مدر ٹریسا

مدر ٹریسا، یورپ میں مقدونیہ(Maccdonia) کے علاقہ(Skopje) میں 1910 میں پیدا ہوئیں۔ 1997میں کلکتہ)انڈیا( میں اُن کا انتقال ہوا۔ خدا کے نام پر غریبوں کی خدمت کو انھوں نے اپنا مشن بنایا۔ اُن کا مرکز کلکتہ میں تھا۔ اِس میدان میں اُن کو اتنا بڑا درجہ ملا کہ اُن کو اِسی خدمت کے نام پر 1979 میں نوبل پرائز دیا گیا۔ خدا کے نام پر انسان کی خدمت اُن کی پہچان بن گئی۔ ہر موقع پر وہ خدا اور روحانیت کے الفاظ بولتی رہیں۔اُن کے سوانح نگار مسٹر نوین چاؤلا نے اُن کے اوپر 280 صفحے کی ایک کتاب (Mother Teresa) لکھی۔ یہ کتاب پہلی بار پینگوئن بکس(UK) سے 1998میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں شامل کرنے کے لیے انھوں نے مدر ٹریسا سے ایک تحریر مانگی۔ مدر ٹریسا نے اپنے قلم سے یہ الفاظ لکھ کر اُن کو بھیج دیے، جو کہ اِس کتاب میں بطور فورورڈ(foreword) شامل ہے:

All you do, all you write, do it all for the glory of God, and the good of all people. Let your book be love for God in action. (February, 24, 1991)

یعنی تم جو کچھ کرو، جو کچھ تم لکھو، اُس کو تمام تر خداکی بڑائی کے لیے اور لوگوں کی بھلائی کے لیے کرو۔ اپنی کتاب کو خدا کی محبت کے لیے کیا جانے والا عمل بنا دو۔

مدر ٹریسا، جدید دنیامیں اسپریچول ہیرو سمجھی جانے لگیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مسیح کو تم غریبوں میں پاسکتے ہو۔ خدا اور روحانیت کے بارے میں اُن کے اقوال اور بیانات ہر جگہ چھپنے لگے۔ بہت سے لوگوں نے ان کو اپنی زندگی کے لیے ماڈل بنا لیا۔ویٹکن)روم( نے اعلان کردیا کہ مدر ٹریسا کی اعلیٰ خدمات کی بنا پر پوپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مدر ٹریسا کو سینٹ ہُڈ(sainthood) کا خطاب دیا جائے گا۔

مگر مدر ٹریسا کی وفات کے بعد اُن کے بارے میں ایک کتاب چھپی ہے، جس میں مدر ٹریسا کی بالکل مختلف تصویر پیش کی گئی ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ مدر ٹریسا کو اپنے 66 سالہ عمل کے باوجود خدا نہیں ملا۔وہ مسلسل طورپر روحانی فاقہ (spiritual starvation)میں جیتی رہیں۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:

Mother Teresa: Come Be My Light, by Rev Brian Kolodiejchut.

نیویارک کے ٹائم میگزین) 3 ستمبر2007 (نے اِس کتاب کو اپنی کور اسٹوری بنایا ہے۔ اِس میگزین میں مدر ٹریسا کی کہانی کے اوپر یہ عنوان قائم کیاگیا ہے— مدر ٹریسا کاذہنی کرب (Her Agony)۔ میگزین کاٹا ئٹل حسب ذیل ہے:

The Secret Life of Mother Teresa

مذکورہ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مدر ٹریسا کی زندگی بظاہر خدا اور روحانیت کی زندگی تھی، لیکن ان کی زندگی خدا اور روحانیت سے بالکل خالی تھی۔ اُن کے اپنے الفاظ کو لے کر نئی دہلی کے ٹائمس آف انڈیا) 25اگست 2007 (نے اس کی رپورٹ پر یہ عنوان قائم کیا ہے— مدر ٹریسا زبان سے خدا کا نام لیتی رہیں، لیکن اپنے دل میں انھوں نے کبھی خدا کو نہیں پایا:

Mother Teresa had God on her lips, but never felt Him (p. 11)

مدر ٹریسا کی زندگی کا یہ دوسرا پہلو اُن کے نجی خطوط کے ذریعے سامنے آیا۔ مدر ٹریسا نے اپنے یہ خط اپنے کچھ قریبی ساتھیوں کو لکھے تھے۔ اِن خطوط کی تعداد تین درجن سے زیادہ ہے۔ مدر ٹریسا نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ان خطوط کو ضائع کردیا جائے، لیکن اُن کے یہ خطوط محفوظ رہے اور مدر ٹریسا کی وفات کے بعد ویٹکن کی اجازت سے وہ شائع کیے گیے ہیں۔ مدر ٹریسا نے اپنے اِن خطوط میں کھُلے طورپر اِس کا اعتراف کیا ہے کہ اُنھوں نے غریبوں کے پاس خدا کو ڈھونڈھا، مگر ان کو خدا نہیں ملا۔ ایک خط میں وہ اپنے ایک ساتھی کو لکھتی ہیں کہ— خدا کے بارے میں ہمارا اشتیاق کتنا زیادہ ہے، اِس کے باوجود وہ ہم سے کتنا زیادہ دور ہے:

Your longing for God is so deep, and yet He keeps Himself away from you. (Time, p. 33)

مدر ٹریسا کے مطبوعہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سخت تنہائی (loneliness) میں پاتی تھیں۔ انھوں نے ایک خط میں اپنے ایک ساتھی کو لکھا کہ— میری روح کے اندر اتنا زیادہ کرب اور اتنا زیادہ تاریکی کیوں ہے:

Why is there so much pain and darkness in my soul. (p. 31)

مدر ٹریسا کو اپنی پوری عمر صرف کرنے کے باوجود خداکیوں نہیں ملا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ مخلوق میں خدا کو تلاش کررہی تھیں۔ اور جو لوگ مخلوق میں خدا کو تلاش کرتے ہیں، ان کاانجام ہمیشہ یہی ہوا ہے۔ خدا نے مدر ٹریسا کے اِس واقعے کی صورت میں اُن لوگوں کے لیے تاریخ میں ایک عبرت ناک مثال قائم کردی ہے جو دعوہ ورک کے مقابلے میں کمیونٹی ورک کو اپنے لیے روحانی سکون کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں۔

قدیم زمانے میں انسان نے نیچر کو خدا سمجھ لیا۔ دریا، پہاڑ اورسورج اورچاند ہر ایک کو اُس نے خدائی کا درجہ دے دیا، مگر یہ سب مخلوقات تھیں، اِس لیے قدیم زمانے کا انسان خدا کو نہ پاسکا۔ اِسی طرح انسان نے بادشاہ کو اور اپنے بزرگوں کو خدا کا درجہ دے دیا۔ یہ بھی مخلوق کو خدا بنانا تھا، اِس لیے انسان یہاں بھی اپنی تلاش میں ناکام رہا۔ اس کے بعد یہ سمجھا گیا کہ طبیعیاتی طاقتیں (physical forces) خدائی کا درجہ رکھتی ہیں، مگر یہاں بھی انسان کو خدا کی یافت نہ ہوسکی، کیوں کہ طبیعی طاقتیں مخلوقات ہیں، نہ کہ خدا۔خدا، مخلوقات سے الگ اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے، اور اس کو علاحدہ اور مستقل وجود ہی کی حیثیت سے دریافت کیا جاسکتا ہے۔

اِس معاملے میں انسان کی تلاش کی ناکامی کی تصویر قرآن کی ایک آیت میں دی گئی ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جن لوگوں نے انکار کیا، اُن کے اعمال ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں سراب، پیاسا اُس کو پانی خیال کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اُس کے پاس آیا تو اُس نے اُس کو کچھ نہ پایا۔ اور اُس نے وہاں اللہ کو موجودپایا، پس اُس نے اس کا حساب چکا دیا۔ اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے)النّور: 39 (

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom