نماز اور تعمیر ِحیات
نماز اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے خدا کی عبادت ہے، لیکن اُس کا عملی نظام اِس طرح مقرر کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی پوری زندگی کو مثبت انداز میں تعمیر کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ نماز ایک اعتبار سے ربّانی تربیت ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ حیاتِ دنیا کے لیے ایک مکمل قسم کا تعمیری کورس۔
نماز کا آغاز وضوسے ہوتا ہے۔ وضو گویا کہ ایک غسلِ صغیرہے۔ وہ آدمی کی تطہیر (purification) کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔ اِس کے بعد نماز کا پہلا کلمہ اللہ اکبر ہے۔ اذان اور نماز دونوں کو ملا کر روزانہ تقریباً تین سو بار یہ کلمہ دہرایا جاتا ہے۔ اللہ اکبر (اللہ بڑا ہے) کادوسرا مطلب یہ ہے کہ میں بڑا نہیں ہوں۔ اِس طرح نماز، انسان کو تواضع (modesty) کے لیے تیار کرتی ہے، اور بلا شبہہ تواضع موجودہ دنیا میں سب سے زیادہ قابلِ قدر انسانی صفت ہے۔
نماز رات اور دن کے دوران، پانچ مقرر اوقات میں پڑھی جاتی ہے۔ یہ گویا کہ ٹائم مینج مینٹ (time management) کی تعلیم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے پاس سب سے بڑی چیز وقت (time) ہے۔ وقت کو منظم انداز میں استعمال کرنا ہر قسم کی ترقی کی لازمی شرط ہے، اور نماز تنظیمِ اوقات کی اِسی صفت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہے۔
نماز کے لیے حکم ہے کہ اُس کو باجماعت انداز میں ادا کیا جائے۔ یہ اتحاد کی اعلیٰ تربیت ہے۔ باجماعت نماز میں یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کو بطور امام آگے کھڑا کرکے سب لوگ اس کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اِس طرح نماز یہ سبق دیتی ہے کہ اپنے میں سے ایک کو آگے کرکے سب لوگ پیچھے کی سیٹ (back seat) پر چلے جاؤ۔ یہ طریقہ بلا شبہہ اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
نماز کا خاتمہ ’السّلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ پر ہوتا ہے، یعنی تمام انسانوں کے لیے امن کی اسپرٹ لے کر مسجد کے باہر آنا۔ گویا کہ نماز ایک طرف تواضع کی صفت پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف امن پسندی کی صفت۔ یہ صفتیں بلا شبہہ موجودہ دنیا میں بہتر سماج بنانے کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہیں۔