امتیازی صلاحیت
حضرت علی بن ابی طالب (وفات: 661ء) اسلامی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت مانے جاتے ہیں۔ حکمت اور دانائی کے اعتبار سے اُن کا درجہ بہت بڑا ہے۔ ان کے اقوال اور ان کے خطبات پر مشتمل ایک مستقل کتاب تیار کی گئی ہے۔ اِس کتاب کا نام ’نہج البلاغۃ‘ ہے۔
حضرت علی بن ابی طالب کے اقوال میں سے ایک قول یہ ہے: قیمۃ المرء ما یُحسنہ۔ یعنی انسان کی قیمت اس کے امتیازی عمل میں ہے:
The value of a person lies in excellence.
یکساں قد کے انسانوں میں اگر کوئی شخص زیادہ اونچے قد کا ہو تو وہ دور سے لوگوں کو دکھائی دے گا۔ ایسا انسان فوراً لوگوں کی نظر میں آجائے گا۔ اِسی طرح جو شخص اپنے اندر کوئی امتیازی صفت رکھتا ہو، وہ فوراً لوگوں کو دکھائی دینے لگتا ہے۔ بہت جلد اُس کو لوگوں کے درمیان ممتاز مقام حاصل ہوجاتا ہے۔
امتیازی صفت اپنی کسی بالقوہ صلاحیت (potential) کو بالفعل(actual) بنانے کا نام ہے۔ ہر آدمی فطرت سے اپنے اندر کوئی اضافی صلاحیت (additional quality) لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اپنی اِس اضافی صلاحیت کو دریافت کیجیے، اور خصوصی محنت کے ذریعے اس کو ترقی دیجئے۔ اِس کے بعد آپ ایک امتیازی صلاحیت کے مالک ہوجائیں گے۔ اور جو شخص امتیازی صلاحیت کا مالک ہو، وہ اپنے آپ لوگوں کے درمیان قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک ممتاز آدمی ہے۔ لیکن یہ امتیاز ہمیشہ امکانی اعتبار سے ہوتا ہے۔ اِس امکان کو واقعہ بنانا انسان کا اپنا کام ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے فطری امکان کو پہچانے، اور اپنی پوری توانائی کو صرف کرکے اِس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنائے۔ اِسی عمل میں کسی انسان کی امتیازی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ اِسی عمل میں ناکام ہونے کا نام ناکامی ہے، اور اِسی عمل میں کامیاب ہونے کا نام کامیابی۔