خبرنامہ اسلامی مرکز— 184
1-مکہ ریڈیو (جدّہ) نے 11 دسمبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر سراج وہاب تھے۔ سوالات کا تعلق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو پیش آمدہ مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ قرآن کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے مسائل کسی دوسرے کی سازش کا نتیجہ نہیں ہوسکتے۔ یہ مسلمانوں کی اپنی داخلی کم زوری کا نتیجہ ہیں۔ سب سے بڑی داخلی کم زوری یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما، حدیث کے الفاظ میں: أن یکون بصیراً بزمانہ کا مصداق نہ بن سکے۔ اب سب سے زیادہ ضروری چیز ہے— اپنی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی اور اپنی غلطیوں کو مان کر دوبارہ منصوبہ بندی۔
2-انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 29 دسمبر 2007 کو ایک پروگرام ہوا۔انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے ہال میں یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے منعقد کیاگیا تھا۔ ہندو اور مسلمان دونوں اِس میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اِس تقریر کا عنوان یہ تھا:
The Role of Spirituality in Stress Management.
ابتدائی تعارف مسٹر رجت ملہوترا نے کیا۔ اس کے بعد صدر اسلامی مرکز نے تقریباً ایک گھنٹے تک تقریر کی۔ اس کے بعد سوال و جواب ہوا۔لوگوں نے تحریری سوالات کیے جن کا جواب دیاگیا۔ آخر میں اسلامی لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ اِس موقع پر گڈورڈ بکس کی طرف سے ہال کے باہر اسلامی کتابوں کا ایک اسٹال بھی لگایا گیا۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں وہاں سے کتابیں حاصل کیں۔
3-اسلامک کلچرل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں 5 جنوری 2008 کو ایک انٹرنیشنل سیمنار ہوا۔ اِس میں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بعض دوسرے ملکوں کے علماء اور دانش ور شریک ہوئے۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Peace Building Process in Islam.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور وہاں موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ اِس موقع پر تمام شرکاء کے درمیان سی پی ایس انٹرنیشنل کی طرف سے انگریزی میں چھپے ہوئے دعوتی لٹریچر تقسیم کیے گئے۔
4-شری رام اسکول (گُڑ گاؤں) میں ’’تعارفِ اسلام‘‘ کے موضوع پر 18 جنوری 2008 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں اسکول کے سینئر طلبا اور اساتذہ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اِس پروگرام کا آغاز نماز سے ہوا۔ تمام طلبا اور اساتذہ نماز میں شریک ہوئے۔ ان کے سامنے نماز کی اہمیت بتائی گئی اور سادہ انداز میں اسلام کا تعارف پیش کیاگیا۔ اس موقع پر سی پی ایس ٹیم کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ پروگرام کے بعد انھوں نے طلبا اور اساتذہ سے انٹریکشن کیا اور ان کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ خاص طورپر قرآن کے انگریزی ترجمے کی ایک ایک کاپی بھی ان کو بطور ہدیہ پیش کی گئی۔ طلبا نے اس کو بہت شوق سے لیا اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
5-ای ٹی وی (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں 19 جنوری 2008 کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس کے اینکر مسٹر عبید صدیقی تھے اِس ڈسکشن کا عنوان یہ تھا:
Did Benazir Bhutto pay the price of going against fundamentalism.
بے نظیر بھٹو (سابق وزیر اعظم پاکستان) کو 28 دسمبر کو پاکستان (راول پنڈی) میں قتل کردیاگیا۔ اُس وقت ان کی عمر 54 سال تھی۔ اِس ڈسکشن میں حصہ لینے کے لیے صدر اسلامی مرکز کو بھی بلایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بے نظر بھٹو کا قتل ان کی اپنی نادانی کے سبب ہوا:
Benazir Bhutto paid the price of going against reason.
بے نظیر بھٹو دوبار پاکستان کی وزیر اعظم بن چکی تھیں۔ حالات واضح طورپر بتارہے تھے کہ اب ان کے لیے تیسری بار وزیر اعظم بننے کا امکان نہیں ہے۔ اِس کے باوجود وہ لندن کا قیام چھوڑ کر پاکستان گئیں۔ یہ ان کے لیے مشہور انگریزی مثل کا مصداق تھا:
Fools rush in where angels fear to tread
6- 22 January, 2008
I have just recieved the Dawah packet containing brochures, and CDs and two books on Reality of life- No doubt, a great message of Peace and Non-violence to the world at unrest. Congratulations to Maulana Sahab, and to the CPS team for doing this great humanitarian/philanthropic work– that , in fact, is the need of the hour. I will give these brochures to Islamic libraries here in Asmara- so that this message of peace should reach to maximum people.
(Dr. M. Ashaq Malik, Assistant Professor & Director of Research, Eritrea Institute of Technology, Africa)
7-سائی انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 23 جنوری 2008 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں کیندریہ نوودیہ ودّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اس کا موضوع تھا— اسلام میں انسانی اقدار کا بنیادی تصور۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اورموضوع کے مطابق، قرآن اور حدیث کی روشنی میں آدھ گھنٹے تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اِس موقعے پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ٹیم کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ انھوں نے حاضرین کے درمیان انگریزی میں چھپے ہوئے خوب صورت پمفلٹ اور بروشر تقسیم کیے۔
8-25 January, 2008
I would like to inform you that yesterday night I was changing channels of my tv and on ETV Urdu I saw you and stopped there I attracted to your personality. I went on watching and listening to your program until it finished. I was really impressed by your intellectual conversation and noted your website from where I got your email address when I arrived at my office.
On website I read your brief life sketch and observed Almighty Allah has blessed you to work for the peace and harmony among the human beings. Masha'Allah, it is a great blessing.
I would request you to kindly keep me in your prayers and would like to seek guidance from your goodself for better life here and after. (K. B. Shakir, Karachi, Pakistan)
9-الرسالہ جون 2007 کے شمارے میں شائع ایک مضمون کے خلاف پورے دو ماہ بعد اگست 2007 میں سری نگر میں بعض واعظین، ائمہ مساجد اور دانشوروں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا۔ذاتی طورپر اگرچہ مجھے آپ کی ہر تحریر سے مجموعی طور پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے لیکن اس بار میں خود بھی سخت کنفیوژن کا شکار ہوگیا تھا کہ ایک طرف قرآن وحدیث کے گہرے مطالعہ وتحقیق کے بعد مجھے الرسالہ کی تحریروں میں آج تک کوئی قابل اعتراض اور خلاف اسلام بات نظر نہیں آئی ہے۔الرسالہ ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے میرے اندر دینی شعور بخشا، دعوت و تبلیغ کا جذبہ ابھارا، مطالعہ و تحریر کی تحریک دی اور اسلام کو از سرِ نو دریافت کرنے کا ذوق پیدا کیاہے۔ لیکن دوسری طرف اس بار یہ بات میرے قلب و ذہن کو اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی کہ لوگ الرسالہ کی کیوں اتنی زیادہ مخالفت کررہے ہیں۔میں اسی ذہنی کشمکش میں تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ کاش کسی بڑے اور معتبر عالم دین سے معلوم ہوجائے کہ الرسالہ کے بارے میں وہ کیا رائے رکھتا ہے۔ لیکن بظاہر ہندستان میں اس طرح کا کوئی قابل اعتماد عالم دین میری نظر میں نہیں تھا کہ جس سے میں خط کے ذریعے الرسالہ کے بارے میں اس کی رائے دریافت کرتا اور وہ بھی خدا ترسی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار فرماتا۔
اس طرح میں اسی اضطراب وبے چینی میں مبتلا تھا کہ10 اگست2007 کو میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ہمارے گھر میں تشریف فرما ہیں۔ چہرے پر خاص بشاشت نمایاں طورپر نظر آرہی ہے، آپ کمرے کے ایک طرف تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف آپ کے مقابل میں ہندستان کے مایہ ناز اور ممتاز عالمِ دین مولانا ابو الکلام آزاد تشریف فرما ہیں۔ چوں کہ میں ذاتی طورپر مولانا ابو الکلام آزاد اور آپ سے بہت زیادہ متاثر ہوں او راستفادہ بھی بہت کیا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں میں صرف آپ کو امت مسلمہ کا حقیقی اور واحد قائد اور رہنما مانتا ہوں۔ اس لحاظ سے آپ کو اور مولانا آزاد کو ایک ساتھ خواب میں دیکھنا میرے لیے بہت اچھا اور نیک شگون تھا۔ میرے گھر میں میرے سوا دوسرے افراد بھی تھے لیکن وہ سب آپ کی طرف متوجہ تھے اور آپ کی نصیحت سے لبریز باتوں کو توجہ سے سن رہے تھے۔ چناں چہ میں اس وقت موقع غنیمت جانتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد سے الرسالہ
اور آپ کے بارے میں دریافت کرنے لگا۔ مولانا آزاد نے مسکراتے ہوئے مجھے سے قلم اور کاغذ لانے کے لیے کہا، میں نے یہ دونوں چیزیں حاضر کردیں۔ مولانا آزاد نے بڑے اچھے اور خوشگوار موڈ میں ایک پورا صفحہ لکھ کرمجھے دیا۔ میں نے اس تحریر کو دیکھے بغیر پہلے آپ کو پڑھنے کے لیے دے دیا۔ آپ اس تحریر کو پڑھ رہے تھے اور مسکراتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اس دوران میں محسوس کررہا تھا کہ مولانا آزاد نے جس عقیدت ومحبت کے ساتھ اس تحریر کو لکھا اور آپ نے جس اطمینان وتسکین کے ساتھ اس کو پڑھا اس سے یہی سمجھ میں آرہا تھا کہ مولانا آزاد نے آپ کے اور الرسالہ کے بارے میں ضرور مثبت رائے کا اظہارفرمایا ہوگا۔ اس کے بعد میں نے چاہا کہ میں بھی اس تحریر کو پڑھوں لیکن میں اس تحریر کو پڑھے بغیر نیند سے جاگ گیا۔
میں نے پھر اپنے طورپر جب اس خواب پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ الرسالہ کوئی عام پرچہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی نوعیت کا پورے عالم اسلام میں واحد پرچہ ہے اور اصولی طور پر تمام علماء ربانی اس سے متفق ہیں اور اس سے انھیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک دفعہ مولانا عبد الباری ندوی مرحوم نے بھی آپ کے متعلق کہا تھا کہ آپ جدید طبقہ کے لیے مبعوث ہیں بلا شبہ بات درست ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مخالفین کی طرف سے ہر طرح کی بہتان طرازی والزام تراشی اور کردار کشی ودشنام طرازی کے باوجود الرسالہ مشن اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے اور آپ کی تحریریں جو قرآن وحدیث کی صحیح تعبیر وتشریح پر مبنی ہیں، شائع ہور ہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و بصیرت کے سب سے اونچے منصب پر فائز فرمایا ہے۔ کیوں کہ خصوصاً آج کل الرسالہ میں جو تحریریں شائع ہوتی ہیں وہ بہت زیادہ ذہانت کی پختگی اور قرآن وحدیث پر زیادہ گہرے غور وفکر کی عکاسی کرتی ہیں۔
میں اپنے اس خط کے ذریعہ کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے فکر ونظر سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں اور اسی جذبہ خلوص و محبت کے تحت میں نے یہ خط لکھا ہے (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر،26 جنوری 2008)۔
10-28 January 2008
Maulana please accept my gratitude on giving me the actual face of Islam which was always in my mind. Luckily I was not reading religious books so I couldn't develop those kind of two great evils namely, bias and rigidness. Where I am working a friend of mine introduced your literature and the only thing that came out of my mind was that this is the actual face of Islam. I feel so fortunate that Allah has guided me through you. You are the real and only scholar of Islam in my view. May Allah succeed your sincere efforts of spreading Islam in its real form. (Waseem Nasir)
11 -یکم فروری 2008 کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا ایک وفد اسلامی مرکز میں آیا۔ یہ مختلف مغربی ملکوں کے لوگ تھے۔ یہ ایک درجن افراد تھے۔ اُن میں سے چند افراد کے نام یہ ہیں:
Linda Shehy, Rachel Gould, Inger Thoresen, Gill Bleaden, Pat Bartlett.
ِیہ لوگ مذاہب کے مطالعے کے لیے انڈیا آئے ہیں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے وہ صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ اِن لوگوں سے اسلام کے مختلف موضوعات پر ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو ہوئی۔ انھوں نے بہت دھیان کے ساتھ تمام باتوں کو سنا۔ آخرمیں اُنھیں انگریزی میں اسلامی لٹریچر دیاگیا۔ اِس کو انھوں نے بہت شوق سے لیا۔ انھوں نے کہا کہ آج اسلام کے بارے میں ہماری بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔