مسئلے کا حل
ایک بار میں یورپ کے ایک شہر میں گیا۔ وہاں میں ایک عرب نوجوان کے ساتھ مقیم تھا۔ وہ یہاں سیاسی پناہ(political asylum) کے تحت رہتے تھے۔ انھوں نے ایم اے کرنے کے بعد تعلیم چھوڑ دی تھی۔ میں نے اصرار کیا کہ وہ ڈاکٹریٹ بھی ضرور کریں۔ چناں چہ انھوں نے وہاں کی ایک یونی ورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے اپنا رجسٹریشن کروالیا۔
کچھ عرصے بعد دوبارہ مجھے اس مغربی شہر میں جانا پڑا۔ وہاں میں مذکورہ عرب نوجوان کے ساتھ مقیم تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹریٹ کے لیے انھوں نے ریسرچ کا کام شروع کیا تھا، لیکن اب وہ چھوٹ گیا ہے۔ اب وہ مزید تعلیم کا کام نہیں کررہے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ ایک عرب خاتون کے ساتھ انھوں نے شادی کی ہے۔ یہ عرب خاتون انگریزی زبان بالکل نہیں جانتیں۔ اِس بنا پر وہ یہاں باہر کاکوئی کام نہیں کرسکتیں۔ چناں چہ گھر کے سارے کام مجھ کو کرنے پڑتے ہیں۔
میں نے سخت انداز میں ان کو نصیحت کی۔ میں نے کہا کہ تعلیم کو چھوڑنے کے لیے یہ کوئی عذر نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ تعلیم جاری رکھیں، بقیہ مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔ میں نے اُن کو زندگی کا یہ فارمولا بتایا کہ— مسئلے کو حل نہ کرنا بھی مسئلے کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے:
Not to solve the problem, is also a way of salving the problem.
کچھ عرصے بعد تیسری بار مجھے اُس مغربی شہر جانے کا اتفاق ہوا۔ مذکورہ عرب نوجوان نے خوشی کے ساتھ بتایا کہ میں نے آپ کے بتائے ہوئے فارمولے پر عمل کیا، اور اب میری بیوی بقدر ضرورت انگریزی بولنا سیکھ گئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مجبورانہ صورتِ حال(compulsive situation) بھی مسئلے کو حل کرنے کی ایک کامیاب صورت ہے۔ مجبورانہ صورتِ حال اپنے آپ آدمی کے لیے ایک طاقت ور معلم بن جاتی ہے۔