اعتراف یا سرکشی

حضرت علی بن ابی طالب (وفات: 661 ء) کا قول ہے: اتّقِ شرَّ من أحسنتَ إلیہ (اُس آدمی کے شر سے بچو، جس کے ساتھ تم نے احسان کیا ہے)۔ اِسی طرح مشہور عرب شاعر المتنبّی (وفات: 965 ء) کا ایک شعر یہ ہے— اگر تم شریف آدمی کے ساتھ احسان کرو تو تم اس کو اپنا مملوک بنا لوگے، اور اگر تم ذلیل آدمی کے ساتھ احسان کرو تو وہ تمھارے مقابلے میں سرکش بن جائے گا:

إذا أنت أکرمتَ الکریمَ مَلَکتَہ وإنْ أنت أکرمتَ اللَّئیمَ تمرّدا

ایسا کیو ں ہوتا ہے۔ اِس کا سبب اعتراف کا معاملہ ہے۔ جب آپ ایک آدمی کے ساتھ کوئی سلوک کرے تو اِس کے بعد یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ آدمی اِس سلوک کو کس کے خانے میں ڈالے، وہ کس کو اُس کا کریڈٹ (credit) دے۔

ایسی صورتِ حال میں جب آدمی دینے والے کو اُس کا کریڈٹ دے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دینے والا اُس سے بڑا ہے اور وہ خود اُس سے چھوٹا ہے۔ یہ اپنے مقابلے میں دوسرے کی بڑائی کا اعتراف کرنا ہے۔ اِس قسم کا اعتراف آدمی کی انا (ego) سے ٹکراتا ہے۔ دوسرے کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ اِس قسم کا اعتراف کسی انسان کے لیے بلاشبہہ سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ اِس لیے آدمی کسی کے احسان کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

یہ بے اعترافی کسی حد پر نہیں رکتی، مزید آگے بڑھ کر وہ سرکشی بن جاتی ہے۔ آدمی اپنے محسن کا درجہ گھٹانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، تاکہ اس کی بے اعترافی لوگوں کو ایک معقول اورجائز فعل نظر آئے۔ سرکشی کی یہ قسم دراصل اپنی بے اعترافی کے جواز کے لیے ہوتی ہے، خواہ شعوری طورپر، یا غیرشعوری طورپر۔ ایسا آدمی بھول جاتا ہے کہ اعتراف سب سے بڑی نیکی ہے اور بے اعترافی سب سے بڑی بُرائی۔ اعتراف شریف آدمی کی پہچان ہے، اور بے اعترافی ذلیل آدمی کی پہچان۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom