سوال و جواب

سوال

علما اور فقہا عام طورپر یہ مانتے ہیں کہ اسلامی شریعت کے مصادر چار ہیں— قرآن، سنّت، اجماع، قیاس۔ آپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسلامی شریعت کے مصادر چار نہیں ہیں، بلکہ اصلاً وہ تین ہیں— قرآن، سنّت اور اجتہاد۔ اِس کا ماخذ کیا ہے۔ براہِ کرم اِس کی وضاحت فرمائیں۔ (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)

جواب

میں نے جو کچھ لکھا ہے، اُس کا ماخذ قرآن ہے۔ یہ ایک بے حد بنیادی مسئلہ ہے کہ شریعت کے مصادر کیا ہیں۔ اِس سوال کا جواب صرف وہی درست ہوسکتا ہے جو قرآن سے ثابت ہوتا ہو۔ قرآن سے کم درجے کا استدلال اِس معاملے میں معتبر نہیں۔

شریعت کے تین مصادر ہونے کی بات قرآن کی اِس آیت سے براہِ راست طورپر نکل رہی ہے: أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول، وأولی الأمر منکم (النّساء: 59)۔ اِس آیت میں سب سے پہلے اللہ کی اطاعت کا ذکر ہے۔ اِس کا ماخذ بلا شبہہ قرآن ہے۔ اِس کے بعد اِس آیت میں اطاعتِ رسول کا ذکر ہے۔ اس کا ماخذ متفقہ طورپر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔ اس کے بعد اِس آیت میں تیسرے ماخذ کے طورپر أولی الأمر کا ذکر کیا گیا ہے۔

اُولوالامر (اصحابِ امر) کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔وہ قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 4 میں کہاگیا ہے کہ اپنے معاملات کے لیے اصحابِ امر سے رجوع کرو، تاکہ وہ استنباط کرکے تم کو رہ نمائی دے سکیں (النساء: 83)

سوال

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اوراپنے اولو الامر کی اطاعت کرو (النساء: 59)۔ اِس آیت میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’اولوالامر‘ کی اطاعت سے کیا مراد ہے (محمد مصطفی عمری، نئی دہلی)۔

جواب

اولوالامر کا لفظی مطلب ہے: اصحاب امر، یعنی وہ لوگ جن کے اوپر مسلمانوں کے امورِتنظیم کی ذمے داری ہو۔ اِس آیت میں اولوالامر سے مراد کوئی وقتی گروہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا گروہ ہے جو ہر زمانے میں مسلمانوں کے درمیان موجود رہتا ہے۔ دنیوی اعتبار سے مسلمانوں کی جماعت دو قسم کے حالات میں ہوسکتی ہے۔ ایک، وہ جب کہ سیاسی حاکم موجود ہو۔ اور دوسرے وہ جب کہ مسلمانوں کی جماعت موجود ہو، لیکن وہاں سیاسی اعتبار سے کوئی مسلم حاکم موجود نہ ہو۔ اولوالامر کے شرعی معاملے کا تعلق حالات کے مطابق، دونوں قسم کی صورتِ حال سے ہے۔

ایسے حالات میں جب کہ مسلمانوں کا اپنا سیاسی نظام ہو اور کوئی مسلم حاکم ان کے اوپر حاکمانہ حیثیت رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں اِسی مسلم حاکم کو اولو الامر کا درجہ حاصل ہوگا۔ تمام مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اِس مسلم حاکم کی اطاعت کریں۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ اس کے خلاف خروج (بغاوت) نہ کریں۔

دوسری صورت وہ ہے جب کہ مسلم جماعت کے اوپر ان کا اپنا سیاسی حاکم نہ ہو۔ ایسی حالت میں علمائِ اسلام مسلمانوں کی دینی تنظیم کے ذمے دار ہوں گے۔ ان کو غیر سیاسی دائرے میں مسلمانوں کے اوپر ناظم کی حیثیت حاصل ہوگی۔ دوبارہ تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہوگا کہ وہ غیر سیاسی دائرے میں اِن علما کی اطاعت کریں۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ ان کی دینی رہ نمائی کو ترک نہ کریں۔ اِس کے بغیر مسلمانوں کی ترقی اور ان کی اجتماعی تنظیم ممکن نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom