جھوٹ کی دو قسم
جھوٹ کی ایک قسم وہ ہے جس کو برہنہ جھوٹ، یا کذبِ صریح کہاجاتا ہے، یعنی جان بوجھ کر ایک سراسر خلافِ واقعہ بات کہنا۔ مثلاً ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک لیڈر صاحب کے پاس ایک شخص اپنے کسی کام کے لیے آیا۔اِس کام کا تعلق ایک منسٹر سے تھا۔ انھوں نے فوراً ٹیلی فون پر کچھ نمبر ڈائل کیے۔ اِس کے بعد انھوں نے رسیور اٹھایا اور ہلو کرکے اِس طرح بات کرنے لگے، جیسے کہ وہ متعلق منسٹر سے بات کررہے ہیں۔بعد کو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک جھوٹا ڈراما تھا۔ اِس جھوٹے ڈرامے کے ذریعے انھوں نے آنے والے کو یہ تاثّر دیا کہ اُن کا قریبی تعلق منسٹر صاحب سے ہے، اور وہ اُن سے براہِ راست بات کرسکتے ہیں۔ یہ برہنہ جھوٹ کی ایک مثال ہے۔
جھوٹ کی دوسری قسم وہ ہے جس کو بالواسطہ جھوٹ، یا کذبِ خفی کہاجاسکتا ہے۔کذبِ صریح کا ارتکاب تو بہت کم لوگ کرتے ہیں، لیکن جہاں تک کذبِ خفی کا تعلق ہے، غالباً ننّانوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ اِس بُرائی میں مبتلا ہیں۔ کذبِ خفی کی بُرائی موجودہ سماج میں اتنا زیادہ عام ہوچکی ہے کہ لوگ اِس میں مبتلا ہوتے ہیں، مگر شعوری طورپر وہ نہیں جانتے کہ وہ ایک ایسی عادت کا شکار ہیں جو حقیقتاً ایک مہلک جھوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
کذبِ خفی کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی بات کو ٹھیک ٹھیک بیان نہ کیا جائے، بلکہ اُس کو بدلی ہوئی صورت میں بیان کیا جائے۔ ایسا کب ہوتا ہے، اِس کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً اپنی صفائی پیش کرنا، اپنے کو سماج میں اچھا بنائے رکھنا، اپنے آپ کو بدنامی سے بچانا، اپنے لوگوں کو دوسروں کی نظر میں اونچا دِکھانا، اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کرنا، غیر ضروری طورپر کسی چیز کا کریڈٹ لینا، اپنی غلطی کو نہ ماننے کے لیے اصل بات کو بدل کر پیش کرنا، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام صورتوں میں آدمی بات کو صاف طورپر بیان نہیں کرتا، مگر یہ سب بلا شبہہ جھوٹ کی صورتیں ہیں۔ اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ آدمی کے اندر کمز ور شخصیت (weak personality) پرورش پاتی ہے، اور کمزور شخصیت ہی کا دوسرا نام منافقانہ شخصیت ہے۔