غریبی اور امیری
ایک تعلیم یافتہ آدمی نے ایک بار کہا—برسات کے موسم میں چھتری والا اور بے چھتری والا، دونوں پانی میں بھیگتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چھتری والے آدمی کے مقابلے میں چھتری والا آدمی شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔ یہی معاملہ غریبی اور امیری کا ہے۔ غریبی بھی ایک مسئلہ ہے، اور امیری بھی ایک مسئلہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ غریب آدمی کا مسئلہ ظاہر ہوجاتا ہے اور امیر آدمی کا مسئلہ لوگوں کے لیے چھپا رہتاہے۔
اصل یہ ہے کہ مسائل کا تعلق غریبی اور امیری سے نہیں ہے، وہ انسانی زندگی کا ایک فطری حصہ ہے۔ ہر انسان لازمی طورپر مسائل سے دوچار ہوتا ہے— جان ومال کا نقصان، دوسروں کی طرف سے لائی ہوئی ناخوش گواری، ذہنی تناؤ، مستقبل کے اندیشے، بچوں کی بے راہ روی، حادثہ، بڑھاپا اور آخر میں موت۔
آدمی کے لیے سب سے بڑی پریشانی غالباً یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرے لیے زیادہ اچھا ہوتا، حالاں کہ یہ صرف ایک فرضی سوچ ہوتی ہے۔ اِسی طرح ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ اپنا مقابلہ اپنے سے کم والوں سے نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنا مقابلہ اپنے سے زیادہ والوں سے کرتا ہے۔ اِس طرح کی چیزیں آدمی کو مسلسل طور پر پریشان رکھتی ہیں۔ وہ خود ساختہ سوچ کے تحت، بے اطمینانی کی زندگی گزارتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اِسی بے اطمینانی کی حالت میں وہ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
جب اس حقیقت کو دیکھا جائے کہ غریب آدمی جس طرح اپنی زندگی کی طرف سے غیر مطمئن ہے اسی طرح امیر آدمی بھی اپنی زندگی کی طرف سے غیر مطمئن ہے توغریبی کی حالت اور امیری کی حالت، دونوں اضافی (relative) معلوم ہونے لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں سکون کا راز صرف یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھ لے کہ جس چیز کو وہ سکون سمجھتا ہے، وہ کبھی اِس دنیا میں ملنے والا نہیں۔ اِس دنیا میں سکون کا راز صرف ایک ہے اور وہ قناعت ہے، یعنی حالتِ موجودہ پر راضی ہو کر زندگی گزارنا۔