عظیم ترین شہادت
شہادت کے لفظی معنٰی گواہی(witness) کے ہیں۔ شہادت، قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دعوت الی اللہ کہاگیا ہے۔ شہادت، واحد دینی عمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا کام (الصّف: 14) بتایا ہے۔
اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ تمام پیدا ہونے والے انسانوں کو ان کی موت سے پہلے بتادیا جائے کہ ان کے بارے میں خالق کا تخلیقی پلان (creation plan)کیا ہے۔ قبل از موت زندگی کیا ہے اور بعد از موت زندگی کیا ہے۔ اسی لیے اس کام کو قرآن میں اِنذار و تبشیر(الأحزاب: 45) کا کام قرار دیا گیا ہے۔
یہی وہ خاص کام ہے جس کے لیے خدا نے ہر زمانے میں اپنے پیغمبر بھیجے اور اب ختم ِ نبوت کے بعد یہی کام آپ کے امتیوں کو انجام دینا ہے۔ جو شخص انذار و تبشیر کے اس کام کو انجام دے وہ داعی ہے، اور جس کے اوپر اس کا م کو انجام دیا جائے وہ مدعو ہے۔ داعی اور مدعو کے اس تعلق کو قرآن میں شاہد اور مشہود (البروج: 3) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
دعوت یا شہادت کا یہ عمل انسان کی تخلیق کے آغاز ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ چناں چہ آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اس مقصد کے لیے ہر مقام پر او رہر زمانے میں پیغمبر آتے رہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے۔ اب کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں، لیکن پیغمبر کا دعوتی کام پیغمبر کے متبعین کے ذریعے بدستور باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔
تاہم تاریخی اعتبار سے اس دعوتی کام کے دو دور ہیں—قبل از سائنس دور اور بعد از سائنس دور۔ جدید سائنس کے ظہور سے پہلے دنیا میں توہمات (superstitions) کا غلبہ تھا۔ جدید سائنس نے پہلی بار اِس توہماتی دور کو ختم کیا۔ اس کے بعد دنیا میں عقلی طرزِ فکر کا دور آیا۔ اس اعتبار سے دعوتی عمل کے بھی دو مختلف ادوار ہیں۔ ایک، قدیم روایتی دور میں کیا جانے والا دعوتی کام اور دوسرا، جدید سائنسی دور میں کیا جانے والا دعوتی کام۔ جدید دورِ سائنس میں کیا جانے والا یہی دعوتی کام ہے جس کو حدیث میں عظیم ترین شہادت قرار دیا گیا ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدّجال)
دعوت یا شہادت کے اِس عظیم ترین کام کا ذکر خود قرآن میں بھی موجود ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 42 میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے دلائل ظاہر ہوں گے جن کے ذریعے حق کی تبیینِ اعلیٰ ممکن ہوجائے گی۔ اِس قرآنی آیت کا ترجمہ یہ ہے: عن قر یب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور خود انسانوں کے اندر بھی، یہاں تک کہ لوگوں پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ بلاشبہہ حق ہے (حمٓ السجدۃ: 53)۔
اوّل الذکر حدیثِ رسول میں بتایاگیا ہے کہ آخری زمانے میں جب کہ دجّالی فتنہ ظاہر ہوگا، ایک شخص اس کے مقابلے میں ’حَجیج‘ بن کر اٹھے گا۔ وہ دجّالی فتنے کو حجت اور دلیل (rational argument) کے ذریعے ختم کرے گا اور امرِ حق کو اعلیٰ ترین سطح پر مُبرہن کردے گا، اور یہ دعوتی کام اللہ رب العالمین کے نزدیک لوگوں کے اوپر امرِ حق کی اعلیٰ ترین شہادت کے ہم معنی ہوگا (ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین)۔
بظاہر اِس حدیث رسول میں ایک فرد (حجیج) کا ذکر ہے، لیکن اِس دنیا میں کوئی بھی بڑا کام ایک فرد کا ذاتی کارنامہ نہیں ہوتا۔ اصل یہ ہے کہ زمانے میں کچھ خصوصی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مواقع ہمیشہ لمبے تاریخی عمل کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں۔ اِس معاملے میں فرد کا حصہ یہ ہے کہ وہ اِن مواقع کو دریافت کرتا ہے اور منصوبہ بند انداز میں اُن کو استعمال کرتاہے۔ اِس طرح وہ چیز ظہور میں آتی ہے جس کو انقلاب کہاجاتا ہے۔ کوئی انقلاب کبھی بھی شخصی چمتکار کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ موجود مواقع کو دانش مندانہ انداز میں استعمال کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ دینی انقلاب کا بھی ہے اور یہی معاملہ سیکولر انقلاب کا بھی۔
اِس معاملے کی ایک سیکولر مثال انڈیا کے قومی لیڈر مہاتما گاندھی کی ہے۔ 1947میں انڈیا کو برطانیہ کے مقابلے میں جو سیاسی آزادی ملی، عام طورپر اُس کو مہاتما گاندھی کا کارنامہ بتایا جاتا ہے۔ اِس معاملے میں ایک مقبول نظم میں ایک شاعر گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
سابرمتی کے سنت، تونے کردیا کمال!
مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کی سیاسی آزادی، مہاتما گاندھی کا شخصی چمتکار نہ تھا، وہ دورِ جدید کے مواقع کو استعمال کرنے کا نتیجہ تھا۔ شہنشاہ اورنگ زیب (وفات: 1707) کے زمانے میں مرہٹہ لیڈر اورسکھ لیڈر اسی طرح کے سیاسی نشانے کو لے کر اٹھے، مگروہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے برعکس، مہاتما گاندھی برطانوی حکمرانوں کے مقابلے میں سیاسی مقصد کو لے کر اٹھے اور کامیاب ہوگئے۔ اِس فرق کا سبب زمانی فرق ہے۔ مہاتما گاندھی کو بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ ملا، جب کہ دنیا میں ڈیماکریسی، سیکولرازم، قومی خودمختاری، صحافتی آزادی، حقوقِ انسانی(human rights) کا زمانہ آچکا تھا۔ اِس تبدیلی کے نتیجے میں مہاتما گاندھی کو وہ زمانی حمایت حاصل ہوچکی تھی جو اورنگ زیب کے زمانے میں اٹھنے والے لیڈروں کو حاصل نہ تھی۔ مہاتما گاندھی نے اِن جدید مواقع کو استعمال کیا۔ اِس طرح وہ اپنے سیاسی مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہی معاملہ دینی انقلاب کا بھی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ تمام مورخین اِس کو بطور واقعہ تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی شخصی چمتکار کا معاملہ نہ تھا، بلکہ وہ زمانے کے موجود مواقع کو استعمال کرنے کا معاملہ تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے موجود مواقع کو دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا، اس کے نتیجے میں وہ انقلاب ظاہر ہوا جس کو ہم اسلامی انقلاب کہتے ہیں۔
یہ مواقع ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش (570 ء) سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے حضرات ابراہیم مکہ آئے، جو اُس وقت صرف ایک بے آب و گیاہ صَحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں انھوں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسا دیا۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ حدیث میں آیا ہے (صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء)۔
اِس طرح متمدّن شہروں سے دور صحرا کے اِس فطری ماحول میں ایک نسل بننا شروع ہوئی۔ یہ نسل، انسانی تہذیب کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ صحرا کے اس فطری ماحول میں تربیت پاکر ایک نئی قوم تیار ہوئی۔ ایک مستشرق نے بجا طور پر اس کو ہیروؤں کی قوم(a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔ یہی انوکھی قوم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا میدان بنی۔ پیغمبر کی تعلیم و تربیت کے ذریعے اِنھیں کے اندر سے صحابہ کا وہ استثنائی گروہ نکلا، جس کو قرآن میں خیرِ امت (آل عمران: 110)کہا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ساری دنیا پر مشرکانہ تہذیب کا غلبہ تھا۔ اِس ماحول میں پیدا ہونے والے ہر عورت اور مرد کا کیس کنڈیشننگ کا کیس بن چکا تھا۔ اِس کنڈیشننگ کی بنا پر وہ لوگ پیغمبر کے پیغام پر کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کے قابل نہ رہے۔ ڈھائی ہزار سال کی صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے نتیجے میں ایک نئی قوم پیدا ہوئی، جو آزادانہ طورپر سوچنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ قدیم اہلِ عرب کی یہی خصوصیت تھی جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ انھوں نے پیغمبر اسلام کی دعوت کو سمجھا اور اس کو دل وجان کے ساتھ قبول کرلیا۔ اِس طرح وہ انقلابی ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔
یہی تاریخ موجودہ زمانے میں ایک نئی صورت میں دہرائی گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں جو سائنسی انقلاب آیا، اُس کو مغربی مصنف جان فریڈرِک ویسٹ (John Fredrick West) نے اپنی کتاب میں عظیم ذہنی انقلاب (great intellectual revolution) کا ٹائٹل دیا ہے۔ زیر بحث موضوع کے اعتبار سے اِس انقلاب کو ڈی کنڈیشننگ کا ایک عظیم واقعہ(great event of de-conditioning) کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
جدید سائنسی انقلاب کا ایک پہلو، اس کا ٹکنکل پہلو ہے۔ اور اس کا دوسرا پہلو، اس کا فکری پہلو ہے۔ فکری پہلو کے اعتبار سے سائنس نے جو کارنامہ انجام دیا، وہ اپنی گہرائی اور وسعت کے اعتبار سے عالمی ڈی کنڈیشننگ (universal de-conditioning) کے ہم معنیٰ تھا۔ اِس کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مائتھا لوجی اور توہم پرستی(superstitions) کے زیر اثر سوچنے کا دور عملی طورپر ختم ہوگیا۔ اب لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر روحِ تجسس(spirit of inquiry) پیدا ہوئی۔ لوگ قومی اور سماجی تعصبات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں سوچنے لگے، چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted)لینے کا دور ختم ہوگیا اور ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر اُن کو ماننے کا زمانہ آگیا۔ قدیم زمانے میں مسلّمات پر مبنی سوچ کا طریقہ رائج تھا، اب یہ ذہن بن گیا کہ حقیقی وجود صرف اُس چیز کا ہے جو سائنسی جانچ (scientific scrutiny) پر پوری اُترے۔
تحقیق کا یہ ذہن ابتداء ً مخصوص سائنسی موضوعات کے ذیل میں پیدا ہوا، مگر دھیرے دھیرے وہ مذہب کے دائرے تک پہنچ گیا۔ چناں چہ ایک نیا علمی موضوع پیدا ہوا جس کو تنقید ِعالیہ (higher criticism) کہا جاتا ہے۔ اِس سائنسی تنقید کے نتیجے میں تمام مذاہب کا علمی اور تاریخی استناد مشتبہ ہوگیا۔ اِس عموم میں صرف ایک استثنا تھا، اور وہ ہے مذہبِ اسلام کا استثنا۔
جدید سائنسی تحقیقات نے ایک طرف، دوسرے مذاہب کے بارے میں بتایا کہ وہ علمی اور تاریخی اعتبار سے ثابت شدہ مذہب کی حیثیت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف، اِنھیں سائنسی تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت ہوگیا کہ اسلام استثنائی طورپر ایک ایسا مذہب ہے جس کو علمی اور تاریخی اعتبار سے کامل استناد(credibility) کا درجہ حاصل ہے۔
اِسی کے ساتھ جدید سائنس نے اور بہت سے اُن موافق دلائل کو واضح کیا جس کو قرآن میں آیات (signs) کہاگیا ہے۔ اِس طرح دورِ جدید، دینِ خداوندی کے حق میں ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِس دور میں ایک طرف یہ ہوا کہ بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کی ڈی کنڈیشننگ عمل میں آئی، یعنی ایک ایسا گروہ وجود میں آیا جو ہر قسم کے پیشگی تعصبات (pre-occupations) سے آزاد ہو کر خالص جوہر (merit) کی بنیاد پر رائے قائم کرسکتا تھا۔
فیصلے کی یہ بنیاد جو موجودہ زمانے میں تاریخ کے طویل عمل کے بعد پیدا ہوئی، وہ عین دین ِخداوندی کے حق میں تھی، مگر اِس امکان کو حقیقی طورپر استعمال نہ کیا جاسکا۔ اِس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہ نما اور مفکرین مواقع بلائنڈ (opportunity blind) ہوگئے، وہ جدید مواقع کو دیکھنے سے مکمل طورپر محروم رہے۔ انھوں نے انتہائی نادانی کے ساتھ جدید حالات کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور اُس کے خلاف ایک ایسی غیر دانش مندانہ لڑائی میں مصروف ہوگئے جس کا انجام کامل تباہی کے سوا اورکچھ نہ تھا۔
موجودہ زمانہ میں دنیا بھر کے مسلم رہ نما، مواقع بلائنڈ کیوں ہوگئے، اِس کا جواب ہم کو ایک حدیثِ رسول سے ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُبّک الشیٔ یعمی ویصمّ (أبوداؤد، کتاب الأدب) یعنی کسی چیز کی محبت تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ اِس قولِ رسول میں ایک اور مفہوم بھی لازمی طورپر شامل ہے، وہ یہ کہ: بُغضُک الشیٔ یعمی ویصمّ، یعنی کسی چیز کے ساتھ دشمنی تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔
یہی موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں کے ساتھ ہوا۔ موجودہ زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کے ذریعے آیا تھا۔ بعض سیاسی اسباب کے تحت، موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں نے مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کو اپنا دشمن سمجھ لیا، وہ ان سے نفرت کرنے لگے۔ اِس منفی نفسیات کی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ مغرب کی طرف سے آئی ہوئی ہر چیز کو سازش اور دشمنی کی نظر سے دیکھنے لگے۔ مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کے ذریعے اسلامی دعوت کے عظیم مواقع کھُلے تھے، لیکن یہ رہ نما اپنے منفی ذہن کی بنا پر اِن جدید مواقع کو دیکھنے سے قاصر رہے۔
میرے علم کے مطابق، اِس معاملے میں کسی بھی مسلم رہ نما کا کوئی استثنا نہیں۔ افغانستان کے سیدجمال الدین افغانی، عرب ورلڈ کے سید قطب، ایران کے آیت اللہ خمینی، انڈیا کے ڈاکٹر محمد اقبال سب یکساں طورپر اِس منفی نفسیات کا شکار بن گئے، حتی کہ مولانا حمید الدین فراہی جیسا غیر سیاسی آدمی بھی اپنے آپ کو اِس منفی نفسیات سے محفوظ نہ رکھ سکا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم اِس معاملے پر نظرِثانی کریں اور شخصیت پرستی کے دائرے سے باہر آکر جدید مواقع کو سمجھیں۔ اِس کے بغیر نہ جدید مواقع کی معرفت حاصل ہوگی اور نہ ان کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے گا۔
جدید دور نے جو عظیم مواقع اسلامی دعوت کے حق میں پیدا کیے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جدید دور میں پہلی بار حق کے داعیوں کو ایک عظیم استدلالی امکان حاصل ہوا، جس کو مشترک استدلالی بنیاد (mutually accepted ground) کہاجاسکتا ہے۔
قدیم زمانے میں جن داعیانِ حق نے دعوت الی اللہ کا کام کیا، اُن کے پاس اپنے پیغام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے صرف روایتی دلیل ہوتی تھی۔ اُس زمانے کا ذہنی فریم ورک روایتی عقائد پر قائم تھا، اِس لیے اُس زمانے کے داعیوں نے اس فریم ورک کے مطابق کلام کیا اور روایتی دلائل کی زبان میں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ اِس میں استثنا صرف پیغمبروں کا ہے، جنھوں نے خدا کی خصوصی نصرت کے تحت کچھ معجزات پیش کیے، جن کو اُن کے معاصرین نے جادو کا کرشمہ کہا اور اس کو ماننے سے انکار کردیا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد پہلی بار یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ ایسی بنیاد پر اپنی بات کو ثابت کیا جائے جس کا دلیل ہونا، فریقِ ثانی کے نزدیک بھی تسلیم شدہ ہو۔ اِس قسم کی مشترک استدلالی بنیاد پہلے زمانے میں ممکن نہ تھی، مگر آج وہ پوری طرح ایک ممکن چیز بن گئی ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اپنی منفی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کو صرف مسائل (problems) کی نظر سے دیکھتے رہے، وہ موجودہ زمانے کو مواقع(opportunities) کی نظر سے نہ دیکھ سکے۔ اِس بنا پر وہ اِن مواقع کو استعمال کرنے سے بھی قاصر رہے۔
مثلاً قدیم زمانے میں تمام فلاسفہ اور سیکولر مفکرین یہ سمجھتے تھے کہ دینی حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے اوّل درجے کا استدلال (primary rationalism) موجود نہیں، دینی حقیقتوں کے لیے صرف ثانوی درجے کا استدلال (secondary rationalism) ممکن ہے۔مثال کے طورپر قدیم زمانے کے علمائِ الٰہیات، خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ دلیل استعمال کرتے تھے، جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہاجاتا ہے، یعنی دنیا کی چیزوں میں ڈزائن ہے تو ضرور اُن کا ایک ڈزائنر ہے:
Where there is a de sign, there is also a designer, and when designer is proved, existence of God is also proved.
اِس استدلال کو قدیم سیکولر مفکرین یہ کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ ایک استنباطی استدلال (inferential argument) ہے، نہ کہ براہِ راست استدلال(direct argument)۔ لیکن موجودہ زمانے کی سائنسی تحقیقات نے اس اعتراض کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ اب یہ ثابت ہوگیا کہ استنباطی استدلال واحد استدلال ہے جو اِس دنیا میں ممکن ہے، سیکولر حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے بھی اور مذہبی حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے بھی۔
یہ حقیقت اُس وقت سامنے آئی، جب کہ بیسویں صدی میں سائنس کی تحقیقات عالمِ کبیر (macro world) سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world)تک پہنچ گئیں۔جب تک انسان کا علم عالم کبیر تک محدود تھا، یہ سمجھا جاتا تھا کہ چیزیں قابلِ مشاہدہ ہیں، صحیح استدلال وہی ہے جو مبنی بر مشاہدہ ہو، لیکن بیسویں صدی میں جب انسانی علم ترقی کرکے عالمِ صغیر تک پہنچ گیا تو معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز قابلِ مشاہدہ نہیں۔علم کی اس ترقی کا فکری نتیجہ تھا کہ استدلالی منطق میں تغیر واقع ہوگیا۔ اب یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول (valid) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال۔
اصولِ استدلال میں اس تبدیلی سے الٰہیات یا علم کلام میں بنیادی تغیر واقع ہوگیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ مذہب کے تصورات کو ٹھیک اسی منطقی بنیاد پر ثابت کیا جاسکے، جس بنیاد پر اس سے پہلے غیر مذہبی تصورات کو ثابت کیا جاتا تھا۔ان مذہبی تصورات میں وہ تمام تصورات شامل ہیں جن کو مذہبی عقائد کہاجاتا ہے۔ مثلاً توحید، ملائکہ، نبوت، آخرت، جنت اور جہنم، وغیرہ۔ اس طرح منطقی اعتبار سے وہ فرق باقی نہ رہا جو روایتی طورپر مذہبی علم اور سیکولر علم کے درمیان سمجھا جاتا تھا۔ اب استدلالی بنیاد کے اعتبار سے دونوں کی سطح بالکل یکساں ہوگئی ہے۔ یہ بہت بڑا علمی انقلاب ہے جو جدید دور میں پیش آیا ہے۔
مہدی اور مسیح کی آمد
حدیث کی کتابوں میں کئی ایسے کردار کا ذکر ہے جو تاریخِ انسانی کے آخری د ور میں ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے دو کردار وہ ہیں جن کے لیے حدیث میں مہدی اور مسیح کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن روایتوں کو لے کر مسلمانوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ ذہن بن گیا ہے جس کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
مَردے از غیب بروں آید وکارے کند
یعنی وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دینِ خداوندی کے سلسلے میں کوئی بڑا کام اُس وقت انجام پائے گا جب کہ کوئی ’’آنے والا‘‘ پُر اسر ار طورپر آئے گا اور معجزاتی طورپر بڑے بڑے کام کر ڈالے گا۔ اِس تصور نے مسلمانوں کے اندر ذہنی جمود (intellectual stagnation) کی حالت پیدا کردی ہے۔ ان کے اندر سے تخلیقی فکر(creative thinking) کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ دین کی دعوت کے لیے کسی بڑے کام کا حوصلہ ان کے اندر موجود نہیں۔ عام انسانوں کے لیے ذمہ داری کا کوئی احساس وہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ ان کا ذہن یہ بن گیا ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خاندان کے معاملات کو درست کرنے میں لگے رہیں، اس کے علاوہ انسانیتِ عامہ کی نسبت سے جو وسیع تر ذمہ داریاں ہیں، ان کے سلسلے میں ان کو صرف یہ کرنا ہے کہ کسی آنے والے کا انتظار کرتے رہیں۔ ’’مَردے از غیب‘‘ کے اِس عقیدے کا انجام یہ ہوا ہے کہ ان میں سے تقریباًہر شخص کے اندر ایک کم زور شخصیت پیدا ہوگئی ہے۔
ہر ایک کا یہ حال ہے کہ اپنے ذاتی مفاد کے معاملے میں وہ آخری حد تک با عمل ہے، اور انسانیت عامہ کے مفاد کے معاملے میں آخری حد تک بے عمل۔ وہ اکرامِ خویش کو جانتاہے لیکن وہ اکرامِ غیر کو نہیں جانتا۔ اس کے پاس اپنوں کے لیے دعائیں ہیں اور ’’اغیار‘‘ کے لیے صرف بد دعائیں۔ اپنے لیے تو انھوں نے جنت الفردوس میں رزرویشن کرارکھا ہے، لیکن دوسری قوموں کو جہنم سے بچانے کی ان کو کوئی فکر نہیں۔ وہ اپنے معاملات کے بارے میں آخری حد تک خوش فہم بنا ہوا ہے، وغیرہ۔ اس قسم کی کمزوریاں مسلمانوں کے اندر عام طورپر پیدا ہوگئی ہیں اور یہ صرف اس بات کا نتیجہ ہیں کہ موجودہ مسلمانوں نے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ دینی دعوت کاکوئی بڑا کام صرف اس وقت انجام پائے گا جب کہ پُر اسرار طور پر ایک معجزاتی شخصیت، ہندو اصطلاح کے مطابق، اچانک پرکٹ ہوجائے گی اور پھر وہ خود ہی تمام مسلمانوں کے حصے کا کام کر ڈالے گی۔
اس قسم کے تمام خیالات بلا شبہہ بے بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں مہدی اور مسیح کے نام سے مستقبل کے جن کرداروں کا ذکر آیا ہے، وہ کردار کے حوالے سے مواقع کی پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں تاریخی عمل (process) کے نتیجے میں نئے قسم کے عظیم مواقع ظاہر ہوں گے۔ اُس وقت یہ ممکن ہوجائے گا کہ کوئی خدا کا بندہ ان مواقع کو استعمال کرکے بہت بڑا دعوتی کام انجام دے گا۔
اس قسم کی حدیثیں کسی کراماتی شخصیت کے ظہور کی پیشین گوئی نہیں ہیں، بلکہ وہ شخصیت کے حوالے سے کراماتی مواقع کے ظہور کی پیشین گوئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں یہ عظیم مواقع مکمل طورپر ظہور میں آچکے ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ان مواقع کو پہچانا جائے اور ان کا بھر پور استعمال کرکے دعوتِ حق یا عظیم ترین شہادت کا وہ کام انجام دے دیا جائے جو دورِ آخر کے لیے خدا نے مقدر کیا ہے۔
تاریخ کا خاتمہ قریب آگیا
حالیہ برسوں میں دنیا بھر کے سائنس دانوں نے ایک نئے موضوع پر بہت بڑے پیمانے پر تحقیقات کی ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کا موضوع ہے۔ یہ تحقیقات سب سے بڑے عالمی ادارہ، اقوامِ متحدہ (یو این او) کے تحت کی گئی ہیں۔ان تحقیقات کے ذریعے نہایت حتمی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ معلومات سائنسی تیقّن (scientific certainty) کی حد تک درست سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں نے متفقہ طورپر ان نتائجِ تحقیق کی تصدیق کی ہے۔
ان سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں مسلّمہ طورپر یہ معلوم ہوا ہے کہ ہماری زمین کے اوپر جو لائف سپورٹ سسٹم قائم تھا، وہ تیزی سے تباہ ہورہا ہے۔ گلوبل وارمنگ، برف کے ذخیروں کا پگھلنا، سمندروں میں پانی کی سطح کا خطرناک حد تک بڑھنا، ہوائی کثافت، وغیرہ کے نتیجے میں زمین کے حالات، زندگی کے لیے خطرناک حد تک بدلتے جارہے ہیں۔ زمین کے مختلف حصوں میں تیزی سے جانور ہلاک ہورہے ہیں، سمندروں کی مچھلیاں ختم ہورہی ہیں۔ غرض مختلف قسم کے تباہ کن حالات بتارہے ہیں کہ زمین پر انسانی تاریخ کا خاتمہ قریب آگیا۔ اور انسانی تاریخ کے خاتمے ہی کا دوسرا نام قیامت کا آنا ہے۔
حال میں ایک عالمی سائنسی رپورٹ کو چھاپتے ہوئے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’ہندستان ٹائمس، نے اس کا یہ عنوان قائم کیا تھا— اب قیامت زیادہ د ور نہیں:
Doomsday not far
ایسی حالت میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ انتظار کا وقت ختم ہوگیا۔ خدا کی طرف سے فائنل کال آگئی۔ اب نہ الون ٹافلر(Alvin Toffler) جیسے سیکولر مفکرین کے لیے سُپر سویلائزیشن کی آمد کا انتظار کرنے کا موقع ہے اور نہ امتِ محمدی کے لیے اس انتظار کا موقع کہ مہدی اور مسیح کی صورت میں پُراسرار طورپر کسی شخصیت کا ظہور ہوگا اور وہ خدا کا مطلوب دعوتی کام عالمی سطح پر انجام دے دے گا۔
اب انتظار کرنے والوں کے لیے جو چیز مقدر ہے، وہ کسی طلسماتی شخصیت کا ظہور نہیں، بلکہ صورِ اسرافیل کااعلان ہے۔ پیغمبر ِ خاتِم پر ایمان رکھنے والوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کا ہر حصہ دعوت الی اللہ کے کام میں لگا دیں۔ وہ اسرافیل کے فائنل اعلان سے پہلے اپنے حصے کا کام کردیں۔
دابّہ کادَور
دعوتی پیغام کو پھیلانے کے دو ذریعے ہیں— قول اور تحریر۔ قدیم زمانے میں اِن دونوں طریقوں کو دعوت کے لیے استعمال کیاگیا، لیکن سائنسی دور سے پہلے دونوں ذریعے صرف محدود دائرے میں استعمال ہوسکتے تھے۔ داعی کا قول صرف وہ لوگ سن سکتے تھے جواس کے قریب موجود ہوں۔ یہی معاملہ تحریر کا تھا۔ قدیم زمانے میں کوئی داعی صرف ہاتھ سے کسی لَوح یا کاغذ پر اپنا پیغام لکھ سکتا تھا۔ ہاتھ سے لکھنے کے سوا کوئی اور ذریعہ اُس وقت موجود نہ تھا۔ اِس محدودیت کی بنا پر حق کا داعی صرف اپنے قریبی دائرے میں حق کا پیغام پہنچانے کی استطاعت رکھتا تھا۔ گویا کہ قدیم زمانے میں ہر داعی ایک مقامی داعی کی حیثیت رکھتا تھا، نہ کہ بین اقوامی داعی کی حیثیت۔
موجودہ سائنسی دور میں کمیونکیشن میں غیر معمولی انقلاب آیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار انسان کو وہ چیز حاصل ہوئی جس کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کہاجاتا ہے۔ اِس طرح جدید ذرائع ابلاغ نے قول اور تحریر دونوں کے اندر تیز رفتاری کی صفت پیدا کردی۔ اب انسان کو وہ چیز حاصل ہوگئی جس کو فاصلاتی پیغام رسانی (telecommunication) کہا جاتا ہے۔
غالباً یہی وہ متحرک ذریعہ ہے جس کو قرآن میں دابّہ (النّمل: 82) کہاگیا ہے۔ دابّہ کے لفظی معنٰی ہیں رینگنے والا (creeper)، یعنی وہ چیز جو متحرک ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے۔ قرآن کا یہ ارشاد کہ بعد کے زمانے میں ایک دابّہ ظاہر ہوگا، اِس سے مراد غالباً یہی تیز رفتار مشینی حرکت کا دور ہے جو سائنسی انقلاب کے بعد سامنے آیا ہے۔ تیز نشریاتی ذرائع کی اِس ٹیکنیک نے مختلف صورتیں پیدا کی ہیں، جن کے مجموعے کو موجودہ زمانے میں ملٹی میڈیا(multi media) کہاجاتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزماں کو سارے عالم کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے (الفرقان:1) مگر ساتویں صدی کے رُبع اوّل میں جب کہ پیغمبر آخر الزماں کا ظہور ہوا، اُس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کا ظہور عمل میں نہیں آیا تھا۔ حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ وہ زمانہ آنے والا ہے، جب کہ خدا اسلام کے کلمہ کو ساری دنیا کے تمام گھروں میں پہنچا دے (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدر ولا وبر، إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام)
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، دعوت کی تاریخ میں ایک مسلسل عمل (process) کو ظہور میں لانے کے ہم معنٰی تھا۔ آپ کے ذریعے ایک ایسا دعوتی عمل ظہور میں آیا، جس کا آغاز عرب سے ہوا اور پھر ایک مسلسل عمل (process) کے روپ میں وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ سارے عالم پر محیط ہوگیا۔
مگر اسباب کی اِس دنیا میں ہر دعوتی کام انسانوں کے ذریعے انجام پاتا ہے۔دورِ اول میں اسلام کا پھیلاؤ اصحابِ رسول کے ذریعے ہوا تھا،بعد کے زمانے میں بھی یہ دعوتی عمل ایک انسانی گروہ کے ذریعے انجام پائے گا۔ غالباً اسی لیے حدیث میں بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والے ایک گروہ کا ذکر ہے جس کو ’اخوانِ رسول‘ کہاگیا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایتی کمیونکیشن کے دور میں یہ دعوتی کام اصحابِ رسول کے ذریعے انجام پائے گا، اور سائنسی کمیونکیشن کے دور میں یہ دعوتی کام اُن لوگوں کے ذریعے انجام پائے گا جن کو حدیث میں اخوانِ رسول کا نام دیا گیا ہے۔
اصحابِ رسول کے بارے میں حضرت عمر فار وق نے فرمایا تھا: مَن سرّہ أن یکون من ہذہ الأمۃ، فلیؤدّ شرط اللہ فیہا (ابن کثیر، جلد1، صفحہ 396) یعنی جو شخص اصحابِ رسول کی اِس امت میں شامل ہونا چاہے، وہ اس کے بارے میں خدا کی شرط کو پورا کرے۔ وہ شرط یہ تھی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی مہم میں اپنے وقت اور اپنے مال اور اپنی توانائی کو پوری طرح لگا دینا۔ پیغمبر اسلام کے معاصر اہلِ ایمان نے اِس شرط کو پورا کیا، اِس لیے وہ اصحابِ رسول قرار پائے۔
موجودہ زمانے میں دوبارہ دعوت الی اللہ کے نئے امکانات کھلے ہیں۔ اب دوبارہ وہی صورتِ حال پیداہوگئی ہے کہ کچھ لوگ اٹھیں اور جدید مواقع دعوت کو استعال کرکے دینِ خداوندی کے پیغام کو سارے عالم تک پہنچا دیں۔ یہی وہ عالمی دعوتی کام ہے جس کو حدیث میں عظیم ترین شہادت قرار دیاگیا ہے۔ اصحاب رسول کو یہ درجہ مطلوب عمل کے ذریعے حاصل ہوا تھا، اِسی طرح اخوانِ رسول کو بھی اخوانِ رسول کا یہ درجہ مطلوب عمل کے ذریعے حاصل ہوگا۔ عمل کے بغیر نہ اصحابِ رسول، اصحابِ رسول بنے تھے، اور نہ اب یہ ممکن ہے کہ کوئی گروہ مطلوب عمل کے بغیر اخوانِ رسول کادرجہ حاصل کرلے۔
اخوانِ رسول تاریخ کا آخری خدائی اعزاز ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اِس حقیقت کو سمجھیں اور اپنی توانائیوں کو نصرتِ خداوندی کے اِس مشن میں لگا کر خدا کے یہاں تاریخ کا عظیم انعام حاصل کریں۔