اسلام کی سیاسی تعبیر

پانچ ستمبر 2007کو تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی ایک نمایاں خبر یہ تھی کہ پاکستان کے عسکری شہر راول پنڈی میں دو بم پھٹے۔ اِس کے نتیجے میں پچیس آدمی مر گیے اور ستر آدمی زخمی ہوئے۔ بقیہ نقصانات اِس کے علاوہ ہیں۔ اس کو دیکھ کر ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ پاکستان، اسلام کے نام پر بنایاگیا تھا، پھر وہاں اتنا زیادہ تشدد کیوں ہے۔ 1947 میں پاکستان بننے کے بعداُس کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کو کراچی کی سڑک پر گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک وہاں مسلسل تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا کیوں ہے۔

میں نے کہا کہ اکثر یہ کہا جاتاہے کہ پاکستان، اسلام کے نام پر بنا، مگر صحیح بات یہ ہے کہ پاکستان پولٹکل اسلام کے نام پر بنا، اور اسلام اور پولٹکل اسلام میں اتنا ہی دوری ہے جتنا کہ گاندھی اور دہشت گرد گاندھی میں۔

موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں ٹررازم کے خلاف تقریر یں ہورہی ہیں۔ امریکا نے جارج بش سینئر اور جارج بش جونئر کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی فوجی کارروائی کی، لیکن ٹررازم کو ختم کرنے کے معاملے میں یہ فوجی کارروائی مکمل طورپر ناکام رہی۔ میں نے اِس کارروائی سے پہلے پیشگی طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ موجودہ ٹررازم کا معاملہ گَن ورسز گن (gun vs gun) کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک آئڈیا لوجی کا معاملہ ہے اور اس کا مقابلہ کاؤنٹر آئڈیالوجی(counter ideology) ہی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ میں نے نئی دہلی کے اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ کو اِس معاملے میں ایک انٹرویو دیا تھا۔ یہ انٹرویو مذکورہ اخبار کے شمارہ 16 ستمبر 2001 میں اِس عنوان کے تحت چھپا تھا کہ— امریکا کی متشددانہ کارروائی، اُس کے خلاف صرف الٹا نتیجہ ثابت ہو گی:

US Aggression would be counter-productive.

مگراب تمام لوگ اِس کا اعتراف کررہے ہیں کہ عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی ایک واضح غلطی تھی۔ برطانیہ کے سابق جنرل مائک جیکسن(Mike Jackson) نے کہا کہ امریکا کا یہ فوجی اقدام ایک ذہنی دیوالیہ پن (intellectual bankruptcy) کے ہم معنیٰ تھا (ٹائمس آف انڈیا، 4 ستمبر 2007)۔

یہ معاملہ بہت زیادہ غور و فکر کا معاملہ ہے۔ یہاں خاص طورپر ہم کو یہ سمجھنا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اتنا زیادہ تشدد کیسے آگیا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اتنے زیادہ تشددپسند کیوں ہوگیے کہ اب وہ اُس کی آخری حد پر جاکر جگہ جگہ خود کُش بم باری (suicide bombing) کرنے لگے۔ میرے نزدیک، اِس تشدد پسندی یا لوگوں کے دیے ہوئے نام کے مطابق، ٹررازم کی ذمّے داری صرف اُن مسلم گروہوں تک محدود نہیں ہے جو براہِ راست طورپر اِس میں ملوّث ہیں۔ کیوں کہ راقم الحروف کے واحد استثنا کو چھوڑ کر، پوری مسلم دنیا میں غالباً کوئی بھی قابلِ ذکر عالمِ دین یا رہ نما نہیں جو کھلے طورپر اِس کو غیر اسلامی فعل بتائے۔ اِس لیے اسلامی اصول کے مطابق، اگر کچھ تشدد پسند مسلمان اِس میں براہِ راست طورپر شریک ہیں تو بقیہ لوگ اِس میں بالواسطہ طورپر شریک ہیں۔

یہاں یہ سوال ہے کہ مسلمانوں میں یہ تشدد پسندی کیسے آئی اور کیسے وہ اتنا زیادہ پھیل گئی کہ ساری مسلم دنیا میں راقم الحروف کو چھوڑ کر کوئی بھی کھُلے طورپر اِس کی مذمت کرنے والا نہیں۔ میرے مطالعے کے مطابق، اِس کا سبب نہایت گہرا ہے۔ اِس کے پیچھے ماضی کی تقریباً ہزار سالہ تاریخ کی روایات ہیں۔ اُس کو جب تک گہرائی کے ساتھ سمجھا نہ جائے، اِس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ یہاں ہم پوری تاریخ کے پس منظر میں اِس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سوچنے کا جو فریم ورک دیا تھا، وہ غیر سیاسی فریم ورک (non-political framework) تھا۔ لیکن بعد کو لوگوں میں سوچ کا سیاسی فریم ورک (political framework)رائج ہوگیا۔ یہی اِسمعاملے کی اصل جڑ ہے۔

واقعات بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا تو وہاں کے سرداروں نے آپ کی شخصیت سے متاثر ہوکر، آپ کو یہ پیش کش کی کہ اگر آپ بادشاہی چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنے اوپر بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں (إن ترید مُلکًا، ملّکناک علینا) آپ نے جواب دیا کہ نہیں (ما أطلب الملک علیکم)۔ میں اِس کام کے لیے تمھارے پاس نہیں بھیجا گیا ہوں (ما بِہٰذا بُعثت إلیکم):

I have not been sent to you for this purpose.

اِس سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا نشانہ، سیاسی اقتدار نہیں تھا۔ پھر آپ کا نشانہ کیا تھا۔ اِس کا جواب قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی یہ آیت اِس کا جواب ہے: یأیّہا المدّثر، قُم فأنذر (المدثر: 1-2)۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کا نشانہ اِنذار تھا، یعنی خدا کے تخلیقی پلان سے انسان کو آگاہ کرنا۔ سیرتِ رسول کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کی پوری زندگی کا محور یہی دعوتی نشانہ تھا۔ یہ مکمل طورپر ایک غیر سیاسی نشانہ ہے۔ اُس کو خالص غیر سیاسی انداز میں اور پوری طرح پُرامن طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا یہ فکر ایک عرصے تک امت میں رہا، پھر دھیرے دھیرے اِس میں انحراف آگیا، یہاں تک کہ غیر سیاسی اسلام بدل کر سیاسی اسلام بن گیا۔ موجودہ زمانے میں ہم اِس انحراف کی آخری صورت دیکھ رہے ہیں۔

اِس معاملے کو مزید سمجھنے کے لیے ایک حدیث کا مطالعہ کیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت، الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ، حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: عن عائشۃ قالت: سأل رجلٌ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم، أیّ الناس خیر۔ قال: القرن الذی أنا فیہ، ثمّ الثانی، ثمّ الثالث۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا کہ بہتر لوگ کون ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ دَور جس کے اندر میں ہوں۔ اس کے بعد دوسرا دَور، اور اس کے بعد تیسرا دَور (صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ)۔

یہ تین دور امت میں ’قرون مشہود لہا بالخیر‘ تسلیم کیے گیے ہیں۔ پہلا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے، دوسرا دور صحابہ کا دور ہے، اور تیسرا دور تابعین کا دور۔ اِن تین دوروں کو عہد ِرسالت، عہد ِ خلافتِ راشدہ اور عہد ِ بنو امیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اِن تینوں دوروں کی تاریخی ترتیب یہ ہے:

1-عہدِ رسالت: 610-632 ء

2-عہدِ خلافتِ راشدہ: 632-661 ء

3-عہد ِبنو اُمیّہ:661-750 ء

4-عہدِ بنو عبّاس: 750-1258 ء

پہلے تینوں دَور میں عربوں کا غلبہ تھا۔ عرب لوگ وہ تھے جن کو براہِ راست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہدایت ملی تھی اور اُن کو کم و بیش آپ کی تربیت حاصل ہوئی، لیکن چوتھے دورمیں مسلم سماج او رمسلم تنظیمات پر ایرانیوں کا غلبہ ہوگیا۔ ایرانی وہ لوگ تھے جنھوں نے براہِ راست پیغمبر اسلام سے تربیت حاصل نہیں کی تھی، یہی عباسی دور، جس میں ایرانیوں کا غلبہ ہوگیا تھا، اِسی دورمیں تمام فکری انحرافات شروع ہوئے، اور ان کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

وہ تمام کتابیں جن کو اسلامی کتب خانہ کہاجاتا ہے، وہ تقریباً سب کی سب اِس عباسی دور میں تیار کی گئیں۔ اِس دور میں اسلام، کم و بیش، ایک پولٹکل اسلام بن چکا تھا۔ دعوت کا عمل اب بھی خود اپنی طاقت پر جاری تھا، لیکن فکری اعتبار سے دعوت کا تصور تقریباً غیر موجود ہوگیا تھا۔ اِس کا اثر بعد کی تمام کتابوں پر پڑا۔

مثلاً قرآن کو آپ کسی تفسیر کے بغیر پڑھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ قرآن مکمل طورپر ایک دعوتی کتاب ہے۔ایک عالمِ کے الفاظ میں، قرآن اِنذار اور تبشیر کی سرگذشت ہے، لیکن اگر آپ قرآن کی تفسیروں کو پڑھیں تو آپ کے ذہن میں یہ نقشہ بالکل بدل جائے گا۔ مثلاً دعوت کا پہلو قرآن کا سب سے اہم پہلو ہے، لیکن تمام تفسیروں میں قرآن کا یہی پہلو گُم ہوگیا ہے۔ مثلاً صبر، اعراض اور تالیف ِ قلب دعوت کے اہم اجزا ہیں، لیکن قرآن کی موجودہ تفسیروں میں اِن دعوتی اجزاکے بارے میں کہاگیا ہے کہ جہاد کی آیتیں اترنے کے بعد یہ چیزیں منسوخ ہوگئیں۔

یہی معاملہ حدیث کے ساتھ پیش آیا۔ حدیث حقیقت میں ایک پیغمبر داعی کا کلام ہے۔ حدیث میں دعوت کے تمام اجزا موجود ہیں، لیکن ذہنی شاکلہ بدل جانے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ علماء نے حدیث کی جو کتابیں مدوّن کیں، اُن میں انھوں نے دعوت کا باب سرے سے قائم نہیں کیا۔ حدیث کے مجموعوں میں آپ ’کتاب الصلاۃ‘، ’کتاب الجہاد‘ جیسے عنوانات پائیں گے، لیکن حدیث کے کسی بھی مجموعے میں آپ کو ’کتاب الدعوۃ والتبلیغ‘ نہیں ملے گا۔

یہی معاملہ فقہ کے ساتھ بھی پیش آیا۔ فقہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئیں۔ یہاں تک کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ اسلام کی تمام تعلیمات فقہ کی کتابوں میں آگئی ہیں، اسلام کو سمجھنے کے لیے فقہ کی کتابوں کا مطا لعہ کافی ہے۔ لیکن ذہنی شاکلہ بدل جانے کی وجہ سے یہاں بھی یہ حادثہ پیش آیا کہ فقہ کی کسی بھی کتاب میں ’کتاب الدعوۃ، والتبلیغ‘ شامل نہ ہوسکا۔ فقہ کی کتابوں میں آپ کو ہر قسم کے ابواب تفصیل کے ساتھ ملیں گے، لیکن دعوت اور تبلیغ کا باب فقہ کی کسی بھی کتاب میں نظر نہ آئے گا۔

مدون کتابوں کے علاوہ، دوسری جو کتابیں اسلام کے موضوعات پر لکھی گئیں، اُن کا بھی یہ حال ہے کہ اُن میں دعوت الی اللہ کا باب سرے سے موجود نہیں۔ مثلاً الغزالی کی ’احیاء علوم الدین‘، ابن تیمیہ کی ’کتاب النّبوات‘، شاہ ولی اللہ کی ’حجۃ اللہ البالغۃ، وغیرہ کا نام اِس معاملے میں بطور مثال لیا جاسکتا ہے۔ ابن ِ تیمیہ نے شتمِ رسول کے مسئلے پر ’الصّارم المسلول علی شاتمِ الرسول‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تیار کردی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی اُسوہ کو لے کر وہ کوئی کتاب نہ لکھ سکے، نہ پچھلے اَدوار میں کسی اور عالم نے اِس موضوع پر کوئی اور کتاب لکھی۔

عباسی دور میں اسلامی فکر میں یہ انحراف آیا کہ نان پولٹکل اسلام لوگوں کی اپنی تعبیرات کے نتیجے میں پولٹکل اسلام بن گیا۔ اِس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دوسری قوموں کو اپنا غیر سمجھنے لگے۔ حالاں کہ یہ دعوتی اسپرٹ کے سرتاسر خلاف تھا۔ قرآن کو آپ پڑھیے تو اُس میں بار بار ’الانسان‘ اور ’النّاس‘ کا ذکر ملے گا۔ گویا قرآن کے نزدیک ساری دنیا انسانوں کی دنیا ہے، ساری دنیا ’دار الانسان‘ کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی مسلم بھی انسان اور بقیہ لوگ بھی انسان۔

یہی صحیح اسلامی ذہن ہے، لیکن عباسی دور میں جو فقہ بنی، اُس نے یہ کیا کہ دنیا کو بطور خود دو طبقوں میں بانٹ دیا— دار الاسلام اور دار الحرب۔ دار الاسلام سے مراد وہ علاقہ تھا جہاں مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو۔ اور دار الحرب سے مراد وہ علاقہ، جہاں غیر مسلم آبادہوں اور جن سے مسلمان امکانی طورپر برسرِ جنگ (potentially at war) ہوں۔ یہ تقسیم بلاشبہہ بے اصل تھی، لیکن وہ اتنا عام ہوئی کہ وہ مسلم فکر کا جُز بن گئی۔ اِس فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ وسیع تر انسانیت، مسلمانوں کو غیر دکھائی دینے لگی، وسیع تر انسانیت اُن کا کنسرن نہ رہی۔ اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ دعوت کا ذہن مسلمانوں سے تقریباً معدوم ہوگیا۔دعوت ہمیشہ انسان کی خیر خواہی کے جذبے سے اُبھرتی ہے۔ اور جن لوگوں کے اندر انسان کی خیر خواہی نہ رہے، وہ انسان کے اوپر دعوت کا عمل بھی نہیں کریں گے۔

پولٹکل طرزِ فکر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک منفی طرزِ فکر ہے۔ اُس کا نتیجہ ہمیشہ تفریق کی صورت میں نکلتا ہے۔ پولٹکل ایکٹوزم کا نتیجہ کبھی مثبت صورت میں نہیں نکلا ہے اور نہ کبھی اس کا نتیجہ مثبت صورت میں نکل سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پولٹکل ایکٹوزم کو اسلام میں تقریباً حرام کا درجہ دے دیا۔ اِس سلسلے میں جو احادیث آئی ہیں، اُن کے مطابق، مسلمانوں کے لیے صرف یہی ایک انتخاب ہے کہ وہ غیر سیاسی میدان میں پُر امن دعوہ ورک کریں۔ سیاسی ٹکراؤ یا سیاسی اپوزیشن جیسی چیزیں اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کا مضمون ’جہاد اسلامی تاریخ میں ‘ مطبوعہ: ماہ نامہ الرسالہ، مارچ2008 (

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو اپنی پولٹکل سوچ کا بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دورِ جدید کے ایک عظیم امکان سے بالکل بے خبر رہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ یہ عظیم امکان غیرسیاسی میدان میں تھا، اور موجودہ زمانے کے مسلم علما اور رہ نما اپنے سیاسی ذہن کی بناپر اِس جدید تبدیلی کو سمجھ ہی نہ سکے۔ دوسری قوموں نے اِس جدید امکان کو سمجھا اور اس کو استعمال کیا، لیکن مسلمان اُس سے بالکل فائدہ نہ اٹھا سکے۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی بے شعوری کی بنا پر سیاست کی چٹان پر اپنا سر پٹکتے رہے اور یک طرفہ طورپر صرف اپنے نقصان میں اضافہ کرتے رہے— اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس پورے معاملے پر نظر ثانی کرکے نئے حالات میں دعوت الی اللہ کے کام کی از سرِ نو منصوبہ بندی کی جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom