہت بڑا حصہ لیا۔ انھوں نے ہندوؤں کے نقصانات کا ذکر کیا ۔ نام بھی دیے۔ فوٹو بھی دیے۔ مگر مسلمانوں کے نقصانات کا کوئی بھی ذکر نہیں کیا"۔
یہ تنقید بھی کس قدر عجیب ہے ۔مسلمانوں کے تمام اخبارات یک طرفہ طور پر صرف مسلمانوں کے نقصانات کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہ ہندوؤں کے نقصان کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے ۔ یہ بات کسی مسلمان کو غلط نظر نہیں آتی ۔ مگر یہی بات جب ہندو اخبار کرے تو وہ فوراً غلط ہو جاتی ہے۔ گویا اپنے لیے ایک اصول ہے اور غیر کے لیے دوسرا اصول ۔ جو لوگ اس قسم کا غیر منصفانہ ذہن رکھتے ہوں ان کے لیےخدا کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔
مسٹرایس کے چھابڑ انے اپنے ایک مطبوعہ خط ( ہندستان ٹائمس 6 جولائی 1987)میں لکھا ہے کہ یہ صرف ملا ، پنڈت اور سیاست داں ہیں جنھوں نے ماحول کو خراب کیا ہے :
It is only the Mullahs, Pandits and politicians who have spoiled the atmosphere.
مجھے مسٹر چھابڑ کی اس بات سے صد فی صد اتفاق ہے۔ مسلم عوام اور ہندو عوام اگر تنہا ہوتے تو یقینی طور پر ان کے درمیان کوئی فرقہ وارانہ لڑائی نہ پیدا ہوتی لیکن مذہبی اور سیاسی لیڈروں نے سارا معاملہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
میرٹھ میں ہر سال جگناتھ کی رتھ یا ترا کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ اس بار یہ جلوس 2 جولائی 1987 کو نکالا گیا۔ ٹائمس آف انڈیا کے نامہ نگار مسٹر رمن نندا نے اس کی رپورٹ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سالانہ رتھ یاترا میں پہلے بمشکل ایک ہزار آدمی شریک ہوتے تھے۔ اس بار نہایت کثرت سے لوگ اس میں شریک ہوئے جن کی تعداد کا اندازہ 50 ہزار سے ایک لاکھ تک کیا گیا ہے۔ رتھ یا تراکمیٹی کے ایک رکن مسٹر ستیہ پر کاش اہلو والیا نے پر فخر طور پر کہا کہ اس بار ہماری رتھ یا ترا میں لاکھوں آدمی شریک ہوئے۔
جلوس میں تعداد کا یہ اضافہ یقینی طور پر میرٹھ میں موجودہ حالات کی بنا پر ہوا ہے۔ یہ مسلمانوں کے جلسہ جلوس کا جواب ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلسہ اور جلوس کا طریقہ کس طرح مسلمانوں کے لیے بے فائدہ بلکہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا (Counter productive) ہے مسلمان اگر جلسہ اور جلوس کا مظاہرہ کریں تو یہ ہندو کے اندر قومی ساکھ کے جذبہ کو ابھارے گا۔ وہ بڑھ چڑھ کر کے چڑھ کر اپنا مظاہرہ کرنا چاہیں گے ۔ سوئے ہوئے فتنے بیدار ہوں گے۔ حالات کی نزاکت میں اضافہ ہوگا ہندوؤں کا جلوس بند کرنے کی سب سے آسان تدبیر یہ ہے کہ مسلمان اپنا جلوس بند کر دیں ۔
میرٹھ کی کل آبادی تقریباً دس لاکھ ہے۔ اس میں مسلمان 40 یا 45 فی صد تعداد میں آباد ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پچھلے پچاس سال کے اندر میرٹھ میں 17 فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں۔ آخر ی برسوں میں حسبِ ذیل سال میرٹھ میں فساد کے سال رہے ہیں۔ 1962 ، 1963، 1967 ، 1968، 1973 ، 1982 ، 1986 ، 1987 ۔ 1982 کے فساد میں 32 موتیں واقع ہوئی تھیں۔
یہ فسادات ہمیشہ معمولی نادانی سے شروع ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ ہمیشہ چند افراد کی کسی غلط کارروائی سے شروع ہوتے ہیں۔ تاہم پورا معاشرہ اس کا مجرم قرار پاتا ہے کیوں کہ بقیہ لوگ ہمیشہ اپنے فرقہ کے شرپسند افراد کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ ان کی مذمت نہیں کرتے۔ اس طرح چند لوگ اگر فسادانگیزی کے براہ راست مجرم ہیں تو بقیہ لوگ اس کے بالواسطہ مجرم ۔ یہ فساد کس طرح معمولی نادانیوں سے شروع ہوتے ہیں، اس کو 1982 کے فساد کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
محلہ شاہ گھاٹ میں ایک چبوترہ کا جھگڑا تھا۔ وہاں ایک قبر اور ایک پیپل کا درخت تھا۔ہندوؤں نے پیپل کو بنیاد بنا کر اس کو مندر کی حیثیت دینے کی کوشش کی۔ اور مسلمانوں نے قبر کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کیا کہ یہ کسی بزرگ کا مزار ہے اور وہاں چادر چڑھانے کا مطالبہ کیا۔
یہ جھگڑا بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ 6 ستمبر اور 7 ستمبر 1982 کی درمیانی رات کو کسی مسلمان نے وہاں کے پجاری کو قتل کر دیا۔ 7 ستمبر کو جب پجاری کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں فرقہ وارانہ فساد کی آگ بھڑک اٹھی اور سارا شہر اس کی لپیٹ میں آگیا ۔
بیسیوں مسلمان قتل ہوئے ۔ ہزاروں گھر لوٹے اور جلائے گئے۔ کروروں روپے کا مالی نقصان ہوا ( الجمعیۃ ڈیلی 21 اکتوبر 1982)
سر دھنا کے الکٹریشین انعام الحق صاحب ( پیدائش 1958) سے 25 مارچ 1988 کو ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ میرٹھ کے علاقے میں رہتے ہیں۔ یہ بتائیے کہ میرٹھ میں اتنا زیادہ فساد کیوں ہوتا ہے۔ 1947 سے 1987 تک میرٹھ میں 17 فرقہ وارانہ فساد ہو چکے ہیں۔ ایسا کہیں اور نہیں ہوا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ۔
انھوں نے کہا : میرٹھ کا آدمی دبو نہیں ہے۔ یعنی ایک کی بات دوسرے کو برداشت نہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم کسی کوسمجھائیں تو وہ لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم کیوں دبیں۔ چنا نچہ وہاں اگر ایک مسلمان اور ایک ہندو میں کسی بات پر لڑائی ہو جائے تو وہ دو آدمی کی لڑائی نہیں رہتی ۔ وہ فوراً ہندو مسلم لڑائی بن جاتی ہے۔ اسی لیے میرٹھ تباہ ہے۔
میرٹھ میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ وہ بار بارکمیونسٹ کا لفظ بولتے تھے "کمیونسٹوں نے یہ سب کرایا ہے" ۔ انھوں نے کہا۔ میں نے جاننا چا ہا کہ کیا یہاں کمیونزم کا زور ہے۔ معلوم ہواکہ یہاں کمیونزم یا کمیونسٹوں کا کوئی اثر نہیں۔ آخر کارکافی دیر کے بعد سمجھ میں آیا کہ وہ صاحب کیمونسٹ کا لفظ کمیونلسٹ ( فرقہ پرست ) کے معنی میں بول رہے تھے۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے مسلمان تعلیم میں کتنا پیچھے ہیں۔ ہم نے یہاں بہت سے مسلمانوں سے ملاقات کی اور ان سے گفتگو کی مگر بہت کم ایسے افراد ملے جو باشعور ہوں اور واقعی طور پر معاملات کو سمجھتے ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کا اصل مسئلہ ہند و تعصب یا ہندو فرقہ پرستی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا تعلیم میں پیچھے ہونا ہے ۔ یہاں کے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت جاہل یا نیم خواندہ ہے ۔ وہ کسی معاملے میں گہرائی کے ساتھ رائے قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ حتیٰ کہ یہاں کے لیڈر بھی اتنے ہی بے شعور ہیں جتنا کہ یہاں کے عوام۔ جب کسی قوم کی اکثریت جاہل ہو تو اس کے تعلیم یافتہ افراد بھی نیم تعلیم یافتہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔
میرٹھ کے ریلیف کی اپیلوں پر مسلمانوں نے کروڑوں روپے دیے ہیں۔ لیکن اگر میرٹھ کے مسلمانوں کو باشعور اور تعلیم یافتہ بنانے کا منصوبہ لے کر اٹھئے، تونہ ریلیف فنڈ کھولنے والوں کو اس سے کوئی دلچسپی ہوگی اور نہ ریلیف میں بڑی بڑی رقمیں دینے والوں کو ۔قومی مصیبت کے لیے متحرک ہونا اور قومی تعمیر کے لیے متحرک نہ ہو نا زوال کی خاص علامتوں میں سے ہے ۔ اور زوال کی اس قسم میں مسلمان پوری طرح مبتلا ہوچکے ہیں۔
علاء الدین صاحب (24 سال) میرٹھ کے محلہ کوٹلہ میں رہتے ہیں۔ ان کی وہاں پان کی دکان ہے۔ انھوں نے بتایا کہ فساد کے بعد جب شہر میں کر فیو نافذ ہوا تو لوگوں کا گھر سے نکلنا بند ہو گیا۔ ہم لوگ اپنی گلی میں بھی باہر نہیں آسکتے تھے۔ مگر ایک معمولی خوش تدبیری نے ہمار کے لیےکرفیو کو آسان بنا دیا ۔
انھوں نے بتایا کہ ایک روز پی اے سی والے ہماری گلی کے اندر داخل ہوئے ۔ اس وقت بہت سے لوگ گھروں سے باہر نکل کر گلی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پی اے سی والوں نے کہا کہ تم لوگ باہر کیوں بیٹھے ہو۔ کیا تم کو معلوم نہیں کہ یہاں سخت کرفیو لگا ہوا ہے۔ محلہ والوں نے کوئی ردِّ عمل ظاہر نہیں کیا ، بلکہ نرمی کے ساتھ انھیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ہم لوگ ابھی گھروں کے اندر چلے جاتے ہیں۔ مگر جب آپ ہمارے محلہ میں آگئے ہیں تو ہماری طرف سے کچھ چائے پانی تو قبول کر لیجئے۔ اس کے بعد محلہ والوں نے ان کی تواضع کی۔ تواضع سے فارغ ہو کر جب پی اے سی والے باہر جانے لگے تو انھوں نے کہا : آپ لوگ باہر رہنا چاہتے ہو تو ر ہو ، البتہ دیکھو دنگا فساد مت کرنا ۔ محلہ کوٹلہ کے لوگوں نے اس طرح کئی بار پی اے سی والوں کی تواضع کی اور ان کے محلہ میں پی اے سی کا رویہ بہت نرم رہا۔
عین فساد کے زمانے میں اس طرح کے اور بھی کئی واقعات میرٹھ میں ہوئے۔ مثال کے طور پرمتین صدیقی صاحب کا تجربہ بھی اسی قسم کا تھا۔ وہ خیر نگر (ٹیلی فون 3531) میں رہتے ہیں۔ ان کے سامنے کی سٹرک پر پی اے سی کا کیمپ تھا۔ یہ گرمی کا زمانہ تھا۔ ایک روز پی اے سی والوں نے متین صدیقی صاحب کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پانی مانگا۔ انھوں نے فوراً ٹھنڈے پانی کی بوتل اور گلاس بھیج دیا۔ اس طرح بار بار وہ لوگ ان کے یہاں سے ٹھنڈا پانی لیتے رہے ۔ اس کے بعد جب کرفیو زیادہ سخت ہوا تو اب پی اے سی والوں کی باری تھی۔ ایک روز دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی ۔ انھوں نے دروازہ کھولا تو پولیس کا آدمی ایک بنٹی (بالٹی ) دودھ لیے ہوئے کھڑا تھا ۔ اسی طرح وہ انھیں سبزی وغیرہ پہنچاتا رہا۔ متین صدیقی صاحب نے قیمت دینا چاہا تو انھوں نے قیمت لینے سے انکار کر دیا۔
یہ اسی میرٹھ کے واقعات ہیں جہاں کے بارے میں مسلم لیڈر اور مسلم اخبارات نے صرف پولیس کے ظلم اور تشددکی خبریں دنیا کو سنائی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس والے بھی انسان ہیں۔ ان کے سینے میں بھی دل ہے ۔ آپ غیر حکیمانہ سلوک سے انھیں اپنا دشمن بناسکتے ہیں۔ اور اگر آپ حکیمانہ سلوک کریں تو یقیناً آپ ان کو اپنا دوست پائیں گے۔