یاد دِہانی کی موت
نصیر احمد خاں بنارسی گڈورڈ بکس اورمکتبہ الرسالہ کے ایک ممبر تھے۔ 16 مارچ 2008 کو دہلی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ بوقت انتقال ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی۔ اُس وقت وہ تندرستی کی حالت میں تھے۔ بہ ظاہر موت کے کوئی آثار نہ تھے، مگر 16 مارچ کو ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا اور اُس میں اچانک ان کا انتقال ہوگیا۔
موت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک، متوقّع موت (expected death) اور دوسری، غیرمتوقع موت (unexpected death)۔ متوقع موت وہ ہے، جب کہ انسان بوڑھا ہوگیا ہو، وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ جائے اور لوگ پیشگی طورپر یہ سمجھ لیں کہ اب اس کا آخری وقت آگیا ہے۔ ایسی موت کو لوگ ایک ہونے والا واقعہ سمجھتے ہیں، وہ اُس سے اپنے لیے کوئی سبق نہیں لیتے۔
دوسری موت وہ ہے جو غیر متوقع ہو۔ اِس طرح کی موت میں ایسا ہوتا ہے کہ مرنے والا ابھی جوانی کی عمر میں ہوتا ہے۔ وہ تندرست حالت میں اپنا کام کررہا ہوتا ہے اور پھر اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ ایسی موت کو عام طورپر بے وقت کی موت (untimely death) کہاجاتا ہے۔ مگر ایسی موت بے وقت کی موت نہیں ہوتی۔ زیادہ صحیح طورپر وہ یاد دہانی کی موت (reminder death) ہوتی ہے۔ وہ ایک چشم کُشا موت ہوتی ہے، تاکہ لوگ موت کو یاد کرکے اپنی اصلاح کرلیں۔
جو واقعہ معمول کے طورپر پیش آئے، اُس کے بارے میں لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایک ہونے والی بات تھی جو ہوئی۔ مگر جو واقعہ غیر معمولی طورپر یا خلافِ توقع پیش آئے، وہ لوگوں کے لیے ایک دھماکہ خیز واقعہ بن جاتا ہے۔ ایسا واقعہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مذکورہ قسم کی موت ایسا ہی ایک دھماکہ خیز واقعہ ہے۔ وہ لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ ایسا ایک واقعہ گویا کہ بیداری کا ایک الارم ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سونے والوجاگو، کیوں کہ اب غفلت کا وقت ختم ہوچکا— عام موت ایک خاموش سبق ہے، اور مذکورہ قسم کی موت ایک بولتا ہوا سبق۔