مواقع کی دنیا
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا 14) ستمبر 2007 ( میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اِس رپورٹ کو یہاں صفحے کے نیچے درج کیا جارہا ہے۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے ایک مسلمان عظیم ہاشم پریم جی اِس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند مسلمان ہیں۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ’’ہندو انڈیا‘‘ میں ہوا، جہاں کے بارے میں عام طورپر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
Premji richest Muslim tycoon
New York: India’s software czar Azim Premji now has a new nomenclature – the world’s richest Muslim entrepreneur – as he holds more wealth than any other Muslim outside the Persian Gulf royalty, a US media report said. Financial daily ‘Wall Street Journal’ has written a front-page profile on chairman of India’s third largest IT exporter Wipro, saying Premji defies all the conventional wisdom about Islamic tycoons – he does not hail from the Persian Gulf, did not make his money in petroleum, and does not wear his faith on his sleeve. “Premji has tapped India’s abundant engineering talent to transform a family vegetable-oil firm, Wipro, into a technology and outsourcing giant. By serving Western manufactures, airlines and utilities, the company has brought Premji a fortune of some $17 billion,” the report said. Premji is ahead of Russia’s metal and real estate baron Suleman Kerimov ($14 billion), Kuwait’s Nasser Kharafi ($11 billion), Saudi Arabia’s Mohammad Amoudi ($8 billion), UAE’s Abdulaziz Ghurair ($8 billion), Russia’s Iskander Mahmudov ($8 billion), Saudi’s Maan Sanea ($7.5 billion) and Saudi’s Suleiman Rajhi ($7.5 billion) among the richest Muslim entrepreneurs. The daily quoted Premji in the report titled, “How a Muslim Billionaire Thrives in Hindu India” as saying that such success shows globalization is turning into “two-way traffic” that can bring tangible benefits to developing countries. “We have always seen ourselves as Indian. We’ve never seen ourselves as Hindus, or Muslims, or Christians or Budhists,” Premji said.
(The Times of India, New Delhi, September 14, 2007, P. 25)
عظیم ہاشم پریم جی کے اِس واقعے پر غور کیجیے تو اِس سے ایک بہت بڑی حقیقت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ انفرادی واقعہ ایک عالمی قانون کو بتا رہا ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا مواقع (opportunities) کی دنیا ہے۔ اِس دنیا میں مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں ختم نہیں ہوتے۔ کو ئی بھی شخص یا گروہ اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو بدل سکے، یا وہ اس قانون کو منسوخ کردے۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ وہ قرآن کی آیت کے مطابق، لا تبدیل لخلق اللہ)الروم: 30 ( کے عمومی حکم میں شامل ہے۔
عظیم ہاشم پریم جی نے اپنے انٹرویو میں اِسی حقیقت کو اپنے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا ہے— اِس قسم کی کامیابی بتاتی ہے کہ گلوبلائزیشن دو طرفہ ٹریفک کا معاملہ ہے، یعنی اُس کا فائدہ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ، زیرترقی ممالک کو بھی پہنچ رہا ہے:
Such success shows globalization is turning into “two-way traffic” that can bring tangible benefits to develping countries.
موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اور مفکرین ایک مشترک غلطی کا شکار ہوئے۔ انھوں نے قدیم زمانے کی اصطلاحوں میں جدید زمانے کو سمجھنا چاہا، اِس بنا پر وہ دورِ جدید کی نوعیت کو سمجھنے میں مکمل طورپر ناکام رہے۔ انھوں نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو غلط رہ نمائی دی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے تمام مسائل اِسی غلط رہ نمائی کا نتیجہ ہیں، جن کو غیر واقعی طورپر ’’اَغیار کی سازش‘‘ کہاجاتا ہے۔
مومن کی ایک صفت حدیثِ رسول میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے زمانے کا جاننے والا ہوتا ہے (أن یکون بصیراً بزمانہ)۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما بصیرتِ زمانہ کا ثبوت نہ دے سکے، اِس کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کو رہ نمائی دینے کی کوشش کی جو بلاشبہہ درست نہ تھی۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس معاملے میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے اور ازسرِ نو اپنے معاملے کی صحیح منصوبہ بندی کی جائے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھیے تو موجودہ زمانے میں مسلم مسائل کا آغاز اُس دور سے ہوتا ہے جس کو عام طورپر نوآبادیاتی د ور کہا جاتا ہے۔ بعض مبصّرین نے اِس دورِ زوال کے آغاز کا تعین 1799 کیا ہے۔ اُن کے خیال کے مطابق، 1799 وہ سال تھا جب کہ مسلمانوں کا دورِ عروج ختم ہوکر اُن کا دورِ زوال شروع ہوگیا۔ اِس تاریخ کے تعین میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اصل واقعے کے بارے میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔
قدیم نَوآبادیاتی دور کو ہمارے رہ نما یورپین امپیریل ازم (European emperialism) کا نام دیتے ہیں اور بیسویں صدی کے نصف آخر میں امریکا کے عروج سے جو صورتِ حال پیدا ہوئی، اُس کو امریکی ایمپیریل ازم (American emperialism) کہاجاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں غلط تسمیہ (wrong nomenclature) کا کیس ہے، اور یہ غلط تسمیہ اِس لیے وجود میں آیا کہ لوگ زمانی بصیرت کی روشنی میں اِس معاملے کو نہ دیکھ سکے۔
میں کہوں گا کہ ایمپیریل ازم زرعی دورِ سیاست کی اصطلاح ہے، آج کے حالات کے مطابق یہ اصطلاحیں منطبق نہیں ہوتیں۔ قدیم زمانے میں اِس طرح کے واقعات توسیعِ بادشاہت کے ہم معنیٰ ہوتے تھے، مگر موجودہ زمانے میں اِس طرح کے واقعات توسیعِ مواقع کے ہم معنیٰ ہیں۔ قدیم زمانے کی توسیعِ بادشاہت اصلاً یک طرفہ فوائد کے حصول کے لیے ہوا کرتی تھی، مگر موجودہ زمانے میں یہ توسیع، فوائد میں دو طرفہ حصے دار بننے کے لیے ہوتی ہے۔
اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ جدید صورتِ حال کو بتانے کے لیے ایمپریل ازم زیادہ صحیح لفظ نہیں ہے۔ اِس مقصد کے لیے زیادہ صحیح لفظ گلوبلائزیشن (globalization) ہے۔ یورپی نوآبادیات کا دورگویا کہ مِنی گلوبلائزیشن (mini-globalization) کا دور تھا،او ر نام نہاد امریکی ایمپریل ازم کا دور سُپر گلوبلائزیشن (super globalization) کا دور ہے۔ قدیم ایمپریل ازم زیادہ تر یک طرفہ فائدے کے لیے ہوتا تھا، مگر جدید گلوبلائزیشن دو طرفہ فائدے کے اصول پر مبنی ہے۔ مثالوں کے ذریعے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
قدیم امپیریل ازم کے زمانے میں بادشاہ لوگ بڑے بڑے قلعے اور بڑے بڑے محل بناتے تھے،وہ شاہانہ شخصیتوں کے بڑے بڑے مقبرے تعمیر کرتے تھے۔ اِس قسم کی چیزوں سے عملاً صرف شاہانہ طبقے کے لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا، عوا م کا اُس میں کوئی قابلِ ذکر حصہ نہ تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں گلوبلائزیشن کے تحت جو کام کیے جاتے ہیں، اُن کا فائدہ دونوں طبقوں کو مشترک طورپر پہنچتا ہے۔
مثال کے طورپر یورپی نَوآبادیات کے زمانے میں وسیع پیمانے پر انڈیا میں ریلوے لائن بچھائی گئی۔ ہمارے لیڈروں نے اِس ریلوے لائن کو لوہے کی غلامانہ زنجیر بتایا، مگر یہ بلاشبہہ مبالغہ تھا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ اِس ریلوے لائن سے ایک طرف برطانی حُکم رانوں کو یہ فائدہ ملا کہ وہ اپنے فوجیوں اور اپنے سامانِ تجارت کو ایک حصے سے دوسری طرف منتقل کرسکتے تھے۔ لیکن دوسری طرف، ملکی باشندوں کو اِس سے یہ فائدہ ملا کہ اُن کے لیے ملک میں، ہر طرف سفر کرنا آسان ہوگیا۔ اِس سفری سہولت سے ملکی باشندوں کو عظیم فائدے حاصل ہوئے۔
یہی معاملہ موجودہ گلوبلائزیشن کا ہے۔ اِس گلوبلائزیشن کے زمانے میں غیر ملکی کمپنیوں نے، براہِ راست یا بالواسطہ طورپر، موبائل کی انڈسٹری قائم کی۔ اِس کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ غیر ملکی تجارتی اداروں کو مالی فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ لیکن دوسری طرف، ملک کے باشندوں کو تاریخ میں پہلی بار ٹیلی کمیونکیشن (tele-communication)کا ذریعہ حاصل ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کے کاروبار بہت زیادہ پھیل گیے۔ تجارتی فوائد کی یہ توسیع ہمارے ملک کے لیے ایک ایسی نعمت ثابت ہوئی جو اِس سے پہلے کبھی اُنھیں حاصل نہ تھی۔